غازی سہیل خان
صحافت ایک معزز پیشہ ہے۔ صحافی ملک و ملت کے مظلوموں، لاچاروں، بے بسوں اور بے زبانوں کی آواز کا نام ہے۔ قوم و ملت کی ترقی و تعمیر کے لیے صحافت ہی وہ رہنما خطوط کھینچ کر سماج کے سامنے رکھتا ہے جن پر معاشرے کی تعمیرِ نو ہوتی ہے۔ ابتدا سے ہی حق پرست صحافیوں نے مظلوموں کے حق میں اپنی آوز بلند کی ہے جس کی پاداش میں کئی صحافت کے شہ سواروں کو اپنی عزیز جانوں تک سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن آج ہمارے ہاں ایسے صحافی بھی پائے جاتے ہیں جن کے دن و رات حق کے بجائے چند حقیر مفادات کے حصول کی خاطر صرف غلط پروپیگنڈوں میں گزر جاتے ہیں۔ اُن کی صحافتی زندگی کا مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ کب اور کیسے مظلوموں اور بے کسوں کو کچلا جائے، حقائق کو کس طرح سے توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا جائے، غریبوں کی زندگی کی پروا کیے بغیر وہ وزراء وحکم رانوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنے رہیں۔
جب ہم قومی میڈیا کی طرف نظر کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں سوائے چند ایک اداروں کے اکثر ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ بھلے ہی اُن کے شور و غل سے وقتی طور ملکی عوام کو لگتا ہو کہ یہ ملک کے خیر خواہ ہیں لیکن اصل میں وہ ملک و انسانیت کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔ اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کسی مریض کے اندر کوئی ایسی بیماری ہو جس کے علاج کے لیے جراحی ضروری ہو تو ڈاکٹر کو مریض کی جان بچانے کے لیے چیر پھاڑ کرنی ہی پڑتی ہے، وقتی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن یہ اس کی صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ایک ڈاکٹر اگر اس طرح کے مریض کا آپریشن نہ کرے بلکہ مریض کو وقتی طور پر درد کم کرنے کی دوا دیتا رہے تو کیا ایسا مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ عمل مریض کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے برابر ہوگا۔ بس یہی حال ہمارے قومی میڈیا کا ہے جہاں اصل مسائل کو چھپا کر چند غیر ضروری چیزوں کو عوام کے سامنے پہاڑ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور عوام خوش ہو کر واہ، واہ کر کے اُس مریض کی طرح زندگی گُزارنے پر تیار ہو جاتے ہیں جس کو درد کم کرنے کی وقتی دوائی دے کر موت کے منہ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
قومی میڈیا کا تو مشن ہی پروپیگنڈا ہے۔ یہاں کسی کو گناہ گار ثابت کرنا ہو تو پہلے باضابطہ اس کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے یعنی give dog a bad name and kill him کے مصداق اس کو بار بار بُرے نام سے پکارا جاتا ہے بھلے ہی وہ بے گناہ ہو۔ اور آخر کار اس کو مجرم بنا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان بے چارے غریبوں اور لاچاروں پر کیا گزرتی ہو گی اُن کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔۔ کورونا وائرس کے ان ناگہانی حالات میں کتنے مزدور ہزاروں میل پیدل سفر کر کے گھر کے قریب پہنچ کر بھی موت کے منہ میں چلے گئے اِن کو فکر نہیں۔ شعبہ صحت کی کیا حالت ہے، کتنے مریض وینٹی لیٹر کی کمی کے سبب موت کے گھاٹ اُتر گئے اس کی ان کو خبر نہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کا حال کیا ہے، ان کو پروا نہیں۔ کتنے لوگ بھکمری کے شکار ہوئے یہ لوگ نہیں جانتے۔ تعلیم کے شعبے کی کیا حالت بنی ہے ان کو نہیں معلوم۔ ملک میں بے روز گاروں کی فوجیں تیار ہو رہی ہیں ان کو کوئی فکر نہیں، ملک کی جی ڈی پی کا کیا حال ہے ان کو پروا نہیں۔ بس اگر ان کو پڑی ہے تو اس بات کی کہ مسلمان کیا کھاتے ہیں اور کیا نہیں کھاتے۔ تاہم ملکی سطح پر چند صحافتی ادارے اور چند آزاد صحافی ہیں جو حقائق کو سامنے لا کر ملک سے خیر خواہی کا حق ادا کر رہے ہیں لیکن اُن کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔
جموں و کشمیر میں بھی 5؍ اگست 2019ء کے بعد سے قومی و سیاسی مسائل پر بولنا اور لکھنا گناہ ہو گیا ہے۔ میڈیا سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ خبریں پہلے بھی حکومتی اداروں کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کر سکتے تھے۔ ان سب کے باوجود میڈیا کو جتنی بھی آزادی حاصل ہے اس میں بھی چند صحافیوں کے علاوہ کوئی بھی قوم و انسانیت کی اُمیدوں پر کھرا نہیں اُتر رہا ہے۔ بلکہ چند صحافتی ادارے سرکاری دباؤ کو ایک ’’بم نما‘‘ چیز بنا کر عوام کے سامنے پیش کر کے بتا رہے ہیں کہ یہاں میڈیا کی آزادی کو سلب کیا گیا ہے اور سرکاری اشتہار بند ہونے کے خدشوں کا بھی وہ اظہار کر رہے ہیں وغیرہ۔ تاہم چند لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں جتنی میڈیا پر قدغن بتائی جا رہی ہے اُتنی نہیں ہے بلکہ بعض صحافتی اداروں نے عوام میں اس طرح کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے۔ تاہم اگر سرکار کی طرٖف سے کسی حد تک دباؤ یا قدغن ہے تو وہ معمولی نوعیت کی ہے۔ چند ایک کا کہنا ہے کہ صحافتی اداروں نے خود اپنے آپ پر بندشیں عائد کی ہوئی ہیں۔ ایک صحافی نے بتایا کہ وادی میں ایسے صحافی بھی ہیں جنہوں نے حقیقت حال کو لکھنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے۔ وادی میں صحافیوں کی ایک قلیل تعداد ہی سہی لیکن انہوں نے اس پیشے کی لاج رکھی ہے اور دنیا کو کشمیر کے حالات سے وقتاً فوقتاً با خبر رکھا ہے کیوں کہ ان کے نزدیک یہ ایک صحافی کا فرض بھی ہے اور قومی خدمت بھی ہے‘‘ اس موضوع پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک عوام پیش کر رہی ہے اور ایک یہاں کے صحافتی ادارے‘‘ لوگ کہ رہے ہیں کہ کشمیر کی صحافت نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، اُن کے اندر اب کوئی خاص عزم اور حوصلہ نہیں رہا، بے باکی نہیں رہی یا کوئی پالیسی نہیں ہے جس کی بنا پر وہ اس طرح کی قدغنوں کے خلاف لڑ سکیں۔ اسی طرح صحافتی اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم اس وقت بہت ہی خراب حالات سے گُزر رہے ہیں اور سرکار کی طرف سے ہم پر شدید قسم کی پابندیاں عائد ہیں۔ دوسری طرف کورونا وائرس کی مار اور ہمارے اخبارات کو سرکاری اشتہار پر پابندی نے اپنے ملازمین کو کام سے رخصت کر دیا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہے جس کے سبب ہم اپنے اخبارات کی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے ماضی میں حقائق کو سامنے لانے کے لیے بہت پاپڑ بیلے ہیں تاہم، ان سب کے باوجود لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صحافتی ادارے کوئی خاص خدمت انجام دینے میں ناکام ہو گئے ہیں خصوصاً، کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی منسوخی کے بعد۔
