’’چالیس سال سے جو ہو رہا تھا اب وہ ا نتہا پر پہنچ چکا ہے‘‘

درختوں کو کلہاڑی سے زیادہ دیمک گراتی ہے،شہریوں کو بیدار رہنے کی ضرورت

 

’’مسئلہ، اس حکومت سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے۔۔ نظام دھیرے دھیرے بگڑا ہے۔۔ اندرا گاندھی کو کچھ تو شرم تھی‘‘ سابق وزیر ارون شوری نے انڈین ایکسپریس کی نیشنل اوپینین ایڈیٹر، وندِتا مشرا کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کے تحت عدالتوں اور جمہوری اداروں کی بد ترین تنزلی کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس بات چیت کے چند اقتباسات ہفت روزہ دعوت کے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں ۔
وَندِتا مشرا: آپ نے اپنی نئی کتاب ’’پریپیرنگ فار ڈیتھ‘‘ میں قطع تعلق کی دو لڑیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک خود کو باہر کی دنیا سے لگا تار الگ تھلگ کرلینا، دوسرا یہ کہ اس میں پوری طرح ڈوب جانا۔ آپ نے دونوں میں سے کس کا انتخاب کیا ہے؟
ارون شوری: دو واضح راستے ہیں۔ ایک گاندھی جی کا راستہ۔۔۔ وہ آخری سانس تک ڈوبے رہے۔ دوسرا راستہ سماجی اصلاح کار ونوبا بھاوے کا طریقہ کار۔ آخر کے دنوں میں انہوں نے اپنے آپ کو عوامی زندگی سے الگ تھلگ کرلیا تھا۔ لیکن جہاں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ مل جاتی ہیں تو اس کا مطلب ظاہری چیزوں سے قطع تعلق نہیں ہے بلکہ انا سے ترک تعلق ہے۔ اور یہ ’’گیتا‘‘ کی تعلیمات ہیں۔ یہ بھی مترادف الفاظ برائی سے لڑنے کے لیے ہیں۔
وَندِتا مشرا: راجستھان کی خصوصی عدالت میں آپ کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ آپ جیسے لوگ جو بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، اس پورے معاملہ سے کس طرح نمٹ رہے ہیں؟
ارون شوری۔ آپ کو شاید غصہ آئے۔ لیکن اس وقت کی تعلیمات یہی بتاتی ہیں کہ واقعات پر توجہ نہ دیں بلکہ ان واقعات کے تعلق سے اپنے ردعمل پر توجہ دیں۔ کامیابی کی طرح ہرناکامی ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے تاکہ ہم اپنا محاسبہ کرسکیں۔ ہمیں اپنے آپ کو دیکھ کر اپنے ذہن کو زیادہ بہتر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں ان دنوں بہت اداس رہا کرتا تھا لیکن میں نے پینتالیس منٹ کا دھیان اور یوگا بند نہیں کیا۔ ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ گاندھی جی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے، لوک مانیہ تلک بھی۔ اس لیے ہم لوگوں میں انکساری و عاجزی ہونی چاہیے۔
وَندِتا مشرا: کیا آپ موجودہ حکومت سے مایوس ہیں؟
ارون شوری: چالیس سال سے جو ہو رہا تھا اب وہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اداروں اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا غلط استعمال۔ پولیس ہر وزیر اعلیٰ کی ذاتی فوج بنتی جا رہی ہے۔ کئی معاملوں میں عدالت عالیہ جس طرح سے کام کر رہی ہے اور انکی ترجیحات بھی مضحکہ خیز ہیں۔ عدالت کے پاس ارنب گوسوامی اور آنجہانی سشانت سنگھ راجپوت کے لیے وقت تو ہے لیکن کشمیر اور تارکین وطن کے لیے نہیں؟ موجودہ حکومت بے شرمی کے ساتھ اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ لیکن مسئلہ موجودہ حکومت سے زیادہ پیچیدہ اور سنجیدہ ہے۔ اداروں کے اختیار میں یہ گراوٹ ایک عرصے ہورہی ہے، پارلیمنٹ، مقننہ، نوکرشاہی سے لے کر میڈیا تک ہر جگہ گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کوئی میعار نہیں بچا ہے اور یہ اس لمبے وقت سے چلی آرہی روایت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے۔
وَندِتا مشرا: عدالتوں کے زوال پر آپ نے متناسب تناظر میں اپنی بات کہی ہے۔ عدالت اپنی موجودہ صورت حال میں کب اور کیوں پہنچی؟
ارون شوری: سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی میں کسی چیز کی بھرپائی کرنے کی خوبی موجود تھی، مثال کے طور پر ان میں ندامت کا احساس تھا۔ لیکن آج کے حکمرانوں میں وہ احساس باقی نہیں رہا۔ یہ رجحان سابق وزیر قانون پی شیو شنکر کے دور سے شروع ہوا۔ اندرا گاندھی نے تین ججوں کے فیصلے کو نظر انداز کرکے ایک غلط مثال قائم کی کہ اگر آپ وہ نہیں کرو گے جو ہم چاہتے ہیں تو ہمارا عمل اسی کے مطابق ہوگا۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ کلہاڑی سے کہیں زیادہ دیمک پیڑوں کو کھوکھلا کرکے گرادیتی ہے۔ اس لیے ہمیں بطور شہری بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔اور اگر ہم عدلیہ کو جواب دہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں انکے فیصلوں پر لگاتار نظر رکھنا ہوگی۔
وَندِتا مشرا: آپ نے کہا کہ اداروں کا بحران کسی ایک حکومت کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن کونسی ایسی چیز ہے جسکی ذمہ داری ہم سابقہ حکومتوں پر نہیں ڈال سکتے؟
