ڈاکٹر قاضی اشفاق صاحب سے ایک ملاقات
موصوف ثانوی درس گاہ اسلامی، رام پور کے افاضل میں شامل میں ہیں۔
رضوان احمد فلاحی ، ( لندن، [email protected])
جماعت اسلامی ہند نے 1950 ءسے 1960ءکے عرصہ میں ایک تعلیمی تجربہ کیا تھا۔ یہ تجربہ اپنی نوعیت کا پہلا اور بہت منفرد تجربہ تھا جس کے نتائج مثبت اور حوصلہ افزا رہے۔ عصری تعلیم گاہوں کے وہ طلبہ جو اسلامی ذہن و مزاج کے حامل تھے اور جو اسلامی مصادر سے براہ راست استفادہ کرنے کے خواہش مند تھے، وہ متمنی تھے کہ جماعت اسلامی ہند ان کی اس تعلیمی خواہش کی تکمیل کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے پیش نظر جماعت نے ان کے لیے ایک چار سالہ نصاب تعلیم تیار کیا جس کے مضامین عربی زبان وادب، قرآن، حدیث اور فقہ تھے۔ یہ ایک intensive کورس تھا۔ تعلیمی ادارے کا نام ’’ثانوی درس گاہ‘‘ رکھا گیا جس کے ناظم مولانا صدرالدین اصلاحیؒ تھے، اور اساتذہ میں ناظم درس گاہ کے علاوہ اس وقت کے امیر جماعت مولانا ابواللیث ندویؒ، مولانا جلیل احسن ندویؒ، مولانا سید احمد عروج قادریؒ مولانا عبد الودود ندویؒ اور مولانا سید حامد علیؒ تھے۔ ان کے علاوہ کچھ اور افاضل نے بھی مختصر وقفوں کے لیے یہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ درس گاہ کے سب سے پہلے طالب علم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور سابق امیر جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر عبد الحق انصاری مرحوم تھے۔ دس سال کے عرصے میں تقریباً پچاس طلبہ نے اس کورس سے استفادہ کیا جن کی بڑی تعداد اب اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ چکی ہے۔ الحمد للہ سب سے پہلے طالب علم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب ابھی بقید حیات ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ (علی گڑھ) ، ڈاکٹر قاضی اشفاق احمد (آسٹریلیا) اور حامد عبد الرحمن الکاف (حیدرآباد) بھی بقید حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے ساتھ بہترین معاملہ فرمائے۔ درس گاہ کے وہ گریجویٹس جنھوں نے علم و تحریک کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر عبد الحق انصاریؒ اور ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ کے اسماےگرامی نمایاں ہیں۔
درس گاہ دس سال کے بعد ختم کردی گئی۔ سب سے بڑی وجہ وسائل کی قلت رہی۔ اس کا ذکر جماعت کی شوریٰ کے اجلاسوں میں آتا رہا۔ جنوری 1960 کے اجلاس شوریٰ میں حتمی بندش کا فیصلہ کیا گیا اور پھر اس کا تذکرہ بھی ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا۔ جماعت کے اس کارنامے کی کوئی تاریخ ہنوز مرتب نہیں کی جاسکی جس سے اس منفرد تعلیمی تجربے کے بنیادی خط وخال کا سراغ بعد کی نسلیں لگا سکیں۔
