سلیم الہندیؔ ،حیدرآباد
مہاراشٹرا میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے چند دن قبل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شردپوار کی این سی پی کی جڑیں اکھڑجائیں گی ۔ ایک طرف بی جے پی حسب عادت ان کے قدآور اور بااثرقائد کو دولت اور عہدہ کا لالچ دے کر خریدنے کی تمام تر تدبیریں اختیار کرچکی تھی تو دوسری جانب کانگریس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے کانگریس کے ہیوی ویٹ تسلیم کیے جانے والے لیڈروں کا انتخابی سرگرمیوں میں کوئی نمایاں رول نظر نہیں آیا ۔ ایسے غیر یقینی حالات میں ریاستی اسمبلی کی کل 288 سیٹوں میں سے این سی پی اور کانگریس میں ایک سمجھوتہ ہواجس کے تحت این سی پی نے125 سیٹوں کا مطالبہ کیا۔ کانگریس کی طرف سے کسی اعتراض کے بغیرسونیا گاندھی نے این سی پی کے اس مطالبے کو بخوشی منظور کرلیااور 125 سیٹوں پر این سی پی کے امیدوار کھڑے کرنے کے لیے ہری جھنڈی دکھادی۔ سیٹوں کی تقسیم کے سونیا گاندھی کے فیصلے پرپارٹی کے بیشترقائدین کی جانب سے خاموشی اختیار کیے جانے پر پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ بہ حیثیت کارگزار صدرآل انڈیا کانگریس سونیا گاندھی نے اس اعتراض کے جواب میں کہا تھا کہ کیا کانگریس کے قائدین میں کوئی شردپوار جیسا کوئی طاقتور،قد آور اور بااثر قائدموجود ہے جوہمارے ایم ایل ایز کی مطلوبہ تعداد کو کامیابی سے ہمکنارکرسکتا ہو؟ اگر کوئی ہے تو اس کانام پیش کیجیے ورنہ ہمارے سامنے شرد پوار کو ان کی موجودہ حیثیت میں قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔سونیا گاندھی کے اس جذبہ ستائش کی قدر کرتے ہوئے شردپوار نے جواباً، وسیع النظری کا مظاہرہ کیا اورکانگریس کو 44 سیٹوں کا پیشکش کیا جو 2014 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی طرف سے جیتی ہوئی نشستوں سے 2 زیادہ تھیں۔ اس موقع پر سیاسی مبصرین نے پورے ملک میں کانگریس کی مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس کوریاستی سطح پر ہر ریاست میں ایک قدآور قائد کو آگے بڑھانا ہوگا، جو اس ریاست کے چھوٹے بڑے عوامی مسائل سے واقف ہو اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تاکہ اس قائد کی محنت اور شہرت کے بل بوتے پر پارٹی کو عوام میں اپنامناسب مقام حاصل ہو۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیشتر معاملات میں سیاسی پارٹیوں کے قائدین، زمینی سطح پر کام کرکے مقامی عوام کے دلوں میں جگہ پیدا کرنے والے مقامی قائدین کو اپنی خاص سیاسی سوچ کے تحت کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرتے۔ ایسے خودغرض قائدین کے تعصب کاشکار خود شردپوار بھی رہ چکے ہیں جنہیں دو مرتبہ کانگریس قائدین نے دھتکاردیا تھا۔ ان کی علیحدگی کے بعد سیاسی صورتحال کے پس منظر میں پارٹی کی شبیہ بگڑنے لگی تھی۔ ان حالات میں مہاراشٹرااسمبلی کے انتخابات لڑنے کے لیے کانگریس میں شرد پوار جیسی خوبیوں کے حامل قائد کی تلاش ہونے لگی۔ قیادت کے اس شدید بحران کے دوران، کانگریس پارٹی ایک طرف عوامی مخالفت کے دلدل میں پھنستی جارہی تھی تو دوسری طرف عوام سے بھی دوری بڑھتی جارہی تھی۔ واقعات، حالات اور مشاہدات اس بات کے گواہ ہیں کہ نہروگاندھی خاندان نے کانگریس کو مسلسل یرغمال بنا رکھا ہے۔ سیاسی روایات بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ پارٹی کی بنیادی کمزوریوں اور خامیوں سے پوری طرح واقفیت رکھنے کے باوجود اس خاندان کے ذمہ داروں نے انہیں دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ ان خامیوں سے دامن بچاتے رہے بالکل اسی طرح جس طرح دو مواقع پرشرد پوار کی قیادت کو قبول کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مرکزی قائدین نے ریاستوں کے مقامی بااثر، مخلص اور قابل ذکر قائدین کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر انہیں اوپر اٹھنے سے روک دیا ہو۔ بالفاظ دیگر اگر مقامی قائدین کی شہرت مرکزی قائدین کے مقام سے اوپر اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاتا۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ سندیپ ڈکشٹ ؔ نے راہل گاندھی کے پارٹی صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کے بعد، بیشتر ریاستوں میں پارٹی کی حالت کوایک طویل عرصے سے بیہوش مریض سے تعبیر کیا تھا، جو حقیقت سے بعید بھی نہیں تھا۔ سندیپ ڈکشٹ جیسے دیگر کئی خاندانی سیاسی قائدین، ٹویٹر پر جماعت کی مسلسل بگڑتی ہوئی شبیہ پر اپنی ناپسندیدگی اور اس کے ذمہ داروں پر تنقیدوں کے علاوہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر، مابعد ایمرجنسی، پارٹی میں شہرت پاکر ابھرنے والے نہرو خاندان کے نوجوان قائد سنجے گاندھی کے نقش قدم پر چلنے والے سندیپ ڈکشٹ جیسے ناعاقبت اندیش قائدین اورنقادآج بھی موجود ہیں جنہوں نے پارٹی کی شبیہ کو بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ملکی سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین جانتے ہیں کہ وزیر اعظم پنڈت نہ روؔ کے بعد ملک اور پارٹی کی باگ ڈورجب اندرا گاندھی کے ہاتھوں سونپی گئی تب کانگریس کے انتہائی تجربہ کاراور عوام شناس سیاسی قائدین اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ اندرا گاندھی جنہیں وہ ایک گونگی گڑیا سمجھتے تھے، کسی بھی پالیسی کی تشکیل میں اپنی مرضی اس پر مسلط کرتے رہیں گے اورحکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اندرا گاندھی نے آتے ہی سب سے پہلے ایسی سوچ رکھنے والے قائدین کو اپنی اوقات دکھلا دی۔اسی دوران سنجے گاندھی کے موقع پرست حواری، اندرا گاندھی کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔پارٹی کے سیاسی منظر نامے کے دوسرے منظر میں سونیا گاندھی کا نام نمایاں ہے لیکن ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کی اپنی شہریت رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی روایات اورتہذیب کو سمجھنے کے معاملے میں آج بھی وہ اسی مقام پرکھڑی ہیں جہاں وہ پہلے تھیں۔ ان کی شہریت کو لے کر سستی شہرت حاصل کرنے کے خواہشمند تیسرے درجے کے قائدین ان پر تنقید کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ پارٹی کے سینیر قائدین ،زبانی طور پرراہل گاندھی کی قیادت کوماننے پر مجبور ہیں جب کہ درحقیقت ناتجربہ کارقیادت کو بنیاد بناتے ہوئے ان کی جانب سے پیش کی جانے والی عمدہ تجاویز کوبھی قبول کرنے میں پس و پیش کرتے ہیں جونوجوان قائدین کی اہمیت کوبے اثر کرنے کا قدیم حربہ ہے۔ چند سینئر قائدین نے راہل گاندھی کو ناتجربہ کار قائد کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ کسی قائد کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیاکہ کانگریس پارٹی کی تباہی کے لیے بی جے پی یا نریندر مودی اتنے ذمہ دار نہیں ہیں جتنا خودکانگریسی قائدین اورنہرو گاندھی خاندان ہے جو ہر پانچ سال بعدکسی ریاستی انتخابات میں شکست کے بعد سیاسی افق سے غائب ہوجاتا ہے اور عوام سے یہ امید بھی رکھتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ کانگریس ہی کو ووٹ دیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے کانگریس میں ایک اورخرابی کو نوٹ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بے شک پارٹی کے تجربہ کار لیکن عمر رسیدہ‘ بوڑھے، بیمار، جسمانی معذور سینئر قائدین جنہیں مکمل جسمانی اور دماغی آرام کی سخت ضرورت ہے وہ سماج میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے آج بھی کسی نہ کسی عہدے کی آرزورکھتے ہیں۔ ان بدترین سیاسی حالات میں الجھے ہوئے ہونے کے باوجود ،پارٹی ورکرس کی ایک فوج ،خوش آئند مستقبل کی امید پر بڑی دلجوئی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔خوش قسمتی سے پارٹی کا پالیسی پروگرام آج بھی عوام میں مقبول ہے لیکن کانگریس کی ڈوبتی ابھرتی ہوئی کشتی کو ان کے اپنے ہی ملاح کنارے لگانے کی تدبیریں کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ پارٹی ورکرس عہدے اور دولت کی لالچ میں مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے ساتھ جڑ جائیں، مخلص قائدین کو آگے آنا چاہیے۔پارٹی کی ذمہ داریاں سفارش کے بجائے قابلیت کی بنیاد پر تقسیم کی جانی چاہئیں۔ماضی کی خوبیوں، خرابیوں، ناکامیوں اور کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے، کسی دوراندیش، مخلص ، بے لوث، بے داغ ، مضبوط اور تجربہ کار قیادت کی تلاش کی جائے۔مرکزی قیادت اپنے اندر اتنی جراءت پیدا کرے کہ وہ ریاستی اور مقامی سطح کے قائدین کی ہمت افزائی کرے اور انہیں آگے بڑھنے سے ہرگز نہ روکیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوچ کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ گزشتہ برسوں میں جہاں جہاں کانگریسی زیرانتظام ریاستیں قائم تھیں، وہاں پر حکومت نے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ، عوام کو بری طرح نظر انداز کرتے رہے۔ منتخب نمائندے عوام سے مسلسل دور دور ہی رہے۔ بے اعتنائی کے ایسے سلوک نے حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل کردیااورحکم راں، عوام کو صرف ووٹ دینے والی مشین سمجھنے لگے جس کانتیجہ پورے ملک نے دیکھ لیا۔ شرد پوارؔ نے کہا تھا کہ کانگریس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ تو عوام کی نفسیات سے واقف ہے نہ عوام کو قریب کرنے کا سلیقہ آتا ہے، وہ توصرف نہرو گاندھی خاندان کے نام پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی کانگریس میں بے شمار قابل تجربہ کارقائدین موجود ہیں۔اگر واقعی کانگریس ملک میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ ابھی باقی ہے تو ان کے لیے سب سے بہترین مشورہ اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ مرکزی قیادت کے لیے نہرو گاندھی خاندان سے ہٹ کر کوئی مشترکہ قائدتلاش کرے، جو ناممکن نہیں ہے۔ کوتاہ ذہن اور خودغرض قائدین کے ساتھ انقلابی تبدیلی ممکن نہیں۔
***
اگر واقعی کانگریس ملک میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ ابھی باقی ہے تو اس کے لیے اس سے بہتر مشورہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ مرکزی قیادت کے لیے نہرو گاندھی خاندان سے ہٹ کر کوئی مشترکہ قائد تلاش کرے، جو ناممکن نہیں ہے۔ کوتاہ ذہن اور خودغرض قائدین کے ساتھ انقلابی تبدیلی ممکن نہیں۔