کورونا سے بھی تیز فرقہ پرستی کا وائرس!

حکومت کے لیےمرکزنظام الدین ناقص حکمرانی کو چھپانے کی ڈھال بن گیا مذہبی منافرت سےصحت عامہ اورتعلیم وروزگار کے مسائل مزید گہرے ہوں گے

ابھے کمار، دلی

آفت کے وقت اتحاد کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر ملک کی بد قسمتی دیکھیے کہ بحران کے ان لمحات میں بھی بھگوا طاقتیں عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے سے باز نہیں آ رہی ہیں۔نتیجتاًملک کودر پیش مصیبت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے کہ بھارت کے لوگ وبا کو بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔کیا یہ شر پسندی کسی نا سمجھی، سادہ لوحی یا غلط فہمی کا نتیجہ ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو افہام وتفہیم سے اس کو دور کیا جا سکتا تھا۔درحقیقت یہ تخریب کاری ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔بھگوا فرقہ پرست عناصر نے ہر وقت یہ ’ماسٹر اسٹروک کھیلاہے کہ جب ان کی کمیاں اور خامیاں منکشف ہونے لگیں اور عوام ان سے جواب طلب کرنے لگے تو انہوں نے پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ اس طرح بحث کو غلط سمت میں موڑ دیا۔یہ حکمت عملی انہوں نے حالیہ دہلی فسادات کے دوران بھی اپنائی تھی۔جب ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ پولیس اور انتظامیہ کھلے طور پر فرقہ پرستوں کی پشت پناہی کر رہی ہے اور اس کی وجہ سے حکومت سے سوال پوچھا جا رہا ہے تو برسر اقتدار بھگوا جماعت نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا اور اچانک ایک مسلمان کا چہرہ سامنے کر دیا اور کہا جانے لگا کہ اس نے اپنے گھر میں پٹرول بم سمیت ہتھیار جمع کر رکھا تھا اور حالات کو بگاڑنے میں اس کا اہم رول ہے پھر بحث اچانک سے بدل گئی اور دہلی فسادات کی زد میں آنے والے مسلمانوں کو ہی الٹا قصوروار قرار دے دیا گیا۔کچھ ایسا ہی شاہین باغ تحریک کو دبانے کے لیے کیا گیا اور جے این یو کے ایک ذہین مسلم طالب علم شرجیل امام کو اس کا ‘ماسٹر مائنڈ کہا گیا اور یہ افواہ پھیلائی گئی کہ وہ بھارت کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔میڈیا نے پولیس اور حکومت کے اس موقف کو قبول کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ ایک طالب علم کس طرح بھارت جیسے ایک مضبوط اسٹیٹ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟
’’کورونا پرقابو پا لیا گیا تھا مگر حالات تبلیغی جماعت کی وجہ سے بگڑ گئے ہیں‘‘۔مذکورہ ریمارک جے این یو ہاسٹل میس میں کام کرنے والے ایک ملازم نے کیا۔ ان سے میری ملاقات منگل کی شام کو دہلی میں ہوئی تھی جب وہ ضروری اشیا کی خریداری کے لئےباہر نکلے تھے۔یہ ملازم بہار کے بکسر ضلعے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ ایک سیدھے سادے انسان ہیں، مگر ان کے دل میں بھی تبلیغی جماعت کے خلاف تعصب بھر دیا گیا۔یہ بات پھیلا دی گئی ہے کہ کورونا وبا کو مسلمانوں نے اپنی لاپروائی اور مذہبی توہم پرستی کی وجہ سے پھیلا دیا ہے اور وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔دیگر مقامات پر بھی اسی طرح کے بیانیے سننے کو مل رہے ہیں۔اسی دوران آندھرا پردیش میں مزدوری کرنے والے بہار کے میرے ایک دوست نےفون کر کےمجھ سے میری خیریت پوچھی اور اس نے بھی کہا کہ مسلمان ہی بیماری کوپھیلا رہے ہیں!
کمیونل کارڈ کا اثر دیکھیے کہ کل تک رائے عامہ میں یہ بحث چل رہی تھی کہ غریب اور مزدور لاک ڈاؤن کے دوران کیا کھائیں گے اور کیوں ہماری حکومتوں نے صحت عامہ پر توجہ نہیں دی۔ تشویش حکومت کی ناکامی پر ہو رہی تھی اور اس سلسلے میں عوام کو درپیش پریشانیوں پر ماہرین کی رائے لی جا رہی تھی اور یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ حکومت نے بغیر کسی تیاری کے ملک گیر لاک ڈاؤن کا کس طرح اعلان کر دیا ہے۔رپورٹیں آ رہی تھیں کہ کس طرح مزدور اور غریب لوگ کورونا اور فاقہ کشی سے لڑ رہے ہیں۔ویڈیوز وائرل ہو رہے تھے کہ رہنے اور کھانے کی دقت کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن مزدور پیدل ہی اپنے گھرکو نکل پڑے ہیں جس کی وجہ سے دہلی کے آنند وہار اسٹیشن پر بڑی بھیڑ جمع ہو گئی ہے جو لاک ڈاؤن کے مقصد کو نقصان پہنچا رہے تھے۔اس دوران یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ حکومت کے پاس مزدوروں اور غریبوں کو دینے کے لیے صرف جملے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ اور جہاں تک حکومت کی اصل پالیسی کا سوال ہے تو یہ صرف سرمایہ داروں اور امیروں کے مفاد میں بنائی جاتی رہی ہے۔پولیس کی زیادتی کی بھی خبریں آرہی تھی اور پوری دینا یہ جان کر حیران تھی کہ بھارت کی پولیس غریب عوام کی مدد کے بجائے ان پر ڈنڈے کیوں برسا رہی ہے اور بعض اوقات گولی بھی چلا رہی ہے۔ مجموعی طور پر مزدور کے متعلق سوالات سامنے آرہے تھے اور روزی روٹی کا مسئلہ بحث کا حصہ بن رہا تھا۔
ان سب سے سرکار گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کی امیج پر بھی سوال اٹھ رہے تھے۔ عوام کا غصہ بھی حکومت کے خلاف بڑھ رہا تھا۔طبقاتی شعور کی سطح بھی بڑھ رہی تھی ۔مودی سرکار کے بڑے بڑے منتری اور سنتری سب منظر سے غائب ہو گئے تھے۔خود وزیر اعظم نریندر مودی کو جنتا سے معافی مانگنی پڑی۔ایسا لگ رہا تھا کہ اب حکومت کچھ نہ کچھ مثبت قدم ضرور اٹھائے گی۔سالوں سے بے توجہی کے شکار صحت عامہ، روزگار اوردیگر فلاحی کاموں پر حکومت سنجیدگی سےتوجہ مرکوز کرےگی ورنہ برقرار نہیں رہ پاتی۔مگر المیہ یہ ہے کہ ایک بار پھر کمیونل کارڈ کھیل کر مزدوروں اور غریبوں کے سوال کو درکنار کر دیا گیا اور صحت عامہ کی پالیسی پر توجہ دینے سے کنارہ کشی اختیار کر لی گئی۔ بر سر اقتدار جماعت نے ایک بار پھر مسلمان کو بلی کا بکرا بنایا۔اس بار انہوں نے کورونا وائرس کو تبلیغی جماعت سے جوڑ دیا اور تنلیغی جماعت اور عام مسلمان کی شبیہ ایک بار پھر مسخ کرنے کی کوشش کی۔
پل بھر میں ڈبیٹ بدل گیا۔۳۰ مارچ کے بعد مین سٹریم میڈیا سے یہ خبر آندھی کی رفتار سے عوام میں پھیلنے لگی کہ پولیس نے تبلیغی جماعت کے دہلی آفس پر دھاوا مارا ہے، جہاں کورونا کےسیکڑوں مشتبہ مریض پائے گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر منظر اور بھی خوفناک تھا۔مسلمانوں کو گالیاں دی جانے لگیں۔فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے اور اس بحران کے لیے مسلمان کو ’ولن‘ بنا دیا گیا۔پھر ڈبیٹ کا موضوع مسلمان اور اسلام سے در پیش ’خطرات‘ ہوگیا۔ مسلمان ’غافل‘ہیں۔ وہ’دقیانوس‘ہیں۔وہ ’شدت پسند‘ہیں۔وہ ’جہادی‘ ہیں۔ وہ ’ملک مخالف‘ ہیں۔ وہ ’دہشت گرد‘ ہیں۔اس طرح کا پروپیگنڈا شروع ہو گیا، جو اب تک رُکا نہیں ہے۔کہا گیا کہ اگر مسلمان وقت پر احتیاط کیے ہوتے تو صورت حال نہیں بگڑتی۔ کچھ نام نہاد سیکولر اور روشن خیال لوگوں نے بھی مسلم دشمنی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مشہور بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسریںن کا ۳۱ مارچ کو ایک ٹویٹ آیا جس میں انہوں نے کہ ’’تبلیغی جماعت کے بالواسطہ تعلقات دہشت گردوں سے ہیں!‘‘۔ ٹی وی کے نیوز روم سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی شروع ہو گئی۔