کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاون اور اس کے چیلنجز

کورونا وائرس نے عالمی سطح پر بے چینی پیدا کر دی ہے۔ اس کے پھیلاو پر قابو پانے کے لیے حکومت کی طرف سے پورے ملک میں لاک ڈاون کا فیصلہ قابل ستائش تو ہے لیکن اس کے نتیجے پیدا ہونے والی مصیبتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے مناسب پیش رفت نہیں کی جس کا خمیازہ غریب طبقہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

وسیم احمد

کورونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنا جال پھیلا دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سائنسی وطبی ترقی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور سپر پاور کہلانے والا ملک امریکہ متاثرہ ملکوں میں سر فہرست ہے۔ ویسے اس وبا سے متاثر ہو کر موت کا نشانہ بننے والوں میں اٹلی کا نمبر پہلا ہے۔ اس کے بعد اسپین، ایران اور دیگر ممالک ہیں۔ اس کی تباہی کو روکنے میں کچھ ممالک جیسے سنگاپور، ہانگ کانگ اور تائیوان نے بروقت کارروائی کی اور اپنے ملکوں میں اسے پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ان ملکوں نے وسیع پیمانے پر ٹیسٹ، متاثرہ افراد کو علاحدہ کرنے اور سماجی دوری کی حوصلہ افزائی کی۔ مگر کچھ ممالک نے احتیاطی اقدامات اختیار کرنے میں سست روی دکھائی نتیجتاً اس ہلاکت خیز وبا نے وہاں لاشوں کی ڈھیر لگا دیے۔
فی الوقت اعداد وشمار کے لحاظ سے ہندوستان میں متاثر افراد اور اموات کی تعداد زیادہ نہیں ہے مگر ابتدائی مراحل ہونے کے سبب اس خدشے کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گھنی آبادی والے اس ترقی پذیر ملک میں اگر اس نے اپنے پاوں مزید پھیلا دیے تو بہت بڑی آبادی متاثر ہوگی۔ اس وبا کے پھیلاو کو روکنے میں ہندوستان کی حکومت نے قابل ستائش قدم اٹھایا ہے اور مضبوط پیش رفت کی ہے۔ لیکن ماہرین ومبصرین اور دیگر تحقیقی اداروں نیز بعض بین الاقوامی تنظیموں کے خیال میں یہ اعلان کرنے میں دیر ہوئی۔ اس تعلق سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض جنوری کے آخری عشرے میں پائے جانے کا اعلان ہوگیا تھا۔ اگر اسی وقت بیرون ملک ہوائی سفر پر پابندی لگا دی جاتی اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جاتیں تو اس پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ بہر حال دیر سے ہی سہی 14 اپریل تک پورے ملک میں لاک ڈاون کے اعلان سے کورونا وائرس کو روکنے کی طرف ایک مضبوط پیش رفت ہوئی ہے۔ ملک کے علماء دین اور تعلیمی اداروں نے بھی عوام سے اس اعلان پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے۔ عوام نے بھی حکومت کی آواز پر لیبک کہا اور ان لوگوں نے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جن کا موجودہ مرکزی سرکار پر بھروسہ کم ہے۔ جا بجا سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین نے بھی رضاکارانہ طور پر اس وبا کے ختم ہونے تک احتجاجوں کو روک دیا۔ اسلامی تنظیموں نے بھی وزیر اعظم کے اعلان کی بھرپور تائید کی۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے تو باضابطہ سوشل میڈیا، یو ٹیوب اور اخبارات میں بیان جاری کرکے عوام کو بھرپور حمایت کرنے کی دعوت دی اور گھروں میں بند ہوجانے کی ترغیب دی۔ لاک ڈاون کے دوران جماعت نے ایک اہم کام یہ کیا کہ ایک خصوصی راحت ٹیم کو یومیہ مزدوری پر کام کرنے والوں کے گھروں پر بھیج کر انہیں راشن فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ کام جماعت کی طرف سے ملک کے مختلف شہروں میں انجام دیا جا رہا ہے۔جماعت نے کچھ ہیلپ لائن بھی جاری کیے ہیں۔ حالانکہ ایسی ٹیموں کی ضرورت بڑے پیمانے پر ہے مگر تنظیم کی صلاحیت محدود ہے، اگر حکومت کی سطح پر یہ کام کیا جائے تو گھروں میں بند مزدوروں اور ضرورتمندوں کو امداد پہنچائی جاسکتی ہے۔ دہلی اور دیگر ریاستوں میں سرکاری سطح پر امدادی کام راشن کارڈ کو بنیاد بناکر کیا جا رہا ہے جبکہ بڑی تعداد ایسے ضرورتمندوں کی ہے جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں۔ ایسی ہنگامی حالت میں جماعت کے طرز پر ریاستی حکومتوں کو بھی ٹیم بنانی چاہیے جو گھر گھر جاکر ضروریات کا پتہ لگائے۔ وزیر اعظم نے پورے ملک میں اکیس دنوں کے لیے لاک ڈاون کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے مگر اعلان سے پہلے حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ ملک کے اندر موجودہ سماجی تناظر میں اس پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بنایا جائے؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ 21 دنوں کے لاک ڈاون کی مدت میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے جب تک کہ اس کے لیے کوئی ویکسن تیار نہ ہو جائے یا پھر قادر مطلق اس وبا کا خاتمہ کردے۔ ایسی صورت میں کیا ہم ایک طویل لاک ڈاون کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ اگر ہم ملک میں طرز معاشرت اور قوت معیشت کو دیکھتے ہیں تو لاک ڈاون ہمار ے لیے ناقابل عمل فیصلہ لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دو طرح کی طرزِ زندگی ہے۔ ایک دیہاتی اور دوسری شہری۔ شہر میں ایک طبقہ وہ ہے جو مرفع حال لوگوں پر مشتمل ہے ان پر لاک ڈاون کا منفی اثر معمولی پڑے گا۔ لاک ڈاون کے دوران دہلی کے متعدد اعلیٰ سوسائٹیز میں ہم نے جاکر دیکھا تو وہاں بالکل سناٹا تھا۔ یعنی لوگ لاک ڈاون پر مکمل عمل درآمد کر رہے تھے۔ جبکہ دوسرا طبقہ جو شہر کے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں یا مکانوں میں رہتا ہے روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر لاک ڈاون طویل عرصے تک جاری رہتا ہے تو پھر ان کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ شہروں میں ایک اور طبقہ بھی ہے جو جھگی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں بستا ہے۔ یہ طبقہ غربت کی سطح سے کافی نیچے زندگی گزارتا ہے ان کی گزر بسر یومیہ آمدنی پر ہوتی ہے اس لیے ان کے لیے گھروں میں بند رہنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اگر یہ دوچار دن بھی گھر میں قید ہوگئے تو فاقہ کشی کی نوبت آسکتی ہے۔ جیسا کہ تین دنوں کے لاک ڈاون کے بعد ہی خبریں آنی شروع ہوگئیں کہ مزدور طبقہ اپنے اپنے مقام کو جانے کے لیے سینکڑوں میل کا سفر پیدل طے کرنے پر مجبور ہے کیونکہ شہروں میں روزگار بھی ختم ہو چکا ہے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی بند ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال تو شہر کی ہے۔ اب جہاں تک دیہی علاقوں کی بات ہے تو وہاں ہر چھوٹی بڑی ضرورتوں کا انحصار بازار اور ہارٹوں پر ہے، یہ بھی اپنی ضرورتوں کو زیادہ دنوں تک نہیں روک سکتے۔
