کب تک سرمايہ کے دھندے،کب تک يہ سرمايہ داري
آکسفام کي رپورٹ سے حکم رانوں کي ساحري اور جمہور کي بے بسي عياں
ڈاکٹر سليم خان،ممبئي
وبا کے مشکل وقت کا اميروں کي تجورياں بھرنے اورغريبوں کے استحصال کے ليے استعمال !
عدم مساوات کا مطلب ’معاشی تشدد‘۔ وبائی مرض نے 16 کروڑ افراد کو غربت کے غار میں دھکیل دیا
دنيا کا ہر معاشرہ عوام و خواص پر مشتمل ہوتا ہے۔ قديم نظام سياست پر چوں کہ خواص کا تسلط تھا اس ليے عوام محرومي کا شکار رہتے تھے۔ اس کے بعد سلطانئ جمہور کا زمانہ آيا تو اس سے يہ توقع تھي کہ خواص کو محرومي سے دوچار ہونا پڑے گا يا کم ازکم دونوں کے درميان تفريق وامتياز ختم يا کم ہوجائے گا۔ آج کل دنيا بھر ميں جمہوريت کا بول بالا ہے۔ اس کي مرعوبيت کا يہ عالم ہے کہ لوگوں نے اسے انسانيت کا نقطۂ عروج سمجھ ليا ہے۔ لوگ اس کي خاميوں پر غور کرنا ہي نہيں چاہتے تو متبادل پر غور کرنے کا سوال ہي پيدا نہيں ہوتا۔ بيشتر ممالک ميں يہ نظام کسي نہ کسي شکل ميں کارفرما رہا ہے۔ اس کا دباو اتنا زيادہ ہے کہ ملوکيت اور آمريت بھي کسي نہ کسي حد تک جمہوري تماشا کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود دنيا کي حالت کيا ہے۔ ابھي حال ميں دنيا ايک عظيم وباء کي تباہي سے دوچار ہوئي۔ اس سے عوام و خواص يعني امير وغريب يکساں طور پر متاثر ہوئے ہيں؟ اس سوال کا جواب آکسفام جو کہ خيراتي اداروں کي ايک کنفيڈريشن ہے اور عالمي غربت کے خاتمے کے ليے کام کرتي ہے کي تازہ رپورٹ کي روشني ميں تلاش کيا جائے تو جواب نفي ميں ملے گا۔ يہ رپورٹ وقتاً فوقتاً جاري ہوتي رہتي ہے ليکن بقول اقبال ؎
خواب سے بيدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا ديتي ہے اُس کو حُکمراں کي ساحري
کورونا کي وباء کے بعد پہلے 6؍ ماہ ميں يہ اندازہ ہوگيا تھا کہ بني نوع انساني کتني بڑي تباہي سے دوچار ہونے والي ہے؟ کرونا وائرس کے مختلف پہلوؤں پر تحقيق کرنے والے برطانوي امپيريل کالج کے ماہرين نے ہندوستان اور نائيجريا جيسے ممالک ميں جہاں کم يا متوسط آمدني والے افراد کي تعداد زيادہ ہےکورونا وائرس کي وبا کےتيزي سے پھيلنے کي پيشن گوئي کردي تھي جو درست ثابت ہوئي۔ آگے چل کر عالمي صحت کے ادارے نے اپني رپورٹ ميں يہ کہہ ديا کہ ہندوستان ميں وباء سے مرنے والوں کي اصلي تعدادسرکاري اعدادو شمار سے تقريباً دس گنا زيادہ تھي۔ اس کي بنيادي وجہ صحت کے معاملات ميں غير منصفانہ فرق يا عدم مساوات ہے۔امپيريل کالج کے محقق پيٹر ونسکل کے مطابق امير گھرانے سے آنے والے مريض کي بہ نسبت غريب کے ہلاک ہونے کا 32 في صد امکان زيادہ تھا کيوں کہ اسےاسپتال تک رسائي نہيں مل پارہي تھي اور اس کا انتہائي نگہداشت کے بستر تک پہنچنا محال تھا۔ بيماري کے دوران آکسيجن کے در بدر کي ٹھوکر کھانے والوں اور موت کے بعد درياميں بہنے والي لاشوں کے مناظر کون بھول سکتا ہے؟