دھاوے کے کچھ ہی گھنٹوں میں تبلیغی جماعت اور مسلمان کے خلاف میسج پہنچا دیا گیا۔فرقہ پرستی کا وائرس ملک میں کورونا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ مگر مطالعے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی تیاری پہلے سے چل رہی تھی کیونکہ آر ایس ایس کے لٹریچر میں پہلے ہی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا گیا تھا اور اس بیانیہ کو پر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ مسلمان کورونا کے وائرس کو پھیلا رہے ہیں۔ مَیں اس وقت آر ایس ایس کے ہفت روزہ ہندی میگزین ’ پنچ جنیہ‘میں شائع شدہ ایک مضمون کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ ۲۹ مارچ کے شمارے میں یہ مضمون چھپا ہے۔ اس کاعنوان ہے ’کرونا کے مذہبی کاروبار‘۔ اس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ "ہندوستانی سرکار کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے تمام کوششیں کر رہی ہے،مگر اسلام کا حوالہ دے کر مسلمان نہ تو احتیاط ہی کر رہے ہیں اور نہ ٹیسٹ کرا رہے ہیں۔مولوی اور پادری اپنی توہم پرستی کا دھندہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں”۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس مضمون میں عیسائی پادری کو بھی چپیٹ میں لیا گیا ہے،مگر مضمون میں اصل نشانہ مسلمان ہی ہیں۔مسلمانوں کے حوالے سے اس طرح کے بیانات ماخوذ کیے گیے ہیں جن میں مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی طرح کی احتیاط نہیں کریں گے کیونکہ ان کا یقین سائنس میں نہیں ہیں۔”اللہ چاہے گا تب ہی انفیکشن پھیلے گا۔اس لیے احتیاط کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان ایسا بیان دے سکتا ہے؟ اسلام کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ضرور ہے اللہ کی مرضی سے سب کچھ ہوتا ہے۔ مگر ان کے نزدیک اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہےکہ انسان کوشش کرنا بند کر دے یا پھر عقل کا استعمال کرنا بند کر دے۔عقیدت مند مسلمان یہ بار بار کہتے ہیں کہ کوشش کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ سائنس کے حلقے میں بھی مسلمانوں کی کارکردگی کسی قوم سے کم نہیں رہی ہے۔مگر پھر بھی اسلام کو جان بوجھ کر مسخ کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے اور یہ مواد پھیلا گیا ہے کہ مسلمان سائنس کے خلاف ہیں۔ اگر تصور بھی کر لیا جائے کہ ایسی باتیں کچھ مسلمانوں نے واقعی کی ہیں تو کیا یہ ناقص رائے پوری مسلم معاشرے کی ترجمانی کرتی ہے؟اگر ایسی بات تھی بھی تو کوشش یہ ہونی چاہیے تھی کی انتظامیہ خود مسلمانوں کے قائد اور ملی رہنما سے ملتی اور ان سے مداخلت کرنے کو کہتی۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ مسلمان کورونا سے لڑنے کے لیے کسی دوسرے سے پیچھے نہیں تھے۔ بہت پہلے سے ہی بھگوا شدت پسندوں کے دلوں میں کچھ اور ہی پک رہا تھا۔ان کو مسائل کے حل کرنے میں کم اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔
جب حکومت کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ ’بیک فٹ‘ پر آگئی ہے، تو اس نے ایک بڑا دھماکا کرنے کی سوچی۔میڈیا کی موجودگی میں ۳۰ مارچ کے روز تبلیغی جماعت کے دفتر پر ریڈ ڈالا گیا جو ان کے گیم پلان کا حصہ تھا۔۳۱مارچ کے روز انگریزی اخبار ’ہندو‘ کی خبر کے مطابق، پولیس نے دہلی کی بستی نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکزی آفس، جو خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ سے صرف سو میٹر دوری پر ہے، کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور لوگوں کی آمد ورفت بند کر دی۔اس آپریشن میں ڈرون کا بھی استعمال کیا گیا۔ بعد میں ۱۵۰ لوگوں کو مرکز کے سے باہر نکالا گیا اور کورونا وائرس کی جانچ کے لیے انہیں مختلف اسپتالوں میں پہنچا دیا گیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تقریباً۸ ہزار مسلمان تبلیغی جماعت کے اجتماع میں حصہ لینےکےلیے دہلی آفس آئے ہوئے تھے۔ان میں سے بہت سارے اپنے ملک و وطن لوٹ گئے، مگر کچھ نہیں جا سکے۔
