کسان ہی نہیں ملک کا مستقبل بھی داؤ پر:نکھل ڈے

زرعی قوانین اور احتجاج پر ’مزدور کسان شکتی سنگٹھن‘ سے خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

 

’’کسان ہمیشہ سے بھارتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں، ان کی اس اہمیت سے انکار کی مجال بھلا کس میں ہو سکتی ہے؟ تینوں کالے زرعی قوانین کو واپس لینے کے کسانوں کے مطالبوں کو تسلیم کرنے میں ہی حکومت کی عافیت ہے۔ اگر آپ کو حقیقت میں کسانوں کی فکر ہے تو ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے نئے قانون بھی لائے جا سکتے ہیں جس میں تمام فریقوں کی رضامندی شامل ہو۔ آخر قانون بنتا تو ملک کے شہریوں ہی کے لیے ہے نا؟ ایسے میں سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا‘‘۔

ملک کے مشہور سماجی کارکن اور ’مزدور کسان شکتی سنگھٹن‘ تنظیم کے بانی ممبر نِکھل ڈے نے یہ باتیں کہی ہیں۔ 1963میں بنگلورو میں پیدا ہوئے نِکھل ڈے نے بارہویں تک تعلیم امریکہ میں حاصل کی پھر حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی سے بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعد دہلی یونیورسٹی سے قانون کی پڑھائی مکمل کی۔ اس کے بعد سے وہ حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ، لوک پال بل اور رائٹ ٹو فوڈ جیسے قوانین اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں وہ کہتے ہیں ’کسانوں نے ہمیشہ ملک کی خاطر محنت کی ہے اور جن کا اپنا وزن ہے۔ ہماری اکثر حکومتوں نے ملک کی معیشت میں ان کو بالکل حاشیے پر رکھا تب بھی وہ حالات کے ساتھ چلتے رہے اور سیاسی بے وزنی کے شکار رہے۔ وقتاً فوقتاً بے حد برے حالات سے ان کو سامنا کرنا پڑا، جگہ جگہ کسان خود کشی تک کرتے رہے۔ لیکن ملک کی خدمت کرنا نہیں چھوڑا چنانچہ آج وہ ملک کے 60 فیصد شہریوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہماری حکومتیں ان کے مفادات پر چوٹ کرتی جا رہی ہیں اور بڑے صنعت کاروں کو فائدہ پہونچانے میں لگی ہوئی ہیں۔‘

وزیر اعظم نریندر مودی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کسان جن قوانین کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ان کا بھلا کرنے کے لیے لائے گئے ہیں۔ جب نِکھل سے پوچھا گیا کہ حکومت الزام لگاتی ہے کہ کچھ لوگ ان کسانوں کو بہکا رہے ہیں تو اس سوال پر نِکھل ڈے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’کوویڈ-19، کڑاکے کی سردی، آنسو گیس کے گولے اور پانی کی بوچھاڑوں کے بیچ کھودی گئی سڑکوں کے باوجود اپنی جان کی پروا کیے بغیر بھلا کون سڑکوں پر اتر سکتا ہے؟ ان ناگفتہ بہ حالات میں وہی سڑکوں پر اتر سکتا ہے جن کو واقعی بہت بڑی فکر اور اضطراب لاحق ہے اور جن میں خوب غصہ ہے۔ یہ کہنا کہ وہ کسی کے بہکاوے میں آ گئے ہیں تو کیا ہم کسانوں کو اتنا بیوقوف مان سکتے ہیں؟ اور آپ کے دعوے کے مطابق اگر وہ کسی خاص سیاسی پارٹی یا لیڈر کے بہکاوے میں آبھی گئے ہیں تو کیا ان ہی کسانوں کا ووٹ لینے کے لیے حکمراں پارٹی نے ان کو نہیں بہکایا تھا؟ جب کسان کہہ رہے ہیں کہ ان قوانین سے ان کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہوگا تو آخر ان کی بات حکومت سنے گی یا نہیں؟ آپ بغیر کسی کی بات سنے آرڈیننس کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں، سیلیکٹ کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹی میں گئے بغیر اور ایوان پارلیمان میں اطمینان بخش بحث کے بغیر اس سرکاری حکنامے کو قانون بنا دیتے ہیں۔ جبکہ کسان کہتے رہے کہ ان سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

نِکھل ڈے بتاتے ہیں کہ ملک میں آخر جمہوریت ہے کوئی بادشاہت تو نہیں کہ صرف پی ایم مودی یا کسی ایک شخص کے کہنے سے ہی سب کچھ ہو جائے گا۔ فرض کیجیے کہ کسان کسی کے بہکانے سے احتجاجی مارچ کرنے نکل پڑے یا پاگل ہو گئے ہیں، تب بھی ان سے بات تو کر کے دیکھو، ان کے دل کی سنو، ان کے دلائل سنو۔ بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے محاذ کا ایک قدیم ترین حلیف، اکالی دل اسی مسئلے پر وزارت کو چھوڑ کر چلا گیا، کم از کم ان کی ہی کچھ سن لیتے۔‘

زرعی قوانین میں کیا کمی ہے، آخر مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال پر نِکھل ڈے بتاتے ہیں کہ صرف کسان ہی نہیں بلکہ مستقبل میں یہ قوانین ملک کے ہر شہری کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ ان میں سے ایک قانون زرعی پیداوار مارکیٹنگ کمیٹی (اے پی ایم سی) کو بہت کمزور کررہا ہے جبکہ دوسرا قانون ذخیرہ اندوزی کو بڑھاوا دینے والا ثابت ہوگا۔ یہ قانون صارفین اور فوڈ سیکوریٹی کے لیے بھی خطرناک ہے۔ تیسرا قانون کانٹریکٹ فارمنگ کے بارے میں ہے۔ یہ ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے نام پر بڑی کمپنیاں کسانوں کا صرف استحصال ہی کریں گی۔

نِکھل ڈے کی رائے میں ان تینوں زرعی قوانین کا ایک ہی مقصد ہے کہ بڑی کمپنیوں کو زیادہ موقع دیا جائے۔ مرکزی حکومت کا موقف ہے کہ یہ کمپنیاں ملکی زراعت کی حالت کو ٹھیک کر دیں گی۔ لیکن یہ ملک کا ہر سمجھدار شہری جانتا ہے کہ بڑی کمپنیوں نے دنیا بھر میں کیا کچھ کِیا ہے اور خود اپنے ملک میں تو کسان مرگیا، لیکن بڑی کمپنیاں نہیں مریں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020