کشمیریوں کی عید:درد کی ٹیسیں !۔۔۔غم کی پرچھائیاں!
ش م احمد، کشمیر
وادی ٔ کشمیر میں بھی کہنے کو ۱۹۹۰ء سے عیدین ہرسال اپنے مقررہ وقت پر آئیں مگر کشمیری مسلمانوں کی بگڑی بنائے بغیرگزرگئیں ۔ ’ جنت مینو نظیر‘ کہلانے والے کشمیر میں جاری سیاسی اتھل پتھل کے زیر اثر ہر بارعیدین کی اپنی سرمستیاں گم، گہما گہمی غائب ، شادمانیاں مفقود رہیں ۔ جب سینہ کوبیوں، تلخ کامیوں ، مایوسیوں ، اشک وآہ سے لتھڑی قوم مقدس تہوار وں کے مواقع پر بھی لمحاتی مسرتیں نہ پائیں تو اسے کیوں نہ عید بھی شام ِ غریباں جیسی محسوس ہو؟ شاید یہ بتانے کی چنداں ضر ورت نہیں کہ عید مسلم معاشرے میں زمانے کی کڑواہٹیں کچھ دیربھول کر باہم دِگر گلے ملنے اور مسکراہٹیں ، محبتیں بانٹنے کی پیام بر ہوتی ہے لیکن ارضِ کشمیر میں سال ہا سال سے سیاسی وجوہ سے فضا مغموم اور لوگ زخم زخم ہیں، اس لیے اُن کےلیے عید یں بھی ماتم کا دیباچہ بن کر جلوہ نما ہوتی رہیں ۔ عید کی خوشیاں چھن جانے کا یہ ناہنجار سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی بہانے سے جاری ہے۔فرق صرف یہ کہ اب کی بار کوروناکی وحشتیں بھی مل کر اس معمول کو کچھ اور زیادہ تندو تلخ بنا ئے ہوئی ہیں۔
گزشتہ تیس سالہ دورانیے میں کشمیر کے سیاسی مطلع پر کسی نہ کسی وجہ سے بدقسمتی کی گھنی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں،ان گھٹاؤں کا منحوس سایہ ہر چیز پر پڑا ہوا ہے۔ شاذونادر ہی ایسا ہوا کہ عید سے ہفتہ عشرہ قبل یا عین عید کے دن کوئی ناخوش گوار اور غم آگیں یہاں واقعہ رونما ہونے سے رہا اور کسی نہ کسی گھر کا چشم وچراغ گل نہ ہوا ۔ آج تک یہی دیکھا گیا کہ کہیں نہ کہیں کوئی تکلیف دہ اور اذیت ناک واردات رونما ہوتی ہے جو رنج و غم کی ٹیسں اُٹھاتے ہوئے عید کی خوشیوں پر یکایک شب خون مار جاتی ہے۔ ویسے بھی کشمیر میں رہنے والے لوگوں کےلیے اب یہ دردبھری چیزیں کوئی انہونی نہیں ۔ چشم ِ فلک نے کئی بار دیکھا کہ عید نے اپنی آمد کا بگل کیا بجایا کہ خون ریز جھڑپیں، آگ زنیاں ، سنگ باریاں، گرفتاریاں ، سرکاری بندشیں ، حریت ہڑتالیںجیسی چیزیں وقوع پذیر ہوئیں ۔ ظاہر ہے ان سے عید کی جملہ مسرتوں کا ماند پڑنا قدرتی امر ہے ۔
بایں ہمہ ایسا بھی نہیں ہے کہ عیدالفطر اور عید الاضحی جیسے مقدس مواقع پر عیدخریداریاں ، عید نمازیں،جانوروں کی قربانیاں ، مبارک بادیاں، پٹاخوں کا شور، بچوں کو دی جا نے و الی عیدیاںیا دیگرفضولیات وغیرہ اجتماعی منظر نامے سے مکمل طور غائب رہیں ۔ کشمیر میں عوام کاایک غیر حساس طبقہ یا نودولیتئے ضرور موجود ہیں جو عید ین کو حد ِاعتدال سے متجاوز طرز پر منانے سے کسی حال میں باز آنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ان حضرات کو تھوڑا بہت حالات کی نزاکتیں سمجھانے اور متاثرہ لوگوں کو درپیش مصائب ومسائل کا فہم ادراک کر ا نے کےلیے ’’عید سادگی سے منائیں ‘‘ کے بیانات، اپیلیں اور پند ونصائح کی تکرار کا اصل پس منظر یہی ہے ۔ بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو کشمیر میں عید ین اور ماتم کا سفر متوازی خطوط پر ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتا رہاہے ۔ اس بات کا ہلکا سا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۱۰ء میں جب کشمیر کے طول وعرض میں حالات بہت خراب چل رہے تھے، خون خرابہ عروج پر تھا ، ہڑتال اور کرفیو کا دور دورہ تھا ۔ اُس وقت بھی عید درد ناک صورت حال کی نذر ہوئی۔ ا س پر سری نگر میں محکمہ ٔ تعلیم کے نور محمد بٹ نامی ایک لیکچرر نے انڈر گریجویٹ کلاس کےلیے انگریزی پیپر ترتیب دیا تھاجس میں عصری حالات وحوادث کے حوالے سے ’’ عیدکرفیو میں ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی سوال نامے میں درج کیا تھا ۔اس پر وقت کے صاحبان ِ اقتدار آگ بگولہ ہوئے اور لیکچرر موصوف کو امن شکنی کے الزام میں فوراً سے پیشتر گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سری نگر کے وسیع وعریض مرکزی عیدگاہ میں زیادہ تر عید اجتماعات نامساعد حالا ت کے چلتے موقوف ہی رہے۔ ۹۰ ء سے پہلے اسی عیدگاہ میں عید نمازیں بڑے طمطراق سے ادا کی جاتی تھیں ۔ عیدگاہ کے ایک گوشے میں عالی مسجد نام سے عہد سلاطین کی یادگار ایک بہت ہی شاندار تاریخی مسجد موجودہے ،جہاں روایتاً میرواعظین ِ کشمیر نماز ِ عید سے قبل وعظ ونصیحت کی رُوح پرور مجلس آراستہ کرتے رہے ہیں۔ مابعد ۹۰ء عید گاہ میں نمازیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ روایتی مجلس بھی تاریخ کے تہ خانے میں مقید ہے ۔عید گاہ کے ایک دوسرے گوشے میں’’ بہشت ِ شہداء‘‘ کے نام سے ایک بڑا قبرستان واقع ہے جسے ۱۹۹۰ء کی ابتداء میں معرض ِ وجود میں لایا گیا تھا۔ یہاں میرواعظ کشمیر مولانا محمدفاروق اور خواجہ غنی لون سمیت وہ چیدہ چیدہ عسکریت پسند، مذہبی زعماء، سیاسی رہنما اورعام سویلین آسودہ ٔ خاک ہیں جو وقفے وقفے سے دورِ پُر آشوب کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ بہر حال جب کبھی سری نگر کے عید گاہ میں عید اجتماع امن و قانون کی صورت حال کے پیش نظر یا موسم کی خرابی کے سبب ممکن نہ ہوا تو متبادل کے طور شہر خاص سری نگر میں واقع مرکزی جامع مسجد میں عید نماز وںکی ادائیگیاں ہوتی ر ہیں۔ ۹۰ء سے لے کر آج تک وقت وقت کی حکومت نے کتنی بار تاریخی جامع مسجد میں عوامی خواہشات کے برعکس جمعہ اجتما عات یا عید نماز وں پر ممانعت عائد کردی ،وہ خود میں’’گینس بُک آف ریکارڈز‘‘ میں درج ہونے کے لائق ہے۔ یہ سرکاری ممانعتیں ہمیشہ امن و قانون کی برقراری کے عذر سے جامع مسجد تالہ بند ی پر منتج ہوتی رہیں ۔ آج کل یہ اہم ترین عبادت گاہ کورونا کی وجہ سے نمازیوں ممنوع ہے۔ وادی کی مذہبی قیادت کے متفقہ فیصلہ اور سرکاری ہدایات کے تحت مساجد میں فی ا لوقت کورونا کے سبب ترک ِجماعت پر عمل درآمد ہورہاہے۔
جامع مسجد سری نگرکے علاوہ عیدین کے بڑے اجتماعات آثار شریف حضرت بل سری نگر کے ساتھ ساتھ کشمیر کے شہروں ، دیہات اور قصبہ جات کی مساجد، زیارت گاہوں ، امام بارگاہوں ، عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں منعقدکئے جاتے رہے ہیں مگر اس باریہ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ماضی میں جمعیتہ اہلحدیث کے زیر اہتمام سری نگر میں عیدین کی نماز حضوری باغ( موجودہ اقبال پارک) میںادا ہوتی تھیں۔یہ سلسلہ ۹۰ء میں امن عامہ کا نظام درہم برہم ہونے کے سبب برسوں منقطع رہا لیکن جمعیتہ پھر سری نگر کے سول لائنز ایریاء میںٹورسٹ ریسپشن سنٹر( ٹی آرسی ) گراونڈمیں کئی سال نماز عید کا اہتمام کرتی رہی ہے ۔ اس میدان میں ایک بڑا عید اجتماع ممکن بنانے کےلیے جمعیتہ کے زیر اہتمام سری نگر کی دیگرمساجد میں عیدین کی نمازیں نہیں ہوتیں۔امسال بسبب لاک ڈاؤن نماز عیدالفطر ٹی آر سی میں منعقد نہیں ہورہی ہے ۔
