کفار: عالم اسلام اور عالم عیسائیت کے درمیان تاریخی کشمکش

اینڈریو وہیٹ کرافٹ کی انگریزی کتاب کا تعارف

تنویر آفاقی

’’تاریخ ذہانت کی کیمیاء سے برآمد ہونے والا سب سے خطرناک پروڈکٹ ہے۔ تاریخ خواب دکھاتی ہے، قوموں کو مخمور و سرشار کر تی ہے، ان پر جھوٹی یادداشتوں کا بوجھ لا دتی ہے— پرانے زخموں کو ہرا رکھتی ہے، پریشانی کے عالم میں ان کے لیے اذیت کا سامان بنتی ہے، ان کے اندر عظمت وجلالت کا بھرم اور ستم زدگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ‘‘

انڈریو وہیٹ کرافٹ نے اپنی کتاب ’ کفار: عالم اسلام اور عالم عیسائیت کے درمیان تاریخی کشمکش ‘ (Infidels: A History of the conflict Between Christian and Islam) کا آغاز فرانسیسی شاعر پول والرے (Paul Toussaint Jules Valéry) کے اسی قول سے کیا ہے۔

76 سالہ انڈریو کرافٹ (Andrew Wheatcroft) یونیورسٹی آف اسٹرلنگ، اسٹرلنگ، اسکاٹ لینڈ میں استاد ہیں۔ تاریخ کے موضوع پر بہت سی کتابوں کی تدوین و ترتیب کا کام ان کے سر ہے۔ انھی میں سے ایک کتاب Infidels: A History of the conflict Between Christian and Islamہے۔ یہ کتاب پہلی بار 2003 میں شائع ہوئی تھی۔ عربی زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے دل چسپ اور اہم ہے کہ اس میں مصنف نے عالم اسلام او ر عالم عیسائیت یا کہیے کہ مغرب اور مشرق کے مابین نفرت اور عدم اعتماد کے وجوہ و اسباب اور اس کے نتیجے میں مشرق و مغرب سے تعلق رکھنے والی بعد کی نسلوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ سولہویں صدی میں عالم اسلام اور عالم عیسائیت کے درمیان واقع ہونے والی ’جنگ لیپانٹو‘ سے آغاز کرتے ہوئے اکیسویں صدی میں’ اسلامی دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے واقعات پر آکر انھوں نے اپنے جائزے کو مکمل کیا ہے۔ درمیان میں اسپین، بلقان، ترکی کی تاریخ سے ان واقعات کو پیش کیا ہے جن کا تعلق عیسائی مسلم تعلقات سے رہا ہے۔ پیش کردہ نتائج تک پہنچنے سے پہلے مصنف نے دونوں دنیاؤں (عالم عیسائیت وعالمِ اسلام) کا مختلف وسائل و ذرائع سے جائزہ لیا ہے۔ کرافٹ نےاپنے اس جائزے میں اس بات سے قطع نظر کیا ہے کہ نفرت اور عدم اعتماد کی یہ فضا’ کیوں‘ پروان چڑھی۔ اس کے بجائے انھوں نے صرف اس بات پر اپنی تحقیق کو محدود رکھا ہے کہ یہ نفرت ’کس طرح‘ پروان چڑھی ہے۔

اس تاریخی جائزے کے سلسلے میں انھوں نے بعض بڑی اہم باتیں بیان کی ہیں، مثلاً تاریخی واقعات کے سلسلے میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ تاریخی واقعات و حقائق میں وقت کے ساتھ ساتھ افسانوی رنگ شامل ہوتا رہا ہے، جس نے اپنے اعتبار سے بعد کے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ اس افسانوی یا غیر حقیقی رنگ کو بیان کرنے کے لیے انھوں نے ’چینی سرگوشی‘ (چائنیز وہسپر) کھیل کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ایک کھیل ہوتا ہے جس میں کچھ بچے یا بڑے ایک کے پیچھے ایک قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سب سے آخری شخص کے کان میں سرگوشی کے انداز میں ایک بات کہی جاتی ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اب یہی بات وہ اپنے سامنے والے کے کان میں اس طرح کہے کہ اس کے بعد والا نہ سن سکے۔ یہ سلسلہ قطار کے دوسرے سرے پر کھڑے ہوئے آخری فرد پر جاکر ختم ہوتا ہے، لیکن وہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ پیغام کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انھو ں نے لکھا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک خندق سے یہ پیغام دیا گیا۔

