عروج و زوال کا فلسفہ اور امت مسلمہ

مسلمانوں کا عروج غلبہ دین کی جدوجہد میں مضمر

ابو سعد اعظمی، علی گڑھ

 

قوم مسلم کے زوال اور زبوں حالی کی داستان اب کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ارباب فکر ونظر نے اس کے اسباب وتدارک کے طور پر مختلف عوامل کی نشاندہی کی ہے۔ کسی نے تعلیم کو عروج کا زینہ قرار دیا تو کوئی سیاسی وزن اور قومی وملکی معاملات میں حصہ داری کو ان کے عروج کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ کوئی مسلمانوں کی اخلاقی پستی کو ذلت کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہے تو کوئی معاشی اور اقتصادی زبوں حالی کو دور کرنے کا لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ بیشتر لوگ عروج کا حقیقی مفہوم اور اس کی تعریف مادی اور آج کی دنیاوی ترقی کی روشنی میں طے کرتے ہیں۔حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان زوال اور پستی کی دلدل میں عین اس وقت گرے ہیں جو ان کی مادی آسودگی اور علمی ترقی کا دور زریں تھا۔سقوطِ بغداد سے کون ناواقف ہے؟ اس وقت مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور اقتصادی ترقی کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی کوئی قوم ان کے بالمقابل ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ عباسی خلفاء کے دسترخوان اور ان کے محلات کی زینت وآرائش سے متعلق کتابوں میں جو واقعات ملتے ہیں آج کے اس مادی عروج کے زمانہ میں بھی وہ خواب سا محسوس ہوتا ہے۔ اندلس کا زوال بھی عین اس وقت ہوتا ہے جب قرطبہ وغرناطہ، اشبیلیہ اور دیگر مقامات کی عمارتیں فن تعمیر کا شاہکار نمونہ پیش کرتی ہیں۔ تعلیمی ترقی کا یہ عالم کہ یورپ جو اس وقت تاریکی کے مہیب دَور سے گزر رہا تھا وہ علم کی خوشہ چینی کے لیے اندلس کا رخ کرتا تھا۔ خلافت عثمانیہ کا سکہ جب نصف عالم پر چھایا ہوا تھا عین اس وقت اس کی زمام سلطنت بھی آہستہ آہستہ ہاتھ سے چھوٹتی گئی۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی فتوحات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ بدر واحد میں جب مسلمانوں کے پاس ایمان ویقین کی قوت کے سوا کوئی ظاہری اسباب نہیں تھے اس وقت حق وباطل کی اس معرکہ آرائی میں فتح انہیں کو حاصل ہوتی ہے۔ غزوہ احزاب میں جب کہ پورا عرب ان کا مخالف تھا ان کا لشکر بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ اور ان کے ارادے بھی انتہائی خطرناک تھے حتیٰ کہ قرآن کے الفاظ میں صورتحال اتنی بھیانک تھی کہ کلیجے منہ کو آ رہے تھے اور کمزور مسلمانوں کے ایمان اور منافقین کے نفاق کا پردہ چاک ہو رہا تھا اس وقت بھی فتح ونصرت مسلمانوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ غزوہ موتہ اور تبوک کی حالت بھی سابقہ جنگوں سے بہت مختلف نہیں ہوتی اور ظاہری اسباب کا اگر لحاظ کریں تو اہل ایمان کا اہل کفر سے کوئی مقابلہ نہیں ٹھہرتا ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں ارتداد کا فتنہ سر اٹھاتا ہے، مانعین زکوٰۃ کی ایک پوری ٹیم تیار ہو جاتی ہے۔ اہلِ ایمان انتہائی پریشانی اور اضطراب کی کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ جیسے جری اور نڈر وبیباک قائد بھی صورتحال کی ابتری سے پریشان ہوجاتے ہیں اور مانعین زکوٰۃ سے جنگ میں انہیں بھی تردد ہوتا ہے اس وقت بھی ابوبکر صدیقؓ کی غیرت ایمانی جوش مارتی ہے اور وہ تاریخ ساز الفاظ ان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں ’’اینقص الدین وانا حی‘‘۔ پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ادوار خلافت میں اسلام کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت عثمان کی شہادت تاریخ اسلام کا ایسا اندوہناک واقعہ ہے جس کی کوئی توجیہ دل کو مطمئن نہیں کرتی۔ انتشار وافتراق کی فضا اسی وقت سے پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کی فتوحات کا دائرہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ کی خلافت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ پھر یزید کے دور میں جو واقعات پیش آتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے طالب علم کو اس کی کوئی معقول توجیہ نظر نہیں آتی اور ارباب علم اور صاحب فکر ونظر اس موضوع پر خاموشی کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔
ابتدائے اسلام سے اب تک کے اس پورے عرصے میں علم وتہذیب کا قافلہ رواں دواں نظر آتا ہے اور ہزار اختلافات کے باوجود دین وایمان کے نام پر اتحاد کی کیفیت باقی رہتی ہے۔ حکومت کا سلسلہ آگے بڑھتاہے۔ بنو امیہ کا زوال اور عباسی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ حکومت کے زوال اور اس کے اسباب ومحرکات کا جائزہ لینے کی اس موقع پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عباسی حکومت کے قیام کے بعد علم وتہذیب کا قافلہ انتہائی تیز رفتاری سے آگے بڑھتا ہے اور اسے بجا طور پر علم وفن کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اس پورے عرصے میں مسلمانوں کے پاس مادی لحاظ سے ہر چیز کی فراوانی ہوتی ہے۔ عباسی حکمرانوں کے احوال جو کتابوں میں ملتے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد اس زمانہ کے عیش وطرب کو دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح اندلس میں اموی حکومت کے قیام اور وہاں پر بھی علم وادب کے فروغ اور فن تعمیر کے جو شاہ کار نظر آتے ہیں وہ یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں پر زوال آخر آیا کیسے؟ وہ قوم جس کے ایک ایک فرد کی قیمت خلیفہ وقت کی نگاہ میں ایک ہزار جنگجوؤں کے برابرہوا کرتی تھی وہ ہلاکو اور چنگیز کی قوم کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکی۔ جس کے آبا واجداد نے بحر وبر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اس کے اخلاف کو ہر محاذ پر شکست کیسے ہوگئی؟
جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن کا صاف یہ اعلان ملتا ہے: ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘، کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘، کہیں ان الفاظ میں مسلمانوں کو تسلی دی جاتی ہے کہ’’ان اللہ یدافع عن الذین آمنوا‘‘، کہیں یہ کہہ کر ان کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے کہ’’ وکان حقا علینا نصر المومنین‘‘۔ اس کے باجود مسلمان ذلت ونکبت کے گرداب میں کیسے الجھ گیا؟ اس کے تدارک کے لیے جب ہم حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ہی ایمان و عمل کا سکہ کھوٹا ہے۔ وہاں مسلمان قوم کی اس زبوں حالی اور اس کے اسباب کی واضح تصویر نظر آتی ہے اور اس بات کی دعوت بھی ملتی ہے کہ اگر اس صورتحال سے نکلنا ہے تو اس کا ازالہ ناگزیر ہے۔ فرمان رسول ہے: ’’یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکلۃ الی قصعتہا، فقال قائل: ومن قلۃ نحن یومئذ؟ قال: بل انتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعن اللہ من صدور عدوکم المہابۃ منکم، ولیقذفن فی قلوبکم الوہن، فقال قائل: یارسول اللہ! وما الوہن؟ قال: حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘۔
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ آج ہر فرد کے دل میں دنیا کی محبت اور موت سے نفرت گھر کر گئی ہے۔دعوت دین، اعلاء کلمۃ اللہ کی جد وجہد، شہادت حق، ایمان کے تقاضوں کی بجا آوری ہر محاذ پر یہی محبت دنیا اور موت کا ڈر پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ عہد رسول اور عہد صحابہ کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس دین کی سر بلندی کے لیے ابتلاء وآزمائش کی کیسی کیسی بھٹیوں سے انہیں گزرنا پڑا۔ کبھی تنہائی میں مکی عہد کی تاریخ پڑھیں اور سوچیں کہ کیا گزرتی تھی ہوگی حضور اکرمؐ کے دل پر جب ان کی نگاہوں کے سامنے عمار اور ان کے اہل خانہ اپنے ایمان کے امتحان سے گزر رہے ہوتے تھے۔’’صبرا صبرا یا آل عمار !فان لکم الجنۃ‘‘ میں بشارت کا کیسا جانفزا مژدہ ہے جس کے سامنے دنیا کی ہر اذیت ہیچ ہے۔ سمیہ کی آزمائش کا آج کون اندازہ کرسکتا ہے؟ بلال وخباب اور عبد اللہ بن مسعود کن سخت حالات سے گزرے ہیں اور وہ بھی عین رسول کی موجودگی میں۔ حنظلہ کا دل دنیا میں لگتا ہے تو انہیں نفاق کا شبہ ہونے لگتا ہے اور چیختے ہوئے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ اپنی آواز رسولؐ کی آواز سے بلند نہ کرنے کا حکم نازل ہوتا ہے تو ثابت بن قیس جن کی آواز قدرے بلند تھی وہ مجلس رسول میں آنا چھوڑ دیتے ہیں مبادا کہ ان کے اعمال اکارت نہ ہو جائیں۔ کعب بن مالک غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوتے، تو دل میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں لیکن سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے اور ابتلاء وآزمائش کے کیسے سخت حالات سے گزرتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ میں ’’ضاقت الدنیا بما رحبت‘‘ زمین اپنی وسعتوں کے باجود ان کے لیے تنگ ہوجاتی ہے۔حضرت مصعب بن عمیر مکہ کا خوش پوش نوجوان شہید ہوتا ہے تو اس کے کفن کے لیے پورے کپڑے تک میسر نہیں ہوتے۔
صحابہ کے ان واقعات کو پڑھیے اور احتساب کیجیے اپنے آپ کا، نفاق کی ہر علامت ہمارے اندر موجود، کذب بیانی ہمارا شیوہ، وعدہ خلافی ہماری عادت، سب وشتم اور گالی گلوج ہماری فطرت، امانت میں خیانت کے مختلف مظاہر ہمارے سامنے، اللہ ورسول کے احکام کی خلاف ورزی، ان کے فرامین سے حکم عدولی۔ احتساب کیجیے ایک طرف کعب بن مالک کا غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے پر مواخذہ اور محاسبہ اور دوسری طرف عامۃ المسلمین کی نمازوں سے غفلت، دعوتِ دین سے بے توجہی، احکام الٰہی کی تعمیل میں ٹال مٹول، رسم ورواج کی زنجیروں کی اسیری، حقوق العباد سے لاپروائی اور مالی معاملات میں خرد برد۔اس کے باوجود بھی ہم خواب دیکھتے ہیں عروج کا، سربلندی کا، حکومت الٰہیہ کے قیام کا اور دین اسلام کے نفاذ کا۔ قرآن کہتا ہے ’’ومن اراد الآخرۃ وسعی لھا سعیھا‘‘ صرف خواہش اور آرزو سے کچھ نہیں ہوتا، چاہت سے کوئی منزل نہیں ملتی، اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، میدان عمل میں سرگرم ہونا پڑتا ہے، جد وجہد کرنی پڑتی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آرزو کی دنیا میں مگن ہیں۔ اسلام کے غلبہ کے متمنی ہیں ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ کا ظہور دیکھنا چاہتے ہیں، ’’وکان حقا علینا نصر المومنین‘‘ کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں،’’وعد اللہ الذین آمنوا وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض۔۔۔الآیۃ‘‘ کی دنیا میں کچھ دن گزارنا چاہتے ہیں لیکن اس کی جو شرائط ہیں ان کو پورا کرنے سے کتراتے ہیں۔ قرآن ایمان کے ساتھ عمل کو لازم قرار دیتا ہے بلکہ ایمان اور عمل کو لازم وملزوم گردانتا ہے، اس کے لیے قربانیوں پر آمادہ کرتا ہے، سیرت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ صحابہ نے اپنے ایمان کی ایسی ایسی قیمتیں چکائی ہیں کہ ان کے تصور سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ہم صرف اسلام سے نسبت کی بنیاد پر فتح ونصرت کے متمنی ہیں۔
