ڈبل انجن سرکار کی دوہری ہزیمت

یوگی سرکار پرعدلیہ کا ڈبل بلڈوزر اوراگنی ویروں کا ٹینک

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

’’ہم نہ ڈریں گے نہ جھکیں گے‘‘۔آفرین فاطمہ کے الفاظ ظلم کے آگے ڈٹ جانے کا پیام
پریاگ راج میں جماعت اسلامی ہند کے مقامی ناظم اور ویلفیئر پارٹی کے عہدیدار جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کے گھر کو منہدم کرواکر وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فوجی تربیت کے بغیر ہی وہ اگنی ویر ہیں ۔ ٹیلی ویژن کے پردے پر انہیں گودی میڈیا نے جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا اس سے قطع نظر یہ دیکھیں کہ ایک گھر کو غیر قانونی طور پر گرانے کے لیے یوگی انتظامیہ نے کیا کیا پاپڑ بیلے ۔ پہلے تو اس کام کے لیے اتوار کا دن منتخب کیا گیا تاکہ عدالت سے رجوع نہ کیا جاسکے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے حکام کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ قانون کو پامال کررہے ہیں اور عدالت اس پر روک لگا سکتی ہے۔ چور کی داڑھی میں تنکا اسی کو کہتے ہیں ۔ اس پر اکتفا کرنے کے بجائے پھر پروین فاطمہ کے خاوند جاوید محمد پر تشدد کا جھوٹا الزام لگا کر انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر انتالیس مقدمات ٹھونک دیے گئے۔ اس کے بعد ذیابطیس کی مریض بزرگ خاتون پروین فاطمہ کو ان کی بیٹی سمیت 33 گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا اور پھر ایک ہزار سے زیادہ پولیس جوانوں کی مدد سے اس علاقہ کی گھیرابندی کی گئی تب جاکر سرکاری حکام نے وہاں جانے کی ہمت کی اور وہ ایک مکان کو گرانے کے لیے دو عدد بلڈوزر کے ساتھ پہنچے۔
یہ کون سی بہادری کا کام ہے کہ جس کے کے لیے وزیر اعلیٰ اور ان کے مصاحبین کو تمغہ دلیری سے نوازا جائے؟ یہ سوال کم ازکم وہ گودی میڈیا تو نہیں پوچھ سکتا جو سارا کام کاج چھوڑ کر وہاں موجود تھا اور پل پل کی خبر دے رہا تھا ۔ اس کو تو یوگی کی تعریف کرنے کے لیے وہاں بھیجا گیا تھا اور ان کی تعریف کے پل باندھ رہا تھا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دلیر یوگی ہے یا جاوید محمد کی بیٹی آفرین فاطمہ جس نے اپنے گھر کے انہدام کے بعد کہا ہم آنسوکا قطرہ بھی نہیں بہائیں گے۔ ہم انہیں ہنسنے کا موقع نہیں دیں گے ۔ وہ ہمیں توڑ نہیں سکتے۔ ہم نہ ڈریں گے اور نہ جھکیں گے ۔ دلیری اس کو کہتے ہیں ۔ اس طرح ڈٹ کر ظلم کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور ظالموں کو شکست دی جاتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ در اصل جاوید محمد کا گھر توڑ کرمسلمان قوم کو ڈرانا چاہتے تھے کہ اگر انہوں نے ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا لیکن وائے ناکامی کہ پوری ملت تو دور وہ جاوید محمد کی جانباز بیٹی آفرین فاطمہ کو بھی خوفزدہ نہیں کرسکے ۔ ملت کی اس دلیر بیٹی نے نہ صرف امت کو بے خوف کردیا بلکہ ظالموں کو ڈرا بھی دیا اور جھکا بھی دیا۔
آفرین فاطمہ جس وقت اپنا یہ ویڈیو ریکارڈ کروا رہی تھی اس وقت کون جانتا تھا کہ چار دن کے اندر اگنی پتھ نامی سرکاری اسکیم کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ نوجوان بی جے پی کے دفاتر میں گھس کر اور اس کے رہنماوں پر حملے کرنے لگیں گے۔ گیروا رہنما اپنے گھروں میں غیر محفوظ ہوجائیں گے۔ اس ماحول میں سوشل میڈیا پر یوگی اور ان کا بلڈوزر ایک بہت بڑا مذاق بن جائے گا۔ لوگ سوال پوچھیں گے کہ بابا آپ کا بلڈوزر کہاں ہے ؟ تو جواب ندارد ہوگا۔ وہ ٹیلی ویژن کے اینکرس جنہوں نے جمعہ کے دن تشدد کے واقعات کو دکھا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا منصوبہ بنارکھا تھا،ان کا منصوبہ اچانک خاک میں مل جائے گا ۔ اگنی پتھ کے خلاف پرتشدد احتجاج کی ویڈیوز تو مجبوراً دکھائی جائیں گی مگر ان کا بدلا ہوا لب و لہجہ میڈیا کی منافقت کا جیتا جاگتا ثبوت بن جائے گا ۔ یہ قدرت کا انصاف ہے جس کے آگے کسی نہیں چلتی وہ بڑے بڑے سرکشوں کو سرِ بازار رسوا کردیتا ہے ۔ اس نے موجودہ سرکار کے ساتھ اس کے حامی ذرائع ابلاغ کو بھی ان کے اپنے چینل پر مادر زاد برہنہ کردیا۔ فی الحال تو ایسا لگ رہا ہے گویا یوگی انتظامیہ اپنے بلڈوزر کے نیچے کراہ رہا ہے۔
اگنی پتھ کی مخالفت میں سب سے زیادہ ہنگامہ این ڈی اے کی حکومت والے صوبہ بہار میں ہوا ۔ وہاں مذکورہ اسکیم کے خلاف چوتھے دن طلبہ تنظیموں نے بہار بند کی کال دےدی ۔ اس بند کوسب سے بڑی حزب اختلاف آر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ این ڈی اے میں شامل ہند عوام مورچہ اور وکاس شیل انسان پارٹی بھی بند کی حمایت کے لیے مجبور ہوگئے تھے ۔ ریاستی بند کی کال دینے والوں میں روزگار سنگھرش متحدہ محاذ اور فوج میں بھرتی جوان مورچہ پیش پیش تھے ۔ ان تنظیموں نے مرکزی حکومت کو اگنی پتھ اسکیم واپس لینے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا بصورتِ دیگر بھارت بند کی دھمکی دی۔ اس نام نہاد پرامن بند کے دوران بہار میں مظاہرین نے 14 ٹرینوں کو نذر آتش کر دیا۔ اس کے سبب ریاستی حکومت نے اگلے 48 گھنٹوں کے لیے 12 اضلاع میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی۔
این ڈی اے والے جو کچھ کشمیر میں کرتے تھے اب بہار میں ہورہا ہے اور بھارت بند ہو جائے تو پورے ملک میں ہوگا ۔ ایسے میں سبرامنیم سوامی کا فقرہ یاد آتا ہے کہ وہ توقع کررہے تھے کشمیر میں ہندوستان جیسا پر امن ماحول ہوجائے گا مگر شاہ جی کی مہربانی سے پورے ملک میں کشمیر جیسی بد امنی پھیل رہی ہے۔ حالیہ تشدد میں جہاں بہار کے اندر ایک مسافر کی دم گھٹنے سے موت ہوگئی وہیں جنوب کی ریاست تلنگانہ کے سکندرآباد میں پولیس فائرنگ میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ اس کے علاوہ ہریانہ میں فوج کی مشق کرنے والے ایک نوجوان کے خودکشی کی خبر بھی میڈیا آچکی ہے۔ مشتعل نوجوانوں نے بطور احتجاج ٹرینوں کو آگ لگانے کے علاوہ نجی، سرکاری گاڑیوں اور ریلوے اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ہائی ویزو ریلوے لائنیں بلاک کر دیں۔یہ احتجاج ابھی تک ملک کی 13 ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت بند کا اعلان ہوجائے تو وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔ اس نے ملک بھر کے محبان وطن کے دلوں کاتار چھیڑ دیا ہے۔ اگنی پتھ نے وزیر اعظم کی ایک نوجوان مخالف شبیہ بناکر ان کے والدین کو بھی سرکار کا دشمن بنا دیا ہے۔
بہار کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے یو پی میں ہوئے ۔ اس سے جملہ 20 اضلاع متاثر ہوچکے ہیں۔ بلیا میں نوجوانوں نے ’بھارت ماتا کی جئے‘ اور ’اگنی پتھ واپس لو‘ جیسے نعرے لگا کر ایک خالی ٹرین میں آگ لگا دی۔ کچھ دیگر ٹرینوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی جس کے بعد پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا۔ وارانسی، فیروز آباد اور امیٹھی کے مظاہروں میں سرکاری بسوں اور دیگر عوامی ملکیت کو نقصان پہنچایا گیا ۔ یوگی یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا سکتے ہیں کہ یہ مرکزی حکومت کا فیصلہ ہے اور جو آگ پورے ملک میں پھیل گئی ہو اس سے یوپی کیونکر محفوظ رہ سکتا ہے لیکن ایک ذلت و درماندگی ایسی ہے جو انہیں کے لیے خاص ہے۔ جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کے گھر پر یوگی انتظامیہ نے ڈبل بلڈوزر چلایا اور اب اس پرعدلیہ دو جانب سے بلڈوزر چلا رہا ہے۔ ایک تو الٰہ باد کی ہائی کورٹ اس کو کچل رہی ہے اور دوسرے سپریم کورٹ اسے روند رہی ہے ۔ اس کو کہتے ہیں ڈبل انجن سرکار کی ڈبل ہزیمت ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان جب جوش میں آکر اپنا ہوش کھو دیتا ہے تو اسے اس طرح رسوا ہونا پڑتا ہے۔
یہ بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ یوگی کے زمانے میں ہی 15؍اکتوبر 2020 کو عباس انصاری اور دیگر کے خلاف حکومت اترپردیش نے جس کی سربراہی خود یوگی آدتیہ ناتھ کررہے تھے، ایک اہم فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس فیصلے میں جسٹس ششی کانت گپتا اور پنکج بھاٹیا نے کہا تھا کہ سرکاری قوانین کے مطابق کسی نجی املاک پر انہدامی کارروائی سے قبل صوبائی حکام اس کے خلاف اپیل کرنے کی لازمی مدت کے خاتمہ کا انتظار کریں ۔یہ مدت 30 دنوں کی ہے یعنی انتظامیہ کو اس سے قبل کارروائی کا اختیار ہی نہیں تھا ۔ عدالت نے اپنے حکم نامہ میں اترپردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 اور اترپردیش (ریگولیشن آف بلڈنگ ) ایکٹ کے حوالہ دیا تھا ۔ 12؍ جون کو پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اسی قانون کے سیکشن 27 کا حوالہ دے کر اسے اپنے بلڈوزر سے پامال کردیا۔ اس شق کے تحت میونسپل حکام کو قانونی اجازت یا توثیق کے بغیر کسی ایسی عمارت کو منہدم کرنے کا اختیار ہے جو ماسٹر پلان کے خلاف ہو۔ اس میں کسی ایسے فرد کا ذکر نہیں جو کسی دنگا فساد کا ماسٹرمائنڈ ہو۔ اس لیےاگر جاوید محمد کے خلاف سرکاری بہتان تراشی کو ایک لمحہ کے لیے درست مان لیا جائے تب بھی اس قانون کے تحت کارروائی کا حق نہیں بنتا ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ قوانین کا غلط طریقہ پر استعمال ہوا ہے۔
الہٰ باد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نےجو اس فیصلے کو قانون کی اس کھلی خلاف ورزی کی پوری طرح غیر قانونی قرار دیا ۔ پروین فاطمہ کے گھر پر سنیچر کی شام نوٹس لگا اور اتوار کو دو بلڈوزر چل گئے۔ اس سے زیادہ شرمندگی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی سرکار عوام کو چھت فراہم کرنے کے بجائے عوام کے خون پسینے سے بنائی گئی چھت کو ہی مسمار کرنے لگ جائے وہ بھی بلا جواز؟ ذرائع ابلاغ کو انگریزی میں واچ ڈاگ یعنی ’نگرانی کرنے والا کتا‘ کہا جاتا ہے۔ ملک میں پالتو میڈیا فی الحال سرکار کے تلوے چاٹنے والے کتے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف بھونکتا ہے جو سرکار مخالف ہوتے ہیں اور عوام کے حقوق کی نگرانی کرنے کے بجائے ان کو کاٹتا پھرتا ہے۔ جاوید محمد کی اہلیہ کا گھر جس وقت مسمار ہورہا تھا بیشتر ٹیلی ویژن چینلس اسے فخر کے ساتھ نشر کررہے تھے۔ اس موقع پر متعصب میڈیا نے گویا حق نمک ادا کرکے ثابت کردیا کہ اس کی حیثیت طوائف سے بھی بدترہے۔