Send reinforcement, we are going to advance (کمک بھیجو، ہم حملہ کرنے جا رہے ہیں)۔لیکن فوجی سپاہیوں کی لمبی قطار میں سب سے آخری شخص کے پاس پہنچتے پہنچتے اس پیغام کی شکل یوں ہو گئی:

Send three and four pence, we’re going to a dance (تین اور چار سکے بھیجو ہم ڈانس میں جا رہے ہیں)۔

اس کے بعد عالم اسلام اور عالم عیسائیت کے مابین تعلقات کے ضمن میں انھوں نے پوپ اربن دوم (1035ء۔ 1099ء) کی مثال دی ہے۔ وہ 1088 ءسے 1099ء تک روم کا بشپ اور پاپائی ریاست کا سربراہ تھا۔ اس کے بارے میں وہائٹ کرافٹ نے لکھا ہے کہ 1099ء میں جب اس نے کلیرمنوٹ کے گرجا کے باہر کھڑے ہو کر یوروشلم کو بچانے کی گہار لگائی تھی تو اس کے ذہن میں ’صلیبی جنگوں‘ کا کوئی خیال تک نہیں تھا۔ اس نے تو ہوا میں ایک خیال اچھال دیا تھا، لیکن بعد میں خود اَربَن کو بھی اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے اثرات بد پر قابو نہ رہا اور صدیوں تک ان الفاظ کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ اور یہی افکار کی تاریخ ہے، یعنی چینی سرگوشی۔

وہیٹ کرافٹ نے اپنی مذکورہ کتاب میں تاریخ پر لفظ کی قوت وتاثیر کو ثابت کیا ہے۔ لکھا ہے کہ اس طویل تاریخ میں بیان کردہ واقعات میں اگر کوئی سبق ہے تو وہ یہ ہےکہ الفاظ اور تصاویر ہتھیار اور اسلحہ ہیں۔ یہ کہاں کس کی جان لے لیں اور کسے زخمی کردیں، کہا نہیں جا سکتا۔ ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ قوموں کے درمیان نفرت اور جنگ کا سبب یہی الفاظ ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے کچھ کا کچھ ہو جاتے ہیں۔ الفاظ کے پَر بھی لگے ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ، ای میل، ٹی وی، ریڈیو اور فلموں کے ذریعے یہ الفاظ اس حد تک پہنچ سکتے ہیں جہاں تک پہنچنا ان کے لیے اس وقت ممکن نہیں تھا جب صرف پرنٹ میڈیا ہوتا تھا۔ ان الفاظ میں اگر بھیانک پیش بینی کا دَم لگا دیا جائے تو نتائج بہت غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔

انگریزی ناول نگار ڈوگلس ایڈمز کے الفاظ میں:

’’یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ لاپروائی سے کہی جانے والی بات بعض لوگوں کی جان لے لیتی ہے، لیکن اس کے مکمل نتائج کا اندازہ کبھی بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ‘‘

