کورونا وائرس کے اثرات یمن سے دہلی تک
انسانیت کوخود غرضی کے وائرس سے بھی نجات پانےکی ضرورت
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
اس کائنات میں ہر شئے کو فنا ہونا ہے۔ کورونا وائرس کو بھی اس معاملے میں استثناء حاصل نہیں ہے۔ اپنی تباہی وبربادی کی انتہا کو چھو لینے کے بعد یہ وبا بھی اللہ کے اذن سے ختم ہوجائے گی۔ انسانی تاریخ میں اس طرح کی وبا نہ تو پہلی بار آئی ہے اور نہ یہ آخری ہے۔ چودھویں صدی میں پھیلنے والی طاعون کی وبا کو کون بھول سکتا ہے جس میں دنیا بھر کے 20 کروڑ لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح تقریباً ایک صدی قبل 1918ء میں اسپینی انفلوئنزا سے یورپ میں دس کروڑ اور امریکا میں 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اس سے ہلاک ہونے والوں کا اندازہ دس کروڑ ہے۔ ہر صدی میں کم ازکم ایک بار عالمِ انسانیت کو اس طرح کی آزمائش سے گزارا گیا ہے تاکہ وہ روز مرہ کے مسائل سے اوپر اٹھ کر اپنے مقصدِ حیات پر غور کرے۔ اپنے خالق ومالک کے بیش بہا احسانات پر اس کا شکر ادا کرے۔ یہی جذبۂ تشکر دراصل کفر کے انکار (لا الہ) اور ایمان و یقین (الا اللہ) کی پہلی منزل ہے۔
عام طور پر جنگ وجدال کو انسانی جانوں کے اتلاف کا سب سے بڑا سبب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد مہذب یوروپ نے پہلی جنگ عظیم میں جملہ ایک کروڑ 70 لاکھ لوگوں کو ہلاک کیا لیکن اس کے باوجود عقیدۂ توحید کے خلاف بھڑکائی جانے والی قوم پرستی کی آگ سرد نہیں ہوئی۔ عالمی امن کے ان پاکھنڈی علمبرداروں نے قلیل عرصے کے اندر پھر دوسری جنگ عظیم برپا کردی جو 6 کروڈ افراد کو نگل گئی۔ اسی زمانے میں عالم انسانیت فلو کی وبا سے بھی برسرِ جنگ تھی جس نے اپنے ابتدائی 25 ہفتوں میں ڈھائی کروڑ انسانوں کی جانیں تلف کر دیں اور گمان غالب ہے کہ کل دس کروڈ لوگ اس کا شکار ہوئے۔ اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں ایک کروڑ 70 لاکھ اموات ہوئی تھیں جو کہ آبادی کا پانچ فی صد تھا۔ ایران میں مرنے والوں کی تعداد 24 لاکھ 31 ہزار تھی۔ ویسے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس مہلک مرض کو پھیلانے میں جنگ عظیم اوّل کا بہت اہم کردار تھا کیونکہ اس دوران ساری دنیا کے فوجی ایک ملک سے دوسرے میں اپنے ساتھ نادانستہ اس وبا کے جراثیم لے جاتے تھے۔ اکتوبر 1918 میں اس مہلک ترین فلو کی دوسری لہر اٹھی۔ اس نے امریکا اور دنیا کے بیشتر ممالک کے متاثرہ مریضوں کو ہلاک کیا۔
اور دنیا اب نوول کرونا کی وباء کا شکار ہے۔ دسمبر 2019ء سے تادمِ تحریر (۲۹ مارچ ۲۰۲۰) تک یہ 6 لاکھ 63 ہزار لوگوں کو متاثر کرچکا ہے اور ان میں سے31 ہزار ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ جہاں انفلوئنزا کی وبا کے باوجود مغربی دنیا برسرِ جنگ رہی اور اسے اپنی حماقت سے دنیا بھر میں پھیلاتی رہی اس کے برعکس مسلمانوں نے عقل کے ناخن لے کر یمن اور سعودی عرب کے درمیان چلنے والی جنگ کو ختم کر دیا۔ امید ہے کہ اب اس طرح کی لڑائی پھر کبھی نہیں ہوگی۔ آپسی تنازعات کو گولی کے بجائے بولی سے حل کیا جائے گا۔ کورونا وائرس کی آفت کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی تجویز کے جواب میں سعودی قیادت والے عسکری اتحاد کی طرف سے یمن میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور حوثیوں کے رہنما محمد علی الحوثی نے جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے عملی نفاذ پر زور دیا۔ کورونا وائرس نے اس طرح باہم متحارب ہم سایہ ممالک کو ایک دوسرے کا دوست بنا دیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے COVID-19 کی وبا سے نمٹنے کے لیے پوری دنیا میں تمام جنگ زدہ علاقوں میں فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کی تو یمن کی حوثی حکومت نے اس کو تسلیم کر لیا۔ سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے بھی جنگ بندی اور کشیدگی کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت کرتے ہوئے خطے میں انسانی بنیادوں اور معاشی سطح پر اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عندیہ دیا ۔ یمن میں ایران نواز حوثیوں کے خلاف گزشتہ پانچ برس سے سعودی عرب کی قیادت والا عسکری اتحاد برسرِ جنگ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن دنیا کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ہے ۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو اندیشہ ہے کہ اگر یمن میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی تو اس ملک کا نظام صحت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا اور بے شمار ہلاکتیں ہوں گی۔ اتفاق سے یہ جنگ 26 مارچ 2015 کو شروع ہوئی اور 26 مارچ 2020 کو ہی کورونا وائرس کے بہانے اس کا خاتمہ ہوگیا۔ کیونکہ بقول انٹونیو گوٹیریس فی الحال سب کو مل کر ہماری اپنی زندگی کے لیے حقیقی لڑائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کورونا وائرس کے آسمانی قہر نے دشمنوں کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ لیکن اب بھی کچھ ایسے شقی القلب لوگ موجود ہیں جن کے دل ابھی نہیں پگھلے بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی سخت ہو گئے۔ اس کی مثال راجدھانی دہلی میں اس وقت سامنے آئی جب کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے آغاز کے طور پر وزیر اعظم نے ۲۲ مارچ کو جنتا کرفیو کی اپیل کی اور اگلے دن اس کی غیر معمولی کامیابی پر عوام کا شکریہ بھی ادا کیا۔ انہوں نے بجا طور پر کہا تھا کہ کرفیو تو رات ۹ بجے ختم ہوجائے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جشن منانا شروع کر دیں۔ لوگ اس کو کامیابی نہ مانیں بلکہ یہ ایک طویل جنگ کا آغاز ہے۔ لیکن عوام کا کیا ہے وہ تو اپنے مطلب کی بات لیتے ہیں اور باقی چیزیں چھوڑ دیتے ہیں۔ انہوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ وہی کیا جس سے منع کیا گیا تھا یعنی زور شور کے ساتھ مختلف مقامات پر مجمع لگا کر خوب ہنگامہ آرائی کی۔ آگے چل کر جن مقامات سے لوگوں کے بڑے پیمانے پر گھروں سے باہر نکل کر تالی تھالی اور شنکھ بجانے کی خبریں آئیں اس پر وزیر اعظم نے تشویش کا اظہار بھی کیا۔
وزیر اعظم کے ذریعہ تالی بجوانے کا مقصد کورونا کے خلاف جی جان سے لگے ڈاکٹروں اور سرکاری ملازمین کے تئیں خراج تحسین پیش کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا نہ کہ شور شرابا ہاو ہو۔ لیکن ہائے افسوس کہ لوگوں نے اس کی بھی خلاف ورزی کی اور ان کو معتوب کرنا شروع کر دیا۔ جودھپور کے امید اسپتال کی سینئر ریذیڈنٹ ڈاکٹر نے شکایت کی کہ انہیں مالک مکان نے اس لیے گھر سے نکال دیا کہ وہ کورونا کی وبا کے دوران اسپتال آتی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک خاتون ڈاکٹر کے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اسپتال آنے جانے اور مریضوں کا علاج کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے ان مشکل حالات میں اسے بے گھر کر دیا گیا۔ یہ کس قدر سفاک ذہنیت کا مظاہرہ ہے؟ کیا ان لوگوں سے یہ توقع کی جائے کہ یہ پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو اپنے دل میں جگہ دیں گے؟ اور کیا اس رویے کو دیکھ کیا کوئی یہاں آنے کی غلطی کرے گا؟
اب انسان صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو جائز سمجھتا ہے۔ اسی طرزِ فکر نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر مریضوں کی خدمت کرنے والے فرشتہ صفت معالجین کو بھی اس کا دشمن بنا دیا ہے۔ یہ دراصل خود غرضی کے وائرس کے ہمارے معاشرے کو پوری طرح زیر کرلینے کی ایک زندہ علامت ہے۔
