’پی ایم کیئرس فنڈ‘کی شفافیت سوالات کے گھیرے میں
پرائم منسٹر نیشنل ریلیف فنڈ کے ہوتے ہوئے نئے فنڈ کا قیام! ۔ سپریم کورٹ نے کیا مایوس
افروز عالم ساحل
جب بھی ہمارے ملک میں کوئی آفت یا مشکل کی گھڑی آئی ہے۔ ہم سب کچھ بھول کر ایک ہوئے ہیں۔ مدد کے لیے ہم سب ایک ساتھ سامنے آتے ہیں۔ بڑی امید سے ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ’ میں پیسہ بھیجتے ہیں۔ لیکن ابھی جبکہ ملک کورونا وبا سے لڑ رہا ہے تو سب سے پہلے اس فنڈ کے خزانے کو کھولنے کے بجائے وزیر اعظم مودی نے کورونا وائرس کے خلاف لڑائی کے حصے کے طور پر ایک نئے چیریٹبل ٹرسٹ ’پی ایم سیٹیزن اسسٹنس اینڈ ریلیف ان ایمرجنسی سیچوئشن فنڈ’ (پی ایم کیئرس فنڈ) کی تشکیل کا اعلان کردیا۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ جب ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ’ موجود ہے تو پھر نئے چیریٹبل ٹرسٹ ’پی ایم کیئرس فنڈ’ کھولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وہیں اس فنڈ پر مزید کئی سنگین سوال بھی اٹھے۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اس کے حل کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ یہ بات الگ ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ اس فنڈ کے خلاف داخل درخواست کو مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ اس فنڈ کے آغاز پر حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ‘ کوویڈ 19 کی وبا سے پیدا ہونے والی تشویشناک حالات جیسی کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال یا بحران سے نمٹنے کے بنیادی مقصد سے ایک خصوصی قومی فنڈ تشکیل دینے کی ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے اور اس سے متاثرہ لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کے نام سے ایک عوامی چیریٹبل ٹرسٹ تشکیل دیا گیا ہے۔ پی ایم اس ٹرسٹ کا چیئرمین ہوگا اور اس کے ممبروں میں وزیر دفاع ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ شامل ہوں گے۔
’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کا بینک اکاؤنٹ نئی دہلی میں مقیم اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی مرکزی شاخ میں ہے، جس میں لوگ براہ راست رقم جمع کراسکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی گئی کہ اس فنڈ میں دی جانے والی چندہ کی رقم سیکشن 80 (جی) کے تحت انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی۔ بعد میں وزیر خزانہ نرملا سیتارامن اور کارپوریٹ وزارت نے بھی واضح کیا کہ اس میں دی جانے والی رقم کو کمپنیوں کی سی ایس آر کے مد میں شامل کیا جائے گا۔
اوپر دیے گئے ان معلومات کے علاوہ ’پی ایم کیئرس چیریٹیبل ٹرسٹ‘ کے بارے میں مزید کوئی اطلاعات عام نہیں کی گئیں۔ بتادیں کہ ہندوستان میں ٹرسٹ، انڈین ٹرسٹ ایکٹ 1882 کے تحت کام کرتے ہیں۔ کسی بھی رفاہی ٹرسٹ کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کی ایک ٹرسٹ ڈیڈ بنے، جس میں اس بات کا واضح ذکر ہوتا ہے کہ یہ ٹرسٹ کن مقاصد کے لیے بنا ہے، اس کا ڈھانچہ کیا ہوگا اور وہ کون کون سے مقاصد کے لیے اور کس ڈھنگ سے کام کرے گا۔ پھر اس کا رجسٹریشن سب رجسٹرار کے یہاں کرانا ہوتا ہے۔ ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کی ٹرسٹ ڈیڈ، بائیلوج اور رجسٹریشن کب ہوا، یہ معلومات عام نہیں کی گئی ہیں۔ لیکن اس ٹرسٹ میں چندے کی برسات شروع ہو گئی ہے۔
اس فنڈ پر اٹھ رہے ہیں کئی سوالات
جب سے یہ فنڈ بنا ہے، اس سے متعلق کئی باتوں پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ پرائم منسٹر نیشنل ریلیف فنڈ کی موجودگی میں اس نئے فنڈ کی ضرورت کیا تھی؟
اس نئے ٹرسٹ کے قیام پر سوال اٹھاتے ہوئے کانگریس رہنما سلمان انیس سوز کہتے ہیں ’16دسمبر 2019 کو ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ‘ میں 3,800کروڑ روپے بچے تھے۔ کوویڈ ۔19 سے متعلق عطیات کو اس فنڈ میں کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کیوں بنایا گیا؟ اس ٹرسٹ میں صرف پی ایم اور تین وزرا ہیں، آخر ایسا کیوں؟ اس میں اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے کسی فرد کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟’
کانگریسی رہنما و ممبر پارلیمنٹ ششی تھرور نے بھی ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کی شفافیت اور اخراجات پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم صاحب کو اگر نام ہی چاہیے تھا تو ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ‘ کا ہی نام بدل کر ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کیوں نہیں رکھ دیا گیا۔ اس کے لیے الگ سے چیریٹیبل فنڈ بنانے کی کیا ضرورت تھی، جس کے قواعد و اخراجات پوری طرح سے مبہم ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کو اس سلسلے میں ملک کو جواب دینا چاہیے۔ فنڈ میں صنعت کاروں، کھلاڑیوں، اداکاروں اور عام لوگوں نے اربوں روپے کا تعاون کیا ہے۔
معروف مورخ رام چندر گوہا نے اسے وبا کے وقت بھی کسی خاص شخص کی لہر پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس غیر معمولی اقدام کے لیے وزیر اعظم کو عوام کو جواب دینا چاہیے۔ حالانکہ یہاں یہ بات بھی واضح رہنا چاہیے کہ ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ‘ میں عام لوگوں سے آنے والی امداد کہاں، کیسے اور کس ادارے کے ذریعہ خرچ کی جائے گی ملک کے عوام کو اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملی ہیں۔
سی ایس آر پر بھی سوال
مرکزی کارپوریٹ وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ ‘پی ایم کیئرس فنڈ میں انڈسٹری کے ذریعہ دی جانے والی رقم کارپوریٹ سوشل ریسپانسبیلیٹی (سی ایس آر) کے بنیاد پر مانی جائے گی، لیکن اگر مدد کی رقم ‘سی ایم ریلیف فنڈ میں جاتی ہے تو ایسا نہیں مانا جائے گا۔ اب اس آرڈر پر اپوزیشن کی کئی جماعتیں سوال اٹھا رہی ہیں اور براہ راست وزیر اعظم مودی کو گھیر رہی ہیں۔
مرکز کے اس حکم پر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح ‘پی ایم کیئرس فنڈ میں دی گئی رقم کو سی ایس آر سمجھا جا رہا ہے، اسی طرح ’سی ایم فنڈ‘ میں دی گئی رقم پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ ان کے علاوہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے اس معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط بھی لکھا ہے۔
اس فنڈ کے خلاف داخل کردہ درخواست سپریم کورٹ میں مسترد
اس معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی گئی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’پی ایم کیئرس فنڈ سے متعلق درخواست مکمل طور پر غلط ہے۔ عدالت نے درخواست گزار ایڈووکیٹ منوہر لال شرما کو پھٹکار بھی لگائی۔
اس معاملے کی سنوائی جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس ایم ایم شاتانا گوڈر کی تین رکنی بنچ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کر رہی تھی۔ یہ بنچ درخواست گزار شرما کی ان دلیلوں سے متفق نہیں تھی کہ اس فنڈ کا قیام آئین کے آرٹیکل 266 اور 267 میں فراہم کردہ منصوبوں کی پیروی کیے بغیر ہی عمل میں لایا گیا تھا۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا کہ یہ کوئی ٹیکس وصولی کا معاملہ نہیں ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے اوپر جرمانہ بھی لگا سکتے ہیں۔
بھارت کے ویر ٹرسٹ کا پیسہ کہاں گیا؟
2019 میں پلوامہ حملے کے بعد شہید ہونے والے فوجیوں کے لواحقین کی مدد کے لیے فلم اداکار اکشئے کمار نے’بھارت کے ویر ‘ نامی ایک ٹرسٹ بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے ذریعے انہوں نے ایسے حالات کا سامنا کرنے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے اہل خانہ کی مدد کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا۔ بعد میں اس ‘بھارت کے ویر ٹرسٹ کو مرکزی وزارت داخلہ نے اپنے دائرے کار میں لے لیا۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ کافی سارے لوگوں نے بھی اس ٹرسٹ میں چندہ دیا تھا۔ لیکن اس رقم کو کس طرح خرچ کیا گیا، اس کے بارے میں شفافیت کے ساتھ کوئی معلومات اس ٹرسٹ کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب نہیں ہیں۔
کانگریس صدر سونیا گاندھی کا مطالبہ
گزشتہ دنوں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے پی ایم مودی کو کووڈ۔19 وبا سے لڑنے کے لیے ایک خط لکھا اور اپنے اس خط میں پی ایم مودی کو 5 اہم مشورے دیے۔ اس میں ان کا ایک مشورہ ‘پی ایم کیئرس فنڈ پر بھی ہے۔
انہوں نے کہا ہے، پی ایم کیئرس فنڈ کا مکمل پیسہ ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ‘(پی ایم این آر ایف) میں منتقل کیا جائے۔ اس سے اس رقم کے الاٹ کرنے اور خرچ میں سہولت، شفافیت، ذمہ داری اور آڈٹ یقینی ہو پائے گی۔ عوامی خدمات کے فنڈ کی تقسیم کے لیے دو الگ الگ مد بنانا محنت اور وسائل کی بربادی ہے۔ پی ایم این آر ایف میں تقریباً 3800 کروڑ کی رقم بغیر استعمال کے پڑی ہوئی ہے۔ یہ فنڈ اور ’پی ایم کیئرس‘ کی رقم کو ملا کر سماج میں حاشیے پر رہنے والے لوگوں کو فوری فوڈ سیکورٹی سائیکل مہیا کی جائے۔
***
کانگریس لیڈرششی تھرور نے بھی ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کی شفافیت اور اخراجات پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم صاحب کو اگر نام ہی چاہیے تھا تو ’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ ‘کا ہی نام بدل کر’پی ایم کیئرس فنڈ‘ کیوں نہیں رکھ دیا گیا۔ اس کے لیے الگ سے چیریٹیبل فنڈ بنانے کی کیا ضرورت تھی، جس کے قواعد و اخراجات پوری طرح سے مبہم ہیں۔