ارون شوری: یہ کافی دنوں سے چل رہا ہے، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر قتل و غارت گری کافی دنوں سے چل رہی ہے تو بھی آج میرا کسی کو قتل کرنا جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ کچھ غلط ہوتا آرہا ہے اسے درست کیا جائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے معاملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں منتخب کرنے کا مقصد تھا تبدیلی لانا۔ لمبے وقت سے نچلی عدالتوں میں کام کاج ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ وزیر قانون کی ذمہ داری تھی کہ حالات کو بہتر بناتے۔ کیا ان وزراء نے عدالت کے طریقہ کار سمیت حالات کو بہتر بنانے کی کبھی کوشش کی؟ نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی تعریف کے انکے بیانات سامنے آتے رہیں۔ موجودہ حکومت سابقہ روایات کو نہ صرف قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ ایک بعد ایک ادارے تنزلی کی طرف لگاتار بڑھتے جارہے ہیں۔
وَندِتا مشرا: موجودہ حکومت کس طرح کے مخصوص بحران کا شکار ہے؟
ارون شوری: پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام ضابطوں اور قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ آدھار ودیگر کئی بلوں کو ’’منی بل‘‘ بتا کر راجیہ سبھا کو نہیں بھیجا گیا۔ ان تمام ضابطوں کو کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات اکثر وبیشتر ہوتے رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بات چیت سے بحث اور بات چیت سے بھٹکانے کا عمل۔ اگر جھوٹ پر جھوٹ اور غلط بیانی کریں تو مجھے لگتا ہے کہ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی اس میں آگے نکل پائیں گے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ ملک کو ایک لمبے وقت تک کے لیے خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ سب لوگ سب کچھ نہیں جانتے ہیں۔۔۔ ماہرین سے دوری بنا کر رکھنا اور کسی کو بھی ایکسپرٹ بنا کر پیش کر دینا نہ صرف اس حکومت کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک کے لیے بھی۔ اور اسی طرح کی عادت اور رویہ چینی در اندازی سے لے کر نظام معیشت اور عدلیہ میں اصلاحات کے معاملے میں دکھائی دیتا ہے۔۔۔
وَندِتا مشرا: کیا آپ کو ان اقدامات پر اب افسوس ہے جس نے آپ کو حکومت کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے؟
ارون شوری: نہیں۔ میں نے اپنی زبان کھولنے سے پہلے چھ مہینے اور اس وقت تک جب تک کہ عوام کے سامنے ثبوت نہیں آ گئے انتظار کیا اور اس کے بعد میں نے ثبوتوں کو ٹھوس شکل دی۔ اگر میں حکومت میں شامل ہوتا تو پندرہ دنوں سے زیادہ وہاں نہیں ٹِک پاتا، کیونکہ میں انکے طریقہ کار اور سوچ وفکر کے فریم میں فٹ نہیں ہوتا تھا۔
وَندِتا مشرا: آپ کی کتاب میں ایک پہلو یہ بھی کارفرما ہے کہ اپنی پریشانی اور مشکلات کو اپنے حق میں بہتری کے لیے کس طرح سے بدل سکتے ہیں۔ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ جس بحران اور پریشانی میں ہم پھنسے ہیں آنے والے وقت میں یہ ہمارے لیے بہتر ثابت ہو گا؟ کیا آپ پر امید ہیں؟
ارون شوری: نہیں، ان سب کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس طرح سے ان معاملات سے نمٹتے ہیں۔ پریشانیاں اور مشکلات بہت سوں کو نا امید کر دیتی ہیں۔ آپ کو ان مشکلات کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نوکریوں کے ختم ہونے سے تشویش میں ہوں۔ جی ڈی پی کے نیچے جانے سے میں پریشان نہیں ہوں ۔۔۔ بلکہ ہمیں فائدہ مند پیداوار، بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر اور ہمالیائی علاقوں میں بہتر انفراسٹکچر پر دھیان دینا چاہیے نہ کہ بدری ناتھ اور کیدار ناتھ کو ’’چاردھام‘‘ میں تبدیل کرنے کے مقصد سے وہاں کے ماحولیاتی نظام کو برباد کریں۔ ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصراً یہ کہ مشکلات خود بخود نفع بخش نہیں بنتیں، ہمیں اس پر سخت محنت کرنا ہوگی۔
وَندِتا مشرا: کیا آپ کو اس طرح کی محنت دیکھنے کو مل رہی ہے؟
ارون شوری۔ قطعی نہیں۔ مجھے عوام سے امید نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر کورونا وائرس کل ہی ختم ہوجائے تو مجھے لگتا ہے کہ لوگ اپنی سابقہ حرکتوں کی جانب لوٹ جائیں گے۔ میں حقیقت پسند ہوں اور میں سچائی سے منہ نہیں موڑ سکتا۔
(ماخوذ: انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام، بتاریخ 3 نومبر، 2020)

بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کوئی میعار نہیں بچا ہے اور یہ اس لمبے وقت سے چلی آرہی روایت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020