کشمیر کی’سیاسی بیداری‘

مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس بنانے کی کہانی

ش م احمد کشمیر

کسی قوم میں سیاسی بیداری پیدا ہونے کے بہت سارے اسباب ومحرکات ہوتے ہیں ان میں لامحالہ نظامِ تعلیم سر فہرست ہوتا ہے۔ یہ تعلیم وتدریس کا نور ہے جو قوم کی تقدیر سازی میں پیش پیش رہتا ہے۔ قوم آگہی کے سفر میں جتنا آگے بڑھتی ہے اُسے شعورِ ذات کا اُتنا ہی عرفان نصیب ہوتا ہے۔ اپنے حقوق وفرائض کا شعور جاگتا ہے سیاسی اور سماجی مسائل کا فہم وادراک پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ تصور کیجئے اس حرماں نصیب خطہ کا جہاں تعلیم کا نور ہی نہ پہنچا ہو جہاں حکمراں جان بوجھ کر زیرِ دست قوم کو ناخواندگی اور جہالت کی طرف دھکیلا ہو، عوام کو تعلیم سے دور رکھنا ریاستی پالیسی کا جزو لاینفک بن چکا ہو، جہاں عوام کی بے چارگی اور اُن کے ذہنی افلاس کو حکام اپنے لیے فتحِ مبین کی بشارت سمجھتے ہوں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خود یہ بدقسمت قوم جہالت اور توہمات میں مست ہو کر اسے تقدیر یزداں سمجھ بیٹھتی ہو۔ کشمیری مسلمان سو سالہ ڈوگرا شاہی دور میں تعلیم و تدریس کے میدان میں انہی تند وتلخ حقیقتوں کا آئینہ داربنا رہا ۔ مہاراجی دور (1947-1846) میں مٹھی بھر کشمیری مسلمان مروجہ تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ مقامی سطح پر تعلیم پانے کے لیے چونکہ امکانات معدوم تھے اس لیے متوسط طبقہ سے وابستہ انگلی پر گنے جانے والے نوجوان حصولِ تعلیم کے لیے لاہور، دلی، امرتسر، علی گڑھ اور دیوبند وغیرہ کا رُخ کرتے۔ شخصی حکومت کا اس امر سے کوئی ادنیٰ سا سروکار بھی نہ تھا کہ قلمروئے کشمیر میں تعلیم وتدریس کا اُجالا پھیلے۔خاص کر مسلم رعیت کا ناخواندہ بنا رہنا شخصی حکمراں اپنا سیاسی ہدف بنا چکے تھے۔ اس عنوان سے ’’ویلی آف کشمیر‘‘ کے انگریز مصنف اور مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دور میں کمشنر برائے بندوبست اراضی سر والٹر لارنس نے کچھ تلخ تاریخی حقائق اپنی تصنیف میں درج کئے ہیں۔ اُس نے شعبہ ٔتعلیم کے تئیں حکومتی عدم دلچسپی کا نقشہ 92-1891 کے سروے کی روشنی میں کھینچتے ہوئے جو اعداد وشمار دئے ہیں وہ کافی مایوس کن تصویر سامنے لاتے ہیں۔ اس کے مطابق 52,576 ؍ کشمیری غیر مسلموں میں سے صرف 3271؍ سرکاری اسکولوں میں درس وتدریس کی سہولت سے مستفید ہو رہے تھے ،جب کہ757, 433 ؍مسلمانوں میں سے صرف233 ؍ اس نوع کی سہولت سے استفادہ کرتے تھے۔ بالفاظ دیگر اسٹیٹ اسکولوں کی کرم فرمائیاں صرف سات فی صد غیر مسلم آبادی کے لیے وقف تھیں جبکہ تریاسی فی صد مسلم آبادی تعلیم اور خونداگی سے محروم تھی۔ لارنس کے خیال میں مروجہ تعلیم سے مسلم اکثریت کی محرومی کے دو اہم اسباب تھے:

پہلی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں عمومی تاثر یہ تھا کہ جد ید تعلیم کی ہوا سے اُن کے بچوں کے اخلاق پر غلط اثرات مر تب ہوں گے بنا بریں نئی نسل کو ناخواندہ رکھنے میں انہیں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں۔ گاؤں دیہات کا حال تعلیم وتعلم کے حوالے سے شہروں سے کچھ زیادہ ہی اَبتر تھا۔ غریب دیہاتیوں کی بات ہی نہیں گاؤں کے مٹھی بھر کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے بھی مسجد کے ساتھ منسلک مکتب یا آخوند صاحب (مولوی صاحب) کے پاس جاتے۔ وہاں اُنہیں قرآن ناظرہ پڑھایا جاتا اور فارسی پند ناموں کی ابتدائی کتابوں کا وِرد کرایا جاتا اور بس۔ نتیجہ یہ کہ کشمیر ی مسلمانوں کی کئی نسلیں تعلیمی میدان میں کوری اور بے خبر رہیں۔ ان وجوہ سے بھی کشمیری عوام میں سیاسی بیداری کی لہروں کا پیدا ہو جانا ظاہر بین نظر میں بعید از امکان تھا۔