اب اگر حکومت ان کے لیے راشن اور دیگر اشیائے ضروریہ فراہم کرنے کا راستہ نکال لیتی ہے تو لاک ڈاون کامیاب ہوسکتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے لیے وبا یا فاقہ کشی دونوں میں سے کسی ایک کو مرنے کے لیے چننا ہوگا۔ حالانکہ کچھ ریاستوں نے اس سے بچنے کے لیے کچھ اعلانات بھی کیے ہیں۔ مثال کے طور پر اتر پردیش نے فی مزدور کو ایک ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یو پی میں تقریباً پانچ سے چھ کروڑ مزدوروں کا کوئی رجسٹریشن نہیں ہے جو کہ کھیت کھلیان یا چو راہے کی دکانوں میں کام کرتے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ بہار نے ہر راشن کارڈ ہولڈر کو ایک ماہ کا راشن دینے کا وعدہ کیا ہے مگر یہاں بھی یہی سوال ہے کہ جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے وہ کدھر جائیں؟ دہلی حکومت نے بھی اپنی امداد کو راشن کارڈ سے جوڑ دیا ہے جبکہ یہاں بھی راشن کارڈ نہ رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں صرف تعمیراتی مزدوروں کی تعداد 10 لاکھ ہے جن کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں سے ہے۔ اگر دیگر شعبوں کے مزدوروں کو جمع کر لیں تو تعداد 20 سے 30 لاکھ پہنچ سکتی ہے۔ رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد تقریبا 40 ہزار ہے بقیہ مزدور کہاں جائیں گے؟ ان سب کے بارے میں بھی کچھ کرنا ہوگا تب جاکر ہمارا لاک ڈاون کامیاب ہو سکتا ہے۔ ہم جب تک احتیاطی اقدامات کے ساتھ اقتصادی صورت حال اور طبی سہولتوں کا جائزہ نہیں لیں گے اس وقت تک اس وبائی پھیلاو کو روکنا ہمارے لیے مشکل ترین ہوگا۔ ایک امریکی مضمون نگار ٹامس بویو لکھتے ہیں کہ’’اس وقت پوری دنیا کو جو مسائل درپیش ہیں یا ہونے والے ہیں،، ان میں طبی سہولتوں سمیت سماجی اور اقتصادی معاملات شامل ہیں۔ ہمیں ہر حال میں اس کے پھیلاو کو روکنے اور اس کے علاج کے لیے ویکسن اور ادویات کی تیاری پر زور دینے کے ساتھ اقتصادی پہلو کو بھی دھیان میں رکھنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ہمیں دوسرے ملکوں کی کامیابیوں سے سیکھنا ہوگا‘‘

جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے تو باضابطہ سوشل میڈیا، یو ٹیوب اور اخبارات میں بیان جاری کرکے عوام کو بھرپور حمایت کرنے کی دعوت دی اور گھروں میں بند ہوجانے کی ترغیب دی۔ لاک ڈاون کے دوران جماعت نے ایک اہم کام یہ کیا کہ ایک خصوصی راحت ٹیم کو یومیہ مزدوری پر گزارہ کرنے والوں کے گھروں پر بھیج کر انہیں راشن فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ کام جماعت کی طرف سے ملک کے مختلف شہروں میں انجام دیا جارہا ہے۔جماعت نے کچھ ہیلپ لائن بھی جاری کیے ہیں۔حالانکہ ایسی ٹیموں کی ضرورت بڑے پیمانے پر ہے مگر تنظیم کی صلاحیت محدود ہے، اگر حکومت کی سطح پر یہ کام کیا جائے تو گھروں میں بند مزدوروں اور ضرورتمندوں کو امداد پہنچائی جاسکتی ہے۔ دہلی اور دیگر ریاستوں میں سرکاری سطح پر امدادی کام راشن کارڈ کو بنیاد بناکر کیا جا رہا ہے جبکہ بڑی تعداد ایسے ضرورتمندوں کی ہے جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ ایسی ہنگامی حالت میں جماعت کے طرز پر ریاستی حکومتوں کو بھی ٹیم بنانی چاہیے جو گھر گھر جاکر ضروریات کا پتہ لگائے۔

