کورونا وائرس کی فریاد!

ہر حرف مرا کربِ مسلسل کی گھٹن میں

ش م احمد، کشمیر

حیرت وحسرت کے عالم میں میری زبان سے برجستہ نکلا: بار الہٰا! اس کورونا وائرس نے اپنا کیا حال بنایا ہوا ہے ۔۔۔بکھرے بال، پریشاں حال، پیکرِ حزن وملال، غم سے نڈھال، رنج سے پامال۔۔۔ یہ اللہ کی بارگاہِ اقدس میں سائل و فریادی کیوں بنا ہوا ہے؟ دنیائے دوں میں یہ اپنی نامرادی، اپنی پسپائی، اپنی بے بسی کا شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا : اے مالکِ دو جہاں!۔۔خالقِ ارض وسما، شافع الامراض، دافع الٓافات و البلیات! یہ حقیر سائل کورونا آپ کی اَن گنت ہلاکت آفرین وباؤں میں ایک نیا اضافہ ہے۔ میں ایک معمولی جرثومہ، مگر انسانی دنیا کے لیے آپ خدائے رحمن ورحیم کا غصہ، لاعلاج بیماری کا دبدبہ، قرنطینہ کا غلغلہ، قیامت کی علامت، تکالیف کی شامت، لاک ڈاؤن کا سفیر، غربت بڑھانے والوں کا مشیر، جسامت سے عاری، قوت وقدرت سے خالی، تولہ نہ ماشہ، بس ملکِ زُکام کا زلزلہ، سلطنتِ بخار کا پادشاہ، خرابی تنفس کا نا مہربان سلسلہ، کھٹمل مچھر پسو سے پست حد درجہ، ابابیلی کنکر سے بے وزن، دنیا میرا لمحاتی مسکن ؎
لب پہ کسی اُجڑی ہوئی جاگیر کا ماتم
ہر لفظ میرا حلقہ جاگیر کا ماتم
پرودرگارِ عالم!
آپ نے اس کم تر وجود کو جو بہت بڑا کام سونپا اُسے تاحکمِ ثانی ملکوں ملکوں قوموں قوموں خاک چھان کر خوب خوب کر رہا ہوں، ابھی تک کیے جارہا ہوں ۔۔۔ مگر گستاخی معاف، اس کا حاصل میری ادنیٰ نظر میں ندارد!
بندے نے وُوہان چین سے اپنا لمبا مہاماری سفرِ تخریب شروع کیا، اٹلی جا پہنچا، اسے وسیع قبرستان بنا ڈالا، ایران کی خوب خبرلی، اسپین میں ڈیرا ڈالا، اس کی کھال اُتاری، جرمنی کی راہ لی، اینٹ سے اینٹ بجالی، برطانیہ سے اپنا وجود منوایا، فرانس کو دن میں ہی تارے دکھائے، امریکہ میں خیمہ زن ہو کر موت کی دھینگا مشتی میں مصروف ہوں، روس کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کیا، دلی سے تراہی تراہی کہلوایا، اسلام آباد کا گلا پکڑا، عربستان سے ناکوں چنے چبوائے، افریقہ میں آدم خوری کے لیے حاضری دی۔ غرض آسمان کی چھت کے نیچے زمین پہ جہاں جہاں آدم زاد کی بود وباش وہاں آپ کے اِذن سے بیماری ولاچاری سے ادھم مچائی، زندگی کا پہیہ جام کیا، عقل کا گھوڑا لنگڑا کر ڈالا، سوچ کا سفینہ ڈبو دیا۔
اے خدائے بزرگ و بر تر!