کرافٹ نے اپنی گفتگو کو اسلام سے عالمِ عیسائیت کے خوف تک محدود رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا خیال ہے کہ عالم عیسائیت کو دوسرے جو خوف لاحق ہیں ان پر بھی گفتگو کی جا سکتی تھی۔ مثلاً یہ کہ مغرب کو سیاہ فاموں سے خوف لاحق رہتا ہے یا نصف انسانیت، یعنی خواتین کے تعلق سے اہل مغرب میں تعصب پایا جاتا ہے۔ لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ مغرب کا خوف صرف اسلام کے خلاف طویل دشمنی کا تانا بانا تیار کر رہا ہے۔ البتہ تاریخ کے بعض واقعات ایسے ہیں جنھوں نے اس کہانی کو ایک شکل دے دی ہے اور اسلام کے تعلق سے انسانی تصور پر اثر چھوڑا ہے۔ مثال کے طور پر ان واقعات میں 1099ء میں یوروشلم کا کامیاب محاصرہ شامل ہے۔ یہ محاصرہ پہلی صلیبی جنگ کے دوران پیش آیا تھا اور بیت المقدس فاطمیوں کے ہاتھ سے نکل کر صلیبیوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ 1453ء میں قسطنطنیہ پرصلیبیوں کا غلبہ ہوا، 1492ء میں سقوطِ غرناطہ کا حادثہ پیش آیا اور 1571ء میں جنگ لیپانٹو کا واقعہ پیش آیا۔ یہ عثمانیوں کے خلاف پہلی عیسائی جنگ تھی جس میں یوروپ کی تمام کیتھولک ریاستیں عثمانیوں کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ پھر 2001 ء میں ٹاورز کے انہدام کا واقعہ پیش آیا۔ یہ وہ واقعات ہیں جنھوں نے عالم اسلام کے خلاف ایک مخصوص تاثر قائم کرنےمیں مدد کی ہے۔

11ستمبر 2001ء میں پیش آنے والے حادثے کے ضمن میں انھوں نے اس اہم نقطے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی حادثے یا واقعے کے تعلق سے کیا موقف اختیار کیا جاتا ہے۔ اس حادثے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش نے پیشین گوئی کے انداز میں یہ بیان دیا کہ یہ واقعہ دنیا کے ایک دور کے خاتمے اور نئے تاریک ترین دور کا آغاز ہے۔ کرافٹ کا کہنا ہے کہ بُش اور اس کے مشیروں کا یہ بیان ان گزشتہ تاریخی یاددداشتوں سے ہی مربوط ہے جن کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بُش کا یہ بیان انھیں اقوال کا تسلسل ہے جو اس سے پہلے بہت سے عیسائی پادری اور پوپ کہتے چلے آئے ہیں اور جنھیں مغربی اہل قلم اسلام اور مسلمانو ں کے تعلق سے لکھتے آئے ہیں۔

کتاب کے عنوان Infidels (کفار) کے سلسلے میں کرافٹ نے لکھا ہے کہ بطور عنوان اس لفظ کو اختیار کرنے کی وجہیں دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ لفظ عربی لفظ کافر کا انگریزی متبادل ہے۔ دوسرے یہ کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے لیے انگریزی متبادل استعمال کرتے ہوئے انھیں کافر یعنی infidel کہا ہے اور مسلمان بھی عیسائیوں کے لیے کافر کا لفظ استعمال کرتے آئے ہیں۔

کرافٹ مختلف تاریخی و ادبی کتب اور حوالوں سے گزرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دونو ں کے مابین نفرت و عدم اعتماد کا آغاز بہر حال عالمِ عیسائیت کی طرف سے ہوا ہے۔ تاریخی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو عیسائیوں کو بدنام کرنے سے اتنی دل چسپی نہیں رہی جتنی عیسائیوں کو مسلمانوں کی بدنامی سے رہی ہے۔ کتاب کے پہلے ہی باب “We Praise Thee, O God” میں لیپانٹو کی جنگ (1571) پر تبصرہ کرتے ہوئے کرافٹ لکھتے ہیں:

’’ایک ہزار سال کے دوران عالم مسیحیت اس احساس میں مبتلا رہا کہ مشرق میں ابھرنے والی طاقت کی وجہ سے وہ معرض خطر میں ہے۔ ‘‘ خطرے کا یہی احساس مشرق کے خلاف صلیبی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’یوروپ ہی تھا جس نے دشمن (مشرق یا عالم اسلام) پر حملے کی ابتدا کی۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یوروپ اسلامی خطرے کے تصور کو گلے لگائےرہا جو عالم عیسائیت کے عقل و دماغ پر غالب آ چکا تھا۔ سولہویں صدی کے آغاز تک یہ عالم مشرق و عالم مغرب کے درمیان کشمکش کو دونو ں کے درمیان فطری اور حتمی تعلق کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ کسی بچکانہ شعور کے مانند یہ وہم پیدا ہو چکا تھا کہ مشرق کا عروج مغرب کے سقوط کا سبب بن جائے گا۔