اس معاملے کو کسی چھوٹے سے شہر کا واقعہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کے مشہور ومعروف ایمس اسپتال کے ریذیڈنٹ ڈاکٹرس کی تنظیم نے اس بابت وزیر داخلہ کو خط لکھ کر شکایت کی۔ اس خط کو لکھنے کی نوبت اس لیے آئی کہ اس اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرس کو کورونا وائرس کے مریضوں سے رابطے میں رہنے کے سبب مالک مکان گھر خالی کرنے کا دباو ڈال رہے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کے کئی ساتھیوں کو سامان سمیت سڑکوں پر آنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ کالونیوں میں تو ان کے داخلے تک پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ڈاکٹروں کی تنظیم نے وزیر داخلہ سے گزارش کی ہے کہ وہ فوراً اس پر روک لگوائیں۔ اس پر وزارت داخلہ نے پولس کمشنر کی توجہ مبذول کرائی اور مناسب کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کام کے لیے بھی پولیس کے ڈنڈے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس جہالت کا مظاہرہ ناخواندہ، غریب اور مسکین لوگوں کی جانب سے تو نہیں ہوا تھا بلکہ نام نہاد پڑھے لکھے اور مہذب وخوشحال لوگوں کی جانب سے ہوا تھا۔ اس افسوسناک واقعے سے ہمارے تہذیب واخلاق اور تعلیم وتربیت کے نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اس سانحہ پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کچھ لوگ کورونا وائرس کا علاج کرنے والی نرسوں کو کالونی اور گھروں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ کیجریوال نے کہا کہ ایسا کرنا غلط ہے۔ ان لوگوں نے آپ کے اہل خانہ کی خاطر اپنی جانیں داو پر لگا رکھی ہیں۔ یہ رویہ بالکل بھی صحیح نہیں ہے۔ سرکاری اعلامیہ کے مطابق یہ لازمی خدمات میں روڑا ڈالنے کے مترادف ہے اور اس سے کورونا کی وبا کے خلاف جنگ کی جڑ پر وار ہوتا ہے۔ یعنی کہیں تو کورونا وائرس کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے اور کہیں اس کی جنگ کو ہی جڑ سے اکھاڑا جا رہا ہے۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے بھی ایسی خبروں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا دہلی، نوئیڈا، ورنگل، چنئی وغیرہ سے کئی رپورٹیں آئی ہیں کہ کورونا کے ڈر سے ڈاکٹروں اور طبی خدمات انجام دینے والوں سے مکان خالی کرائے جا رہے ہیں۔ ایسی ہی خبریں چھتیس گڑھ اور کرناٹک سے بھی آئیں جس کے بعد وزیر اعلیٰ کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس سے پہلے عدم رواداری کی یہ وبا شمال سے لے کر جنوب تک پھیل چکی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ ہمارے سماج کو آخر یہ کیا ہوگیا ہے؟ ہماری انسانیت کہاں چلی گئی ہے اور کیوں؟
اس شجرِ خبیثہ کی جڑ انسانوں کے درمیان تفریق وامتیاز کا نظریہ ہے۔ اس کا تنا نفرت اورشاخیں خود غرضی کی ہیں۔ یہ درخت قوم پرستی کے زرد پتوں سے پٹا پڑا ہے اور اس پر فرقہ پرستی کے زہریلے پھل لٹک رہے ہیں ۔ان فاسد نظریات نے ابن آدم کے خدائی کنبے کو اپنے اور پرائے میں تقسیم کیا۔ ان کی بنیاد پر غیروں کے ساتھ نفرت اور بدسلوکی کو جائز ٹھہرایا گیا۔ سیاسی مفادات کی خاطر اِس کو بھیجو اُس کو نکالو اِس کو پکڑو اُس کو مارو جیسے نعرے وقتاً فوقتاً بلند کیے گئے۔ اس سے عوام کی آنکھ کا پانی مرگیا اور انسانیت کا جنازہ اٹھ گیا۔ اب انسان صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو جائز سمجھتا ہے۔ اسی طرزِ فکر نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر مریضوں کی خدمت کرنے والے فرشتہ صفت معالجین کو بھی اس کا دشمن بنا دیا ہے ۔ یہ دراصل خود غرضی کے وائرس کے ہمارے معاشرے کو پوری طرح زیر کرلینے کی ایک زندہ علامت ہے۔ یہ مستقل خطرہ کورونا وائرس کی عارضی وبا سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈاکٹروں کے اس مسئلہ نے اربابِ حل وعقد کی توجہ اس جانب مبذول کرادی ہے تاکہ وہ اصلاح حال کی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں۔ خدا کرے کہ کورونا وائرس کی یہ وبا اس خطرناک نفسیات کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلی جائے تاکہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ انسانوں کی طرح مل جل کر زندگی گزار سکیں۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے( یعنی گردش زمانہ) میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔
***