کرہ ارض پر جہاں جہاں یہ حقیر وکم ترین قدم رنجہ ہوا وہاں وہاں ہر چیز پوری طرح تہس نہس، ہر شئے اُلٹا پلٹ، خوف کے چابک سے رشتوں کو توڑے، رابطوں کو منقطع کیا، تعلقات کے چمن بیخ وبُن سے اُکھاڑ پھینکا، ہر چیز کی اُجلی اُجلی چمک دمک پر سیاہی کی پرتیں، بے رونقی کی دُھندیں جمائیں۔ پلک جھپکنے کی دیر میں انسانی بستیاں غیر آباد، کھیت کھلیان ویران، دجالی ایوان کھنڈرات، کارخانے خاموش، طیران گاہیں عضوئے معطل، قیمتی گاڑیاں بے دام، عیاشی کے اڈے فحاشی کے مرکز مقفل، تعلیم گاہیں تحقیقی ادارے قصہ پارینہ، قصر ومحلات، بنگلے، جھگی جھونپڑیاں بے چراغ۔ مساجد، مندر، گرجے، گردوارے، کنیسہ سمیت تمام معابد یک قلم تالہ بند۔ سڑکیں بازار گلی کوچے سنسان، باغات خزاں دیدہ، تفریح گاہیں پر بُریدہ، قریہ قریہ خوف کا پہرہ، نگری نگری ڈر کی چھایا۔ حتیٰ کہ سیہ کار کائنات میں یقین وایماں کے ہمہ پہلو نور بکھیرتے دو روشن ترین چراغ، عبادات واذکار سے تاباں ودرخشاں حرمین شریفین تک میں انسانی سجدے موقوف، اب ان میں صرف فرشتے سر بسجود دست بدعا۔ یہ سب آپ کی شانِ بے نیاری کے صدقے ہوا تاکہ بگڑا ہوا آدم زاد اصلاحِ احوال کا نوشتہ دیوار پڑھ لے۔۔۔ مگر افسوس صد افسوس!
اے بادشاہِ دوعالم!
آپ کے اذنِ جلیلہ سے اس کم مایہ وجود نے انسان کے شعور وادرک، عقل وفہم، بصیرت وبصارت کے بند کواڑ کھلوانے کے لیے اپنی خموش گفتگو میں یہ معنوی اعلان کیا: ائے غافل بندگانِ خدا! تمہارا غرور بے جا، پندار ناپائیدار، زمین پر مجازی خدا بننے کا خواب ایک سراب، عدل واخلاق سے باغی ہو کر عالم گیر طاقت بننے کی تمہاری احمقانہ دوڑ لایعنی، تم مجبورِ محض ہو، مختارِ کل نہیں ہو، بے بس وبے کس جان مخلوق ہو۔ خدا کا مہر وماہ پھر سے تمہارے ساتھ مگر شرط یہ کہ پہلے گناہوں، لغزشوں، خطاؤں سے باز آؤ، باز آؤ، بازآؤ، ورنہ تمہاری بربادیوں کے مشورے ہو رہے ہیں آسمانوں میں۔ جلدی کرو، آہ وبکا عجز وانکساری کی زادِ راہ لے کر توبہ واستغفار کی شاہراہ پکڑو، تخریب نہیں بلکہ تعمیر کی سواری اپنی فطرتِ ثانیہ بنالو، دوسرے بندگانِ خدا پر ظلم وتشدد کی بھٹیاں کبھی نہ سلگاؤ، جنہیں اپنی ماؤں نے آزاد جنا، تم انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں، اپنی من مانی بندشوں میں، اپنے فرعونی ونمردوی داؤ پیچ میں مت جکڑو، عارضی وجفاکار تخت وتاج کے دوام کے لیے مصائب ومظالم کے جہنم زراوں میں غریبوں وکمزوروں کو بلا تکلف مت جھونکو۔ سنو! بہت ہوا، اب بس کرو، باز آجاؤ، اپنا سکون واطمینان فضولیات میں غارت نہ کرو، آدمیت کی عزت کرو، انسانیت کی لاج رکھو، ورنہ تمہارے اوپر خدا کا اور زیادہ قہر ٹوٹے گا ۔ یہ فرمانِ خدا وندی تمہارے لیے چشم کشا ہونا چاہیے: آخر کار ہم نے ان پر (فرعونیوں پر) طوفان بھیجا، ٹڈی دَل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے(الاعراف ۱۳۳)
اس فرمانِ خداوندی کو غور سے سنو، اس میں درج تمام قیامتوں اور عذابوں کا حال آج دنیا کے سامنے ہے، مگر نوعِ انسانی سرکشی اور گمراہی کی طرف مائل ہے۔
اپنی گرہ باندھ لو یہ بات تم خدا کی خدائی میں رَتی بھر بھی شریکِ کار نہیں ہو۔ اسی لیے تمہاری دوائیاں، تمہارے شفاخانے، تمہاری سائنس، تمہاری ٹیکنالوجی، تمہاری تجربہ گاہیں، فضائے بسیط میں تمہاری اونچی اُڑانیں، زمین پر اپنا سکہ جمانے کی تمہاری بے تکان پروازیں، پہاڑ اور سمندر کھنگالنے کی تمہاری جستجوئیں، سب کی سب خدائے کن فکان کے روبرو ہیچ، بے مطلب اور بے سود ہیں۔ تمہاری کسمپرسی کا یہ حال کہ آج مستشفیٰ آباد، قبرستان با رونق ہو گئے۔میرے دم قدم سے کرہ ارض میں ہر لحظہ ہر آن سرد آہیں سنتے ہو، آنسوؤں کی راگ سمجھتے ہو، یہ سب تمہاری گناہ گاریوں کا کھلا اشتہار ہے۔ تم آخر گناہوں اور جرائم سے باز نہ آکر دُکھوں کی آندھیاں، غموں کے پہاڑ کب تلک سہارتے رہو گے؟ کب تک اپنے کمائے ہوئے صدموں پر کف افسوس ملتے رہوگے؟
اے مولائے کریم!