راقم کے ذہن میں یہ خیال برابر گردش کرتا رہا کہ کوئی صورت نکلے کہ درس گاہ کے بقید حیات گریجویٹس سے ملاقات کرکے ان سے ان کے تجربات معلوم کیے جائیں، بالخصوص یہ کہ جن آرزوؤں کو لے کر وہ اس سے وابستہ ہوئے تھے وہ کس حد تک پوری ہوئیں اور کس حد تک تشنہ رہیں۔ راقم نے اس جانب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنے کسی شاگرد یا کسی نوجوان کو اس پر کام کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں تو بہت بہتر ہوگا۔ اور یہ کہ ان شاء اللہ پروجکٹ کی تکمیل میں مصارف کی عدم دستیابی حارج نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پروجکٹ کو بہت سراہا اور مناسب فرد کی تلاش کرتے رہے، لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ انھوں نے مجھے لکھا کہ یہاں ہندوستان میں کوئی شخص motivated نہیں۔ تم اگر کچھ کرسکتے ہو تو کرو۔ پردیس کی زندگی اور کاروبار حیات کے ضروری اور غیر ضروری جھمیلوں نے خیال کو حد خیال سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اس اثناء میںدرس گاہ کے دو نامور سابق طالب علم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی صاحب 25؍ جولائی 2011 کو اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب3؍ اکتوبر 2012 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ محض سوا سال کے عرصے میں تحریک کی دو اہم شخصیتوں کا جدا ہوجانا تحریک کے لیے خسارے کا تو باعث تھا ہی، ان کے جانے سے درس گاہ کے بارے میں جاننے کے دو اہم ذرائع سے بھی محرومی ہوگئی۔ اس صورت حال نے تشویش میں مبتلا کردیا اور اس عالم میں ایک طویل سوال نامہ مرتب کرکے اپنی فہرست میں جتنے باحیات گریجویٹس تھے، انھیں ڈاک اور ای میل سے بھیج دیا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ سب نے بڑی مسرت کے ساتھ قلمی انٹرویو کا مفصل جواب دیا، بلکہ غیر دریافت کردہ سوالات کے جوابات بھی بڑی تفصیل سے دیے اور میری حوصلہ افزائی کی۔
ڈاکٹر قاضی اشفاق صاحب کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے۔ آپ علی گڑھ یونیورسٹی ایریا کی جماعت کے امیر بھی رہے ہیں۔ آپ بھی درس گاہ کے ابتدائی زمانے کے گریجویٹ میں سے ہیں۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ علی گڑھ میںاپنی بی ایس سی (انجیئرنگ) کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر درس گاہ میں داخلہ لینے رام پور پہنچ گئے۔ ذمہ داروں نے پہلے ڈگری مکمل کرلینے کا مشورہ دیا۔ قاضی صاحب نے کہا: ٹھیک ہے، میں ڈگری مکمل کرنے واپس یونیورسٹی چلاجاؤں گا، بس آپ حضرات میرے اس وقت تک زندہ رہنے کی ضمانت دے دیں۔ ظاہر ہے اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا یارا نہ تھا۔
ڈاکٹر قاضی اشفاق صاحب کو میں نے سوال نامہ ای میل سے روانہ کردیا۔ یہ 2013ء کے وسط کی بات ہے۔ دوسرے دن انھوں نے فون پر مجھ سے بات کی اور مجھے سڈنی آنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس مقصد کے لیے بالمشافہ ملاقات ہی مفید رہے گی۔ عرض کیا: “مجھے آپ سے سڈنی آکر ملاقات کرنے میں بڑی خوشی ہوتی، لیکن میری چھٹی بہت محدود ہے، نومبر میں ہندوستان بھی جانا ہے، چھٹی صرف سفر ہی کے لیے کفایت کرسکتی ہے۔ ہندوستان جانا ضروری ہے۔” فرمانے لگے:“ پھر تو مسئلہ حل ہوگیا۔ مجھے بھی نومبر میں ہندوستان جانا ہے۔ تو پھر وہیں ملاقات ٹھیک رہے گی۔”