سال ۲۰۱۹ء جموں ،کشمیر اور لداخ کی سیاسی تاریخ کو عید الاضحیٰ سے صرف چند دن قبل ۵۔اگست کو اُس وقت ایک ہنگامہ خیز موڑ دے گیا جب برسراقتدار بی جے پی نے پارلیمنٹ میں آئین ِ ہند کی دفعہ ۳۷۰۔ پر کئی دوسری پارٹیوں کے تعاون سے خط ِتنسیخ پھیر ا۔ پہلے راجیہ سبھا اور بعدازاں لوک سبھامیں وزیرداخلہ امیت شا کی طرف سے پیش کردہ ریاست کی تنظیم ِنو کے عنوان سے جو مسودہ ٔ قانون قومی مقننہ نے منظور کیا ،اس سے 1846ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں قائم ریاست جموں وکشمیر بیک جنبش قلم یاد ِ ماضی ہوگئی ۔ نئے قانون کے مطابق لداخ کو علیحدہ اور جموں وکشمیر کو مشترکہ طور مر کز کا زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ۔ دفعہ ۔۳۷۰ کوریاست سے ہٹانابی جے پی کا دیرینہ خواب تھا جو بالآخر پچھلے سال ۵۔اگست کو حقیقت کا روپ دھارن کر گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مرکز کا یہ فیصلہ کشمیر کی موجودہ اورآنے و الی نسلوں کےلیے اپنے منطقی اثرات ومضمرات سے ان کے ملّی اور سیاسی ومعاشی وجود پر بہت گہرے اثرات مر تب کرے گا ۔ نئی دلی کواندازہ تھا کہ اس دُوررس اقدام کے نتیجے میں کشمیر کے ہر فرد بشر اور ہر طبقے کو متفکر وپریشان ہونا ہی ہونا ہے، اس لیے کسی ممکنہ ناموافق عوامی ردعمل کا توڑ کر نے کی غرض سے اس نے حفظ ماتقدم کے طور کشمیر کی معاصر تاریخ کا سخت ترین کرفیو(clampdown) ریاست بھر میں نافذ کیا کہ پورا خطہ ایک قیدخانے میں بدل گیا ۔ لوگ اپنے گھروں میں بری طرح محصور ہوکر رہ گئے ۔ اگر چہ وادی میں لوگ سکتے کے عالم میں تھے اور چہارسُو قبرستان جیسی خاموشی چھاگئی، البتہ شروع شروع میں کہیں کہیں مشتعل لوگوں نے اپنے گرد حصاروں کو پھلانگتے ہوئے مظاہرے بھی کئے مگر ان مظاہروں پر بہت جلد سنٹرل ریزرو پولیس فورس اورکشمیر پولیس قابو پا نے میں کامیاب رہے۔ ریاست بھر میں بالعموم اور وادی ٔ کشمیر میں بالخصوص کرفیو ، یہاں کے چپے چپے پر سی آر پی ایف اور کشمیر یولیس کا سخت پہرہ ، گیاتھا ،فورسز کا آٹھوں پہر گشت کے بین بین موبائیل، لینڈ لائین ٹیلی فون، زمینی اورہوائی رابطے مکمل طور منقطع کئے گئے تھے ۔ تمام سرکاری دفاتر بشمول کشمیر یونیورسٹی اورتعلیمی ادارے بندرہے ، مساجد کافی دیر آدم زا د دیکھنے کو ترستی رہیں ، انٹریٹ اوراخبارات غیر اعلانیہ پابندیوں کی بھینٹ چڑھے رہے، ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ مع دیگر سیاسی قائدین اور ہزاروں سیاسی کارکن پابند سلاسل کئے گئے۔ مختصراً اس سرزمین میں زندگی کی نبضیں تھم گئیں،ہر جانب سنسان گلیاں، بے حس وحرکت بازار ، نقل وحرکت کی پابندی اورمواصلاتی بندشوں سے ہُو کاعالم بپا تھا اورچہار جانب میدانِ محشر کا گمان ہوتا تھا ۔ جن گھرانوں کے عزیز تعلیم ، تجارت ، صحت، سیاحت یا کسی ودسری وجہ سے ہندوستان یا بیرون ِ ملک تھے ،اُن کےلیے مواصلاتی انقطاع زیادہ قیامت خیز تھا۔ ناگفتہ بہ حالات کے اسی غل غَش میں ۱۱۔