عیسائی مذہبی محققین

عیسائی مذہبی محققین نے بھی اسلام کے خطرے کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کرافٹ کے بقول:

’’محققین نے نئے سرے سے ’اسلام‘ کی نحوست اور خطرے کا عقیدہ مسلط کر دیا۔ یعنی یہ کہ—مسلمان ہاجرہ کی نسل سے ہیں۔ ہاجرہ حضرت ابراہیمؑ کی داشتہ (بیوی نہیں) تھیں—جب کہ عیسائی ابراہیم کی جائز و قانونی اولاد یعنی اسحقؑ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ولد الحرامی کی اس لعنت سے بھی زیادہ سخت لعنت اہل مشرق کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ عیسائیوں کا استنباط یہ ہے کہ اگرچہ تمام انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں، تاہم مسلمان قابیل کی نسل سے ہیں جس کو خد ا کے حضور سے رسوا کر کے نکال دیا گیا تھا کیوں کہ اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تھا۔ قابیل کو قتل کرنے کے جرم کی وجہ سے اس نے یہ کہا کہ میں زمین پر مارا مارا پھروں گا اور جو بھی مجھےدیکھے گا قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے اس کی نسل کے لوگ ’’مشرق عدن‘‘ میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہو ئے۔ قابیل کی نسل (مسلمان) اور ہابیل کی نسل (عیسائیوں) کے درمیان اب قتل وانتقام کے علاوہ کسی اور بات کا امکان نہیں رہا ۔ زمانے سے چلے آرہے اس موروثی حسد اور نفرت کی وجہ سے ہی اہل مغرب اور اہل مشرق کے درمیان کشمکش رونما ہوئی۔ ‘‘

اس موروثی حسد و نفرت کا اثر یہ ہوا کہ جنگی معرکوں کے دوران عیسائی اپنے مسلمان دشمنوں کو قابیل کی اولاد، قاتل کی اولاد اور دجال کی اولاد جیسی گالیاں دیا کرتے تھے۔ کرافٹ کے بقول دوسری طرف مسلمان بھی اپنے عیسائی دشمنوں کی اسی قسم کی متوازی گالیوں سے ان کی تواضع کیا کرتے تھے۔

کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان اس منفی تعلق کا سرا صلیبی جنگوں سے بھی قدیم ہے۔ چنانچہ چھٹی صدی عیسوی میں ہی اسلام کو عقیدہ مسیحیت کا دشمن تسلیم کر لیا گیا تھا۔ کرافٹ لکھتے ہیں:

’’آغاز سے ہی اسلام کی تیز رفتار ترقی نے عالمِ عیسائیت کو حیران کر رکھا تھا۔ پیغمبر محمد (ﷺ) کی پیدائش 570 ء میں ہوئی، یعنی رومی شہنشہاہ جسٹینین، جس نے دوسری صدی عیسوی سے قائم رومی سلطنت کی عظمت و جلالت کو برقرار رکھا ہواتھا، اس کی موت کے محض پانچ سال بعد پیغمبر محمد کی پیدائش ہوئی۔ پھر بھی 630ء میں اس پیغمبر کی وفات کے بعد کی پہلی نسل کے دور میں ہی اسلام کے ریگستانی جنگ جو جسٹینین کے دارالحکومت قسطنطیہ کا محاصرہ کر رہے تھے۔ ایڈورڈ گِبن کا مشاہدہ ہے کہ ’’جب عربوں نے پہلی بار صحرا سے کوچ کیا تو انھیں لازمی طور پر اتنی آسانی سے اور فوری کامیابی پر حیرت ہوئی ہوگی۔ ‘‘

