کورونا وائرس سے پیدا شدہ تعلیمی بحران

درس واکتساب کے متبادل راستے

فاروق طاہر، حیدرآباد

کورونا وبائی مرض کے باعث زندگی کے تمام شعبےحد درجہ متاثر ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا تعلیم کا شعبہ ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے پیدا شدہ اندیشوں اور خدشات کے اطمینان بخش جواب آج بھی سائنسی علوم کے ماہرین کے پاس موجود نہیں ہیں۔ اندیشوں ،خدشات اور مفروضات کے نرغے میں پھنسے انسانی ذہنوں نے اس کا واحد اور موثر حل لاک ڈاؤن جان کر دنیا بھر میں کاروبار زندگی پر لگام کس دی اور یک لخت ساری دنیا کو ساکت و جامد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے باوجود وباء کے پھیلاؤ میں آج بھی کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے۔ اب لاک ڈاؤن میں نرمی کی جانب حکومت کی پیش قدمی سے مزید اندیشے سر اٹھا نے لگے ہیں۔ وباء سے پیدا شدہ تعلیمی بحران وخلاء نے جہاں دنیا بھر کے طلبہ کو نا قابل تلافی تعلیمی نقصان سے دو چار کر دیا ہے وہیں تعلیمی اداروں اور اس سے منسلک افراد بھی غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کی وجہ سے متعدد مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ مرض کی شدت اور خوف سے نہ صرف اسکولوں کو بند کر دیا گیا بلکہ طلبہ کو اپنے گھروں تک محدود رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ موجودہ صورت حال میں والدین اور بچوں کا جذباتی ونفسیاتی ہیجان میں مبتلاء ہو جانا ایک فطری عمل ہے ملک میں اسکولوں اور تعلیمی ادارہ جات کی طویل امکانی مسدودی کے پیش نظر تعلیمی نظام میں تیز رفتار تبدیلیوں کو رواج دینا بے حد ضروری ہو چکا ہے تاکہ طلبہ کو درس واکتساب میں مشغول رکھا جا سکے اور ان کے قیمتی اوقات کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ بیشتر اسکولوں اور تعلیمی ادارہ جات نے کشادگی میں تاخیر کو محسوس کرتے ہوئے اور طلبہ کے تعلیمی نقصان کو کم سے کم کرنے کی نیت سے آن لائن طریقہ تعلیم کے ذریعہ درس وتدریس کی سرگرمیوں کو انجام دینا شروع کر دیا ہے۔ مزید متبادل ذرائع و وسائل پرغور وفکر کر رہے ہیں۔ آج کل پڑھنے اور پڑھانے والوں کی زبانوں پر E-Learning، Virtual Learning، Distance Education، Digital Learning اور Supplemental Learning جیسی اصطلاحات رواں ہیں۔ یہ بات جہاں خوش آئند ہے کہ ملک کے بالغ ذہن افراد حالات سے شاکی اور منتظر فردا رہنے کے بجائے مشکل اور غیر یقینی حالات کا بھر پور مقابلہ اور اپنی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں کے مطابق بنانے کے عزم وحوصلے کے ساتھ سینہ سپر ہیں وہیں ملک بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی مسدودی کے بعد متعارف کیا جانے والا ای لرننگ یا آن لائن ایجوکیشن سسٹم ٹیکنالوجی سہولتوں کی کمی یا فقدان کے باعث تعلیم اداروں اور طلبہ کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے اور سہولتوں کی کمی یا فقدان اور غیر مناسب منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ ناقابل عمل اور ناکامی سے دوچار ہو رہا ہے۔ طلبہ، اولیائے طلبہ اور ماہرین تعلیم بھی غیر روایتی آن لائن ذریعہ تعلیم پر اپنی ناراضگی اندیشوں اور خدشات کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں کہ یہ سسٹم تعلیمی ضروریات کی تکمیل سے قاصر ہے۔ اس مضمون میں انہی اندیشوں اور حالات کے درمیان آن لائن طرز تعلیم کی اہمیت، افادیت اور اس کے نقصانات ومضمرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی قسط میں اس کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ بعد کے مضمون میں اس کی قباحتوں، نقصانات اور مضمرات پر روشنی ڈالی جائے گی۔