عدالت میں سرکار کا کہنا ہے کہ حکام نے 10؍ مئی کو وجہ بتاو نوٹس دیا تھا اور 25؍ مئی کو تجاوزات سے ازخود انخلا کا حکم دے دیا تھا۔ پروین فاطمہ کے وکیل کے کے رائے اس نوٹس اور حکم کا انکار کرتے ہیں لیکن اسے درست مان بھی لیا جائے تب بھی 25؍ مئی سے 12؍ جون تک 30؍ نہیں صرف 12 ؍دن ہوتے ہیں ۔ کیا یوگی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ بھی یہ آسان سی گنتی بھول گئی ہے؟ الٰہ باد میں ضلع مجسٹریٹ سنجے کھتری کے سکریٹری اجیت کمار سنگھ نے اس بابت پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے وائس چیرمین اروند کمار چوہان سے جب ای میل لکھ کر وضاحت طلب کی تو ان کی سٹی گم ہوگئی اور چہار جانب ایک پراسرار خاموشی چھا گئی۔ اب وہ یوگی کے دامن میں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے نادان کی دوستی جی کا جنجال ۔ عباس انصاری کے معاملہ میں عدالت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ یوگی سرکار نے کئی مواقع پر اپنی انہدامی کارروائی کو کرنے سے قبل ملکیت کے مالکوں کو اپیل کرنے کا وقت نہیں دیا۔ یوگی کو چاہیے تھا کہ عدالت کی اس پھٹکار سے سبق سیکھتے لیکن جس کے دماغ میں دوسروں کو سبق سکھانے کا خبط سوار ہو وہ اسی طرح بار بار ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرتا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قانون میں دیے گئے تحفظات کو بیان کیا۔ ان سے مقامی افسروں کو آگاہ کرنے اور اس کی نقل جمع کرنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض ضابطے کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے ۔ عدالت نے یہ بھی بتایا تھا کہ میونسپل یا محکمہ محصول کے قانون کا منبع پولیس کی طاقت نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے عباس انصاری کے گھر کی انہدامی کارروائی پر فیصلہ نہ ہونے تک روک لگا دی تھی ۔
جاوید محمد کے ساتھ بھی یہی ہوتا لیکن یوگی انتظامیہ نے اتوار کے دن یہ کارروائی کرکے انہیں عدالتی چارہ جوئی سے محروم کردیا۔ الہٰ باد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو یوگی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے جس کی سماعت ابھی نہیں ہوئی۔ اس لیے ہائی کورٹ اگر صرف وعظ و نصیحت پر اکتفا کرنے کے بجائے خاطی افسروں کو سزا سنادیتا تو ممکن تھا کہ اس سے بچنے کی خاطر وہ اپنے سیاسی آقاوں کی من مانی پر عمل کرنے سے احتراز کرتے۔
یوگی سرکار پریہ تو مقامی بلڈوزر تھا لیکن اس کی غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔ کانپور، پریاگ راج( الہ آباد) اور سہارنپور میں انتظامیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک کو بلڈوز کرنے کے خلاف داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی بن کر حاضر ہوئے ہیں۔ اس سے قبل جہانگیر پوری اور کھرگون معاملے میں بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی جس کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے 21؍ اپریل 2022 کو ریاست اترپردیش سمیت مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ ، گجرات اور دہلی کو نوٹس جاری کرکے بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی انہدامی کارروائی پر جواب طلب کیا تھا۔جمعیۃ علما نے غیر قانونی انہدامی کارروائی پر روک لگانے اور قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچا نے والے افسروں کے خلاف کارروائی کر نے کا مطالبہ کیا تھا۔
حالیہ عبوری عرضداشت میں تحریر کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی کے آغاز سے قبل پندرہ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے نیز اتر پردیش بلڈنگ ریگولیشن ایکٹ1958 ؍کی دفعہ 10؍ کے تحت فریق کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مناسب موقع دیاجانا چاہیے۔ اسی طرح اتر پردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 27 کے تحت کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی سے قبل 15؍ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ اتھارٹی کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا بھی حق ہے اس کے باوجود بلڈوز چلایا جارہا ہے۔