معرکہ اجنادین میں خالد بن ولید کے ہاتھوں بازنطینی بادشاہ ہرقل کی شکست، (634ء) ، اس کے ایک سال بعد ہی بازنطینی فوج کو شکست دے کر دمشق پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اور ہرقل کی شکست کے محض دو سال بعد ہی بیت المقدس کی چابیاں کا خلیفہ وقت حضرت عمر بن خطاب کے ہاتھوں میں آ گئیں۔ یہ ایسے واقعات تھے جنھوں نے عالم عیسائیت کو اپنے خارجی دشمن (اسلام) کے خلاف جنگ پر آمادہ کیے رکھا۔ عیسائیوں میں ایک فرقہ وہ تھا جو بت شکن (Iconolast)کہلاتا تھا۔ یہ فرقہ معبود کو انسانی شکل میں پیش کرنے سے منع کرتا تھا۔ 834ء میں اسے رانی تھیوڈورا کے زمانے میں کلیسائی عبادات وتقریبات میں شرکت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ یہ فرقہ عیسائیت کا داخلی دشمن تھا۔ اس معاملے میں مسلمان اس کے ہم خیال تھے۔ اس طرح مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور فرقۂ بت شکن کے خلاف دشمنی یکجا ہو گئی اور مسلمان داخلی و خارجی دونوں قسم کا دشمن بن گیا۔ اس پہلو نے عیسائیت کی اسلام دشمنی کو ایک نیا رخ دے دیا اور اسلام کی تعبیر اس شر اور تباہی کے مفہوم سے کی جانے لگی جس کا ذکر عہد جدید اور کتاب مقدس دونوں میں آیا ہے۔ وقت کے ساتھ دشمنی کے اس مفہوم و تصور میں تنوع اور وسعت آتی چلی گئی۔

اسلام کے خلاف جعلی حقائق

کرافٹ نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ کس طرح اسلام دشمنی کے تانے بانے کو بے بنیاد اور جعلی حقائق کے ذریعے مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے انھو ں نے انیسویں صدی سے ایک مثال پیش کی ہے۔ 1860ء میں حکومت برطانیہ نے خلافت عثمانیہ میں اپنے سفیروں سے یہ کہا کہ مسلم حکومت کے ماتحت عیسائیوں کی صورت حال پر ایک رپورٹ پیش کریں۔ بلقان کے سفیر بلنٹ (Blunt)نے یہ رپورٹ پیش کی کہ عیسائی دس سال پہلے ترکوں کے ماتحت جن حالات میں رہ رہے تھے اب ان سے بہتر حالت میں ہیں۔ اس وقت ترک انھیں اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ جب وہ چرچ کے اندر داخل ہوں تو ایسے دروازے سے جھک کر گزریں جن کی بلندی چار فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ گویا عثمانی ترکوں کے دور میں عیسائیوں کی حالت کو بلنٹ نے اس طرح بیان کیا کہ انھوں نے عیسائیوں کو اس بات پر مجبور کر رکھا تھا کہ وہ چرچ کے دروازو ں کو پست رکھیں تاکہ جو بھی عیسائی اندر آئے اسے چرچ کے دروازے سے داخل ہوتے ہوئے لازماً جھکنا پڑے۔ کرافٹ کہتے ہیں کہ

’’ جب میں نے یہ پڑھا تو مجھے تعجب ہوا کہ یہ سفیر صورت حال کو صحیح انداز میں پیش کر بھی رہا ہے؟ ! پست دروازوں کے سلسلے میں کچھ اور وضاحتیں بھی ہیں جو میں نے کہیں اور پڑھی ہیں۔ وہ یہ کہ خود عیسائیوں نے ہی قصداً دروازے پست بنائے تھے تاکہ مسلمان خچروں پر بیٹھ کر چرچ کے اندر داخل نہ ہو سکیں اوران کے خچر چرچ کے اندر گندگی نہ پھیلا سکیں۔ دونوں ہی کہانیاں جبر کا قصہ بیان کرتی ہیں، لیکن اسے بیان دوسرے انداز سے کیا گیا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد کرافٹ اس وضاحت کو بھی اہمیت نہیں دیتے اور ایک دوسری بات کہتے ہیں کہ یوروپ کے کلیساؤں میں ایک بڑا گیٹ ہوتا ہے اور اس کے اندر ایک چھوٹا سا دروازہ لگا ہوتا ہے۔ روز مرہ کے لیے بڑے دروازے کے بجائے صرف اسی چھوٹے حصے کو کھلا رکھا جاتا ہے اور بڑا دروازہ کسی تقریب کے موقع پر ہی کھولا جاتا ہے۔ اب کیا یہ کہا جائے کہ چھوٹا اور تنگ دروازہ یوروپ کے عیسائیوں کی توہین و تذلیل کے لیے بنایا جاتا ہے؟ !وہ لکھتے ہیں کہ ’اسلام کے کردار‘ کو چرچ کے تنگ اور پست دروازوں کی تصویر سے مربوط کرنے کی وجہ سے یہ تصور سامنے آیا کہ مسلمان عیسائیوں کی تذلیل کرتے ہیں۔