آن لائن طریقہ آموزش (سیکھنا) آج کیوں اہم تصور کیا جا رہا ہےکورونا وائرس کے باعث نہ صرف ہمارے ملک بلکہ دنیا کا تعلیمی نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ابنائے وطن کے لیے ہنگامی حالات کا سامنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہنگامی حالات کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اپنے مسائل کا حل کسی نہ کسی طرح نکال ہی لیتے ہیں لیکن اس بارے انہیں مختلف حالات ومسائل کا سامنا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کے لیے لمحہ آزمائش بن کر آئے ہیں۔ موجودہ ناگہانی صورت حال نے ہمارے ترقی کے دعووں کی قلعی کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ اب ہمیں ٹکنالوجی اور عصری تقاضوں کے مطابق اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ملک کے ایسے تعلیمی ادارے خاص طور پر اسکولس جو ڈیجیٹل ایجوکیشن سے دولت کی بڑی سرمایہ کاری اور محنت شاقہ کی وجہ سے دوری بنائے ہوئے تھے یا پیچھے رہ گئے تھے اب وہ تعلیمی تسلسل کی برقراری کے لیے متبادل طریقوں کی تلاش وترتیب میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بیشتر تعلیمی ادارے اس وقت گوگل کلاس روم، مائیکروسافٹ ٹیم، زوم، فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ جیسے مختلف وسائل کو آن لائن طریقہ تعلیم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مذکورہ وسائل وٹکنالوجی نہ صرف جدید بلکہ مفید بھی ہے۔
طلبہ کا روزانہ اسکول آنا جانا، روزمرہ کی اسکولی سرگرمیاں، درس واکتساب، ہوم ورک، نصابی وہم نصابی سرگرمیاں، تفریحی سرگرمیوں سے آراستہ اکتساب ومطالعاتی سرگرمیاں وغیرہ جو طالب علم کی زندگی کے معمولات کا اٹوٹ حصہ ہیں لیکن اب آن لائن طریقہ تعلیم کی وجہ سے یہ بری طرح مجروح ہوکر رہ گئی ہیں۔ موجودہ صورت حال نے جہاں بچوں کے مطالعہ کے اوقات، کھیل وتفریح کے اوقات اور طلبہ کے شخصی اوقات کو خلط ملط کر دیا ہے وہیں حکومت کے متعین کردہ تعلیمی قواعد، اصول وضوابط کی پاسداری بھی ناممکن بن گئی ہے۔ ان حالات میں جب کہ بچوں کی رسائی اسکول اور کمرہ جماعت تک تقریباً نا ممکن ہوگئی ہے، مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم کے متبادل طریقوں پر عمل پیرا ہوں جس سے بچوں کا تعلیمی نقصان کم سے کم ہو اور تعلیمی عمل اور علمی معیار بھی کسی طور متاثر نہ ہونے پائے۔
کمپیوٹر یا اسمارٹ موبائل فون کے اسکرین پر متحرک تصویر و آواز پر مبنی تعلیم جسے ہم آن لائن یا ورچول لرننگ (مجازی اکتساب) سے تعبیر کرتے ہیں کی اہمیت موجودہ صورت حال میں بہت بڑھ گئی ہے۔ورچول لرننگ (مجازی اکتساب) میں بچوں کے روزمرہ تعلیمی معمولات پر مبنی نظام الاوقات ونظام العمل کی تیاری کو خاص اہمیت حاصل ہے بالخصوص سارا دن گھر پر گزار نے پر مجبور بچے کے لیے جو کبھی ایسے معمولات کے عادی نہیں رہے ہیں۔ورچول لرننگ کے دوران بچوں کو درس واکتساب میں مصروف رکھنے میں منتخب تعلیمی نصاب اور سرگرمیوں پر مبنی نظام العمل مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ورچول لرننگ کے نظم العمل پر عمل آوری اور تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کا سارا دار ومدار والدین کے ڈسپلن اور نظم وضبط پر منحصر ہے۔ بچوں میں ڈسپلن کی پاسداری وعمل آوری کا جویا والدین کے عادات واطوار سے ازخود پیدا ہوتا ہے۔ ورچول لرننگ کے لیے والدین کو اپنے گھر کے کسی ایک گوشے یا کمرے کو خاص طور پر فلپ کلاس روم کی ہیئت دینا ضروری ہوتا ہے۔ مقررہ وقت پر ترتیب شدہ اس علامتی کمرہ جماعت میں بچوں کو با قاعدگی سے بٹھا کر تعلیمی واکتسابی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ آن لائن لرننگ کی کامیابی کی تمام تر ذمہ داری والدین کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ کس طرح وہ اپنے بچوں کو اوقات کی پابندی کرنے اور دلچسپی وانہماک سے اکتسابی عمل کو جاری رکھنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جب کہ تعلیمی اداروں کی مسدودی سے حقیقی درس واکتساب کا عمل تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ سخت حالات، سخت اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں۔