لاک ڈاون کے بعد موجودہ صورت حال پر میں نے بہار کے مشہور سیاست داں اور سماجی کارکن اختر الایمان سے فون پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان تو کردیا لیکن اس کے نتیجے میں جو پریشانیاں ہو رہی ہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ جو مزدور طبقہ ہے وہ بھوکا دن گزار رہا ہے۔ باہر روڈ پر پولیس کسی کو دیکھتے ہی بے رحمی سے پیٹنا شروع کردیتی ہے۔ اس لیے لوگ سڑک پر نہیں جاتے لیکن محلے میں ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچانک لاک ڈاون نافذ کرنے سے پہلے حکومت نے ناخواندہ افراد میں کونسلنگ نہیں کی۔ حکومت کو پہلے ان کی کونسلنگ کرنی چاہیے تھی اور انہیں اس وبا کی ہلاکت خیزی اور سماجی دوری کی اہمیت کو سمجھانا چاہیے تھا تو شاید لوگ محلے کے اندر باہم ملنے سے گریز کرتے۔ دوسری طرف لاک ڈاون کے بعد مرکزی سرکار نے تو کچھ کیا نہیں ریاستی سرکار بھی بیان بازی سے کام چلانا چاہتی ہے۔ ہیلپ لائن نمبر دیے گئے ہیں مگر جس نمبر پر بھی ڈائل کیجیے کوئی جواب نہیں ملتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ حکومت سے امداد کی تو کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے اب صاحب حیثیت افراد کو ہی آگے بڑھ کر بھوکوں کا پیٹ بھرنا چاہیے۔‘‘
جب ہم نے دہلی کے مشہور تجزیہ کار اور صحافی عابد انور سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’لاک ڈاون تو ایک اچھا قدم ہے مگر اس کے نفاذ سے پہلے جو تیاری ہونی چاہیے تھی وہ نہیں کی گئی۔ عوام تو کسی حد تک وزیر اعظم کے اعلان پر عمل کر رہے ہیں لیکن انہیں امداد نہیں دی گئی تو پھر وہ خلاف ورزی پر مجبور بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کوئی مضبوط قدم اٹھائے اور گھر میں بند افراد کے کھانے پینے کا بندوبست کرے۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مہلک وبا اپنا قہر ڈھاتی ہے تو سماج پر اس کا اثر چہار سو ہوتا ہے اور جب وبا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لاک ڈاون کیا جاتا ہے تو معیشت کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ خاص طور پر جو مزدور طبقہ ہے وہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ قومی راجدھانی دہلی میں اتر پردیش اور بہار سے آئے اور ملازمت کر رہے دیہاڑی کے اور دیگر لاکھوں مزدور بسیں اور ٹرینوں کے بند ہونے کے سبب اپنے اپنے گھروں کے لیے پیدل ہی چل پڑے ہیں۔ ان لوگوں میں خواتین بھی ہیں اور بچے بھی ہیں۔ ایک ہزار کلو میٹر سے بھی زائد سفر کرنے کا عزم مجبوری اور لاچاری کی دردناک کہانی ہے۔ پیدل چلتے افراد کے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی جیب میں پیسے ہیں پھر بھی جان بچانے کے لیے یہ اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں ہیں۔چونکہ کورونا وائرس کا وقوع پذیر ہونا گلوبل سطح پر ہے لہٰذا تمام ملکوں اور عالمی برادری کو اسے بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بہت صحیح کہا ہے کہ اس طرح کی وبا کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے اور یہ کسی ایک ملک اور قوم تک محدود نہیں ہوتی اس لیے گلوبل سطح پر سب کو مل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرناچاہیے۔ وزیر اعظم مودی نے سارک ممالک اور جی 20 سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو صحیح طور پر ابھارا ہے اور سب کو مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے۔
***