میرا قیاس وگمان تھا جگہ جگہ مجھے دندناتا پھرتا دیکھ حضرتِ انسان نے عبرت پکڑ لی ہوگی، مہاماری کے عالم اضطراب سے بے قابو شور محشر سے، عالمی تباہیوں سے، قیامت خیز بربادیوں سے، سر چکرانے والی وناکاش کاریوں سے، موت کے ننگے ناچ سے، بے کاری، بے روزگاری و بے اعتباری میں دنیا غرقاب ہونے سے اس مشتِ خاک کی کایا پلٹ گئی ہوگی۔ وہ ضرور اصلاح کی شمعیں روشن اور سدھار کی مشعلیں فروزاں کر نے لگا ہوگا۔ مالکِ بحر وبر کا مطیعِ فرمان، انسانیت سے مالامال، شرافت کا غلام، صداقت کا پرچم بردار، حقانیت کا طرف دار، عدل وانصاف کا سپہ سالار، کمزور وناتواں کے واسطے رحم دلی کا علمبردار، انسانی اصولوں کا وفادار، گفتار نہیں بلکہ صرف کردار کا پرستار ہوا ہوگا۔ اور جب یہ سب ہوا ہوگا تو دنیا میں اپنا کیا کام؟ بستر گول کروں گا، چلو ایک اچھے انجام پر اس تعذیبی کھیل کا خاتمہ ہوا۔ بے حدوحساب شکر کہ اس فقیرِ بے تقصیر سے خدائے لم یزل نے عالمی اصلاح کا اپنا اصل ہدف مکمل کیا۔ اللہ بخشن ہار ہے، جن وانس کا پالنہار ہے، رحمتوں کا منبع شفقتوں کا انبار ہے، پھر سے تباہ حال دنیا کی تعمیر نو کا اینٹ گارا نوعِ انسانی کے ہاتھ تھمادے گا جیسے طوفان میں نوح کو سفینہ نجات بنانے کی ہمت وہدایت دی۔
ناچیز کی یہ خوش فہمی ہَوا نہیں ہوئی تھی بلکہ جا بجا سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ دنیا مجھ سے خائف، سہمی سہمی سُونی سُونی۔ کورونا کورونا چلّا کر ہر انسان کو اپنے سائے تک سے ڈرتا دیکھا، مجھ سے بھاگ بھاگ کر خود سے بھی بہت دور ہوتے دیکھا، دہشت کے عالم میں اپنا چہرہ تک آئینہ میں دیکھنا بھول گیا۔ الاماں والحفیظ کی صدائیں کانوں سے ہربار ہر جگہ ٹکراتی رہیں۔ بد معاشی کے اڈے نابود، نائٹ کلب بند، شراب خانے مقفل، ناچ نغمہ نہیں، فحاشی نہیں، عیاشی نہیں۔ غالب گمان یہی تھا کہ انسان بدل گیا، کردار سنبھل گیا، دنیا سنور گئی، انسانیت کا سر فخر سے پھر اونچا ہو گیا۔ اب سینہ کائنات میں خدا ترسی کی پُروائیاں چلیں گی مگر وائے افسوس صد افسوس! ایں خیال است و محال است وجنوں
اے مہربان خدا!