دھاوے کے فوری بعد دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال حرکت میں آگئے جو دہلی میں رونما ہوئے مسلم مخالف فسادات کے دوران خاموش رہے تھے جب سینکڑوں مسلمانوں کے جانی ومالی نقصانات ہو رہے تھے تب وہ محض ہندو فرقہ پرستوں کے ووٹوں کی خاطر مسلمانوں کی مدد کے لیے آگے نہیں آئے اور اب جب مسلمانوں کے خلاف سازش رچی گئی تو اس کا حصہ بننے کے لیے آگے آ گئے تاکہ ہندو فرقہ پرست ووٹروں میں اپنا اعتماد برقرار رکھا جا سکے۔انہوں نے تبلیغی جماعت کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے ڈالا، مگر یہ نہیں سوچا کہ کیا مرکز کی کوئی حرکت پولیس اور انتظاکہ سے پوشیدہ تھی؟
اس طرح تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے کے لیےڈسکورس تیار کر دیا گیا۔زیادہ تر اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے پھر ایک بار مسلمانوں کو رلایا ہے۔ بے لگام سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو جم کر گالیاں دی گئیں۔فرقہ پرست اور موقع پرست سیاست دانوں نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کا خوب دل دکھایا اور بھائی چارے کی جو فضا بن رہی تھی اس کو مسموم کرنے کی ناپاک کوشش کی۔
دھاوے کے اگلے دن ہندی کے اخبارات حکومت کی ترجمانی کر رہے تھے۔ لوگوں میں کورونا سے زیادہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کا خوف پیدا کیا گیا۔یہ سلسلہ تب سے لے کر ابھی تک تھما نہیں ہے بلکہ جاری ہے۔ ۲ اپریل کے قومی ہندی اخبار ‘دینک جاگرن (نیشنل) کو ہی لے لیجیے جس کے صفحہ اول کی خبر کی سرخی کچھ یوں تھی۔مرکز میں پنپ رہا تھا دیش کی تباہی کا وائرس. نیچے متن میں یہ کہا گیا ہے کہ "تبلیغی مرکز میں قیام پذیر دیش ودیش کے مولاناؤں کوباہر نکالےجانے کے ساتھ ہی حیران کرنے والی معلومات سامنے آرہی ہے۔ذرائع کا دعوی ہے کہ مرکز میں ٹھہرے لوگ نہ صرف ملک مخالف سرگرمیوں کو ہوا دے رہے تھے، بلکہ کورونا وائرس کو ہتھیار بنا کر ملک بھر میں تباہی پھیلانے کی منشا رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مرکز میں نہ صرف لوگوں کو چھپایا گیا،بلکہ پولیس جب باہر نکالنے کی کوشش کی، تو وہ حملہ آور ہو گئے ۔پولیس کے پہنچے سے پہلے ہی غیر ملکی شہریوں کو دارالحکومت کے کئی علاقوں میں چھپا دیا گیا۔ٹورسٹ ویزا پر آئے ان لوگوں نے مذہب کی تبلیغ میں شامل ہو کر ویزا قانون کی پامالی کی۔ فی الحال کرائم برانچ نے پروگرام منعقد کرانے والوں کے خلاف کرمنل سازش کرنے کا دفعہ لگا کر کیس درج کر دیا ہے اور جانچ شروع کر دی گئی ہے۔جلد ہی تفتیش میں این ائی اے بھی تعاون کرے گا‘‘۔
اس خبر کو شائع کر کے صحافتی ضابطوں کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے۔خبر لکھتے وقت صحافی کو پولیس کے موقف کو پولیس کے حوالے سے لکھنا چاہیے تھااور ساتھ ہی ملزم کےموقف کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صحافیوں کو اس سے کچھ مطلب نہیں کہ تبلیغی جماعت کا موقف کیا ہے۔
