کشمیر کا سیاسی ماضی!

صبحِ نو کی منتظر تھی رات بھی

ش م احمد، کشمیر

۱۹۳۲ء میں مسلم کانفرنس کا قیام جموں وکشمیر شخصی حکمرانوں کی سیہ کاریوں اور کارستانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی پہلی آہٹ تھی۔ یہ کشمیری مسلمانوں کی محکومیت اور مظلومیت کا منطقی انجام بھی تھا۔ بدنام زماں مہاراجی دورِ ابتلاء میں ایک عام غریب کشمیری مسلمان کی زندگی کیا تھی؟ دُکھوں کا دیباچہ، تکلیفوں کا صحیفہ، پریشانیوں کا مجموعہ!! تصویر کا ایک رُخ یہ کہ ڈوگرہ شاہی غریب رعایا کی حالتِ زار وزبوں حالی سے غافل اپنی عیاشیوں، سرمستیوں اور شہ خرچیوں میں سرتا پا ڈوبی ہوئی تھی۔ وقائع نگار اس دورِ پُر آشوب کی جو تصویر کشی کر چکے ہیں، اس ایک چھوٹی سی جھلک یہ ہے کہ یوروپ کی کھلی فضاؤں میں تعلیم وتربیت پائے مہاراجہ ہری سنگھ تاج پوشی اور تخت نشینی کے دن جس شاہی گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اُسے سات لاکھ روپے مالیت کے قیمتی ہیرے جواہرات سے سجایا گیا ہوتا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ ۱۹۲۴ء میں سات لاکھ روپے کی قدر وقیمت کیا تھی ہوگی؟ نمود ونمائش کی اس کہانی کے ساتھ شاہی خانوادے کی شہ خرچیاں، عیاشیاں، فضولیات اور دیگر کج کلاہیاں جوڑیے تو آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔ مزید برآں شاہی خانوادے میں محلاتی رقص وسرود کی مجلسیں صبح وشام رنگین بناتیں اور کام ودَہن کی لذتیں انسانیت اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتیں۔ واضح رہے کہ یہ فضولیات صرف ہماری ریاست کے ساتھ مخصوص نہ تھیں بلکہ نظام حیدر آباد کے معمولی استثنیٰ کے ساتھ انڈیا کے لگ بھگ تمام راجہ مہاراجوں، نوابوں، رجواڑوں کی یہی مشترکہ کہانی تھی ۔

تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کشمیر کا مسلمان ظلم وتعدی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا، لوگوں کے سر پر مطلق العنان نظام کے من مانے احکامات ہمہ وقت منڈلاتے، بات بات پر رعایا ظلم وتشدد کی بھٹی میں تپائی جاتی، تعصب، استحصال، کور چشمی کا کھلا مظاہرہ ہوتا، ظلم کے خلاف اُف تک کہنے پر جیل لازم وملزوم ہوتی، اونچی آواز میں بولنے پر ریاست بدری کا کالا قانون حرکت میں آتا، مہاراجہ کے  تئیں غلامانہ وفاداری کا اظہا بآواز بلند مہاراجہ کی جے بولنا فرض عین مانا جاتا۔ ڈوگرہ شاہی کے خلاف بغاوت کے ادنیٰ شبے میں باغی کی جائیداد کی ضبطی قانوناً جائز ہوتی، حکام سے معمولی اختلاف کرنے پر املاک کی قرقی یقینی ہوتی، بے گاری کی لعنت پر سر تسلیم خم کرنا، ظالمانہ ٹیکسوں کا رونا نہ رونا، سیاسی گھٹن کے سامنے مکمل خودسپردگی اختیار کرنا اور سب سے بڑھ کر جہالت و غربت کو کردہ الہٰی ماننا،، یہ سب کشمیر کے سیاسی ماضی کی تلخ وتند حقیقتیں تھیں جو تاریخِ انسانیت کے ماتھے پر بدنما دھبے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پنڈت نہرو، علامہ اقبال، عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، پنڈت دیا شنکر نسیم چکبست، شورش کاشمیری اور اس قبیل کے بے شمار کشمیریوں کے آبا واجداد نے اُس دورِ ظلمت میں بھی اپنی چرب دستی اور تردماغی کا سکہ لوگوں کے دلوں میں بٹھایا مگر اس کے لیے اُن کو پہلے کشمیر کے کوہ ودمن سے مستقلاً ہجرت کرنا پڑی۔ علامہ اقبالؔ کے یہ سدا بہار اشعار گواہ ہیں ؎

کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے

اس باغِ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے

ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد

جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے

موتی عدن سے، لعل ہوا ہے یمن سے دور

یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور

ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر کو چھوڑکر

بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور

لوگوں کے مجروح جذبات ، دردو کسک اور انصاف کی چیخ وپکار کے بیچ مسلم کانفرنس کا وجود اُن کے زخموں کا مرہم بنا ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلم کانفرنس عام معنوں میں کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہ تھی بلکہ مظالم کے خلاف جذبہ مزاحمت، مُردوں کے لیے پیغامِ زندگی، نامساعد حالات کی دُھوپ میں جھلسے ہوؤں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا اور بکھرے خوابوں کی یکجائی تھی۔ بی جے پی کی وضع کردہ مروجہ سیاسی اصطلاح میں بولیں تو مسلم کانفرنس اہلِ کشمیر کے لیے اچھے دنوں کی نوید اور آزادی فکر وخیال کا پرچم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کے معرضِ وجود میں آنے سے درد کے ماروں کی آنکھیں خیرہ ہوئیں اور جو قائدین مہاراجی نظام کے سامنے جان ہتھیلی پر رکھنے والے تھے، کشمیری ان کو زمینی انسان کے بجائے آسمانی مخلوق سمجھنے لگے تھے۔ عوام نے اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی کا ایسا مجنونانہ رشتہ وقت کے قائدین سے جوڑا جس نے آگے کشمیر کے سیاسی مستقبل کو شخصی راج سے بھی زیادہ ظالم و جابر شخصیاتی جادو کا گرویدہ بناکر چھوڑا۔ وقت کے قائدین نے لوگوں کی محبتوں کا جو صلہ کیا دیا، وہ ایک ناقابلِ یقین المیہ ہے۔ ان خود غرضوں نے اپنے تئیں سادہ لوح کشمیریوں کی عقیدت میں بے جا غلو، اَندھی تقلید اور شخص پرستانہ بیماریاں دیکھ کر خود کو لوگوں کا خدا بنا ڈالا۔ انانیت، رعونت، تکبر ان کا مزاجِ ثانی بنا اور سو قدم آگے بڑھ کر قائدین نے اپنے آپ کو لوگوں کے جذبات و احساسات کا تر جمان نہیں بلکہ ان کا مالک ومختار سمجھ کر جو چاہا کر ڈالا۔ اس سیاسی طرز عمل کے کیا کیا منفی نتائج برآمد ہوئے، وہ جگ ظاہر ہیں۔ تاریخِ کشمیر اس بابت صدیوں خون کے آنسو بہاتی رہے گی کہ شخصی راج کے زیر تسلط ایک مفلس ولاچار مسلمان کاشت کار سال بھر محنت ومشقت کا معاوضہ یہ پاتا تھا کہ اس کے خون پسینے کی کمائی ہندو زمیندار اور جاگیردار کھا جاتے، بچا کھچا شخصی حکومت کے کارندے مالیہ کے نام پر جبراً وصول کرتے۔ بیچارا کاشت کار خالی ہاتھ رہ جاتا۔ اسی پر اکتفا نہیں ہوتا بلکہ مہاراجی حکومت غریب رعایا کو ٹیکسوں کے آہنی پنجے میں دبوچ کر اُن کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لے کر دم لیتی۔ مثلاً لوگ گھر میں کھڑکی لگانے پر کھڑکی ٹیکس ادا کر نے کی پابند ہوتے، چولہا چمنی ٹیکس بھی واجب الادا ہوتا اور دل تھام کر سنیے جہاں غرباء کو جینے اور مرنے پر مہاراجی خزانے کو بھرنا پڑتا، وہاں بیوی ٹیکس، مال مویشی ٹیکس، دست کاریوں پر ٹیکس، حتیٰ کہ چِھنال ٹیکس (قحبہ گری) بھی دمڑی دمڑی وصول کیا جاتا۔ لُوٹ مار کی ان کارروائیوں کے لیے ہمدردی اور مہربانی جیسی بنیادی انسانی صفات سے محروم سرکاری کارندے، ہرکارے، رنگروٹ سنگ دلی کا نمونہ ہوتے۔ اس سے عوامی ذہن کتنا ماؤف ہو چکا تھا اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے: یہ ۲۹؍ اپریل ۳۱ء ہے، عید کا متبرک دن۔میونسپل کمیٹی باغ جموں میں عید کی نماز کا خطبہ ہو رہا ہے۔ دفعتاً انسپکٹر جنرل پولیس چودھری رام اپنے سب انسپکٹر کھیم چند کو آرڈر دیتا ہے کہ پیش امام منشی محمد اسحق سے خطبہ بند کراؤ۔ سب انسپکٹر حکم کی بجا آوری کرتا ہے تو عیدگاہ میں ہنگامہ برپا ہوتا ہے، مسلمان آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ ابھی اشتعال انگیز حرکت سے مسلمانانِ جموں کا پیمانہ صبر لبریز ہی ہوتا ہے کہ جموں میں ہی لبھو رام نامی ایک پولیس ہیڈ کانسٹبل توہینِ قرآن کا جرم کر بیٹھتا ہے۔ رد عمل میں جموں صوبے میں حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ صوبے میں چوہدری غلام عباس کی سر براہی میں فعال ومتحرک انجمن ینگ منیز ایسوسی ایشن کے پرچم تلے جلسے جلوسوں کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہڑتال، احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ سری نگر تک بڑھانے کے لیے ایسوسی ایشن سری نگر کی ریڈنگ روم پارٹی کی وساطت سے مہاراجہ مخالف اشتہارات پہنچاتی ہے۔ سری نگر کے در ودیوار پر اِن پوسٹروں کو چسپاں کرتے ہوئے دارالمطالعہ پارٹی کا محمد اسماعیل نامی کارکن پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ اسے شہر خاص زینہ کدل کے تھانے میں بند کیا جاتاہے۔ اس پر ہزاروں کشمیری پلک جھپکتے میں احتجاجی جلوس کی صورت میں زینہ کدل تھانے کے باہر جمع ہو جاتے ہیں ۔ ہزارہا لوگوں پر مشتمل جمِ غفیر تھانے کے باہر نعرہ زنی کرتے ہوئے محمد اسماعیل کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جلوس میں شیخ عبداللہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ عوام کا تیکھا ردعمل دیکھتے ہوئے کشمیر کے اس پہلے سیاسی قیدی کو فوراً رہا کیا جاتا ہے۔ لوگ محمد اسماعیل کو جلوس کی صورت میں مرکزی جامع مسجد سری نگر لے جاتے ہیں۔ اتفاق سے جامع مسجد میں پولیس کے دو باوردی سپاہی داخل ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ لوگوں میں بھاگم بھاگ شروع ہو جاتی ہے، مجمع منتشر ہو جاتا ہے اور معدودے چند نفوس کے مسجد میں کوئی فرد بشر ٹھہرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیری مسلمان مہاراجی سپاہ سے ڈرتے بھی تھے مگر نظام کو بدلنے کے لیے بے خوفی کی ادائے مستانہ بھی جانتے تھے۔ ان متوازی رَوِشوں کے گرداب میں کشمیر کی تاریخ مدتوں بنتی بگڑتی رہی۔ ڈوگرہ راج کے زیر سایہ کشمیریوں پر ہمہ وقت ظلم وجبر کی کند تلواریں چلنے پر آج بھی مورخ کا ناطقہ سربگریباں ہے۔ مشتے نمونے ازخروارے، یہاں وقت کے سب بڑے اذیت ناک اور درد انگیز مسئلہ ’’بیگاری‘‘ کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔ اس موضوع پر دو یورپی سیاح مسٹر آرتھر نیو اور مسٹر نائیٹ نے اپنے سفرنامے میں کشمیری مسلمانوں کی جابرانہ بے گاری کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