آپ واحد مہربان ذات، رحمن ورحیم، ہر فرد بشر کا ہمددر، ہر ملک وقوم کا رکھوالا، نوعِ انسانی کا اکیلا غمگسار۔ آپ کی بے پایاں محبت کے سامنے ماں کا غیر مشروط پیار ہیچ، آپ کی رحمتوں کا سایہ زمین وزماں پر تاقیام قیامت دراز، آپ خیر ہی خیر، پیار ہی پیار، تبریک ہی تبریک، ہر پستی وبلندی پر صرف آپ ہی کا راج، آپ ہی قادرِ مطلق، عادل ومنصف، جہاں گیر وجہاں نگر، جن وانس کے فقط آپ ہی سردار ۔۔۔
میں اس دربارِ خداوندی میں بدیں الفاظ فریاد وفغان کرنے کی سوچ رہا تھا: اے رب ذوالجلال والاکرام! حشرات الارض میں ایک ذرہ بے نشان ذات کی حیثیت سے آپ کے حضور ملتجی ہوں: آپ کے اذنِ مقدس کا مطیع ہوں، آپ کے احکامات وفرامین کا ادنیٰ تابع دار ہوں، جانتا ہوں انسانوں کے ساتھ آپ کی رحمتیں، آپ کی شفقتیں، آپ کی محبتیں ناپنے کا کوئی پیمانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ چونکہ دنیائے انسانیت اپنی ڈگر سے ہٹ گئی تھی اس لیے آپ نے میری شکل میں اپنی بے آواز لاٹھی سے دنیا کو ہانک کر واپس اپنی اصل کی طرف پلٹ آنے کا مبارک موقع فراہم کیا۔ قسم آپ کے عزت کی! مجھے آپ نے قطعی اپنی حسین دنیا برباد کرنے کے لیے نہیں بھیجا، صرف انسانوں کی معمولی کان کھنچائی کا کام سونپا ۔ یہ کان کھنچائی آپ کی سنت کے عین مطابق ہے۔اس میں انسان کے لیے سدھرنے کا پیغام چھپا ہے، گر کر سنبھلنے کا اشارہ ہے۔
میں تعمیلِ حکم میں سرنگوں تمام اقوام، تمام افراد کے پاس پہنچا، ڈر کا پیام بر بن کر نہیں اصلاح کا فرستادہ بن کر انہیں جگانے، جبریہ طاقتوں کا نشہ اُتارنے، دستورِ انسانیت کی ترویج کرنے، حفظانِ صحت کی طرف نظر التفات پھیرنے، طبی تحقیقات کی نئی جہتیں کھلوانے، مرے ہوئے ضمیروں کو سرنو زندہ کرنے، حاکم ومحکوم کو احساس ذمہ داری دلانے۔ مقصد صرف یہ کہ انسانی دنیا اپنا بھولا ہوا درسِ وحدانیت یاد کرے، عالمی برائیاں عالمی بھلائیوں سے بدل جائیں، دھرتی پر ایک نیا انسان جنم لے، اس کے نئے صبح وشام ہوں۔۔۔۔ مگر آہ! یہاں آکر دیکھا کہ خطرے کا اَلارم بجنے کے باوجود اُلٹی ہی گنگا بہی جا رہی ہے، ہدایت طلبی سے کسی غالب قوم کو غرض نہیں، اصلاح یافتہ ہونے کی طاقتور غنڈوں کو چٹی ہی نہیں۔ یہاں دو مختلف دنیائیں آباد ہیں، ایک دنیا میں مظلوم اور مغلوب ومعتوب انسان بستے ہیں جو بے نوائی کی مار کھاتے ہیں، غربت کی ٹھوکریں برداشت کرتے ہیں، استحصال کے چابک سینوں پر کھاتے ہیں۔ دوسری دنیا منافرتوں کے نامی گرامی تاجروں کی ہے جو تخریب کاریوں کے سیاسی داتا ہیں، جو اپنے چہیتے امیروں کی پیالہ برداری کرتے ہیں اور غریبوں کو آپس میں دست وگریباں کیے رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خُو چھوڑی نہ وضع۔
اے علیم وخبیر خدائے کریم! آپ سب جانتے ہیں۔ یہ افغانستان دیکھیے۔ میں اپنے ہلاکت خیز بال وپر یہاں پھیلا رہا تھا، لوگ توبہ واستغفار میں ڈوبنے کی بجائے یہاں سنگ دلی کی حدیں پار کر نے پر تُل گئے، پہلے بندوق کی گھن گرج میں ایک گرودوارے میں پوجا پاٹھ میں مشغول لوگوں کی لاشیں گرائیں، پھر ایک بچہ ہسپتال میں اُن نوزائیدہ معصومین تک کا قتل عام کیا جن کا قصور یہ تھا کہ وہ دنیا میں آنکھ کھول چکے تھے۔ اگر یہ بچے کسی جنگل میں کسی وحشی جانور سے جنے گئے ہوتے تو شاید آج زندہ ہوتے۔ یہ امریکہ ہے، جمہوریت وانسانی حقوق کا نام نہاد محافظ، جہاں میرا پیغامِ اجل اب تک ایک لاکھ لوگوں کو زندہ نگل چکا ہے، لاکھوں لوگ ہسپتالوں میں بھرتی ہوکر انتظار کر رہے ہیں کہ کب اُن کا جنازہ اٹھے۔ وہاں کسی کو ندامت ہے نہ پچھتاوا۔ نسل پرستی کی مہلک وبا میں مبتلا ایک پولیس افسر نے دن دھاڑے سیاہ چمڑی والے ایک شخص کو نو منٹ تک اپنے گھٹنوں کے نیچے دبوچ کر مار ڈالا تاکہ اس کے اندر کے حیوان کو خونِ ناحق سے تشفی ہو۔ اس پر امریکہ اتنا برافروختہ ہوا کہ صدر کو قصرِ ابیض کے تہ خانے میں جا کر چھپنا پڑا۔ یہ امریکہ کا دُم چھلا اسرائیل ہے جو میری تباہ کارانہ پیش قدمی دیکھ کر اپنے ناقابل معافی گناہوں اور جرائم سے باز آنے کے بجائے فلسطین کے مغربی کنارے پر للچائی ہوئی بد نیت نظریں گاڑے ہوا ہے۔ یہ انڈیا ہے جہاں حکم رانوں اور ان کے تنخواہ دار ڈھنڈورچیوں سے کسی خیر کی توقع ہی نہیں، ان لوگوں نے اپنی سرشت اور خصلت کے عین مطابق پہلے مجھے مسلمان جتلا کر بیس کروڑ مسلمانوں کی بدنامی، کردار کشی، معاشی مقاطعے اور طرح طرح کے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے تاکہ مسلم اقلیت کا جینا دوبھر کیا جائے، پھر غریب و بے آسرا کروڑوں مزدوروں کو کسمپرسی کی حالت میں بے یارو مددگار چھوڑا، ان کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر آسمان کا کلیجہ بھی پھٹ پڑا ہوگا۔ اُلٹی سوچ کا غلبہ اتنا کہ راشن کی فراہمی کے برعکس شراب کی دوکانیں کھول دی گئیں، مطلب خوفِ الہیٰ اور معاشرتی اخلاقیات کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جہاں غرباء سے مجھے بد دعائیں، وہاں ذخیرہ اندوزوں منافع خوروں سے دعائیں ملیں، راشی رنگروٹوں کے وارے نیارے ہوئے تو مجھے سلامیاں دیں۔
اے رب کریم! میں انسانوں کے لیے سوطِ عذاب تھا مگر اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ سے عبر تیں اور نصیحتیں حاصل کرنے کی بجائے انسان گمراہیوں، سرکشیوں اور بددماغیوں کے ادھیڑ بن میں دربدر پھر رہا ہے۔ شاید حضرت انسان کو سنبھلنے سدھرنے کے لیے کسی اور زیادہ شدید زلزلے، زوردار اصلاحی دھچکے کا انتظار ہے ؎
ہر حرف مرا کربِ مسلسل کی گھٹن میں
کرتا ہے میرے خانہ دل گیر کا ماتم
نوٹ: ش م احمد وادی کشمیر کے آزاد صحافی ہیں


 

یہاں دو مختلف دنیائیں آباد ہیں، ایک دنیا میں مظلوم اور مغلوب ومعتوب انسان بستے ہیں جو بے نوائی کی مار کھاتے ہیں، غربت کی ٹھوکریں برداشت کرتے ہیں، استحصال کے چابک سینوں پر کھاتے ہیں۔ دوسری دنیا منافرتوں کے نامی گرامی تاجروں کی ہے جو تخریب کاریوں کے سیاسی داتا ہیں، جو اپنے چہیتے امیروں کی پیالہ برداری کرتے ہیں اور غریبوں کو آپس میں دست وگریباں کیے رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خُو چھوڑی نہ وضع۔