عرضداشت میں اس غیر قانونی انہدامی کارروائی سے مسلمانوں میں خوف وہراس کا ذکر کرنے کے بعد ضابطوں کی پاسداری پر زور دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں چونکہ گرمیوں کی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس پٹیشن کو تعطیلاتی بینچ کے روبرو جلد ازجلد سماعت کی درخواست کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کی تعطیلاتی بنچ جمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر سماعت کر تے ہوئے یو پی حکومت سے کہا کہ انہدام کی کارروائی قانون کے مطابق کی جانی چاہیے اور انتقامی نہیں ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے 3 دن کا وقت دیا ہے۔اس دوران یو پی حکومت کو سپریم کورٹ کو بتانا ہوگا کہ یو پی میں انہدام کی حالیہ کارروائی میں پورے طریقہ کار اور میونسپل قانون کی پیروی کی گئی ہے کیونکہ عدالت نے ہر کارروائی قانون کے مطابق کرنے پر زور دیا ہے ۔ جسٹس بوپنا نے اپنے تبصرے میں کہا کہ بغیر کسی نوٹس کے تعمیرات کو گرانے کی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں احتیاط لازمی ہے تاکہ جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے ہیں انہیں عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔اس معاملے میں جب سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ریاستی حکومت کی وکالت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی شکایت کو بے بنیاد بتایا اور پوچھا کہ جن کے گھر گرائے گئے ہیں انہوں نے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا تو اس پر عدالت نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کون عدالت میں آیا ہے یہ اہم نہیں ہے بلکہ ضابطوں کی پاسداری ہوئی یا نہیں اس کی اہمیت ہے۔
یو پی حکومت کے وکیل ہریش سالوے نے 25 مئی کو مسماری کے حکم کا ذکر کیا تو جمیعت کے وکیل سی یو سنگھ نے بتایا کہ جاوید محمد پر الزام لگا کر ان کی بیوی کا گھر گرایا گیا اور پرانے نوٹس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وکیل نتیا راما کرشن نے کہا سرکار بلوائیوں کو سزا دینے کی تشہیر کررہی ہے ۔ حذیفہ احمدی نےحکومت کی بدنیتی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ جن کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی انہیں کے گھر گرائے گئے۔ اس طرح جب یوگی سرکار کے خلاف سارے شواہد واضح ہوگئے تو جسٹس بوپنا نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ہم بھی معاشرے کا حصہ ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، اگر کوئی شکایت کرے گا اور عدالت اس کا بچاؤ نہیں کرے گی تو یہ درست نہیں ہوگا۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت مکانات گرانے کی کارروائی کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرے۔اس تبصرے سے واضح ہے کہ اب عدلیہ کو اور زیادہ بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ یو پی سرکار کو جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کا گھر بناکر دینا ہی ہوگا۔ اس طرح اگلا عدالتی بلڈوزر یوگی انتظامیہ کے وقار پر چلے گا اور اس کی رعونت کو چکنا چور کردے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بھی غرور کا سر نیچا ہوا ہے اور مستقبل میں بھی نیچا ہو گا۔ ویسے فی الحال اگنی ویروں کے ذریعہ بھی یوگی سرکار ذلیل و رسوا ہورہی ہے۔ یوگی سرکار کی حالتِ غیر پر افتخار عارف کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022