کونوا انصار اللہ

راہ نجات کی طرف رہنمائی اور اقامت دین کی جدوجہد

محمد انور حسین، اودگیر

قرآن مجید کی صدا ہے کہ تم اللہ کے مددگار بن جاو۔ سورہ صف میں حضرت عیسیؑ نے جس طرح حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بننا چاہتا ہے؟ ایک گروہ نےمددگار بننے کا اعلان کیا تو اللہ نے انہیں کفر کرنے والوں پر غلبہ عطا کیا ۔اسی طرح یہاں اہل ایمان سے کہا جارہا ہے کہ وہ اللہ کے مددگار بن جائیں تاکہ انہیں بھی غلبہ عطا ہوجائے ۔
اللہ رب العزت اس کائنات کا خالق ،مالک اور فرمانروا ہے ۔کائنات کا مکمل نظام اس کے حکم کے مطابق انجام پا رہا ہے ۔اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔وہ یکتا اور تنہا ہے اور ہر شئے سے بے نیاز ہے ۔کائنات کی ہر شئے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسی کے حکم سے قائم و دائم ہے ۔اس کو قائم رکھنے اور فنا کرنے کا اختیار بھی اسی کے ہاتھ میں ہے ۔
تخلیق کائنات کے بعد اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق فرمائی۔ زندگی گزارنے کے لیے اسے زمین پر بھیجا ۔اسے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ۔زمین کے انتظام و انصرام کی قوت بخشی ۔زمین، پانی اور ہوا کو مسخر کرکے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا اختیار دیا ۔اپنی طاقت اور قدرت کے ذریعے تمام انسانوں کو اپنا پابند نہیں بنایا بلکہ عقل وشعور کی قوت عطا کرکے اسے آزمائش میں ڈال دیا اور آزادی دی کہ چاہے تو وہ اپنے خالق ومالک کو پہچان کر اس کی اطاعت کرے یا نافرمانی کرے۔البتہ اس کو دونوں رویوں کے نتائج سے خبردار کر دیا گیا۔ خبردار کرنے کا کام بھی اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی پیغمبروں اور اپنی کتابوں کے ذریعے کروایا ۔لیکن انسانوں میں دو طرح کے لوگ پائے گئے ۔ایک وہ لوگ جنہوں نے خدا کو پہچانا ۔اس کے بتائے ہوئے طریقہ کو اپنایا اور ساری زندگی اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزار دی ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین میں عدل قائم ہوا ،انصاف قائم ہوا ،ظلم کا خاتمہ ہوا اور انسانیت کی تکریم ہوئی اور انسانوں کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیابی کی ضمانت مل گئی۔
دوسرے قسم کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے یا تو سرے سے خدا کا انکار کردیا یا پھر اس کی ذات میں دوسری طاقتوں کو شریک کردیا ۔اللہ کے بتائے ہوے طریقہ کو چھوڑ کر اپنی خواہشات اور مرضی سے مختلف طریقہ ہائے زندگی بنالیے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین پر ظلم ،نا انصافی ،شرک، بت پرستی اور فساد برپا ہوا ۔اور پوری انسانیت گمراہی کا شکار ہو گئی۔اس طرح یہ انسان جہنم کے مستحق ہوئے ۔ارادے اور اختیار کی آزادی دینے کے بعد اللہ تعالی نے انسان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا بلکہ پیغمبروں کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کا سامان کیا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیا کے ذریعے ہدایت اور رہنمائی فرمائی ۔قران مجید میں سورہ شوریٰ آیت میں پیغمبروں کی دعوت کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے۔”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوحؑ کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف تم انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے”
اس آیت میں دو باتیں بڑی اہمیت کے ساتھ واضح کی گئی ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالٰی نے انسانوں کے لیے اسلام کو واحد طریقہ زندگی کی حیثیت سے پسند کیا ہے۔ دوسری بات اس دین کے قیام کی ذمہ داری آدمؑ سے لے کر محمد ﷺ تک سارے انبیاء کو سونپی گئی ہے اور اس کے بعد یہ ذمہ داری تمام انسانوں پر عائد ہوتی ہے ۔
اس ذمہ داری کی مزید وضاحت قرآن میں متعدد جگہوں پر گئی ہے جیسے رسول اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد واضح کرتے ہوئے قران مجید میں فرمایا گیا: "وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے اور اللہ تعالٰی کافی ہے گواہی دینے والا” ۔( سورہ فتح ۲۸)
اس میں بھی رسول اکرم کی بعثت کا مقصد دین کو غالب کرنا ہی بتایا گیا ہے۔ اس طرح کی ہدایتیں قران مجید کئی مقامات پر دی گئی ہیں۔ چنانچہ قرآن انسانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی تاکید کرتا ہے۔
” تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں”(سورہ آل عمران۱۰)
اہل ایمان کی ذمہ داریوں کی وضاحت کے بعد اب یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ بحیثیت بہترین امت ہم اس ذمہ داری کو کس حد تک ادا کررہے ہیں اور اگر نہیں کر رہے ہیں تو اس کے کیا نتائج دنیا میں اور آخرت میں نکلنے والے ہیں۔
ملک وملت کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ اطمینان بخش نہیں ہے ملک شرک وبت پرستی کا گڑھ بن چکا ہے۔ ظلم ،ناانصافی ، فحاشی ،لوٹ کھسوٹ ،دھوکہ، رشوت ،فرقہ پرستی ،قتل وغارت گری عام ہوتی جارہی ہے ۔
دوسری طرف ملت میں بے عملی، سستی، کاہلی، کم علمی، تنگ نظری، بد عملی، غفلت اور کردار کی پستی واضح نظر آتی ہے۔ ہمارے نوجوان بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں ۔ہمارے دانشور اور باصلاحیت لوگ صرف دنیوی زندگی کے مزے لوٹنے میں مگن ہیں ۔علماء ومشایخ مسلکی اختلاف میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ بھی واضح ہے کہ ہم اس ملک میں ایک کمزور اقلیت ہیں اور باطل کے رحم وکرم پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ شرک وبت پرستی کے ماحول میں توحید کی شہادت کا جذبہ سرد ہوچکا ہے ۔تعلیمی ،سماجی ،سیاسی اور اخلاقی سطح پر ہم بہت کمزور ہوچکے ہیں ۔
اسلام کی صحیح نمائندگی تو درکنار ہمارے رویے اسلام کو بدنام کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ اس صورتحال پر ہم ہرگز مطمئن نہیں رہ سکتے۔ اس صورتحال کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ آخرت میں اس کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا۔ ہماری یہ غفلت ملک وملت کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے اور آخرت کی ناکامی بھی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہمارے لیے اسلام ہی واحد دین ہے اور واحد نجات کا راستہ ہے اس کو قائم اور غالب کرنے کی ذمہ داری اب اہل ایمان کی ہے کیوں کے اللہ رب العزت نے حضرت محمد ﷺ پر رسالت کے سلسلے کو ختم کردیا ہے۔ اب ہماری اور پوری انسانیت کی نجات ہمارے ایمان وعمل اور اس دین کے قیام کی جدوجہد پر منحصر ہے۔
قران مجید ایمان والوں کو صدا لگا رہا ہے کہ وہ اللہ کے مددگار بن جائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کو انسانوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے وہ تو طاقت وقوت والا اور بے نیاز ہے ۔
اللہ کا فضل ہے کہ اس نے اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کو اللہ کا مددگار کہا ہے۔اللہ چاہتا تو اپنی قوت اور طاقت کی بنیاد پر سارے انسانوں کو اپنا فرمانبردار بنا سکتا تھا ۔لیکن اللہ نے انسان کو ارادہ اور اختیار کی جو آزادی دی ہے اس کے ذریعے وہ چاہتا ہے کہ یہ کام انسانوں کے ذریعے انجام پائے اسی لیے پیغمبروں کو مبعوث کیا گیا اور پیغمبروں کے مشن میں ساتھ دینے والوں کو اللہ کا مددگار کہا گیا۔
” اے ایمان والو! تم اللہ تعالٰی کے مددگار بن جاؤ جس طرح حضرت مریمؑ کے بیٹے حضرت عیسیٰؑ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے گا؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا تو ہم نے مومنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے” (سورہ الصف ۱۴)
جس طرح حضرت عیسیؑ کی مدد کرنے والوں کو اللہ کا مددگار کہا گیا ہے اسی طرح حضرت محمد ﷺ کی دعوت کو سارے انسانوں تک پہنچا کر اللہ کے اس سچے دین کے قیام کی کوشش کرنے والوں کو بھی انصاراللہ یعنی اللہ کے مددگار ہونے کا عظیم الشان منصب عطا کیا جارہا ہے ۔
وقت بہت گزر چکا روز حساب قریب تر ہوتا جارہا ہے اور ہم سے سوال ہونے والا ہے کہ اللہ کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں اور صلاحیتوں کا استعمال ہم نے کس طرح کیا ۔
ضروری ہے کہ وقت رہتے ہم قیام دین کی جدوجہد کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیں ۔مضبوط عزم و ارادہ کے ساتھ صف بستہ ہوجائیں اور ایک اجتماعیت کے ساتھ اس کام کا آغاز کردیں ۔یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی انجام دہی کے لیے ایک اجتماعی نظم کا ہونا ضروری ہے بغیر اجتماعیت کہ اتنا بڑا کام انجام دینا نا ممکن ہے ۔اس لیے اللہ کے مددگار بننے کے اس سفر میں اُس اجتماعیت سے وابستہ ہونا ضروری ہے جس کا مقصد اور نصب العین اقامت دین ہے جو بندگان خدا تک اسلام کے پیغام کو عام کرنا چاہتی ہے اور ایک صالح اور خدا ترس معاشرے کا قیام کرنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی عدل وانصاف اور خدا کی حاکمیت والی ریاست کا قیام اس کا مقصد ہے۔ قبل اس کے کہ ہماری سستی ،بے دلی ،بے حسی اور غفلت ہمارے پاؤں کی زنجیریں بن جائیں ہمیں پورے ارادہ کے ساتھ اللہ کے مددگار بن جانے کا عزم کر لینا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اللہ کے مددگار کس طرح بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے کچھ اہم اور ضروری کام اس طرح ہو سکتے ہیں۔
اس کا پہلا کام اسلام کی دعوت ہے جس کے تحت اس ملک میں بسنے والے کروڑوں انسانوں تک اسلام کا پیغام اس کی حقیقی صورت میں پہنچانا ہوگا تاکہ برادران وطن میں اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور وہ اسلام کو ایک دین کی حیثیت میں ماننے لگیں ۔
دوسرا میدان اسلامی معاشرہ کا ہے جس کے تحت اس ملک میں بسنے والی امت مسلمہ کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں احساس و شعور پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ وہ متحد ہوکر شہادت حق کا فریضہ انجام دے سکیں اور اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد میں عملاً شامل ہوجائیں اور اپنے معاشرہ کو ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ میں بدل دیں۔
تیسرا کام امت کے مسائل کے حل کی جدوجہد کرنا ہے اس کے تحفظ اور ترقی کی کوشش کرنا ہے۔ مظلوموں کی دادرسی، جان ومال کا تحفظ، تہذیب کی برقراری کی کوشش بھی ضروری یے ۔ساتھ ہی معیشت تعلیم اور صحت کے میدانوں میں امت کی ترقی کی کوشش کرنا ضروری ہے۔اس کے علاوہ ظلم واستحصال ،بددیانتی، مکر وفریب ،فرقہ پرستی اور اوہام پرستی کے خاتمہ کے لیے اس ملک کے درد مند انسانوں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا ۔ساتھ ہی امن وامان اور روداری کو پروان چڑھانے کی کوشش بھی کرنی پڑے گی۔ اس ملک میں بھوک ،بے روزگاری اور بیماری بہت بڑے مسائل ہیں ان کے خاتمہ کی کوشش بھی اقامت دین ہی کا حصہ ہے ۔ہماری تاریخ شاہد ہے کہ بھوکے بچوں کے لیے رات کے اندھیرے میں ہمارے امیر المومنین اپنے کاندھے پر اناج لے جاکر ان کی بھوک مٹاتے تھے۔ موجودہ دور فکری یلغار کا دور ہے ۔اسلام کے خلاف بہت سے افکار ہر آئے دن انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت کا دانشور طبقہ اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کو لگائے اور اسلام کو پر روز طریقے سے باطل افکار کے سامنے پیش کرے ۔اس میدان میں ہم آج بہت پیچھے نظر آتے ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے یہ بھی ایک ضروری امر ہے۔
اس کے علاوہ امت کے نونہالوں کی تعلیم اور ترقی کی کوشش ضروری ہے۔ ان کو معیاری اور اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا اور مدد کرنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کی ملت کا ہر فرد اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا ادارک کرے، ان کو پروان چڑھائے اور ان صلاحیتوں کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے صرف کر دے۔ اپنی ذاتی زندگی کو مکمل طور پر خدا کی بندگی میں دیدے۔جسمانی اخلاقی اور روحانی تزکیہ کی فکر کرے۔
ان تمام کاموں کو کرنے کے لیے ایک اجتماعی پلیٹ فارم تیار کرے کیوں کہ انفرادی طور پر انسان یہ تمام کام انجام نہیں دے سکتا ہے۔ قیام دین کی جدوجہد ہم تمام پر فرض ہے اس کی ادائیگی میں ہم سب کی نجات ہے ورنہ دنیا اور آخرت میں ذلت و ناکامی ہمارا مقدر ہو گی۔
جماعت اسلامی ہند اس کار عظیم کی انجام دہی کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے، اس لیے اس سے وابستہ ہوجائیے اور اپنی زندگی کی قیمتی متاع اس عظیم الشان مشن کے لیے لگا دیجیے تاکہ آخرت میں یہ اعجاز ہمارے حصہ میں آسکے کہ ہم بھی اللہ کے مددگار تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قوت فیصلہ عطا فرمائے آمین ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021