موجود حالات میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہمیں نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ حالات کے پیش نظر یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ اساتذہ کی موجودگی والا کمرہ جماعت کا محدود درس واکتساب کا ماڈل ہی اب واحد ولازم ذریعہ تعلیم نہیں رہا۔کورونا وائرس جہاں پوری دنیا کے لیے خطرہ بن کر ابھرا ہے وہیں اس نے ہم اساتذہ اور تعلیم سے وابستہ افراد کی صلاحیتوں کو بھی للکارا ہے کہ ہم کیسے مشکل حالات پر قابو پاتے ہوئے بچوں کو ان کے والدین کی آرزوؤں کی تکمیل اور تعلیمی توقعات ومقاصد کے حصول میں مدد گار معاون بن سکتے ہیں اور کس طرح ان کی علمی واکتسابی تشنگی کو دور کر سکتے ہیں۔ بے شک ہمارے پاس اعلیٰ معیار کی ٹکنالوجی، قوت، صلاحیت موجود نہیں ہے لیکن درس واکتساب، پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے کا طاقتور اور لازوال عزم وحوصلہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں ڈیجیٹل وسائل وذرائع کا محدود علم رکھنے والے والدین تک اساتذہ اور اسکولوں کی رسائی حاصل کرنے کی بھر پور سعی وکوشش لائق ستائش ہے۔ طلبہ آن لائن کورسز اور اسکول کی جانب سے فراہم کردہ آن لائن کلاسس کے ذریعے اپنے ذوقِ اکتساب کی تکمیل میں منہمک ہیں بلکہ Ed-Tech اور ای لرننگ ویب سائٹس کے فراہم کردہ آئن لائن کورسز کے ذریعہ وہ اپنے پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کو معمول کے مطابق انجام دے سکتے ہیں۔ بہرحال ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ہر اسکول کے مسائل و وسائل دوسرے اسکولوں سے مختلف وجداگانہ ہوتے ہیں۔ کورونا وبائی مرض کی وجہ سے پائے جانے والے خوف کے درمیان اگر اسکولوں کی کشادگی عمل میں آتی ہے تو سماجی دوری اور حفظان صحت کے طریقوں کی مجوزہ حکمت عملیوں پر عمل آوری یقیناً ناممکن امر ہے۔ ان حالات میں آن لائن تعلیمی ماحول اکتساب کے بے مثال مواقع فراہم کرتا ہے خاص طور پر ان لوگوں کو بھی جو مختلف عوامل وحالات کی وجہ سے تعلیم تک محدود رسائی ہی پیدا کر پائے تھے۔ موجودہ حالات اساتذہ نیز تعلیمی کاز سے وابستہ افراد سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ جامع، متحرک نصاب وطریقہ تعلیم کو وضع کرتے ہوئے اعلیٰ معیار ومثالیت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
آن لائن اکتساب (سیکھنے ) کے فوائد
1۔ آسان رسائی
ای لرننگ اکتسابی طریقہ کار کے لیے عمدہ رفتار (speed) سے چلنے والا کمپیوٹر، ٹیبلٹ یااسمارٹ فون درکار ہے جو اچھی رفتار کے انٹرنیٹ کنکشن سے مربوط ہو۔ آن لائن کلاسز میں، شرکت اتنی ہی آسان ہے جتنا آسان کسی کمپیوٹر، ٹیبلٹ یا موبائل فون کو کھولنا۔
2۔ بجٹ دوست (کفایتی)
متعدد کورسز اور سیکھنے کے وسائل تک مفت رسائی دستیاب ہے۔ آن لائن لرننگ، لاک ڈاؤن کے دوران فیس کی ادائیگی یا کسی بھی مالی مسائل سے بالکل نجات فراہم کرتی ہے۔ اگر یہ مفت میں دستیاب نہ بھی ہوں تب بھی اس کی فیس بہ نسبت روایتی کمرہ جماعت والی تدریس کی فیس سے کم واقع ہوئی ہے کیونکہ ورچول لرننگ کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
3۔ کورس کے اوقات اور رفتارکو متعین کرنے کا اختیار