اسلام کی جاذبیت

اسلام کی جاذبیت اور کشش پر کرافٹ نے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحرائی عربوں کے درمیان قبائلی معاشرے کی اقدار بھی موجود تھیں۔ اسلامی اور قبائلی اقدار کے درمیان ظاہری تناقض موجود تو تھا لیکن اس کے باوجود اسلام کی اخلاقی قدریں نمایاں اور غالب ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور انھی قدروں کی وجہ سے اسلامی نظام غالب ہوا۔ مشرق وسطی کے عیسائیوں کی بڑی تعداد نے اسلام کی اسی جاذبیت اور کشش سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ کرافٹ نے اسلام کو عملی مذہب قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اسلام نے غالب آنے کے بعد رہبانیت کے تصور پر روک لگائی جو کہ ایک غیرعملی تصور تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ

’’اسلام صحرا کی ریت کے مانند تھا۔ اس نے یکجہتی اور اخوت کا احساس پیدا کیا او ریہ وہ احساس ہے جو باہم دست و گریباں عیسائیوں کے درمیان سے محو ہو چکا ہے۔ ‘‘

اسلام کی اس جاذبیت اور اسلامی فتوحات کے سلسلے نے بھی کلیسائی نظام کو خطرے سے دوچار کیے رکھا۔ کرافٹ کے مطابق کلیسائی نظام کو اسلام سے جس قدر خطرہ لاحق ہو گیا تھا ایسا خطرہ اس کو اس وقت بھی لاحق نہیں ہوا تھا جب 614ء میں ایرانی فوج نے فلسطین پر غلبہ حاصل کر لیا تھا، حالانکہ ایرانی فوجی یوروشلم کی عظیم ترین یادگار یعنی ’صلیبِ حقیقی‘ بھی اپنے ساتھ لے کر چلے گئے تھے۔ کرافٹ کے الفاظ میں:

’’آرتھوڈوکس عیسائیوں کے اندر اسلام کے تعلق سے زبردست خوف اور نفرت ابھر آئی تھی۔ بازنطینی محققین کے مناظروں اور مباحثوں میں اس قسم کے مواقف و آراء کثرت سے بیان ہونے لگیےتھے اور ابتدائی ایام سے ہی یہ موضوعات و استعارات اسلام کے خلاف تلخ نوائیوں کے اندر بار بار ظہور میں آتے رہے۔ بلکہ میکسیمَس کنفیسر نام کے ایک شخص نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’یہ لوگ (مسلمان) وحشی درندے ہیں جو اگرچہ دیکھنے میں انسانوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ ‘‘

بیت المقدس میں حضرت عمرؓ کے داخل ہونے کے بعد تو عیسائیوں نے اسلام کے خلاف سخت محاذ قائم کرلیا۔ یوحنا دمشقی ایک عیسائی تھا جس کا کام ہی اسلام کے خلاف حملہ آور رہنا تھا۔ رہبانیت اختیار کرنے سے پہلے یہ شخص اموی خلیفہ کے دربار میں ملازم بھی رہ چکا تھا۔ اس نے اسلام کے خلاف عیسائی قضیے کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیا: ’’جو شخص عالمی کلیسائی عقیدے پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔ ‘‘ اس نے نبی محمدﷺ کو ’مسیح دجال‘ قرار دیا۔ حالانکہ کرافٹ کے مطابق یوحنا اپنے ہم عصر پادریوں کے درمیان بڑی حد تک معتدل سمجھا جاتا تھا، بلکہ عیسائی مذہبی کانفرنس منعقدہ 754 ء نے تو اس پر یہ تہمت بھی عائد کی تھی کہ یوحنا مسلم ذہن کا شخص ہے اور اسلام سے ہم دردی رکھتا ہے۔

مسلمانو ں کا رویہ

دوسری طرف کرافٹ نے دونوں پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ جنگ دونوں ہی کے لیے نقصان دہ تھی۔ لیکن دونوں نے اسے جاری رکھنے کے لیے ان جنگوں کو مذہبی رنگ دے دیا تھا۔ مسلمانوں نے نظریہ جہاد کو ترقی دے کر دنیا کو دارالحرب اور دارالاسلام میں تقسیم کر دیا۔ عیسائیوں نے بھی اپنی صلیبی جنگوں کو تقدس کا روپ دے دیا اور اس طرح سے دونوں ہمیشہ مسلح اور برسرِ پیکاررہے۔ کرافٹ کے مطابق مسلمانوں نے بھی عیسائیوں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ مسلمانوں کے درمیان عیسائیوں کو کتے، خنزیر، اور دوسرے نجس الفاظ سے پکارا جاتا تھا۔

حالانکہ تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اس بات کے مضبوط شواہد و ثبوت فراہم کرتی ہے کہ مسلمانوں نے جن علاقوں کو فتح کیا وہاں کے باشندوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی۔ انھیں بالجبر اپنا مذہب تبدیل کرنے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ جب کہ دوسری طرف اسپین کی تاریخ ایک دوسری کہانی بیان کرتی ہے۔ کرافٹ نے اسپین کے موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اسپین میں عیسائی سلطنت قائم ہونے کے فوراً بعد عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں پر شکنجہ جبر کسنا شروع کر دیا۔ ان پر سخت شرائط اور پابندیاں عائد کردی گئیں۔ انھیں اسپین سے نکلنے پر مجبور کیا گیا اور قتل بھی کیا گیا۔ عیسائی اسپین ان مسلمانوں کو بھی سچے دل سے قبول نہ کر سکا جو اپنا مذہب ترک کرکے عیسائی ہونے کا اعلان کر چکے تھے۔ مسلمانوں کو مورو کے نام سے یاد کیا گیا اور جو مسلمان عیسائی ہو گئےتھے ان کےلیے ’موریسکو‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ یہ وہ مسلمان تھے جنھیں قتل کی دھمکی دے کر عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس اصطلاح کا تعارف کرافٹ نے ’’نیچ مسلمان‘ کے مفہوم سے کرایا ہے۔

عثمانی سلطنت

کرافٹ نے بلقان کے علاقے میں عثمانیوں اور یوروپ کی کشمکش کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ا ن کے خیال میں اس کشمکش سے پیدا ہونے والے نتائج کے ذمہ دار بیک وقت دونوں فریق ہیں۔ اس کشمکش کے بظاہر ختم ہو جانے کے بعد علاقے میں گروہی، نسلی اور علاقائی کشمکش برسوں تک جار ی رہی اور اس کے نتیجے میں اس دشمنی نے جنم لیا جس کے اثرات موجودہ دور تک جاری ہیں۔ صربیائی یہ سمجھتے ہیں کہ عثمانی ترک ان کی ترقی و عظمت میں رکاوٹ بنے رہے۔ ایک راہبہ کے الفاظ کرافٹ نے اس طرح نقل کیے ہیں:

’’اگر ترکوں کا وجود نہ ہوتا تو ہم (صرب) اطالویوں سے بھی عظیم ہوتے۔ ‘‘

ایک اور مصنف نے یہ کہا ہے کہ

’’ترکوں نے بلقان کو تباہ کر دیا اوراپنے پیچھے ایسی تباہیاں چھوڑی ہیں کہ ابھی تک انھیں درست نہیں کیا جا سکا۔ ‘‘

