کامياب منصوبہ بندي کے ذريعے جمہوري اداروں کا تحفظ ممکن
آزاد صحافيوں کے پينل کي کاميابي کا سبق
سبطين کوثر
پريس کلب آف انڈيا، دلي ميں نفرت اور دولت کو شکست
بڑي جيت ہميشہ بڑي ذمہ دارياں لے کر آتي ہے۔ جمہوري نظام ميں ووٹ کي طاقت اس ليے تسليم شدہ ہے کہ وہ کسي بھي سياسي جماعت يا کسي تنظيم کو خود احتسابي کے جذبے کو ابھارتي ہے اور بہتر سے بہتر کام کرنے کي منصوبہ بندي کرنے کے ليے مہميز کرتي ہے۔ گذشتہ دنوں ملک کي سب سے بڑي صحافتي تنظيم پريس کلب آف انڈيا کے انتخابات ہوئے۔انتخابي ضابطے کے تحت پہلے کي طرح مختلف پينلوں سے جڑے صحافي اپنے اپنے گروپ بناکر ممبران کے درميان گئے اور ان سے اپنے پينل کو ووٹ دينے کي اپيل کي۔ يہاں اس بات کي وضاحت بھي ضروري ہے کہ پريس کلب کے انتخابات ميں اس مرتبہ جس طرح پروپيگنڈہ بازي، منفي تشہير، ايک دوسرے کے پينل کو نيچا دکھانے اور اسے بدنام کرنے کي منظم سازشيں رچي گئي تھيں اس کي مثال اس سے پہلے کبھي نہيں ملتي۔ ليکن ان تمام تر پروپيگنڈوں کو مات دے کر اور تمام پينلوں کو شکست فاش دے کر جس طرح ممتاز صحافي اوماکانت لکھيرا اور ان کے پينل نے جيت درج کي ہے اسے تاريخي جيت کہنا حق بجانب ہوگا۔ اس بار ان کے پينل کے کسي بھي فرد کو کوئي بھي پينل تمام تر وسائل و ذرائع کا بے جا استعمال کرکے ہرا نہيں پايا۔ لکھيرا پينل کے تمام 21 اميدواروں نے اپنے حريفوں کو بڑے ووٹوں کے فرق سے شکست کا مزہ چکھايا اور کسي بھي پينل کے کسي بھي رکن کو جيت کے قريب بھي نہيں پھٹکنے ديا۔ يہ پريس کلب کي تاريخ ميں اپني نوعيت کا منفرد انتخاب تھا جسے ايک ہي پينل نے کلين سويپ کرکے جيت ليا۔ اس جيت نے جمہوري نظام اور ووٹوں کي طاقت کو ايک بار پھر ثابت کيا ہے اور جو بھي فرد يا طبقہ اس نظام سے نااميد ہوگيا تھا اس کا اعتبار ايک بار پھر جمہوري نظام پر مضبوط ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہي يہ اميد بھي جاگي ہے کہ خواہ حالات کتنے بھي ناموافق ہوں اگر مثبت لائحہ عمل، اچھي منصوبہ بندي اور اجتماعي کوششيں کي جائيں تو ہر بادِمخالف سے ٹکرايا جا سکتا ہے اور اسے اپنے موافق بھي بنايا جاسکتا ہے۔ دوسري ايک اور مثبت چيز اس انتخاب سے يہ نکل کر آئي ہے کہ برسر اقتدار جماعت کي شہ، حکومت کي خوشامد اور چاپلوسي کرکے يا ان کے حاميوں کے بھروسے ہر جگہ جيت جانا آسان نہيں ہيں، آج بھي مختلف تنظيموں / اداروں ميں ايسے افراد ہيں جو بلا خوف و خطر سچ کا ساتھ ديتے ہيں، اچھے لوگوں کا انتخاب کرنے ميں آگے آتے ہيں، انہيں تنظيم اور ادارے کي بہتري کا خيال ہوتا ہے، وہ وقتي فائدے اور نقصان سے اوپر اٹھ کر اپنے حق رائے دہي کا استعمال کرتے ہيں نيز پروپيگنڈے کا ايسي خاموشي سے جواب ديتے ہيں کہ پروپيگنڈہ کرنے والا بھي دم بخود رہ جاتا ہے۔
