پروفیسر ضیاء الرحمٰن اعظمی: میدان تحقیق و تصنیف کا مرد مجاہد
قبول اسلام کی داستان ’’گنگا سے زمزم تک‘‘ سمیت کئی کتابیں ’باقیات الصالحات‘ میں شامل
آسیہ تنویر
یوم عرفہ تیس جولائی کو اس دار فانی سے رخصت ہونے والی عظیم شخصیت ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی 1943ء میں اعظم گڑھ کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام بانکے رام رکھا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے جس شخص کو اپنی ہدایت کے لیے منتخب کرلیا تھا، اس کی تربیت کا اہتمام بھی اسی شان سے کیا۔ بے شک الله جسے چاہتا ہے عزتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں حدیث کالج کے ڈین کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ لینے والے ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نے تحقیق، تصنیف و تالیف کے میدان میں تن تنہا وہ گرانقدر کارہائے نمایاں سر انجام دیں جو شاید کئی اکیڈمیز مل کر بھی انجام نہیں دے پاتیں۔
ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نے اپنے کئی انٹرویوز میں بتایا کہ کس طرح وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود دین اسلام کی طرف راغب ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1959 میں بلریا گنج کے حکیم ایوب صاحب نے ایک چھوٹی سی کتاب ’ستیہ دھرم‘ کیا دی کہ اس کے سامنے زمین و آسمان کے خزانے بھی ہیچ لگنے لگے۔ میں نے اس کتاب کو کئی بار پڑھا اور ہر بار گرمی شوق دو آتشہ ہوتی گئی ۔میں نے فیصلہ کیا کہ اس مصنف کی ہندی میں ترجمہ شدہ تمام کتابیں حاصل کر کے پڑھوں گا۔اسی دوران مجھے خواجہ حسن نظامی کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھنے کا موقع ملا۔ اللہ نے مزید مہربانی یہ کی کہ شبلی کالج، جس میں مَیں اس وقت زیرِ تعلیم تھا اس کے ایک استاد نے جو سید مودودیؒ کی فکر سے گہرے متاثر تھے اور جنہوں نے ایک ہفتہ وار حلقہ درس قرآن بھی قائم کر رکھا تھا، اسلام کے لیے میرا ذوق و شوق دیکھ کر مجھے اپنے حلقہ درس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
اپنے قبول اسلام کے متعلق کہتے ہیں ’’سید مودودیؒ کی کتابوں کے مسلسل مطالعے اور حلقہ درس قرآن میں باقاعدگی سے شمولیت نے میرے قبول اسلام کے جذبے کو دو آتشہ کر دیا، مگر بعض خدشات دل و دماغ میں ابھر ابھر کر میرے اس روحانی سفر کی راہ میں حائل ہو جاتے اور میں ٹھٹھک کر رہ جاتا۔ سب سے زیادہ یہ سوال مجھے پریشان کرتا کہ میں دوسرے اہل خاندان کے ساتھ کس طرح نباہ کر سکوں گا، خصوصاً چھوٹی بہنوں کے مستقبل کے متعلق بہت پریشان تھا۔ مگر اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے نتائج کی پروا کیے بغیر فوراً اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک دن ان ہی استاد صاحب نے جن کے حلقہ درس میں مَیں بلا ناغہ شامل ہوتا تھا، سورہ عنکبوت کا درس دیا۔ پہلے انہوں نے یہ آیت پڑھی: مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ۔ (العنکبوت ٢٩: ٤١) ’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کار ساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے جو گھر بناتی ہے اور سب سے بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش لوگ (اس حقیقت سے) باخبر ہوتے۔‘‘
پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے تمام سہارے مکڑی کے جالے کی طرح کمزور اور بے بنیاد ہیں۔ ان کی اس تشریح اور دل میں گھر کر جانے والے اندازِ بیان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے بغیر کسی تاخیر کے اسلام قبول کرنے اور تمام سہاروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا سہارا پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی مجلس میں مَیں نے اپنے استاد سے کہا کہ میں فوری طور پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ۔ساتھ ہی ان سے نماز سے متعلق کوئی مناسب کتاب بھی مانگی۔ انہوں نے مجھے ادارہ ’’الحسنات‘‘ رام پور کی آسان ہندی زبان میں شائع کردہ کتاب ’’نماز کیسے پڑھیں؟ ‘‘ دی، جس سے میں نے چند گھنٹوں کے اندر اندر نماز سیکھ لی۔ مغرب کے قریب دوبارہ استاد کے پاس پہنچا۔ ان کے ہاتھ پر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا اوران ہی کی اقتدا میں نماز مغرب کی نماز ادا کی۔ یہ میری سب سے پہلی نماز تھی جس کی کیفیت میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں کہتے ہیں’’ تحریک کے ذمہ داروں نے میری تعلیم کا بندوبست دارالسلام عمرآباد میں کرایا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں نے مزید تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا جو بآسانی مل گیا۔ چارسال کے بعد وہاں سے فارغ التحصیل ہواتوجامعۃ الملک عبدالعزیز، مکہ مکرمہ میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ ایم اے میں میرا تحقیقی مقالہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کی نوعیت اور حیثیت سے متعلق تھا اور اس کا عنوان تھا ’’ابوہریرۃ فی ضوء مرویاتہ وفی جمال شواہدہ وانفرادہ‘‘ یہ امتحان بھی امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ سے منسلک ہو گیا، رابطہ میں رہتے ہوئے بھی میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ جامعہ ازہر (مصر) سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ میں نے اپنے تھیسس (Thesis) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے عدالتی پہلو پر تحقیق کی ہے اور اس کا عنوان رکھا: ’’اقضیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘۔ یہ دونوں تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں (مصنف کی اجازت سے) نا چیز انشاء اللہ موخر الذکر کتاب کا انگریزی میں ترجمہ جلد مکمل کرے گا‘‘۔
ڈاکٹر ضیاء الرحمن آعظمی مزید کہتے ہیں ’’تحریک اسلامی میں مجھے سب سے زیادہ تحریک کے داعی سید مودودیؒ کے ذاتی کردار نے متاثر کیا۔ راہ حق میں عزیمت و استقامت کی جو نظیر سید مودودیؒ نے قائم کی، اس کی مثال ماضی قریب میں بمشکل ہی ملے گی ۔محض دعویٰ کرنا اور بات ہے لیکن پھانسی کی سزا ملنے پر بھی پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دینا اور باطل کے ساتھ سمجھوتے کی پیشکش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دینا کوئی معمولی بات نہیں۔‘‘
آپ کی چند اہم کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :
(1) أبو هریرة في ضوء مرویاته
(2) أقضیة رسول الله ﷺ
(3) دراسات في الجرح والتعدیل
(4) المدخل إلی السنن الکبری للبیهقي
(5) دراسات في الیهودیة والنصرانیة
(6) فصول في أدیان الهند
(7) معجم مصطلحات الحديث
(8) المنة الکبری شرح وتخریج السنن الصغری للبیہقی
(9) التمسک بالسنة في العقائد والأحکام
(10) تحفة المتقین في ما صح من الأذکار والرقی والطب عن سید المرسلین
ان کتابوں کو کئی ناشرین نے شائع کیا ہے اور ان کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے ہیں ۔
ان کا سب سے عظیم کارنامہ تالیفِ ’الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل ہے۔ اس میں تمام صحیح احادیث کو مختلف کتبِ احادیث ، مثلاً مؤطات ، مصنفات ، مسانید ، جوامع ، صحاح ، سنن ، معاجم ، مستخرجات ، أجزاء اور أمالی سے جمع کیا گیا ہے ۔ ہر حدیث کی تخریج کے بعد اس کے صحیح اور حسن کا درجہ بھی بیان کردیا گیا ہے ۔قارئین کی سہولت کے لیے اس کتاب کو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا ہے ۔ اس کا پہلا ایڈیشن دار السلام سعودی عرب سے 2016 میں 12 جلدوں میں شائع ہوا تھا ۔ دوسرا ایڈیشن 2019 میں دار ابن بشیر ، پاکستان سے 19 جلدوں میں طبع ہوا ہے ۔(ان میں سے ایک جلد فہارس کی ہے) یہ کتاب سولہ ہزار پانچ سو (16500) صحیح حدیثوں پر مشتمل ہے ۔اب تک اردو، ہندی، عربی میں اعظمی صاحب کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ’’گنگا سے زمزم تک‘‘ اردو زبان میں ہے جو ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی داستان ہے۔ ہندی زبان میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اسلامی نظام حیات کے مختلف پہلوؤں کو ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں خالص علمی انداز میں پیش کیا ہے۔ ہندومت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کا تقابلی مطالعہ جلد ہی منظرعام پر آنے والی ہے، موصوف کی تالیف کردہ مختلف کتابیں سعودی عرب کی جامعات کے اعلیٰ درجوں کے کورس کا حصہ ہیں جس میں سر فہرست ’’دراسات فی الیہودیہ والمسیحیہ وادیان الہند‘‘ قابل ذکر ہے۔
ان کا سب سے عظیم کارنامہ تالیفِ ’الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل ہے۔ اس میں تمام صحیح احادیث کو مختلف کتبِ احادیث ، مثلاً مؤطات ، مصنفات ، مسانید ، جوامع ، صحاح ، سنن ، معاجم ، مستخرجات ، أجزاء اور أمالی سے جمع کیا گیا ہے ۔ ہر حدیث کی تخریج کے بعد اس کے صحیح اور حسن کا درجہ بھی بیان کردیا گیا ہے ۔قارئین کی سہولت کے لیے اس کتاب کو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا ہے ۔ اس کا پہلا ایڈیشن دار السلام سعودی عرب سے 2016 میں 12 جلدوں میں شائع ہوا تھا ۔ دوسرا ایڈیشن 2019 میں دار ابن بشیر ، پاکستان سے 19 جلدوں میں طبع ہوا ہے ۔