اپنے دفاع میں تبلیغی جماعت نے ایک بیان جاری کیا لیکن کچھ اداروں کو چھوڑ کر باقی تمام میڈیا ہاؤسز نے اسے نظر انداز کیا۔مگر ۳۱ مارچ کو نیوز ویب پورٹل ‘جنتا کا رپورٹر نےتبلیغی جماعت کا پریس رلیز شایع کیا جس میں جماعت نے اپنے اوپر لگائے گئے لاپروائی کے الزام کی تردید کی۔تبلیغ کا یہ موقف ہےکہ جو لوگ بھی مرکز کے پروگرام میں حصہ لینے آئے تھے، ان میں سے کچھ اس وجہ سے اپنے ملک واپس نہیں جا پائے کیونکہ حکومت نے لاک ڈاون کونافذ کر دیا تھا۔حمل ونقل بند تھا جس کی وجہ سے لوگ مرکز میں رُکے رہ گئے اوروہ مرکز کے دفتر میں خود ہی قرونطینہ میں چلے گئے تھے۔اس طرح مرکز کی طرف سے لاپروائی کی کوئی بات نہیں تھی۔مزید کہا گیا کہ تبلیغی جماعت ایک بین الاقوامی تنظیم ہے اور اس کے پروگرام ہر سال منقعد ہوتے ہیں، جس میں پوری دنیا کے لوگ شرکت کرنے کے لیے آتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے الزام کو خارج کرتے ہوئے کہا گیا کہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں نے کورونا وائرس وبا کے پیش نظر انتظامیہ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔مثال کے طور پر، تبلیغ نے ۲۲ مارچ کے اعلان شدہ ‘جنتا کرفیو کے بعد اپنی ساری سرگرمیاں منسوخ کر دیں۔ ۲۱ مارچ کے بعد ریل سرویسز کے بند ہو جانے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنے گھر واپس نہیں جا سکے۔پھر ۲۳ مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن کااعلان کر دیا گیا، جس کے بعد مرکز کے پاس مہمانوں کو واپس بھیجنے کا کوئی متبادل نہیں تھا۔
مگر چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھنے سمجھنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ حالات کو بگاڑنے میں نیوز چینل سب سے آگے رہے ہیں۔ ہندی نیوز چینل نے تو ساری حدیں پار کر دی ہیں۔مثال کے طور پر اے بی پی نیوز پر ’ کورونا کی جنگ میں جماعت کا اگھات (چوٹ) پروگرام نشر کیا گیا۔ دیگر نیوز چینلز بھی اس سے پیچھے نہیں تھے۔
ذرا آپ ان پروگروں کی سرخیوں پر غور کیجیے:’دھرم کے نام پر جان لیوا (مہلک) آدھرم (نیوز ۱۸ینڈیا)،’نظام الدین کا ولن کون (اے بی پی نیوز)، ’کرونا جہاد سے دیش بچاؤ (سدرشن ٹی وی)۔ایسے پروگرام نےعام لوگوں کے دماغوں میں مسلمانوں کے خلاف بارود بھرنے کا کام کیا ہے۔ایک صحافی کس قدر بے حس ہو سکتا ہے اور سرکار کا ترجمان ہو سکتا ہے یہ کوئی رپبلک ٹی وی کے سربراہ ارنب گوسوامی سے جانے۔ انہوں نے اپنے شو میں زبان سے آگ اگلی اور ایک مسلمان گیسٹ کو اسٹوڈیو میں بلا کر ذلیل کیا! ایک نیوز اینکر نے تو تبلیغی جماعت کو جان بوجھ کر ‘طالبانی جماعت کہا۔ یہی نہیں جانے مانے عالم دین مولانا سجاد نعمانی کی بھی کردار کشی کی گئی۔یہ سارے مواد انٹرنیت پر موجود ہیں۔ ان سب کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔وقت آ گیا ہے کہ ملی رہنما اور سیکولر اور جمہوری طاقتوں آگ اگلنے والے صحافیوں سے نپٹنے کے لیے تدبیر تلاش کریں۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک کی ہم آہنگی، سیکولر ازم اور رواداری کو زیادہ دنوں تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔
نیوز ایجنسی اے این ائی نے بھی تبلیغی جماعت کے ‘دہشت گرد‘ تنظیم ہونے سے متعلق ایک غیر مستند خبر ۲ اپریل کو شائع کی۔نیوز ایجنسی کی چالاکی دیکھیے کہ خبر کے آخر میں اس نے ایک نوٹ بھی چلایا ہے، جس میں کہا گیا کہ خبر میں جو خیالات ظاہر کیے گیے ہیں ان سے ایجنسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
غرض حالات اس قدر خراب ہو رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے کی وکالت کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر دہلی اقلیتی کمیشن نے ایک ایسے ہی مسلم مخالف سوشل میڈیا پوسٹ پر اعتراض ظاہر کیا ہے جس میں مسلمانوں کو گیس چیمبر میں ڈالنے کی بات کہی گئی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسی نفرت انگیز بات دہلی یونیورسٹی کے ایک استاذ نے کہی ہے۔ کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے دہلی وائس چانسلر کو ایک نوٹس بھیج کر کہا ہے کہ اس معاملے کی جانچ کی جائے۔ابھی تک وائس چانسلر نے زہر افشانی کرنے والے ٹیچر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔اسی دوران مہاراشڑ نو نرمان کے صدر راج ٹھاکرے نے انتہائی مذموم بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ مرکزجیسے پروگرام میں شامل ہونے والوں کو گولی مارنی چاہیے” اوریہ بھی سوال کیا ہے کہ جو اس میں شامل ہوئے ہیں ان کا علاج کیوں ہو رہا ہے!‘‘۔