جولائي 2020 ميں آکسفام نے اپني ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا تھا کہ اگر دنيا ميں بھوک و افلاس اور معاشي بدحالي کي موجودہ صورتِ حال جاري رہتي ہے اور اسے درست کرنے کے ليے کچھ نہ کيا گيا تو اس سال کے آخر تک بھوک سے روزانہ 12 ہزار افراد ہلاک ہو سکتے ہيں اور 12 کروڑ سے زيادہ لوگ شديدفاقہ کشي ميں مبتلاء ہو سکتے ہيں۔ کورونا کي بدولت ہونے والي معاشي تباہ کاري کے سبب غربت و افلاس ميں زبردست اضافہ متوقع ہے۔ اس چيلنج سے نمٹنے کے ليےخوشحال ممالک اوراقوام متحدہ سميت عالمي اداروں کو آگے آکربحران پر قابو پانے کي ترغيب دي گئي تھي۔ امسال جنوري ميں شائع ہونے والي اسي ادارے کي رپورٹ ميں اس کے بيشتر اندازوں کي تصديق ہوگئي۔ اس معاشي بحران کو عالمي معيشت 1929 کے وال اسٹريٹ کريش کے بعد بدترين کساد بازاري کا شکار قرار ديا گيا۔ آکسفام کي رپورٹ ميں اس دوران عدم مساوات کو ’معاشي تشدد‘ کے نام سے موسوم کيا گيا اور بتايا گيا کہ صحت کي ديکھ بھال تک رسائي کي کمي، صنفي بنياد پر تشدد، بھوک اور موسمياتي تبديليوں کي وجہ سے عدم مساوات روزانہ 21 ہزار افراد کي موت کا سبب بن رہي ہے۔ يہ اعتراف بھي کيا گيا کہ وبائي مرض نے 160 ملين افراد کو غربت ميں دھکيل ديا اور غير سفيد فام نسلي اقليتوں اور خواتين کو عدم مساوات کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سامنا کرنا پڑ ا۔
کورونا کے منفي اثرات تو عوام پر ہوئے مگر اس دوران جمہوري ممالک ميں رہنے والے دنيا کے 10 امير ترين افراد نے اپني دولت کو دوگنا کر ليا۔ امير ترين مردوں کي دولت 700 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 1.5 کھرب ڈالرز تک پہنچ گئي ہے يعني ان کي دولت اوسطاً 1.3 ارب ڈالرز يوميہ کي شرح سے بڑھي۔ يعني جو عدم مساوات روزانہ 21 ہزار غريبوں کو لقمۂ اجل بنارہي تھي وہي اميروں کي تجوريوں ميں يوميہ 1.3 ارب ڈالر کا اضافہ کررہي تھي۔ جمہوري نظام اس لوٹ کھسوٹ کا محض خاموش تماشائي نہيں تھا بلکہ اس کے آسانياں فراہم کررہا تھا اور اس بہتي گنگا ميں نہ صرف ہاتھ دھو رہا تھا بلکہ ڈبکياں لگا رہا تھا۔ وبائي مرض کے دوران پچھلے 14 برسوں کے مقابلے ميں ارب پتيوں کي دولت سب سے زيادہ بڑھ گئي اور عالمي دولت ميں ان کا حصہ ريکارڈ رفتار سے بڑھ گيا۔ آکسفام نے دنيا بھر ميں ويکسين کي تياري کے ساتھ ساتھ صحت کي ديکھ بھال، موسمياتي موافقت اور جنس کي بنياد پر تشدد ميں کمي کے ليے فنڈز فراہم کرکے زندگياں بچانے کي خاطر ٹيکس اصلاحات پر زور ديا ليکن اس کے مشورے کو جمہوري حکم رانوں نے نظر انداز کرديا۔
يہ صورت حال محض يوروپ اور امريکہ تک محدود نہيں تھي بلکہ ارب پتي افراد کي لسٹ ميں چينسرِفہرست تھا۔ اس کے علاوہ بعيد کے براعظم آسٹريليا ميں بھي 47 ارب پتيوں کي دولت ميں تقريباً 205 ملين ڈالر يوميہ اضافہ ہوتارہا۔ کووڈ 19کے پہلے دو برسوں ميں انھوں نے اپني دولت کو دوگنا کر کے 255 بلين ڈالر تک پہنچا ديا۔ اس کا مطلب ہے کہ يہ افراد في سيکنڈ 2300 ڈالر کي شرح سے کما رہے ہيں۔ ان لوگوں کي دولت کا ايک فيصد عالمي آبادي کے 99 فيصد افراد سے زيادہ تھا۔ اس ليے آکسفام نے آسٹريليا سميت دنيا کي مختلف حکومتوں سے استدعا کي کہ امير افراد پر زيادہ سے زيادہ ٹيکس ليا جائے ليکن چوں کہ وفاقي انتخابات نزديک تھے اس ليے سرمايہ داروں کے ٹيکس کے بجائے چندہ لے کر انتخاب لڑنے کو ترجيح دي گئي۔ آسٹريلين نيشنل يونيورسٹي کرافرڈ اسکول آف پبلک ہيلتھ کے پروفيسر پيٹر وائٹ فرڈ نے عمر رسيدہ افراد کي نگہداشت کے اداروں ميں سرمايہ کاري کرنے پر زور ديا ليکن ان کي کون سنتا ہے؟
آکسفام کے چيف ايگزيکٹيو ڈيني سرسکندراجا نے اس بات پر تعجب کا اظہارکيا کہ وبا کے دوران تقريباً ہر روز کوئي نہ کوئي نيا ارب پتي بنا جب کہ دنيا کي بقيہ 99 فيصد آبادي لاک ڈاؤن، کم ہوتي بين الاقوامي تجارت اور سياحت کي وجہ سے بدتر حالات ميں مبتلا رہي۔اس کے نتيجے ميں دنيا کے مزيد 160 ملين سے زيادہ افراد غربت کے گڑھے ميں جا گرے يعني ان کي يوميہ آمدني 5.50 ڈالر سے بھي کم ہوگئي۔انھوں نے اعتراف کيا کہ ’ہمارے معاشي نظام ميں کچھ بہت غلط ہے۔‘کيونکہ عالمي بحران کے دوران بھي ہمارا غير منصفانہ معاشي نظام امير کو امير تر کرتا رہا ليکن غريب افراد کو تحفظ نہيں دے سکا۔‘ انھوں نے يہ بھي کہا کہ سياسي رہ نماؤں کے پاس اب يہ ايک تاريخي موقع ہے کہ ’ہم جس خطرناک راستے‘ پر ہيں، وہ اسے ’تبديل کرنے کے ليے‘ جرأت مندانہ معاشي حکمت عملي کي حمايت کريں۔سرمايہ دارانہ جمہوريت ميں سياسي چندے کے بل بوتے پر ذرائع ابلاغ کو خريد کر حکومت سازي کرنے والے رہ نماوں سے اس کي توقع کيسے کي جاسکتي ہے؟ڈيني سرسکندراجا تو سرمائے اور دولت پر زيادہ محصولات عائد کرکے اضافي آمدني کو معياري صحت اور سماجي تحفظ پر خرچ کرنے کي سفارش کرتے ہيں ليکن رہ نما تو سرمايہ داروں کي سرپرستي کرکےان کو امير ترين بنانے کے ليے فکر مند رہتے ہيں گوتم اڈاني اس کي کھلي مثال ہيں۔اسي ليے علامہ اقبال نے کہا تھا؎
ہم نے خود شاہي کو پہنايا ہے جمہُوري لباس
جب ذرا آدم ہُوا ہے خود شناس و خود نگر
مذکورہ بالا رپورٹ کے 6؍ ماہ بعد پھر سے ڈاووس ميں دنيا کے امير ترين لوگوں کا اجتماع منعقد ہورہا ہے تاکہ دنيا ميں لوٹ کھسوٹ کے نئے منصوبوں کو بروئے کار لايا جاسکے۔ اس موقع پر پھر ايک بار آ کسفام نے اپنے تازہ ترين جائزے شائع کرديے ہيں۔ اس رپورٹ کے مطابق کورونا کي وباء کے دوران ہر 30 گھنٹوں ميں ايک ارب پتي کا اضافہ ہوا يعني وباء کے دوران جملہ 573نئے ارب پتي پيدا ہوگئے۔ اس سے قبل 23 برسوں ميں ان لوگوں کي دولت جتني بڑھي تھي اتني ان لوگوں نے وباء کے 24 مہينوں ميں بڑھا لي اس سے اندازہ ليا جاسکتا ہے کہ غريبوں کا اس مشکل وقت ميں کس بري طرح سے استحصال کيا گيا۔ سال 2000ميں ان سرمايہ داروں کي دولت عالمي جي ڈي پي کا صرف 4.4فيصد تھي ليکن اب تين گنا بڑھ کر 9.13فيصد ہوگئي۔ يہ اس ليے ممکن ہوسکا کيونکہ غربت و افلاس کے سبب محنت کش کم اجرت پر کام کرنے کے ليے مجبور ہوگئے۔ نجکاري اورمونوپولي کے قوانين کي وجہ سے مزدوروں کے حقوق سلب کيے گئے۔