طلبہ اپنی ذمہ داریوں اور افعال کے مکمل انجام دہی کے ساتھ اپنی آن لائن کلاسس ( ای لرننگ) کے اوقات اور اکتساب کی رفتار کو اپنے طور پر متعین کرنے کے مجاز ہوتے ہیں بہ الفاظ دیگر طلبہ اپنے اکتساب عمل کو اپنی سہولت کے مطابق اپنے روز مرہ کی زندگی کے امور کو انجام دیتے ہوئے اپنے منصوبے اور پلان کے مطابق پورا کر سکتے ہیں۔ آن لائن طریقہ تعلیم میں طالب علم اپنے اہداف کی تکمیل تک اکتساب کے عمل کوآن لائن لرننگ کے ذریعہ جاری رکھ سکتا ہے اہداف کی حصول اور اکتساب کے لیے اس کے پاس حسب منشاء وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ کمرہ جماعت میں جہاں اکتسابی اہداف کے حصول کے لیے وقت متعین ہوتا ہے، درس اور اوقات درس بھی اس کی مرضی ومنشاء کے مطابق نہیں ہوتے، آن لائن (ای لرننگ) ان دو امور سے مکتسب (لرنر) کو نجات فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قسم کے دباؤ اور تناؤ کا شکار نہیں ہوتا۔
4۔ 24×7 دستیاب
اساتذہ اور طلبہ کسی بھی وقت دن یا رات یعنی وقت کے تعین اور قید کے بغیر مطالعاتی مواد کی فراہمی، شکوک وشبہات کے ازالے یا ٹسٹ وجانچ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی سہولت کے مطابق بات چیت کر سکتے ہیں۔ رات اور دن کے کسی بھی وقت میں تمام طلبہ کی سہولت وآسانی کے مطابق ان امور کو انجام دیا جانا ممکن ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان جھجھک، تذبذب اورخوف کی کیفیت نہیں پائی جاتی جو کہ عموماً روایتی کمرہ جماعت کا خاصہ ہے۔بلاکسی خو ف وتردد کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان گفت وشنید اور درس واکتساب کا عمل انجام پاتا ہے جس کے وجہ سے ان کے درمیان خوف وتسلط سے پاک تعلقات استوار ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔
5۔ مواد کو انفرادی ضروریات کے مطابق تشکیل دیا جا سکتا ہے
ای- لرننگ میں طلبہ کو تدریسی، اکتسابی اور نصابی مواد کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق ڈھالنے کی سہولت دستیاب رہتی ہے۔ سیکھنے کے ماحول، اکتسابی مواد (سیکھنے کا مواد) استاد (جس کی حیثیت ای لرننگ میں ایک سہولت کار (Facilitator کی ہوتی ہے) اور طالب علم کے درمیان باہمی تعامل، معلومات ونظریات کی ترسیل مکتسب (Learner) کی سہولت اور ترجیحات کے مطابق طئے کرنے کی سہولتیں دستیاب رہتی ہیں۔ یہ سہولتیں طلبہ میں سیکھنے کے عمل کو پرکیف اور دلچسپ بنانے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
6۔ سفر (آنے جانے) کی جھنجھٹ سے نجات
روایتی طریقہ تعلیم کے برعکس ای لرننگ طریقہ تعلیم میں طلبہ حصول علم کے لیے سفری مشقت اور دقتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ جہاں سفر کی دقت اور مشکلات سے ان کی گلو خلاصی ہو جاتی ہے وہیں ان کے قیمتی وقت اور پیسوں کی بچت بھی ہوتی ہے۔ گھر سے یا کسی بھی مقام سے اپنی اکتسابی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے طلبہ جسمانی تھکاوٹ سے بچ جاتے ہیں۔ اپنے سفر یا اسکول آنے جانے کے وقت کو مزید مطالعہ واکتساب پر صرف کر سکتے ہیں۔ آنے جانے کی زحمت سے بچنے کے علاوہ ای لرننگ سے وقت، پیسہ اور طلبہ کی توانائی بھی محفوظ ہوجاتی ہے۔
7۔ لچکدار
آن لائن کورسز طلبہ کو کسی بھی وقت، کہیں بھی اپنی مرضی کے مطابق تعلیم واکتساب کی تکمیل کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ طلبہ اپنی اکتسابی سرگرمیوں کو اپنے وقت اور مقام کے مطابق بغیر کسی دقت وپریشانی کے اپنی مخصوص منصوبہ بندی کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔ یہ اکتسابی لچک روایتی کمرہ جماعت وطریقہ تعلیم میں مفقود ہے۔ ای لرننگ طریقہ تعلیم میں طلبہ اپنی سہولت کے مطابق اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دینے کے مجاز ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ تعلیم سیکھنے والوں (لرنر) کو نفس مضمون کے انجذاب انہماک، مشق اور تحقیق کے وافر مواقع و وقت فراہم کرتا ہے۔
8۔ ارتکاز وانہماک کے لیے آرام دہ اور پرسکون ماحول.