اس کے بعد کرافٹ لکھتے ہیں کہ 1922ء میں اگرچہ بلقان سے عثمانیوں کا تعلق ختم ہو گیا، لیکن ان کی جگہ البانی مسلمانوں نے لے لی۔ اب یہ لوگ صربیائی حکومت کے نفرت و عداوت کا ہدف بن گئے۔ ایک اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جس کا مظاہرہ اس سے پہلے بلقان کا سفیر ’بلنٹ‘ کر چکا تھا۔ کرافٹ نے یوگوسلاویہ کے1985ء کے اخبارات کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک صربیائی کسان پر نازیبا انداز میں بھالا نما ہتھیار ’خوزقہ‘سے حملہ کیا گیا۔ حالانکہ بعد میں اس واقعے سے متعلق یہ رپورٹیں آئیں کہ اس حادثے سے کسی مسلمان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

کرافٹ لکھتے ہیں:

’’میری غرض عثمانیوں کو بری ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ بتانا ہے کہ انھیں ہر شر کی بنیاد و منبع قرار دینا سوائے روایتی افسانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ ‘‘

کرافٹ نے اس یک طرفہ نفرت کی ایک اور وجہ بیان کی ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ یوروپ میں طباعت کے میدان میں ترقی عالم اسلام سے پہلے آگئی۔ طباعت کے فن کی وجہ سے مغرب کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ اَن پڑھوں کو تصاویر کے ذریعے عثمانیوں اور ترکو ں کی ’بربریت‘ سے واقف کرائے۔ عثمانیوں کی ایسی تصویریں شائع کی جاتیں جن میں انھیں تشدد اور جنسی زیادتیاں کرتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی تک بھی اہل عیسائیت کے یہاں کافر ’’ترکی‘‘ کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں کرافٹ نے مشرق کے بارے میں یہ بات کہی ہے کہ طباعت کے میدان میں انقلاب کو قبول کرنے میں اس نے جو تاخیر کی اس سے اسے سخت بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی اگرچہ مشرق ومغرب دونوں کے یہاں بعض جدید آلات و سائل مشترکہ طور پر زیر استعمال ہیں تاہم ان کے استعمال کا آغاز دونوں جگہ بیک وقت شروع نہیں ہوا۔ یعنی مغرب جدید مواصلاتی وسائل ایجاد کرتا ہے اور بعد میں مشرق انھیں اختیار کرتا ہے۔ تصویر اور مطبوعہ الفاظ کو قبول کرنے میں مشرق کو چار صدیاں لگیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی ایک عرصے تک مسئلہ بنا رہا۔

مذکورہ الفاظ میں کرافٹ نے گویا عالم مشرق یا عالم اسلام کی ایک بنیادی کم زوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے سدھارنے کا مشورہ دیا ہے۔ مشرق کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی ایجادات کو اختیار کرنے کے بجائے خود موجد بنے اور دوسروں کی مفید ایجادات کو اختیار کرنے میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ پچھڑے پن کا شکار ہو جائے۔

آخر میں کرافٹ نے دونوں مذاہب کے درمیان دشمنی کی بعض مثالیں جدید دور کی تاریخ سے بھی پیش کی ہیں۔ انھوں نے یہ سبق دینے کی کوشش کی ہے کہ نفرت اورکراہیت کی زبان ہی دشمنی کا سبب بنتی ہے۔ لیکن اس زبان پر کبھی قابو نہیں پایا جاسکتا، کیوں کہ ہر انسان کے اندر شر اور خیر دونوں پہلو ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ البتہ ہمارا نظریہ ہمیں اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ ہم اپنے آئینے میں سامنے والے کو انسانیت کی نظرکے بجائے دشمن کی ہی نظر سے دیکھیں۔ امریکی اداروں نے جو جدید صلیبی جنگیں برپا کر رکھی ہیں ان میں امریکہ کا رویہ یہی ہے۔ اس رویے سے کرافٹ نے مغرب کو ہوشیار کرتے ہوئے نصیحت کی ہے کہ اگر صلیبی جنگوں کی اس زبان کا استعمال جاری رکھا تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ مغرب لخت لخت ہو جائے۔

کرافٹ کہتے ہیں کہ جس خوف نے پہلے عالم عیسائیت کو ’’صلیبی جنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پر مجبور کیا تھا اب اسی خوف نے اسے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پر مجبور کررکھا ہے۔ اس لیے ’’صلیبی جنگ‘‘ اور ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ جنگ ایک ہی سلسلے کی کڑ یا ں ہیں۔ ■