ملاقات کی جگہ قصبہ محمدآباد میں ان کا آبائی مکان ٹھہرا، ، تاریخ اور وقت دونوں طے ہوگئے۔ میں مقررہ دن اور وقت پر محمدآباد ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔ قدیم جاگیردارانہ طرز کا بڑا مکان، وسیع بیرونی نشست گاہ، کھلا میدان اور اس کے کنارے ایک چھوٹی سی مسجد، کسی قدر ویران سا ماحول عظمت رفتہ کی کہانی سنا رہا تھا۔ پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دی، فوراً ہی اندر بلا لیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈھلتی عمر اور اس پر بیماری مستزاد۔ فریم کے سہارے چلتے ہیں، آواز میں بھی کسی قدر لکنت تھی جو میرے اندازے کے مطابق غالباً کسی mild stroke کا نتیجہ تھا۔ تاہم بات صاف سمجھ میں آجاتی تھی۔ بہت مسرت کا اظہار فرمایا۔ رسمی گفتگو کے بعد انٹرویو شروع ہوا۔ انھوں نے تمام سوالوں کے جواب بڑے اطمینان سے اور تفصیل سے دیے۔ الحمد للہ عمر کے اس حصے میں بھی یادداشت صحیح کام کررہی تھی۔ وقفہ وقفہ سے میری حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہے۔
انٹرویو گیارہ بجے شروع ہوا اور سہ پہر ساڑھے تین بجے تک جاری رہا۔ چار بجے مجھے واپس ہوجانا تھا۔ انٹرویو کے خاتمے پر میں نے ان سے درخواست کی کہ درس گاہ کی نسبت سے کوئی ایسی بات بتائیں جس کا احاطہ میرا سوال نامہ نہ کرسکا ہو۔ میری درخواست کے جواب میں جو واقعہ انھوں نے سنایا وہ ان ہی کے لفظوں میں بیان کرنا مناسب رہے گا:
درس گاہ میں داخلہ مل جانے کی منظوری کے بعد میں گھر آگیا، پروگرام تھا یہاں سے رام پور جانے کا۔ ہمارا علاقہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کا عقیدت مند تھا۔ اور مولاناجب بھی اس علاقے میں تشریف لاتے ان کے قیام کے انتظامات کی ذمہ داری ہمارے خاندان کی ہوتی تھی۔ میں جب گھر آیا تو ان دنوں مولانا تشریف لائے ہوئے تھے اور حسب دستور قیام ہمارے یہاں تھا۔ ایک دن میں نے مولانا سے درخواست کی کہ میں تنہائی میں ان سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، البتہ ان کے ساتھ مولانا محمد زکریا اور مولانا عاشق الٰہی صاحبان بھی ہوں گے۔ خیر، ان حضرات سے ملاقات میں، میں نے عرض کیا: ’مولانا میں سخت مخمصے میں ہوں۔ جماعت اسلامی ہند نے یونیورسٹی گریجویٹس کے لیے ایک چارسالہ کورس تیار کیا ہے جس میں طلبہ کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جارہی ہے۔ مجھے بھی وہاں جاکر علم دین حاصل کرنے کا شوق ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف آپ کے فتوے ہیں۔ میں فیصلہ نہیں کر پارہا ہوں کہ وہاں جاؤں یا نہیں۔‘ میری بات سن کر مولانا نے فرمایا: ’بیٹے، تم وہاں ضرور جاؤ اور تعلیم حاصل کرو، اور خوب جی لگا کر وہ تعلیم حاصل کرو، تم وہاں ضرور جاؤ میں تمہیں اس کی تاکید کرتا ہوں۔ اور جہاں تک فتوے وغیرہ کا تعلق ہے وہ اونچی باتیں ہیں، ابھی ان کی فکر نہ کرو، بعد میں سمجھ میں آجائیں گی۔ اس وقت تو تم وہاں جاکر پوری دلجمعی سے تعلیم حاصل کرو۔‘
میں ڈاکٹر صاحب کی باتیں حیرت بداماں سن رہا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب خود نہ بتاتے تو میں کبھی اس پر یقین نہیں کرتا۔ یہ دنیا واقعی دارالعجائب ہے۔
اخیر میں ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر تم اس واقعہ کو قلم بند کرکے شائع کرانا چاہو تو تمہیں اس کی اجازت ہے۔■