اگست کو بڑی عید جلوہ گر ہوئی تو ہلالِ عید نے تمام لوگوں کو یہاں بے دست وپا دیکھا ۔ قبل ا زیںکرفیو کی بندشوں اور سڑکوں پر کانٹے دار تاروں بچھنے کی وجہ سے عید شاپنگ قصہ ٔپارینہ بنی ۔ اس معنی میں کاروباری حلقوں کےلیے پیش آمدہ صورت حال نحوستوں کا غماز تھی۔ ان نازک گھڑیوں میں عید گاہ میں اجتماع ہونا خواب وسراب تھا ہی ، سری نگر کی مرکزی جامع مسجد بھی پہلے ہی تالہ بند تھی۔ آثار شریف حضرت بل بھی عید کی تکبیرات سے محروم رہی۔ گومحصور ین زیادہ تر اللہ کے حضور سربسجود ہونے سے قاصر رہے ، البتہ کہیں کہیں لوگوں نے بندشیں پھلاندتے ہوئے گلی کوچوں کی چھوٹی مسجدوں میں بہ مشکل یہ سعادت حاصل کر سکے۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ بہت قلیل التعداد مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دینے میں کامیاب رہے تھے کیونکہ اول تو بندشوں کی وجہ سے بہت سوں کی قوت ِ خرید جواب دے چکی تھی ، دوم یکایک کرفیوکی بناپر اکثر اے ٹی ایم بند پڑے تھے، سوم سخت محاصرے میں بھیڑ بکریاں اور گائے بیل کے تاجرین قربانی کے جانور بازاروں تک نہ لا سکے جب کہ جانور ذبح کر نے والے اکثر قصاب اپنے گھروں سے ایک قدم بھی باہر نہ نکال سکے، چہارم قربانی کے گوشت کی تقسیم کاری ٹرانسپورٹ پر ممانعت سے لوگوں کے واسطے ایک کارِدارد تھا۔
عید خصوصی طور چھوٹے چھوٹے بچوں کےلیے اُچھل کود اور تفریحات کا سا مان ہوتی ہے، لیکن سال ِرفتہ کی بڑی عید کے دوران یہ معصوم بچے گھروں میں محصورہونے سے گویا قید تنہائی میں عید منا رہے تھے جو ان کی دلچسپیوں تماشوں سے ناآشنا تھی ۔ اس موقع پر روایتی طور پٹاخے پھوڑنے اور آتش بازی کا شعل بھی کم وبیش ناپید رہا۔
سالِ رفتہ عید الاضحی کی اس کہانی نے امسال عیدا لفطر کے تقدس مآب موقع پر بھی لاک ڈاؤن کے پس منظر میں ایک دوسرے انداز سے اپنا اعادہ کیا ہے۔ اس بارعید کے پھیکے پن کا محرک کوئی سیاسی بکھیڑا یا کوئی خون آشام جھڑپ نہیں بلکہ کورونا کی پھیلائی دہشت تھی جس نے ہرکس وناکس کی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ چھوڑا ہے۔ اس وقت حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کا چوتھا دور جموں وکشمیر میں جاری وساری ہے۔معمولاتِ زندگی درہم برہم، کاروبار ٹھپ، مساجد، زیارت گاہوں اور امام باڑوں میں عبادت گزاریوں پر پابندی، دینی اجتماعات اور سماجی تقربیات پر قدغن، تعلیمی ادارے مقفل اور پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے۔ان حالات عید کیسی رہی ہوگی؟ اس کا تصور ہر کو ئی کرسکتا ہے۔ کشمیر میں سالِ رفتہ کی مانند عید الفطر بھی گھروں میں محصور یت کے عالم میں منائی گئی ہے اور نمازِ عید اور عید کے اجتماعات کا انعقاد منقطع رہا۔ اس طرح سال۔۱۹ کی طرح رواں سال بھی اہل کشمیر کے لیے عید الفطر محض کیلنڈر میں تاریخوں کی ادلا بدلی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی:
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
چشم ِ فلک نے کئی بار دیکھا کہ عید نے اپنی آمد کا بگل کیا بجایا کہ خون ریز جھڑپیں، آگ زنیاں ، سنگ باریاں، گرفتاریاں ، سرکاری بندشیں ، حریت ہڑتالیںجیسی چیزیں وقوع پذیر ہوئیں ۔ ظاہر ہے ان سے عید کی جملہ مسرتوں کا ماند پڑنا قدرتی امر ہے ۔