وباء کے دوران عوام کے ووٹوں سے اقتدار ميں آنے والي جمہوري حکومتوں نے اپنے رائے دہندگان کا خيال رکھنے کے بجائے ان سرمايہ داروں کو ٹيکس ميں زبردست سہولتيں فراہم کيں۔ اس کي بدترين شکل ہندوستان کے اندر ديکھنے کو ملي۔ عالمي سطح پر توانائي کے شعبے ميں کام کرنے والي پانچ سب سے بڑي کمپنيوں نے ہر سيکنڈ ميں 2600 ڈالر منافع کمايا اور غذائي اشيا کا کا روبار کرنے والے 62نئے ارب پتي عالمِ وجود ميں آگئے۔ کارگل نامي کمپني کے اندر في الحال 12 ارب پتي ہيں جب کہ وباء سے پہلے ان کي تعداد صرف 8 تھي۔ کارگل کے ساتھ تين مزيد کمپنيوں نے دنيا 70فيصد غذا کے کاروبار پر قبضہ کررکھا ہے۔ کورونا وباء کے دوران چور دروازے سے گوتم اڈاني کو ہندوستان کا کارگل بنانے کي خاطر ظالمانہ کسان قانون بنايا گيا تھا ليکن ملک کے کسانوں نے زبردست تحريک چلا کر اس سازش کو ناکام کرديا مگر حکومت پھر سے اسے واپس لانے کا ارادہ رکھتي ہے۔غذا کے علاوہ ادويات کے ميدان ميں 40نئے ارب پتي پيدا کرديئے اور ويکسين بنانے والي موڈرنا اور فائزر نے ہر سيکنڈ ميں ايک ہزار ڈالر منافع کمايا کيونکہ ان کي کمائي 24 گنا
زيادہ ہے۔
اس کے برعکس آ کسفام کي محترمہ بوچر کے مطابق ہر 33 گھنٹوں ميں دس لاکھ لوگ انتہائي غربت کي کھائي ميںدھکيل ديے گئے اور ان کي تعداد ميں اس سال26.3 کروڑ کا اضافہ ہوگا۔ وطن عزيز ميں چوں کہ پانچ صوبوں کے انتخابات گزرگئے اس ليے 80 کروڑ لوگوں کي سرکاري خيرات سے گيہوں نکال ديا گيا۔ اب تو سنا ہے راشن کارڈ ہي چھيننے کي تياري چل رہي ہے۔ ايک طرف اشيائے ضروريہ کي قيمتيں دن بہ دن آسمان کو چھورہي ہيں۔ ہندوستان ميں يہ شرح گذشتہ 28سالوں ميں سب سے زيادہ ہوگئي ہے وہيں دوسري جانب غذا اور توانائي کے شعبے ميں سرمايہ دار ہر دودن ميں ايک سو کروڑ کمارہا ہے جب کہ لاکھوں لوگ ہر روز ايک وقت کا کھانا ترک کررہے ہيں اور فکر مند ہيں کہ آگے اپنا وجود کيسے قائم رکھ سکيں گے ؟ مشرقي افريقہ ميں ہر منٹ ايک فرد بھکمري کا شکار ہورہا ہے۔ اس زبردست عدم مساوات نے انسانيت کے رشتے کو تار تار کرديا ہے۔
اس قاتلانہ نابرابري کے باعث سري لنکا اور سوڈان ميں مہنگائي اتني بڑھي کہ خانہ جنگي کي نوبت آگئي۔ دنيا کے 60فيصد کم آمدني والے ممالک خسارے کے سبب ٹوٹنے کے قريب پر پہنچ گئے ہيں۔ في الحال غريب ممالک کے لوگ اميروں کے مقابلے ميں دوگنا قيمت پر اناج خريد رہے ہيں۔ اس کا نتيجہ يہ ہے کہ دنيا کے غريب ترين پچاس فيصد محنت کش 112سال ميں جتنا کماتے ہيں اتنا اوپر کے ايک فيصد لوگ ايک سال ميں کما ليتے ہيں۔ آکسفام نے دنيا بھر ميں جمہوريت کا ڈھونگ رچانے والي حکومتوں سے ان کروڑ پتيوں پر 2فيصد سے پانچ فيصد اضافي ٹيکس لگانے کي سفارش کي ہے۔ اس سے ہرسال 2520ارب روپئے جمع ہوں گے اور اس کي مدد سے 3.2ارب لوگوں کو غربت گڑھے سے نکالا جاسکے گا۔ اس غريب اور متوسط آمدني والے ملک ميں ہر فرد کو ويکسين بھي مہيا کي جاسکتي ہے ليکن جس طرح پہلے آکسفام کي سفارشات کو ٹھکرا کر عوام کو مندر مسجد جيسے مسائل ميں الجھا کر انتخاب جيتے جاتے تھے آگے بھي يہي ہوگا اور جمہوري حکمراں سرمايہ داروں کے ہاتھوں کي کٹھ پتلي بنے رہيں گے۔ ۔ کسي شاعر نے کيا خوب کہا ہے؎
آيا جمہور ميرے ملک ميں گھر ٹوٹ گئے
ديس کے مدّو جزر زِير و زَبر ٹوٹ گئے
رہبرِ قوم کے منشور سے توبہ ہے ميريہے
يہ جمہور تو جمہور سے توبہ ہے ميري
عصرِ حاضر ميں تيل کي دولت کے سبب کئي مسلم حکمراں مالا مال ہيں ليکن دين سے دوري کي وجہ سے کوئي اچھي مثال قائم کرنے سے قاصر ہيں۔ ان حکم رانوں کے چہرے سے مذہبي نقاب کا اترنافالِ نيک ہے کيونکہ ان کي مادہ پرستي دين اسلام کي غلط ترجمان بني ہوئي تھي۔ اب تک کي معلوم انساني تاريخ ميں سب سے زيادہ دولت مند موسيٰ منسا کو سمجھا جاتا ہے جس کي پيدائش 1280 ميں ہوئي اور انتقال 1337 ميں ہوا۔ اس کا اصل نام موسيٰ کيٹا اول تھا ليکن وہ منسا کے نام سے مشہور ہواجس کا مطلب بادشاہ ہے۔معيشت کے معروف عالمي جريدہ ’مني‘ کے مطابق ٹمبکٹو کايہ فرمانروا تاريخ کا امير ترين شخص تھا۔ اس کے دور سلطنت ميں مالي معدنيات اور بطور خاص سونے کے ذخائر سے مالا مال ملک تھا۔ موجودہ ممالک ميں موريطانيہ، سينيگال، گيمبيا، گني، برکينا فاسو، مالي، نائيجر، چاڈ اور نائجيريا وغيرہ موسيٰ کي سلطنت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ منسا موسيٰ کي تعمير کردہ بعض مساجد ہنوز موجود ہيں۔
***
***
کورونا کے منفی اثرات تو عوام پر ہوئے مگر اس دوران جمہوری ممالک میں رہنے والے دنیا کے 10 امیر ترین افراد نے اپنی دولت کو دوگنا کر لیا۔ امیر ترین مردوں کی دولت 700 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 1.5 کھرب ڈالرز تک پہنچ گئی ہے یعنی ان کی دولت اوسطاً 1.3 ارب ڈالرز یومیہ کی شرح سے بڑھی۔ یعنی جو عدم مساوات روزانہ 21 ہزار غریبوں کو لقمۂ اجل بنارہی تھی وہی امیروں کی تجوریوں میں یومیہ 1.3 ارب ڈالر کا اضافہ کررہی تھی۔ جمہوری نظام اس لوٹ کھسوٹ کا محض خاموش تماشائی نہیں تھا بلکہ اس کے آسانیاں فراہم کررہا تھا اور اس بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھو رہا تھا بلکہ ڈبکیاں لگا رہا تھا۔ وبائی مرض کے دوران پچھلے 14 برسوں کے مقابلے میں ارب پتیوں کی دولت سب سے زیادہ بڑھ گئی اور عالمی دولت میں ان کا حصہ ریکارڈ رفتار سے بڑھ گیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 جون تا 11 جون 2022