’’جب ایک بے یار ومددگار شخص کو بے گار (forced labour) کے لیے پکڑا جاتا ہے تو اُس کی بیوی اور بچے روتے اور چیخیں مارتے ہوئے اُس سے لپٹ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب وہ ان سے کبھی نہ مل سکے گا۔ ان مظلوم انسانوں کے قافلے کا منظر اُس وقت دردناک ہو جاتا ہے جب یہ منوں وزن اجناس کی بوریاں اپنے سروں پر اُٹھائے موسمِ گرما کی چلچلاتی دُھوپ میں استور سے گلگت جانے والے ویران راستوں پر چل رہے ہوتے ہیں۔ یہ منظر سائبیریا کی سڑکوں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ لوگ کوئی مجرم نہیں بلکہ مسلمان کاشت کار ہیں ۔۔۔ مہاراجہ کی نہایت بے ضرر رعایا۔‘‘(سردار محمد ابراہیم خان مصنف کشمیر کہانی )

بے گاری ایک جبری اور بلا معاوضہ مشقت کا نام تھا۔ چونکہ مہاراجہ کی قلمرو گلگت بلتستان، اسکردو تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہاں سرحدوں پر تعینات فوج کے لیے رسدات اور اجناس کی ترسیل دشوار گزار پہاڑی سلسلے کے سبب ایک کارِ دارد والا معاملہ تھا۔ ڈوگرہ شاہی نے اس پیچیدہ مسئلے کا حل یہ نکالا کہ سارا فوجی ساز و سامان اور اشیائے خورد ونوش تنومند کشمیری مسلمانوں کی پیٹھوں پر گدھوں کی طرح لاد کر انہیں پولیس کی نگرانی میں پاپیادہ گلگت روانہ کیا جاتا۔ ان بے چاروں میں سے اپنی آخری منزل تک پہنچ کر سستانا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا کیونکہ زیادہ تر بھوک پیاس سے نڈھال ہوکر بیچ راستے ہی بے ہوش ہوکر دم توڑ دیتے، پھر ان کی بے گور وکفن لاشیں جنگل وبیابان یا پہاڑی کی چوٹیوں پر چیلوں اور گِدھوں کی غذا بنتیں۔ گلاب سنگھ کے بیٹے رنبیر سنگھ کے زمانے میں ظلم وستم کی انتہا معمول کی بات تھی۔ گلاب سنگھ اگرچہ ایک روپے کی نذر لے کر سائل کی فریاد سنتا مگر رنبیر سنگھ کے عہدِ ظلم میں کسی مظلوم کو کسی ظالم کے خلاف انصاف طلبی کے لئے منہ کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ رنبیر سنگھ نے چالیس سال تک شخصی راج چلایا۔ اس دوران ۱۸۷۷ء میں قحط سالی سے ہزاروں کشمیری لقمہ اجل بن گئے۔ قحط سے بدحال لوگوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی گاؤں میں گائے ذبح کی، اس کی مخبری مہاراجی پولیس کو ہوئی تو ملزموں کو وقت کے گونتا نامے بے یعنی قلعہ کوہِ ماراں کی سلاخوں میں قید تاموت ملی۔ اس دور میں کوئی مظلوم کشمیری اگر کسی غیر ملکی سیاح یا برطانوی عہدیدار کے سامنے اپنی بپتا بیان کرتا تو اس کی جیل یاترا یقینی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۲۴ء میں جب کشمیری مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ کے دورہ کشمیر کے دوران اپنا دُکھڑا سنایا تو شکایت کنندگان کو نہ صرف نذرِ زندان کیا گیا بلکہ کئی لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں اور کئی ایک کو بغاوت کے الزام میں ریاست بدر کیا گیا۔  ظلم وتشدد کی ان قابل نفریں کارروائیوں کی بظاہر کوئی عوامی مزاحمت نہیں ہوتی مگر من ہی من ڈوگرہ شاہی کے تئیں کشمیریوں میں احساسِ بیگانگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تقویت پاتی رہی اور اُن کے دل ودماغ میں بغاوت کی چنگاریاں سلگاتی رہی۔ مسلم کانفرنس اسی احساسِ بیگانگی اور بغاوت کی چنگاریوں کا رمز وکنایہ تھی۔

( ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں )