کورونا سے تحفظ کے لیے ’فل باڈی سینیٹائزر مشین‘ تیار

بجنور کے مستقیم نامی مسلم نوجوان کا کارنامہ

اس وقت ساری دنیا میں کورونا کی دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ ایسے حالات میں بعض لوگ اس موذی مرض کے خلاف محاذِ جنگ پر پیش پیش ہیں۔ ان میں سے ایک بجنور کے مستری مستقیم بھی ہیں۔ جنہوں نے اس موذی مرض سے بچنے کے لیے مکمل باڈی سینیٹائزر مشین بنایا ہے۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ اس کہاوت کو ایک بار پھر بجنور کے ایک عام انسان نے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ یہاں کے رہائشی مستری مستقیم نے جب ٹیلی ویژن پر سینیٹائزر کا لفظ سنا تو ان کے اندر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ پھر وہ میڈیکل اسٹور پہنچے وہاں انہوں نے سینیٹائزر کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ پوری تفصیلات معلوم کرنے کے بعد مستری مستقیم نے گھر بیٹھے خود ایک سینیٹائزر مشین تیار کر دی۔ مستقیم کے اس کارنامے کی تعریف اب مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ انتظامیہ بھی کر رہی ہے۔
مستقیم نے جو سینیٹائزر مشین بنائی ہے وہ محض 15 سیکنڈ میں کسی بھی شخص یا موٹر سائیکل دونوں کو پوری طرح سینیٹائز کر دیتی ہے۔ اس کے لیے صرف ایک بار اس مشین کے اندر داخل ہونا ہوتا ہے۔ مستقیم کے اس کارنامہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں عام آدمی بھی کس طرح کمر کس چکا ہے اور وہ صرف حکومت کے اوپر منحصر نہیں رہنا چاہتا۔خاص بات یہ ہے کہ 26 سالہ مستقیم کے پاس مشین بنانے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ پڑوسی ابرار احمد نے ان کی مالی مدد کی اور پھر ایک ایسی مشین وجود میں آ گئی جس کو دیکھنے کے لیے علاقے میں لوگوں کی بھیڑ بھی جمع ہے اور مقامی انتظامیہ بھی مستقیم کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ پا رہی۔ ابرار احمد ایک سماجی کارکن اور ٹھیکہ دار ہیں۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ مستقیم سینیٹائزر مشین بنانے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن انہیں مالی پریشانی کا سامنا ہے تو انہوں نے مستقیم کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔موذی کورونا وائرس کے خلاف جاری لڑائی کے درمیان ابرار احمد کی مدد سے مستقیم نے ایک فل باڈی سینیٹائزنگ مشین بنا کر سبھی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مشین سنسر کے ذریعہ سینیٹائزیشن کا عمل پورا کرتی ہے۔ مشین کے اندر رہ کر کوئی بھی شخص صرف 15 سیکنڈ میں ہی سینیٹائز ہو جائے گا اور اس کے کپڑوں سے لے کر جوتے تک سینیٹائز ہو جائیں گیں۔ یعنی اس میں اگر جراثیم موجود ہوں تو وہ ختم ہو جائیں گے۔
مستقیم نے بتایا کہ انہوں نے ٹی وی اور سوشل میڈیا میں سینیٹائزر لفظ کو کئی بار سنا اور اس کے بارے میں وہ معلومات حاصل کرنے ایک میڈیکل اسٹور پر پہنچے، وہاں انہیں بتایا گیا سینیٹائزر کو ہاتھ پر لگا لینے سے جراثیم مر جائیں گے۔ لیکن مستقیم نے سوچا کہ صرف ہاتھ کو نہیں بلکہ پورے جسم کو سینیٹائز کیا جانا چاہیے تبھی کورونا کے خلاف جنگ میں فتح مل سکے گی۔ اس خیال کے ساتھ ہی مستقیم نے فل باڈی سینیٹائزیشن مشین بنانے کا ارادہ کر لیا۔
مستقیم کے کارنامے کو دیکھتے ہوئے بجنور کے رہائشی خورشید منصوری کا کہنا ہے کہ "ضلع میں پہلی بار کسی نے عوام کو راحت پہنچانے کے لیے اس طرح کا کام کیا ہے۔ یہ ایک سکون پہنچانے والی خبر ہے۔ حکومت کی کوششوں کے سامنے یہ بھلے ہی بہت چھوٹی کاوش ہے، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام انسان بھی اس وقت کورونا وائرس کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ لڑائی خلوصِ نیت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔”
بہر حال، لڑاپورہ گاؤں میں رہنے والے مستقیم کی کاوش کی ہر کوئی تعریف کر رہا ہے۔ اس کو مدد دینے والے ابرار احمد کی بھی خوب تعریف ہو رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مستقیم نے ریاضی سبجیکٹ سے بی ایس سی کیا ہے لیکن ان کو ٹیکنالوجی سے زیادہ دلچسپی ہے۔ شہر میں انہوں نے اپنی ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی ہے۔ ایک چھوٹی سی دکان چلانے والے شخص نے اپنی صلاحیت اور عقل کا بہترین استعمال کرتے ہوئے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس کی ہر طرف سے تعریف ہو رہی ہے۔
(بشکریہ : ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ)
***

گھر بیٹھے مستقیم نے جو سینیٹائزر مشین تیار کی ہے وہ محض 15 سیکنڈ میں کسی بھی شخص کے مکمل جسم کو پوری طرح سینیٹائز کر دیتی ہے۔ اگر کوئی موٹر سائیکل کے ساتھ مشین کے اندر جاتا ہے تو موٹر سائیکل بھی سینیٹائز ہو جائے گی۔