آزادی ہند کی تحریک کے اثرات قدم قدم پر کشمیر میں شخصی راج کے خلاف عوامی تحریک پر کہیں براہ راست اور کہیں بالواسطہ مرتب ہوتے رہے۔

لارنس کی نگاہ میں کشمیر میں تعلیمی پسماندگی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ شخصی حکمراں اپنی جگہ مطمئن تھے سرکاری کام کاج چلانے کے لیے واجبی پڑھے لکھے پنڈت اُن کے لیےکافی تھے۔ البتہ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر کشمیری مسلمان ناخواندگی ترک کر بیٹھیں تو اُن میں ڈوگرا حکمرانوں کے ظلم وجبر، بیگار اور ظالمانہ محصولات کے خلاف باغیانہ جذبات پروان چڑھیں گے۔ اس لیے سرکاری سطح پر نصابی تعلیم سے اکثریتی عوام کی دوری متواتر بنائے رکھنا مہاراجاؤں کے واسطے لابدی بنا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کشمیری مسلمانوں کی ناخواندگی اور ذہنی پسماندگی اُن کی سیاسی غلامی کی شہ رَگ تھی۔ اُن ایامِ ظلمت میں صورت حال یہ تھی کہ ایک معمولی چٹھی پڑھانے کے لیے ناخواندہ کشمیری مسلمان کو خواندہ پنڈت کے پیر پکڑنے پڑتے تھے اس کی مٹھی گرم کرنا پڑتی حتیٰ کہ اس کے گھر میں بیگار جیسی بے عزتی تک گوارا کرنا پڑتی تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم سے محرومی کا یہ بُرا حال مہاراجہ ہری سنگھ کی تخت نشینی کے بعد بھی جاری رہا۔ حالانکہ مہاراجی وضع قطع کے باوجود ہری سنگھ کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں کھلی طبیعت کا مالک آزاد اور قدرے خیال منش مانا جاتا تھا۔ چونکہ وہ یوروپ وغیرہ بھی گھوما پھرا تھا اس لیے جدیدیت کی لہروں سے کماحقہ واقف تھا۔ بایں ہمہ اس کے دورِ حکومت میں بھی کشمیری مسلمانوں کے یہاں تعلیم وتدریس کا چاند ماند پڑا رہا، اگرچہ اس زمانے میں ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی ابتدائی چنگاریاں کشمیر میں بھی مختلف ذرائع سے پہنچنا شروع ہوگئی تھیں۔ کشمیر کے اُلٹ میں برطانوی ہند میں تحریکِ آزادی کانگریس کی زبردست سربراہی میں عروج پر تھی۔ تحریکِ آزادی ہند کے رنگ وآہنگ سے متاثر شیخ عبداللہ اور بیرونِ کشمیر سے تعلیم پائے کئی دوسرے لوگوں نے شہر خاص سری نگر فتح کدل میں ایک ’’ریڈنگ روم پارٹی‘‘ بنائی تھی۔ یہ کوئی رسمی سیاسی پارٹی نہ تھی مگر اس کے بنا نے والے شیخ عبداللہ، محمد رجب قاضی، سیف الدین قادری اور غلام احمد مختارؔ یہاں جمع ہو کر عصری سیاسی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے یا اخبار بینی کر کے برصغیر کے سیاسی مد وجزر کا جائزہ لیتے ساتھ ہی اپنی قوم کی سیاسی بے بصیرتی پر غور وفکر کرتے۔ اس وقت عوام میں دور دور تک کہیں کوئی آس بھری سیاسی آواز نہ تھی کہ جس کے گرد قومی انقلاب کے آغاز کے بارے میں سوچا بھی جاسکتا۔ بہت جلد گردشِ لیل ونہار میں 13؍ جولائی1931ء کا تاریخ ساز واقعہ شہادت پیش آیا جو مہاراجہ مخالف سیاسی ہانڈی میں یکایک اُبال لایا جو چلتے چلتے 1932 میں پتھر مسجد، سری نگر میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے قیام پر منتج ہوا۔ اس نئی باضابطہ سیاسی تنظیم میں تازہ تازہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس کیمسٹری کر کے آئے شیخ عبداللہ بہت جلد دیومالائی کردار بنے اور بلا شرکتِ غیرے مسندِ قیادت سنبھالی۔

بشری حقوق اور نجی آزادیوں سے کلی طور پر محروم کشمیری مسلمان تعلیم اور طب جیسے اہم شعبوں میں صدیوں پیچھے تھے، وہ سماجی خستہ حالی کا منہ بولتا ثبوت تھے، معاشی استحصال اُن کا طرۂ امتیاز تھا۔ اس صورت حال میں مسلم کانفرنس کا قیام اس کے مختلف النوع مطالبات اور سیاسی سرگرمیاں مہاراجہ کے عتاب کو دعوت دیتی رہیں جیسے کشمیر سے ہزار گنا کہیں زیادہ شدید عتاب انگریز حکومت تحریک آزادی ہند کو دبانے کے لیے بروئے کار لا رہے تھے پھر بھی وہ عوام کی حریت خواہی کو نہ دبا سکے۔ اسی طرح کشمیر میں جیلوں اور دوسری تعذیبی کارروائیوں کے باوجود لوگوں کو رام نہ کیا جاسکا۔ یہ چیز کشمیر کی مقامی سیاسی قیادت کے لیےحوصلہ افزاء تھی۔ اس حوالے سے وہ اپنے لیے عزم وہمت کا درس انڈین فریڈم موؤمنٹ سے روز اول سے لیتے رہے۔ اس کی کہیں واضح مثالیں تاریخ کے اوراق پریشاں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

تحریکِ آزادی ہند کے ان اثرات کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہم یہاں مسلم کانفرنس کے ایک تاریخی بیان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ بیان وقت کے ہر دلعزیز لیڈر اور مسلم کانفرنس کے صدر نشین شیخ عبداللہ نے ممبئی میں ’’بمبئی کرانیکل‘‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں مارچ 1939 کو بنفسِ نفیس دیا تھا۔ واضح رہے شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے’’ نیشنل ڈیمانڈ‘‘ کی طرف سے جاری منشور کی پاداش میں قید وبند سے کچھ دن قبل ہی رہا ہوئے تھے۔ زندان خانے سے باہر آتے ہی انہوں نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے بشمول تریپورہ کی راہ لی۔ یہاں کانگریس کے پرچم تلے ’’اسٹیٹس پیپلز کانفرنس‘‘ منعقد ہو رہی تھی۔ شیخ صاحب یہاں اپنے کشمیری نژاد دوست پنڈت جواہر لال نہرو کے چہیتے مہمان بن کر شریک ِاجلاس ہوئے۔ اس موقع پر شیخ صاحب کو چوٹی کے تمام کانگریسی لیڈروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا، اُن کے مابین دوستی کی خوب پینگیں بڑھیں بلکہ سچ پوچھئے تو یہیں پر الحاقِ ہند یا من توشدم کی نیو باضابطہ طور پڑگئی۔ اجلاس میں کانگریسی لیڈروں نے مسلم کانفرنس کے سیاسی دستاویز بموسوم ’’نیشنل ڈیمانڈ‘‘(قومی مطالبہ) کی خوب پذیرائی کی اس سے کشمیری قیادت سے ان کی ذہنی ہم آہنگی کی راہیں مزید ہموار ہوئیں۔ مذکورہ دستاویز میں مہاراجہ سے ذمہ دار نظامِ حکومت کا مطالبہ کیا گیا۔ تریپورہ اجلاس میں اس کی تعریفوں میں کانگریس نے زمین وآسمان کے قلابے ملا کر شیخ کو بخوبی اپنے شیشے میں اُتار کر اپنا ہم پیالہ وہم نوالہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ شیخ صاحب پر تریپورہ اجلاس میں شاباشیوں کی ڈونگرے برسانے اور ایک نشست کی صدارت کروانے سے شیخ کو اپنا سیاسی قد کاٹھ آسمان کو چھوتا نظر آیا۔ چنانچہ دو ماہ بعد ہی جون میں انہوں نے آٹھ سال قبل قائم کئے گئے جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے پہلے باضابطہ سیاسی پلیٹ فارم مسلم کانفرنس کو تحلیل کر کے نیشنل کانفرنس بنا دیا۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی یا محض ناموں کی ادلا بدلی نہیں تھی بلکہ اس اقدام سے جہاں کشمیر کی سیاسی ہوا کا رُخ بدل گیا بلکہ وہاں خاص طور سے شیخ عبداللہ کا سیاسی نظریہ، ترجیحات کا حلیہ اور سیاسی کیرئیر کا قبلہ سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا حتیٰ کہ اُن کی ٹھوڑی پر جچ رہی خشخشی ڈاڑھی اور سر پر رومی ٹوپی بھی پلک جھپکتے ہی غائب ہو گئی۔ مسلم کانفرنس عملی اعتبار سے آل انڈیا مسلم لیگ کی ہم خیال اور بڑی حد تک نظریاتی حلیف تھی جب کہ نیشنل کانفرنس کشمیر میں عملاً انڈین نیشنل کانگریس سے مماثل اس کی ذیلی سیاسی جماعت یا بی ٹیم بن کر رہ گئی۔ باوجودیکہ شیخ ہمیشہ این سی کی جداگانہ علاقائی حیثیت کا دعویٰ کرتے رہے۔مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس بنانے کا فیصلہ الل ٹپ نہ ہوا بلکہ اُس کے پس پشت کانگریسی قیادت کا شیخ پر اثرات (ناقدین اسے خفیہ ساز باز بھی کہتے ہیں) کا ایک لمبا سلسلہ دخیل رہا۔ مؤرخ رشید تاثیر کے بقول ’’کانگریس کو ریاست میں ایک منظم سیاسی جماعت (این سی) ہاتھ آئی اور کشمیری لیڈروں کو کانگریس کی انمول حمایت‘‘ ( تحریک حریت ِکشمیر حصہ اول صفحہ 45 )

