کورونا کی سونامی : وزیر اعظم کی آکسیجن اور وزیر داخلہ کا شکریہ

انتخابات پر توجہ، انفراسٹرکچر کی کمی یا عوام کی لاپروائی ، ابتر حالات کے لیے ذمہ دار کون؟

ڈاکٹر سلیم خان

 

آکسیجن کی کمی سے جب قوم کا دم گھٹنے لگا بلکہ سانسیں اکھڑنے لگیں تو وزیر اعظم کو اپنے پی ایم کیئر فنڈ کا خیال آیا۔ اس مالِ مفت پر دلِ بے رحم نے راجہ ہریش چندر کی چتا پر لات مار کے 551 آکسیجن پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس تعداد کو دیکھو تو ایسا لگتا ہے کسی شادی میں عطیہ دیا جا رہا ہے۔ لاشوں کو سڑکوں پر جلتا دیکھ کر بھی شرم نہ آئے تو یہ بے حسی اور ڈرامہ بازی کی انتہا ہے۔ اس پر امیت شاہ نے چاپلوسی کو بام عروج پر پہنچاتے ہوئے شکریہ ادا کر دیا۔ کیا اسی لیے انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے کہ دن رات نمو نمو کا بھجن کیرتن کرتے رہیں۔ شاہ کے اس ٹویٹ پر لوگوں نے ایسی خبر لی کہ وہ دو دنوں تک ٹوئیٹر کا منہ نہ دیکھیں۔ ایک نے تو ویڈیو ڈال کر کہا’’ چین سے فوج لڑے گی۔ پاکستان سے میڈیا لڑے گا کورونا سے عوام لڑے گی مگر بی جے پی صرف انتخاب لڑے گی۔ وکاس بول کر شمشان میں دھکیل دیا‘‘۔ عوام کے پیسے پر سانپ بن کر بیٹھنے والے کا اس مجرمانہ تاخیر پر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت سے انکار کرنے والوں کا تانتا لگ گیا۔
اس بابت جسوندر کور نامی صارف نے یاد دلایا کہ حال میں وزیر اعظم نے بنگال میں 18، آسام اور تمل ناڈو میں 7 اور 7 نیز کیرالا میں 5 ریلیاں کیں۔ اس کے بعد سوال کیا اور کتنے صوبوں کے اسپتال میں نہیں گئے؟ وہ بیچاری نہیں جانتی کہ مودی جی اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے۔ اسپتال میں تڑپنے والا مریض نہ خود ووٹ دے سکتا ہے اور نہ اس کے تیمار داراہل خانہ ووٹ کی قطار میں کھڑے ہوسکتے ہیں اس لیے ان کے پاس جانے سے کیا فائدہ؟ ہاں مودی جی مغربی بنگال کی سرحد کے پار بنگلا دیش کے مندروں میں تک پہنچ گئے اور اس کا خوب پرچار کیا کیوں کہ وہی عقیدتمند تو ووٹوں کی برسات کرتے ہیں۔ عبداللہ نامی صارف نے تو وہ لکھ دیا جس کا تصور بھی مشکل تھا۔ انہوں نے لکھا وہ تو خیر سے پچھلی حکومتیں اسپتال بنا گئیں ورنہ کورونا کے مریضوں کو بیت الخلا میں علاج کرانا پڑتا۔ معروف صحافی سندیپ چودھری نے الگ سے ایک ٹویٹ میں لکھا: جس طالبہ نے اپنا گلک توڑ کر پی ایم کیئر میں پانچ ہزار روپیہ چندہ دیا تھا وہی آکسیجن کے بغیر فوت ہوگئی‘۔ اس کے جواب میں سنجیو نے لکھا ’تم مجھے ووٹ دو، میں تمہیں موت دوں گا ‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم یہ معمولی فیصلہ کرنے کے لیے اس اندوہناک خبر کے منتظر تھے؟
ملک کورونا کی دوسری لہر کے لپیٹ میں ہے۔ ماہرین کے درمیان اس کے ذمہ دار سے متعلق تفصیل میں اختلاف ہے لیکن سب اتفاق کرتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ عوام کی لاپروائی ہے۔ لوگ جب اپنے اس دشمن سے پوری طرح غافل ہوگئے تو وہ اپنے شکار پر ٹوٹ پڑا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بے فکری کہاں سے آئی؟ اس کا منبع و مرجع کہاں ہے جس نے پوری قوم کو ایک بیجا خود اعتمادی کا شکار کرکے کورونا کا ترنوالہ بنا دیا؟ بے شک اس میں ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ ہے مگر میڈیا کے ذریعہ رائے عامہ کو ہموار کرلینا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ وہ عظیم ہستی کون سی ہے جس نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ کارنامہ انجام دے دیا کہ لوگ جانتے بوجھتے آگ کے دریا میں کود گئے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ایک تقریر کو یاد کیجیے۔ 