آن لائن کلاسوں میں طلبہ کو روایتی کمرہ جماعت کے برعکس اپنی پسند اور مرضی کے مطابق آرام دہ اور پرسکون ماحول کی سہولت حاصل رہتی ہے۔ کیونکہ اپنی کلاس کے لیے مقام اور جگہ کا ا نتخاب وہ خود کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اردگرد شور وغل اور انہماک وتوجہ میں خلل پیدا کرنے والے عناصر نہیں پائے جاتے جس کی وجہ سے وہ اپنی پوری توجہ اور ذہنی ارتکاز اکتساب پر کامیابی سے مبذول کرسکتا ہے۔ بہتر سماعت کے لیے یا پھر آس پاس کے شور وغل سے بچنے کے لیے وہ ہیڈ فون کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ کیونکہ درس (بات چیت) آن لائن ہوتا ہے یعنی آسانی سے موضوع سے بھٹکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کر سکتے ہیں جب وہ تر وتازہ ہوں۔ توجہ وانہماک کے لیے جو طلبہ جد وجہد کرتے ہیں آن لائن کلاسس ان کے مسئلہ کا ایک بہترین حل ثابت ہو سکتے ہیں۔
9۔ وافر انفرادی توجہ
ہر طالب علم کے ساتھ آن لائن بات چیت کرنے کا اساتذہ کو موقع واختیار حاصل رہتا ہے اس کے علاوہ کلاس کے بعد بھی راست طور پر ہر طالب علم کو مخصوص امور کی ہدایات، سوالات ومسائل کے حل اور رہنمائی کے استاد کو مواقع دستیاب رہتے ہیں۔روایتی طریقہ تعلیم کے برعکس ای لرننگ میں اساتذہ اپنے پیریڈ کو معین وقت پر ختم کرنے کے پابند نہیں ہوتے۔ نوٹ بکس چیک کرنے، سفری دشواریوں اور دیگر دباؤ وتناؤ سے بھی انہیں نجات حاصل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر طالب علم کی اکتسابی وتعلیمی ضروریات کا خیال رکھنے کے بہتر موقف میں ہوتے ہیں۔
10۔ معاشرتی فاصلے (سماجی دوری) کی پاسداری
سماجی دوری (معاشرتی دوری) اور خود کو دوسروں سے الگ تھلک رکھنے کے اصول وضوابط کے درمیان اگر طلبہ اسکول جانے لگ جائیں تو مذکورہ حفاظتی واحتیاطی تدابیر پر موثر طریقے سے عمل آوری ناممکن ہو جائے گی۔ طلبہ کو کھیلنے یا دیگر سرگرمیوںں کی انجام دہی کے دوران ایک دوسروں کو چھونے سے روکنا بہت ہی مشکل ہوگا جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ آن لائن کلاسز طلبہ کو ان کے گھروں تک محدود رکھتے ہوئے آرام دہ، محفوظ ماحول میں معیاری تعلیم فراہم کرسکتے ہیں جس سے نہ صرف طلبہ کا مستقبل بلکہ ان کی جان بھی محفوظ رہے گی اور وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں بھی ہمیں مدد ملے گی۔
***


 

یہ بات جہاں خوش آئند ہے کہ ملک کے بالغ ذہن افراد حالات سے شاکی اور منتظر فردا رہنے کے بجائے مشکل اور غیر یقینی حالات کا بھر پور مقابلہ اور اپنی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں کے مطابق بنانے کے عزم وحوصلے کے ساتھ سینہ سپر ہیں وہیں ملک بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی مسدودی کے بعد متعارف کیا جانے والا ای لرننگ یا آن لائن ایجوکیشن سسٹم ٹکنالوجی سہولتوں کی کمی یا فقدان کے باعث تعلیم اداروں اور طلبہ کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے