اور جب فاصلے سمٹ گئے

رضیہ بیگم کا بیٹے کی خاطر 1400کلو میٹرتنہا سفر تلنگانہ کی خاتون آہن کا خواتین کے نام بہادری وحوصلہ مندی کا پیام

مصعب عبدالرحمن، حیدرآباد

حکومت کی طرف سے عائد کردہ، اِس غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن میں عوام کو، ہمیشہ کی طرح، منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لاک ڈاون سے نہ صرف تاجر اور انکے کاروبار متاثر ہوئے ہیں بلکہ طلباء اور مزدور پیشہ افراد بھی اپنے وطن یا ریاستوں کے باہر پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب سے دور ہی وقت کاٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ انتہائی بدنظم، بلا پیشگی اطلاع اور ضروری اقدامات و حکمت عملی کے بغیر لیا گیا فیصلہ، عالمی پروٹوکول کے عین مخالف ہے۔اِن حالات میں ایک واقعہ جو سب کی توجہ کا مرکز بنا، ایک مسلم خاتون محترمہ رضیہ بیگم کا ہے جو بودھن، نظام آباد کی مکین ہے۔ انہوں نے اپنے محبوب بیٹے کو گھر واپس لانے کی جتن میں گوگل کی مدد سے 1400 کلومیٹر کا سفر طے کیا اور نلور، آندھرا پردیش پہنچیں۔ اِس واقعہ کا ذکر محض قصّہ گوئی کی طرح کردوں تو امّاں رضیہ کے عزائم کی توہین ہوگی۔ جس ہمت کے ساتھ انہوں نے تن تنہا، میلوں کا سفر طے کرنے کا ڈھارس باندھا اور پھر وقت کے فرعونوں کی پروا کیے بغیر اپنی اسلامی شناخت میں ‘ملبوس نکل پڑی، وہ قابلِ ذکر ہے۔
جب محترمہ کے کچھ انٹرویوز سننے کا اتفاق ہوا تو انکے عزم و حوصلے کے راز افشاں ہوئے۔ اندازہ ہوا کہ اُنکا توکل علی اللہ کا جذبہ ہی سب کچھ تھا۔ میرے دل کی گہرائیاں جذبات سے سرشار ہوگئی۔ انٹرویو کا ہر لفظ روح پرور ثابت ہورہا تھا۔ لیکن آہ، یہ جذبات زیادہ دیر تک میرا ساتھ نہ دیے۔ نہ جانے کیوں، کچھ باتیں میرے ذہن کو لرزا رہی تھی۔ وہ باتیں جو مجھے حقیقت کی طرف کھینچ رہی تھی: جو مجھے مغرب کی "حقوقِ نسواں تحریک” یا مشرق کی تین طلاق بل جیسے فریب "نجات دہندگان” کی یاد دلارہی تھی۔مسلم خواتین ایک عرصے سے مغربی تہذیب کے لیے آسان نشانہ بنی رہیں یا یہ کہ انکی آنکھ میں چبھتی رہیں۔ اور اگر یوں کہوں کہ ہماری خواتین و طالبات نے ’ثابت‘ کیا کہ اسلام نے انھیں وہ اختیارات دیئے ہیں جن پر آواز اٹھائی جاتی ہے، تو یہ نہ صرف توہین بلکہ عین غداری ہوگی۔ حق تو یہ ہے کہ انھوں نے اُن اورینٹلسٹس پر کاری ضرب لگائی اِس بات کو باور کراتے ہوئے کہ اصل آزادی تو انھیں اسلام ہی نے عطا کی ہے۔حال ہی میں سی اے اے کے امتیازی قانون کے خلاف جب مُلک پکار اٹھا تو اولین صف میں یہی خواتین و طالبات کھڑی نظر آئیں۔ آج کے دور کی بہترین بلکہ ایوارڈ یافتہ اساتذہ ہو یا پھر لاک ڈاؤن کے حالات میں بھوکوں کے ملجا کی حیثیت اختیار کی ہوئی، ہر میدان میں ہم کو عائشہ، لدیدہ، خالدہ، رضیہ، نکھت جیسے نام سننے مل ہی جاتے ہیں۔ اور نہ جانے کتنے ’عذرا بتول‘ ہونگے جو ابھی نگاہوں سے اوجھل ہی ہیں۔
آزادی کی صحیح تصویر اگر کھینچی جائے تو صحرائے عرب میں بربریت کے ہاتھ کاٹ کر اور محکومی کی زنجیریں توڑکر، عورت کو زندہ درگور کردیئے جانے سے بچاکر اس قدر بلند مقام تک پہنچایا گیا کہ جنت قدموں تلے رکھی گئی۔ اور یہ مشرقی یا مغربی تہذیب کا نہیں بلکہ اسلام کا کمال ہے۔ حضرتِ خدیجہ رضی اللہ عنہ سے بہترین مثال اور کس کی ہوسکتی ہے جوکہ ایک امیر تاجرہ ہونے کے ساتھ ساتھ حبیبِ خدا صلہ وسلمل کا ہر وقت سہارا ہوتیں۔ میدانِ احد کے مشکل ترین حالات میں اُم عمارہ کی دلیری اور جاںبازی کی ٹکر بھلا کون کرے؟ تاریخ ایسی ہی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور دشمن کی اہانت ہی سہی لیکن ہماری مائیں اور بہنیں اور ابھرکر آتی ہیں۔دوسری جانب، مغرب میں خواتین کی خودمختاری کے نام پر انکو محض ایک کھیل و تفریح کا ذریعہ بنالیا گیا اور آزادی،حقوق یا پھر مساوات کا فریب چڑھایا گیا۔ اور پھر میٹو-موومنٹ کے ذریعے اپنی ہی تحریکات کے فریب دوسروں کے سامنے عیاں کرلیتے ہیں، چاہے خود کتنے ہی اندھے کیوں نہ ہوں۔

اندازہ ہوا کہ اُنکا توکل علی اللہ کا جذبہ ہی سب کچھ تھا۔ میرے دل کی گہرائیاں جذبات سے سرشار ہوگئی۔ انٹرویو کا ہر لفظ روح پرور ثابت ہورہا تھا۔ لیکن آہ، یہ جذبات زیادہ دیر تک میرا ساتھ نہ دیے۔ نہ جانے کیوں، کچھ باتیں میرے ذہن کو لرزا رہی تھی۔ وہ باتیں جو مجھے حقیقت کی طرف کھینچ رہی تھی: جو مجھے مغرب کی "حقوقِ نسواں تحریک” یا مشرق کی تین طلاق بل جیسے فریب "نجات دہندگان” کی یاد دلارہی تھی۔مسلم خواتین ایک عرصے سے مغربی تہذیب کے لیے آسان نشانہ بنی رہیں یا یہ کہ انکی آنکھ میں چبھتی رہیں۔ اور اگر یوں کہوں کہ ہماری خواتین و طالبات نے ’ثابت‘ کیا کہ اسلام نے انھیں وہ اختیارات دیئے ہیں جن پر آواز اٹھائی جاتی ہے، تو یہ نہ صرف توہین بلکہ عین غداری ہوگی۔ حق تو یہ ہے کہ انھوں نے اُن اورینٹلسٹس پر کاری ضرب لگائی اِس بات کو باور کراتے ہوئے کہ اصل آزادی تو انھیں اسلام ہی نے عطا کی ہے۔حال ہی میں سی اے اے کے امتیازی قانون کے خلاف جب مُلک پکار اٹھا تو اولین صف میں یہی خواتین و طالبات کھڑی نظر آئیں۔ آج کے دور کی بہترین بلکہ ایوارڈ یافتہ اساتذہ ہو یا پھر لاک ڈاؤن کے حالات میں بھوکوں کے ملجا کی حیثیت اختیار کی ہوئی، ہر میدان میں ہم کو عائشہ، لدیدہ، خالدہ، رضیہ، نکھت جیسے نام سننے مل ہی جاتے ہیں۔ اور نہ جانے کتنے ’عذرا بتول‘ ہونگے جو ابھی نگاہوں سے اوجھل ہی ہیں۔