يہ بات يہاں واضح کرديني ضروري ہے کہ پريس کلب آف انڈيا کي قيادت کرنے والے اور نو منتخب پينل(چند لوگوں کو چھوڑ کر باقي تمام)نے 2021 ميں جو وعدے کيے تھے ان ميں سے کئي وعدے ابھي بھي پورے نہيں ہوئے ہيں۔ يہ بات بھي صحيح ہے کہ کووڈ-19 کي دوسري اور تيسري لہر کي وجہ سے کئي ماہ تک پي سي آئي کا دفتر بند رہا جس کے باعث کام کرنے ميں دشوارياں پيش آئيں۔ ايک دوسرا معاملہ ماليات سے بھي متعلق ہے۔پاليسي يا منصوبوں کو نافذ کرنے کے ليے بجٹ درکار ہے اور جتني رقم چاہيے پي سي آئي کے پاس اتني رقم نہيں ہوتي۔ نومنتخب پينل پر يہ ذمہ داري بھي عائد ہوتي ہے کہ وہ پريس کلب کے کام کاج و ديگر سرگرميوں کو جاري رکھنے کے ليے رقم کا بندوبست کہاں سے اور کيسے کريں گے اس پر بھي انہيں سر جوڑ کر بيٹھنا ہوگا۔ صحافيوں کو درپيش مسائل کا حل بھي ڈھونڈنا ہوگا اور ان کے حقوق جہاں بھي اور جس طريقے سے بھي سلب کيے جا رہے ہيں اس کے خلاف انہيں سيسہ پلائي ہوئي ديوار بننا ہوگا۔ انہيں صحافيوں کو اعتماد ميں بھي لينا ہوگا اور انہيں يہ يقين دلانا ہوگا کہ وہ ان کے حقوق کے نگراں ہيں تاکہ صحافي حضرات پوري بے خوفي اور جرات کے ساتھ اپني پيشہ وارانہ ذمہ داريوں کو ادا کرسکيں۔انہيں مختلف حلقوں کے سرکردہ افراد کے ساتھ ڈائيلاگ بھي کرنا ہوگا اور حکومت پر دباؤ بنانے کے ليے ايک پريشر گروپ کي بھي تشکيل کرنا ہوگا اور اس ميں ايسے لوگوں کو جوڑنا ہوگا جو ادارے کے مفاد کے ليے کام کرنے کے خواہاں ہوں۔وقفے وقفے سے ايسے سيمينار اور سمپوزيم کا بھي انعقاد کرنا ہوگا جس سے ملک ميں اچھا پيغام جائے۔ امن و امان اور آپسي رواداري کو برقرار رکھنے کے ليے ہر طبقے کے نماياں شخصيات کے ساتھ تبادلہ خيال کرنا ہوگا اور انہيں اپنے پروگراموں ميں مدعو کرنا ہوگا تاکہ اس ادارے کي شان باقي رہے۔
اسي تناظر ميں کميٹي ٹو پروٹيکٹ جرنلسٹس(سي پي جے) کي رپورٹ پر اگر نظر ڈاليں تو يہ بات پريشان کر دے گي کہ کس طرح موجودہ حکومت سےاختلاف رائے رکھنے والوں کو دبايا جا رہا ہے، جوبھي صحافي حکمراں جماعت کي فکر کے ساتھ مطابقت نہيں رکھتا اسے سلاخوں کے پيچھے پہنچا ديا جاتا ہے۔ کيرالہ کے مشہور صحافي صديق کپپن اور ورورا راؤ اس کي سب سے بڑي مثال ہيں۔ صديق کپپن آج بھي قيد و بند کي صعوبتيں برداشت کرنے پرمجبور ہيں۔ورورا راؤ کو کافي طويل عرصے تک شديد بيمار رہنے کے باوجود رہا نہيں کيا گيا۔ انہيں اس وقت رہائي ملي جب ان کے وکيل نے کورٹ کو يہ بتايا کہ وہ اس قدر عليل ہوچکے ہيں کہ اگر انہيں کھلي فضاميں سانس لينے کي اجازت نہيں دي گئي تو پھر وہ مزيد سانس لينے کے متحمل نہيں ہوسکتے۔ صديق کپپن ہاتھرس سانحہ کو کور کرنے جا رہے تھے کہ انہيں راستے ميں ہي گرفتار کر ليا گيا۔ ان کي گرفتاري کے بعد پريس کلب آف انڈيا کے صدر نے اپنے ساتھيوں کے ساتھ احتجاج و مظاہرہ بھي کيا تھا اور ٹويٹر پر ان کي حمايت ميں کيمپين بھي چلائي تھي۔ تين زرعي قوانين کے خلاف کسانوں کے مظاہروں کے دوران انٹرنيٹ بند کيے گئے تھے۔ حق کي طرفداري کرنے والے صحافيوں کو وہاں جانے سے روکا گيا۔ کشمير ميں صحافيوں کو جس طرح کي پريشانيوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے و ہ ناقابل بيان ہے۔ آئے دن وہاں انٹرنيٹ بند کرديا جاتا ہے۔ دفعہ 370کے خاتمے کے بعد سے وہاں صورت حال مزيد ابتر ہوگئي ہے۔ صحافيوں کووہاں کے حالات کي رپورٹنگ کرنے سے روکا جا رہا ہے۔دوسري طرف کشمير سے تعلق رکھنے والے اور انساني حقوق کے ليے کام کرنے والے ممتاز کارکن کو ’ٹائم ميگزين‘ نے دنيا کي 100طاقت ور ترين شخصيات ميں شامل کيا ہے۔ ٹائم نے لکھا ہے کہ ’’انہيں خاموش کرايا گيا ہے کيوں کہ ان کي آواز کشمير ميں ہونے والي بے جا زيادتيوں اور انساني حقوق کي خلاف ورزيوں کے ليے گونجتي رہي ہے‘‘۔ ميگزين نے خرم پرويز کو ’جديد دور کا ڈيوڈ‘ کے لقب سے بھي سرفراز کيا ہے۔ٹائم نے لکھا ہے کہ’’ انھوں نے ان لاپتہ لوگوں اور ان کے خاندان کي آواز بننے کي کوشش کي ہے جنہيں اچانک غائب کرديا گيا‘‘۔ في الوقت خرم پرويزسلاخوں کے پيچھے ہيں۔انہيں 23 نومبر 2021دہشت گردانہ سرگرميوں ميں معاونت کے ليے غير قانوني طريقے سے فنڈنگ کرنےکے الزام کے تحت گرفتار کيا گيا تھا۔خرم پرويز جموں و کشمير کواليشن آف سول سوسائيٹي(جے کےسي سي ايس)کے پروگرام کو آرڈينيٹر اور ايشين فيڈريشن اگينسٹ انوالنٹري ڈسِ ايپيرنس نامي ادارےکے صدر ہيں۔
يہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروري ہوگا کہ کئي ہندوستاني صحافيوں اور انساني حقوق کے کارکنوں کے فون پر اين ايس او گروپ کے پيگاسس اسپائي ويئر کا پتہ چلا ہے۔ اسپائي ويئر ايک ايسا حربہ ہے جس سے حکومت کسي کو بھي خوفزدہ کرسکتي ہے۔ ان الزامات کي تحقيقات جاري ہے کہ ہندوستاني حکومت نے اس سپائي ويئر کا استعمال کيا يا نہيں ليکن يہ بھي سچ ہے کہ اس سافٹ ويئر کے ذريعہ کئي صحافيوں کي نگراني کرائي گئي ہے۔اس کے برعکس، حکومت کي ہاں ميں ہاں ملانے والے صحافيوں کو ہر طرح کي مراعات دي گئي ہيں اور ان کے نفرت انگيز ٹويٹس کے خلاف ان پر کسي طرح کي قانوني کارروائي نہيں ہوئي جب کہ جو حکومت کي نظر ميں ’الگ طرح کے نظريات کے حامل‘ ہيں ان کے خلاف ہر طرح کي کارروائيوں کو حق بجانب اور قانون کي پيروي ثابت کرنے کي کوشش کي گئي ہے۔
سي پي جے کي رپورٹ کے مطابق صحافيوں کے خلاف کارروائي کرنے ميں ہندوستان اور ميکسيکو سر فہرست ہيں۔ يہ اعداد و شمار ملک ميں صحافيوں کي آزادي اور اظہار رائے کي آزادي کي قلعي کھولنے کے ليے کافي ہيں۔
ان حالات کو پيش نظر رکھ کر پريس کلب آف انڈيا کي نئي ٹيم پر ملک کو بچانے صداقت پر مبني آوازيں بلند کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہيں باوقار طريقے سے اپنا کام بلا رکاوٹ کرنے کے ليے سازگار ماحول تيار کرانے کي بھي ذمہ داري عائد ہوتي ہے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ اوما کانت لکھيرا کي ٹيم اس ميں کتني کامياب ہوتي ہے؟
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 جون تا 11 جون 2022