ان مسائل پر جموں و کشمیر کے ایک ماہر قانوں دان پروفیسر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ ’’1990ء میں اُٹھی پُر زور مزاحمتی لہر سے کشمیر کی صحافت پر کافی دباؤ ڈالا گیا، بعد ازاں گو کہ صحافت پر قدغنیں ختم کر دی گئیں لیکن مزاحمتی لہر کے خلاف انسدادی تدابیر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ 2010ء کے بعد صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے ساتھ ساتھ صحافتی ایوانوں کو اشتہارات دینے سے انکار ایک معمول بن گیا۔ ایسی پالیسیوں کے ہوتے ہوئے جب صورت حال 2019ء میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور اسی دوران کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا جس میں کسی بھی قسم کے اظہار رائے پر عملاً پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ عیاں ہے کہ اگر یہاں کی صحافتی برادری نے کسی عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہوتا تو بات بہت آگے تک پہنچ چکی ہوتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یاد ہے کہ جب بھارت میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا اور میڈیا پر سنسرشپ بھی بڑھا دی گئی تھی اس کے باوجود انڈین ایکسپریس جیسے اخبارات نے بے باکی کا مظاہرہ کیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمیں اپنی ریاست (موجودہ یو۔ٹی) جموں و کشمیر میں ایسی کوئی مثال دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
مجموعی طور عوام نے جموں و کشمیر کے صحافتی ادروں سے اپنی مایوسی کا ہی اظہار کیا ہے۔ یہ مایوسی عوام میں تب اور بڑھی جب گزشتہ ماہ محرم میں وادی کی شیعہ برادری کے جلوسوں پر انتظامیہ کی قدغن اور فورسز کا جلسوں میں شریک لوگوں پر پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال کو، کوئی خاص کوریج یہاں کے اخبارات نے نہیں دی۔ اسی طرح سے سوپور میں ایک نوجوان کا پولیس حراست میں ماورائے عدالت قتل جیسی خبروں کے حوالے سے بھی کشمیری عوام یہاں کے صحافتی اداروں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافتی ادارے صحافتی اُصولوں کے مطابق یہاں کے مظلوم انسانوں کی خدمت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن اس طرح کی کٹھ پتلی اور مفاد پرست صحافت کے سبب یہاں کے صحافتی اداروں کو اپنے ہی کام پر پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے اور کشمیر کی ہچکولے کھاتی صحافت کی کشی ہی نہ ڈوب جائے۔ اللہ ایسا ہونے سے بچائے۔ صحافت عبادت کا روپ دھار سکتی ہے لیکن اس وقت جب اس ذمہ داری کو صحیح طور سے نبھایا جائے تاکہ ملک وقوم کا بھلا ہو اور ان کا مستقبل روشن ہو۔
مجموعی طور عوام نے جموں و کشمیر کے صحافتی ادروں سے اپنی مایوسی کا ہی اظہار کیا ہے۔ یہ مایوسی عوام میں تب اور بڑھی جب گزشتہ ماہ محرم میں وادی کی شیعہ برادری کے جلوسوں پر انتظامیہ کی قدغن اور فورسز کا جلسوں میں شریک لوگوں پر پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال کو، کوئی خاص کوریج یہاں کے اخبارات نے نہیں دی۔ اسی طرح سے سوپور میں ایک نوجوان کا پولیس حراست میں ماورائے عدالت قتل جیسی خبروں کے حوالے سے بھی کشمیری عوام یہاں کے صحافتی اداروں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافتی ادارے صحافتی اُصولوں کے مطابق یہاں کے مظلوم انسانوں کی خدمت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن اس طرح کی کٹھ پتلی اور مفاد پرست صحافت کے سبب یہاں کے صحافتی اداروں کو اپنے ہی کام پر پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے اور کشمیر کی ہچکولے کھاتی صحافت کی کشی ہی نہ ڈوب جائے۔ اللہ ایسا ہونے سے بچائے۔ صحافت عبادت کا روپ دھار سکتی ہے لیکن اس وقت جب اس ذمہ داری کو صحیح طور سے نبھایا جائے تاکہ ملک وقوم کا بھلا ہو اور ان کا مستقبل روشن ہو۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020