28 جنوری 2021 کو عالمی اقتصادی فورم (داؤس) میں بین لاقوامی اجلاس کا انعقاد ہوا اور وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اس میں خطاب کیا۔ وزیر اعظم کی تقریر میں وہ جرثومہ موجود تھا جس نے پوری قوم میں کورونا کی بابت غفلت کا بیج بویا۔ اس کے بعد ویکسین کو برآمد کرکے اس فصل کی آبیاری کی گئی۔ انتخابی مہم میں زور و شور سے حصہ لے کر فصل کو کاٹا گیا اور اب اس زہریلے اناج نے پوری قوم کو بیمار کر دیا۔
وزیر اعظم نے مذکورہ تقریر میں سینہ ٹھونک کر اعلان کیا تھا کہ ’تمام تر خدشات کے درمیان آج میں آپ سبھی کے سامنے 130 کروڑ سے زائد ہندوستانیوں کی جانب سے دنیا کے لیے یقین، اثبات اور امید کا پیغام لے کر آیا ہوں‘۔ کسے خبر تھی کہ تین ماہ کے اندر یہ یقین بے یقینی میں بدل جائے گی۔ چہار جانب بے ثباتی کا دور دورہ ہوگا اور امید کے چراغ جلتی چتاوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ مودی جی نے کہا تھا ’جب کورونا آیا تو بھارت کے سامنے بھی کم مشکلات نہیں تھیں۔ گزشتہ برس فروری تا اپریل میں دنیا کے متعدد نامور ماہرین اور بڑے بڑے اداروں نے پیشن گوئی کی تھی کہ پوری دنیا میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بھارت ہو گا‘ وزیر اعظم نے جس پیشن گوئی کا انکار کر دیا تھا آج وہ حقیقت بن کر رونما ہو گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا ’لوگ کہہ رہے تھے بھارت میں کورونا کی سونامی آئے گی‘۔ آج وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک میں کورونا کی سونامی وارد ہو چکی ہے کورونا ہمارا امتحان لے رہا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن چونکہ وزیر اعظم نے اس امتحان کی کوئی تیاری نہیں کی تھی اس لیے وہ ناکام ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم نے دراصل اپنے بلند بانگ دعووں میں جلدی کردی اور اس کی قیمت قوم کے غریب لوگوں کو چکانی پڑی۔ جن لوگوں نے اچھے دنوں کی امید میں مودی کے سر پر اقتدار کا تاج رکھا تھا اور وہ جو گھر میں گھس کر مارنے جیسے جملوں پر بغلیں بجا رہے تھے کورونا نے خود ان کے گھر میں گھس کر مار دیا۔ ہر ہر مودی گھر گھر مودی کے نعرے نے ہر گھر گھر کے اندر کورونا پہنچا دیا۔ وزیر اعظم کے مطابق وہ جو کسی نے 70 تا 80 ملین ہندوستانیوں کے کورونا سے متاثر ہونے کی بات کہی تھی وہ سچ ثابت چکی ہے مگر ان اعدادو شمار کو بی جے پی ریاستی حکومتیں چھپا رہی ہیں اس کے باوجود تادمِ تحریر (25؍ اپریل) 17 ملین کو تو تسلیم کیا جاچکا ہے۔ کورونا سے مہلوکین کی تعداد دو لاکھ بتائی جا رہی ہے بعید نہیں کہ وہ دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہو جس کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اور بڑے طمطراق سے وزیر اعظم نے اس کی تردید کی تھی اس لیے کہ کئی صوبوں میں زیادہ لوگوں کے ہلاک ہونے کا خوف ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یہ کوئی خیالی اندیشہ نہیں ہے اس کی ہیبت ناک مثالیں مودی اور شاہ کے گجرات سے آرہی ہیں۔ 12؍ اپریل کو جبکہ حالات اس قدر سنگین بھی نہیں ہوئے تھے اسی وقت سے دھوکہ دہی کا کھیل شروع کر دیا گیا۔ احمد آباد میں حکومت نے اعلان کیا کہ کل 20 لوگ کوویڈ سے ہلاک ہوگئے جبکہ صرف 17 گھنٹوں کے اندر ایک کوویڈ اسپتال سے سندیش اخبار کے نامہ نگار نے 63 لاشوں کی گنتی کی۔ اگر پورے 24 گھنٹوں کے سبھی اسپتالوں سے اعدادو شمار جمع کیے جاتے تو نہ جانے کتنے ہوتے۔ امبانی کے جام نگر میں گرو گوبند اسپتال سے اپریل 10 اور 11 کو 100 لاشوں کو نکلتے دیکھا گیا جبکہ حکومت کے بیان کے مطابق کوئی موت نہیں ہوئی تھی۔ سورت سے انہیں تاریخوں میں 22 اموات یومیہ کا سرکاری عدد تھا جبکہ شہر میں ایک دن کے اندر 700 لوگوں کے آخری رسومات کی گنجائش ہے اور وہاں پر آگ ٹھنڈی ہی نہیں پائی یہاں تک کہ بھٹی کی مسلسل گرمی سے لوہے کی سلاخیں تک مڑ گئیں۔
بدقسمتی سے اس فریب کاری کا شکار وہ گجراتی ہوئے جنہوں نے دو مرتبہ قومی انتخاب میں بی جے پی کو صد فیصد نشستوں پر کامیابی سے نوازا تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی میونسپل انتخابات میں کمل کو کِھلایا تھا۔ ان مثالوں سے دو لاکھ اموات کی حقیقت ازخود سامنے آجاتی ہے۔ اس پر گجرات ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر حکومت سے وضاحت طلب کی کہ ہر روز 8 تا 10 رپورٹس آرہی ہیں اور ایسے قابلِ اعتماد اخبارات بے بنیاد باتیں نہیں لکھ سکتے۔ اس کے باوجو وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہم نے کووِڈ کے لیے مخصوص طبی بنیادی ڈھانچہ تیار کرکے انسانی وسائل کو کورونا سے لڑنے کی تربیت دی، جانچ اور پتہ لگانے کے لیے ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا‘۔ کیا یہی وہ ڈھانچہ ہے جس کی قلعی موقر اخبارات نے کھول کر رکھ دی تھی۔
وزیر اعظم نے کورونا کے خلاف لڑائی کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کرنے پر فخر جتانے کے بعد کہا تھا ’آج بھارت دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہو گیا ہے جو اپنے زیادہ سے زیادہ شہریوں کی زندگی بچانے میں کامیاب رہا ہے اور جہاں آج کورونا سے متاثر لوگوں کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے‘۔ اب یہ دعوٰی الٹ گیا ہے۔ ہندوستان کورونا سے اموات میں ہر روز ایک نیا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کی ایک بیماری خود ستائی بھی ہے، اسی کے تحت انہوں نے کہا تھا ’کورونا شروع ہونے کے وقت ماسک، پی پی ای کٹ، ٹیسٹ کٹ ہم باہر سے منگاتے تھے۔ آج ہم نہ صرف اپنی گھریلو ضرورتیں پوری کر رہے ہیں بلکہ انہیں دیگر ممالک کو بھیج کر وہاں کے شہریوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو صحت مند رکھنے کے لیے ہندوستان نے 150 سے زائد ممالک کو ضروری ادویہ بھی ارسال کیں‘۔ آج حالت یہ ہے کہ جو دوائیاں باہر بھیجی گئی تھی انہی کی ملک کے اندر شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ کالا بازاری کا بول بالا ہے اور ہر کوئی پوچھ رہا ہے اپنا ہاتھ جلا کر دوسروں کی مدد کرنا کون سی دانشمندی کا کام تھا؟
ویکسین کی بابت وزیر اعظم نے کہا تھا ’ابھی تو محض دو میڈ اِن انڈیا کورونا ٹیکے دنیا میں آئے ہیں، آنے والے وقت میں کئی اور ٹیکے بھارت سے بن کر آنے والے ہیں‘۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ٹیکے ہندوستان میں بنتے ضرور تھے مگر اس میں استعمال ہونے والے اہم اجزا امریکہ سے برآمد کیے جاتے تھے۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ نے امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگا کر اب اس کی فراہمی روک دی ہے اس لیے ان دو ٹیکوں کی پیداوار بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ پہلے خود کفالت کے زعم میں بیرونِ ممالک کمپنیوں کوپیشگی آرڈر تک نہیں کیا گیا اور راہل و منموہن نے اس کا مشورہ دیا تو تمسخر اڑایا گیا۔ اب جبکہ ان سے رابطہ کیا جا رہا ہے تو معذرت کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی صنعت میں امریکہ وغیرہ نے قبل از وقت سرمایہ کاری اور معاہدہ کر رکھا ہے۔ حکومت ہند نے اپنی کمپنیوں میں بھی پیسہ نہیں لگایا۔ وزیر اعظم نے اُس وقت آئندہ چندمہینوں میں تقریباً 300 ملین کی ٹیکہ کاری کے ہدف کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک 140 ملین پر بھی نہیں پہنچا اور آگے اس کی رفتار بڑھنے کے بجائے کم ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم نے اس دوران بنگال فتح کرنے پر اپنی ساری توانائی صرف کرنے کے علاوہ 12مارچ کو ’آزادی کے امرت مہوتسو‘ یعنی 75؍ ویں سالگرہ کا جشن منانے کی بھی تیاری شروع کردی تھی۔ اس موقع پر احمد آباد میں تقریر کرتے ہوئے مودی جی نے کہا تھا ’آج دانڈی یاترا کی سال گرہ کے موقع پر ہم باپو کے اس کرم استھل پر تاریخ بنتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی بن رہے ہیں۔ آج آزادی کے امرت مہوتسو کا آغاز ہو رہا ہے، اس کا پہلا دن ہے۔ امرت مہوتسو 15 اگست 2022 سے 75 ہفتے قبل، آج سے شروع ہو رہا ہے، جو 15 اگست 2023 تک جاری رہے گا‘۔ انہوں نے امرت مہوتسو کی پانچ بنیادٰیں جدوجہد، صورتحال، حصولیابی، عمل اور عزائم کا ذکر کیا تھا لیکن درمیان میں کورونا کی تباہ کاری نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اقتدار کے نشے میں مست وزیر اعظم بھول گئے کہ کورونا کے یومیہ معاملات جو یکم فروری کو 8 ہزار سے کچھ زیادہ تھے اب 3 گنا بڑھ کر 25 ہزار یومیہ پر پہنچ گئے ہیں۔ انہیں آزادی کا جشن منانے کے بجائے کورونا سے مقابلے کی بابت فکر مند ہونا چاہیے لیکن جس کا مطمح نظر اس جشن کی آڑ میں ریاستی اور قومی انتخاب جیتنا ہو وہ بھلا کورونا پر کیسے توجہ دے سکتا ہے؟ وہ اسی خمار میں جھوم رہے تھے کہ ہندوستان بغیر ویکسین کے کورونا مکت ہوچکا ہے۔
حکومت کی بے اعتنائی سے پریشان اور مایوس ہوکر اب لوگ عدالتوں سے رجوع کرنے لگے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے پہلے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے خستہ حال شہروں میں لاک ڈاون لگانے کے احکامات دیے تو اتر پردیش کی سرپھری سرکار نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بناکر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا۔ کورونا کے حوالے سے بی جے پی کی عدم سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنے وزیر اعلیٰ کو سمجھانے کے بجائے اس کی پشت پناہی کرنے لیے اپنا وکیل بھیج دیا اور معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے بھی وزیر اعظم کی مانند کورونا کی دوسری لہر کو سونامی سے تشبیہ دے دی۔ فرق یہ ہے کہ وزیر اعظم کے مطابق وہ جا چکی ہے اور عدالت کا کہنا ہے کہ وہ آرہی ہے۔ عدالت نے دو ٹوک انداز میں دھمکی دی ہے کہ اگر مرکز، ریاست یا مقامی انتظامیہ کا کوئی افسر آکسیجن کی سپلائی میں مشکلات پیدا کرے گا تو ’ہم اس کو پھانسی پر لٹکا دیں گے‘۔ کسی بھی باوقار حکومت کے لیے اس سے سخت سرزنش ممکن نہیں ہے لیکن موٹی کھال والی سرکار پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔
دہلی ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر پھٹکار لگائی کہ اسپتالوں کو آکسیجن کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے ہدایت دی کہ ’کووڈ-19 کے نازک مریضوں کا علاج کر رہے قومی راجدھانی کے اسپتالوں کے لیے فوراً بھیک مانگیں، ادھار لیں یا چوری کریں مگر کسی بھی طریقے سے آکسیجن مہیا کرائی جائے۔ یہ قومی ایمرجنسی ہے اور دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے نزدیک عوام کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہم اس کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے‘۔ ہائی کورٹ کی بنچ نے آگے کہا، ’آپ سرکار ہونے کے ناطے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بس اتنا دے سکتے ہیں، اتنا نہیں دے سکتے اس لیے اگر لوگ مرتے ہیں تو مرنے دیجیے۔ یہ ناقابل قبول ہے اور کسی خود مختار ملک میں یہ جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں لوگوں کے بنیادی حق کو یقینی بنانا ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور ہم لوگوں کو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ عدالت نے کہا ‘ہم حیران ہیں کہ حکومت کو حقیقت نظر ہی نہیں آ رہی ہے؟ آخر چل کیا رہا ہے؟ حکومت کو اصلیت دکھائی کیوں نہیں دے رہی ہے؟ بیچارے جج صاحب اتنا بھی نہیں جانتے کہ ارجن کو جس طرح تیل میں صرف مچھلی کی گھومتی ہوئی آنکھ کا عکس دکھائی دیتا تھا اسی طرح بی جے پی کو الیکشن میں کرسی دکھائی دیتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
دہلی کی عدالت نے تو صاف کہا ہے کہ آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری طرح سے مرکزی حکومت کے کندھوں پر ہے اور یہ اشارہ بھی دیا کہ حکومت کو انسانی جانوں کے مقابلے میں صنعتوں کا مفاد عزیز ہے۔ عدلیہ کے الفاظ ہیں ’ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں تب بھی آپ انڈسٹری کے لیے فکر مند ہیں۔ ایک دو ہفتے آپ کی انڈسٹریاں انتظار کر سکتی ہیں۔ یہ شدید ایمرجنسی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے لیے انسانی زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں؟‘ عدالت نے کہا کہ وہ آکسیجن کا پروڈکشن کرنے والے لوہے کے کارخانے چلانے کی اجازت دینے کی مرکز کی پالیسی سے خوش نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کی بنچ نے حکم دیا کہ ‘ہم مرکز کو یہ ہدایت دینے کے لیے مجبور ہیں کہ اس حکم پر فوراً عمل کیا جائے۔ اسپتالوں میں حالات سدھرنے تک آکسیجن بنانے والی صنعتوں کو اپنا پروڈکشن روکنا ہو گا۔ عدالت نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’آخر مرکزی حکومت کیا کر رہی ہے؟ اگر دہلی میں یہ حالات ہیں تو یقیناً دوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی ہوں گے‘
اس معاملے میں عدالت کے اندر دہلی سرکار اور مرکزی حکومت آمنے سامنے تھے۔ سماعت کے دوران جب کیجریوال کے وکیل راہل مہر نے کہا کہ مرکز آکسیجن مختص کرنے کی ہدایات نہیں مان رہا ہے تو مودی کے وکیل تشار مہتا نے ڈانٹ کر جواب دیا ، ’مجھے میری ذمہ داری پتہ ہے۔ مجھے بہت کچھ معلوم ہے لیکن میں کچھ کہہ نہیں رہا ہوں۔ آپ کسی شکایتی بچے کی طرح سلوک کرنا بند کریں‘۔ یہ بلاوجہ کی دھمکی تھی کیونکہ مقدمہ والے دن آکسیجن بحران کے سبب روہنی کے جئے پور گولڈن اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 20 مریضوں کی موت ہو چکی تھی۔ اسپتال انتظامیہ نے بتایا تھا کہ انہیں مختص آکسیجن کا کوٹا شام کے بجائے نصف شب میں ملا اس لیے مریضوں کو نہیں بچایا جا سکا۔ دہلی کے بترا اسپتال نے کورٹ میں فریاد کی تھی کہ ہر دن 8 ہزار لیٹر آکسیجن کی ضرورت ہے، لیکن وہ کسی طرح 6 ہزار لیٹر میں کام چلا رہے ہیں۔ اسپتال نے عدالت کو بتایا کہ اس دن انہیں صرف 500 لیٹر آکسیجن ملی۔ عآپ کا وکیل اگر شکایتی بچہ ہے تو اسپتال کے یہ ذمہ داران کون ہیں؟
تشار مہتا نے دہلی کے وکیل سے یہ بھی کہا کہ ’ہم انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں۔‘ انہیں یہ نصیحت اپنے مؤکل بی جے پی کو کرنی چاہیے جو کیجریوال کو نااہل قرار دے کر استعفیٰ طلب کر رہی ہے اور اس پر عمداً قتل کا مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ عدالت کے اندر جب مرکزی سرکار کو پھٹکارا جاتا ہے تو اسے سرکاری وکیل سر جھکا کر سن لیتا ہے لیکن پریس کا نفرنس میں بی جے پی والے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو بلا وجہ موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ یہ خالصتاً مرکز کی ناکامی ہے۔ عدالت میں مرکزی حکومت کے وزیر صحت اپنے حلف نامہ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ایم کیئر فنڈ سے وہ 8 کارخانے لگانے کا ارادہ رکھتی تھی اس میں سے صرف ایک لگ سکا 30 اپریل تک مزید چار لگ جائیں گے۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا جنوری اور فروری میں کورونا کے کیسوں میں کمی کے سبب کام دھیما پڑ گیا۔ ایسے میں وزیر صحت ہرش وردھن کو استعفیٰ دینا چاہیے جو اتفاق سے دہلی کے ہیں۔
2019 میں اگر وزیر اعظم انتخاب ہار جاتے تو اب بی جے پی والے چندرا چندرا کر کہتے کہ مودی جی کے ڈر سے چین دبک کے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اگر وزیر اعظم ہوتے تو لال آنکھ کر دیکھتے اور چینی ڈراگن دم دبا کر ’یہ تو اکھیوں سے گولی مارے‘ گاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا۔ کورونا سے نمٹنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا۔ وہ ایسی چائے بناکر پلاتے کہ کورونا کے مریض بغیر ویکسین کے اچھے ہو جاتے۔ امریکہ کی ہمت نہ ہوتی کہ ہندوستان کے لیے ویکسین کے اجزاء بھیجنا بند کرے بلکہ کورونا کی کیا مجال تھی کہ وہ بھارت ماتا کی پاون دھرتی پر قدم رکھتا۔ یہ تو بعد والوں کی نحوست سے قوم اتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گئی اور آکسیجن کی کمی ہوگئی۔ مودی جی تو ونڈ ٹربائن میں سے پانی کے ساتھ آکسیجن بھی الگ کرلیتے جیسا کہ انہوں نے ڈنمارک کی کمپنی ویسٹاس کے سی ای او سے بات چیت میں بتایا تھا۔ افسوس کہ مودی جی ہارنے کے بجائے جیت گئے اور ان کے بھرم کا غبارہ پھوٹ گیا۔ کورونا نے ٹرمپ کو تو اقتدار سے محروم کر کے امریکیوں کا بھلا کر دیا لیکن ہندوستانی اس معاملے میں ویسے خوش قسمت نہیں رہے۔ خیر وزیر اعظم نے کم از کم اس بار اپنے نو ’من کی بات‘ کو تو کورونا پر مرکوز کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ رادھا کب ناچتی ہے؟
***

عبداللہ نامی ٹویٹر کے ایک صارف نے تو وہ لکھ دیا جس کا تصور بھی مشکل تھا۔ انہوں نے لکھا وہ تو خیر سے پچھلی حکومتیں اسپتال بنا گئیں ورنہ کورونا کے مریضوں کو بیت الخلا میں علاج کرانا پڑتا۔ معروف صحافی سندیپ چودھری نے الگ سے ایک ٹویٹ میں لکھا: جس طالبہ نے اپنا گلک توڑ کر پی ایم کیئر میں پانچ ہزار روپیہ چندہ دیا تھا وہی آکسیجن کے بغیر فوت ہوگئی‘۔ اس کے جواب میں سنجیو نے لکھا ’تم مجھے ووٹ دو، میں تمہیں موت دوں گا ‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم یہ معمولی فیصلہ کرنے کے لیے اس اندوہناک خبر کے منتظر تھے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021