کیا کماحقہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول سے ہماری زندگیاں خالی نہیں ہیں۔ عین رسولؐ کی موجودگی میں غزوہ احد میں اطاعت رسول کے سلسلہ میں صحابہ کرام سے ذرا سی چوک ہوتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جیتی ہوئی بازی شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مسلمانوں کا غیر معمولی جانی ومالی نقصان ہوتا ہے۔ غزوۂ حنین میں جب انہیں اپنی کثرت پر ناز ہوتا ہے اور دل کے کسی گوشے میں یہ خیال جاگزیں ہوتا ہے کہ ہم نے قلت تعداد اور اسلحہ جات کی قلت کے باوجود بڑے بڑے معرکے سر کر لیے ہیں تو آج تو ہماری تعداد کہیں زیادہ ہے اور مادی وسائل بھی اس کا نتیجہ عین رسولؐ کی موجودگی میں جو ہوتا ہے ہم سب اس سے واقف ہیں۔ سیرت کے یہ دونوں واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان مادی تیاری تو کرتا ہے لیکن اس کا بھروسہ ذات خداوندی کی نصرت وتائید پر ہوتا ہے۔ بدر کے موقع پر اللہ کے رسولؐ نے جو دعا کی تھی اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسلام میں صلوٰۃ الخوف کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس سے بھی اسی حقیقی توکل علی اللہ کا سبق ملتا ہے کہ مومن اپنی تمام تر تیاری کے باوجود فتح ونصرت کے لیے مدد الٰہی کا منتظر ہوتا ہے اور اپنی جبینِ نیاز اس کے دربار میں خم کر دیتا ہے۔
آج بھی اگر عروج کا سفر طے کرنا ہے تو انفرادی سے اجتماعی ہر سطح پر سنت رسول سے سبق لینا ہوگا، ایمانی حرارت کو جِلا دینا ہوگا، قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہوگا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا، اخوت ومحبت اور ایثار وقربانی کی مثال پیش کرنا ہوگا، اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اجتماعی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ دین کے لیے جینے اور دین کے لیے مرنے کا عہد کرنا ہوگا، عدل وانصاف کے قیام کی کوشش کرنا ہوگا اور ظلم کے ازالہ کے لیے سربکف ہونا پڑے گا اس امید کے ساتھ کہ فتح ونصرت اور کامیابی وکامرانی ہمارا مقدر ہے۔ اس کے حصول کے لیے ضروی ہوگا کہ اللہ سے ہمارا غیر معمولی تعلق ہو، صحابہ کی جو شان تھی کہ ’’کانوا عبدۃ اللیل وفرسان النہار‘‘ اس کا پرتو ہماری زندگی میں ظاہر ہو۔ ہم اس یقین اور عزم کے ساتھ اپنی جد وجہد کا آغاز کریں کہ اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہے۔ اس راہ میں تھکنے اور ہمت ہارنے کا کوئی سوال ہی نہیں، ہمارے قدم آگے بڑھیں اور بڑھتے ہی چلے جائیں۔ آیت کریمہ ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ ہمارا توشہ ہو۔ اور ’’ فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز‘‘ ہمارا مقصود تو اس راہ کی ہر مشکلات پھولوں کی سیج معلوم ہوں گی اور خوف وہراس اور ادبار وزوال کا شائبہ بھی ہمیں چھو نہیں سکے گا۔

آج بھی اگر عروج کا سفر طے کرنا ہے تو انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر سنت رسول سے سبق لینا ہوگا، ایمانی حرارت کو جِلا دینی ہوگی، قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہوگا، اخوت ومحبت اور ایثار وقربانی کی مثال پیش کرنی ہوگی، اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اجتماعی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، دین کے لیے جینے اور دین کے لیے مرنے کا عہد کرنا ہوگا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020