بہر حال شیخ عبداللہ نے ممبئی میں ’’بمبئی کرانیکل‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے مہاراجی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کشمیر کی معاشی اور تعلیمی علتوں کا نقشہ یوں کھینچا: ’’ریاستی باشندگان(مسلمان کا لفظ قصداً متروک کیا گیا) کی اقتصادی حالت بے حد قابلِ رحم ہے ریاست کی سالانہ آمدنی دو کروڑ روپے ہے جس میں سے بیالیس لاکھ روپے کسٹم ڈیوٹی سے چھبیس لاکھ مالیہ اراضی سے اور بیالیس لاکھ جنگلات سے وصول کیا جاتا ہے۔ کسٹم کی آمدنی کلیتہً عوام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مالیہ اراضی کی شرح پنجاب کی شرح مالیہ سے دوگنی ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ غریب طبقوں پر پڑتا ہے۔ ریاست کی کل آمدنی کا بائیس فی صد حصہ شاہی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے، تعلیم پر بمشکل تمام دس فی صد خرچ کیا جاتا ہے، اُنیس فی صدی سرکاری افواج پر اورصرف پینتیس فی صد طبی امداد پر خرچ کیا جاتاہے۔ عوام کی تعلیمی حالت کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ مردوں میں سات فی صد اور عورتوں میں چھ فی صد تعلیم یافتہ ہیں۔ جہاں تک شخصی آزادی کا تعلق ہے نوٹیفکیشن ۱۹؍ اپریل کے مطالعہ سے اس کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس اعلامیہ کی رُو سے پولیس کسی بھی شخص کو بغیر چالان گرفتار کر سکتی ہے اور جیل بھیج سکتی ہے کوئی بھی اخبار حکومت پر نکتہ چینی نہیں کرسکتا۔ ریاست میں مسلمانوں کی ایک انجمن مسلم کانفرنس کے نام سے گزشتہ آٹھ برس سے کام کر رہی ہے۔ حال ہی میں اس کی مجلس انتظامیہ نے انجمن مذکورہ کو قوم پرستانہ خطوط پر چلانے کا فیصلہ کر کے غیر مسلموں کے لیے بھی اس کے دروازے کھول دینے کی قرارداد منظور کی ہے۔تقاضائے وقت کے تحت برطانوی ہند کے صوبوں کی ترقی یافتہ حالت سے متاثر ہو کر ریاستی زعماء نے ایک قومی مطالبہ مرتب کیا۔ جونہی یہ قومی مطالبہ مرتب ہو کر منصہ شہود پر آیا اس پر دستخط کرنے والے سب اصحاب نوٹیفکیشن ۱۹؍ کے تحت جیلوں میں ٹھونس دئے گئے۔ یہ اقدام سول نافرمانی کی تحریک کو شروع کرنے کا پیش خیمہ تھا۔ چنانچہ ایک مہینے تک اسے کامیابی سے چلانے کے بعد مہاتما گاندھی اور برطانوی ہند کے دیگر رہنماؤں کی ہدایت پر تحریک معرض التواء میں ڈالی گئی‘‘۔

شیخ عبداللہ کا یہ بیان اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ آزادی ہند کی تحریک کے اثرات قدم قدم پر کشمیر میں شخصی راج کے خلاف عوامی تحریک پر کہیں براہ راست اور کہیں بالواسطہ مرتب ہوتے رہے۔(جاری)


ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں ۔