یہ رجحانات کسی بھی وقت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں آفت کے لمحات میں کسی شخص کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے اندر رمق برابر بھی انسانیت باقی نہیں ہے حکمرانوں، صحافیوں، سیاست دانوں اور اثر ورسوخ رکھنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آج پوری انسانیت پر بحران کے بادل چھائے ہوئے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ کورونا کی وبا کو قابو کرنے میں کتنا وقت لگےگا اور اس کے لیے کتنی قربانی دینی ہوں گی، ایسے وقت میں بھی اگر انسانیت نہیں جاگی تو آخر کب جاگے گی؟اگر بالفرض محال یہ تصور بھی کر لیا جائے کہ تبلیغی جماعت سے لاپروائی ہوئی تب بھی اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا کہاں تک صحیح ہے؟خبریں تو یہ بھی آئی ہیں کہ غیر مسلم بھی اپنے مذہبی مقامات پر جمع تھے تو کیا ہم کسی بھی فرقے کو اس کے لیے قصوروار قرار دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔اگر تبلیغی جماعت قصور وار تھی تو حکومت اور پولیس اتنے دنوں سے کیا کر رہی تھی؟کس کی اجازت سے یہ لوگ مرکز کے دفتر میں قیام پزیر تھے؟ کیا حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی بیرون ملک کا شہری بھارت آسکتا ہے؟ کیا پولیس باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی سرگرمیوں سے نا واقف رہ سکتی ہے؟ اگر تبلیغی جماعت کی وجہ سے وبا پھیل رہی ہے تو پھر ان سیاسی جلسوں کو کیا کہا جائے جو خود بی جے پی کے کارکنان نے منعقد کیے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب پوری دنیا وبا سے لڑ رہی تھی تو مرکزی حکومت اس کے خطرات کو ٹالتی رہی اور آخری وقت پر متحرک ہوئی؟ کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ جس وقت کورونا کے خلاف جنگ شروع کر دینی چاہیے تھی اس وقت بی جے پی، مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت کو گرانے میں لگی ہوئی تھی؟ سوال یہ بھی تو اٹھتا ہے کہ جو لوگ غریب اور بھوکے ہیں ان کو قرونطینہ میں بھیجنے کی بات کرنا بے ایمانی نہیں ہے؟ جن کو گھر بھی میسر نہیں ہیں وہ گھر کے اندر کیسے رہ سکتے ہیں؟ آج ہر روز ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن مزدور پیدل یا پھر سائیکل پر سوار ہو کر دہلی سے دور اپنے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ کچھ تو پہنچ گئے ہیں، کچھ راستے میں ہیں اور بعض دم توڑ چکے ہیں۔ کیا ان کو بے سہارا چھوڑ کر کورونا سے جنگ جیتی جا سکتی ہے؟ حکومت نے اگر ان کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا لاپروائی ہو سکتی ہے؟ افسوس کہ حکومت ان سارے سوالات سے بھاگ رہی ہے کیونکہ وہ رفاہی کاموں کو انجام نہیں دینا چاہتی تبھی تو وہ کورونا کو بھی فرقہ وارنہ رنگ دے کر بچنا چاہتی ہے۔ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ حکومت کو پھر سے صحت عامہ، روزگار اور تعلیم کے بنیادی سوال پر کیسے واپس لایا جائے؟
(ابھے کمار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)
[email protected]

اس خبر کو شائع کر کے صحافتی ضابطوں کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے۔خبر لکھتے وقت صحافی کو پولیس کے موقف کو پولیس کے حوالے سے لکھنا چاہیے تھااور ساتھ ہی ملزم کےموقف کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صحافیوں کو اس سے کچھ مطلب نہیں کہ تبلیغی جماعت کا موقف کیا ہے۔