پدم اعزازات؛ حزب اختلاف لیڈر کے لیے وزیر اعظم کے آنسو ’بے سبب‘ جاری نہیں ہوئے تھے

شہری اعزازات کی سیاسی بساط پر کون کس مقام پر؟

حسن آزاد

ایوارڈوں کی اہلیت اور نظریاتی بحثوں کے درمیان بندر بانٹ کا سلسلہ برقرار ۔’آزاد‘ اور ’غلام‘ کے بیچ کس کا ہوا ’کلیان‘؟
حکومت کے خلاف ناراضگی اور احتجاج درج کرانے کے لیے عوام سڑکوں پر اتر آتے ہیں مگر خواص کا طریقہ کار خاص ہوتا ہے۔ ملک میں 2014 میں بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سے ہی ایوارڈ واپسی کا سلسلہ بھی چل پڑا اور ایوارڈ وصول نہ کرنے کی بھی روایت شروع ہوئی۔ اس سال مودی حکومت نے بھارت کے 73ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر 25 جنوری کو مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ 128 افراد کو’پدم‘ ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا۔ لیکن یہ ایوارڈز تنازعہ کا شکار ہو گئے۔
ایوارڈ وصول نہ کرنے کی وجہ خود کی توہین سمجھنا
ایوارڈ کا بائیکاٹ کرنا کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جنہیں انعام دیا جا رہاہے وہ اس انعام کو اکرام نہیں بلکہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی سال مغربی بنگال کی معروف گلوکارہ 90 برس کی سندھیا مکھرجی نے ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم اس کی وجہ نظریاتی اختلاف نہیں ہے بلکہ انہیں ‘پدم شری‘ کے لیے منتخب کیا گیا جسے جونیئر سطح کا سمجھا جاتا ہے۔ سندھیا مکھرجی کو ‘بلبل بنگال‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جدید بنگلہ موسیقی میں ان کا اپنا ایک مقام ہے۔ انہوں نے بنگلہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد دیگر زبانوں میں بھی گانے گائے ہیں۔ سندھیا مکھرجی کی بیٹی سومی سین گپتا نے ایک نجی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’90برس کی عمر میں شہرہ آفاق گلوکارہ کو پدم شری ایوارڈ دینا ان جیسی اعلیٰ فنکار کی توہین ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ایک سرکاری افسر نے فون کر کے ایوارڈ دیے جانے کی اطلاع دی۔ ‘‘بھلا یہ بھی ایوارڈ دینے کا کوئی طریقہ ہے؟‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ ایوارڈ قبول نہ کرنے کی وجہ سیاسی نہیں ہے۔ اگرچہ کہ بنگال کی وزیر اعلی نے اسے اپنے بیان کے ذریعہ سیاسی بنا دیا ہے۔ انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو کچھ ہوا ہے اس میں سیاست واضح ہے۔ سندھیا مکھرجی کو پدم شری دینے کا اعلان بنگال کی بے عزتی ہے، اور یہ شرم کی بات ہے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ سندھیا مکھرجی کو 2011 میں مغربی بنگال کا اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ’بنگ وبھوشن‘ مل چکا ہے انہیں 1970ء میں بہترین خاتون پلے بیک سنگر کا قومی فلم ایوارڈ بھی ملا تھا۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے 2015 میں بالی ووڈ کے مشہور اسکرپٹ رائٹر اور اداکار سلمان خان کے والد سلیم خان نے بھی مرکزی حکومت کی جانب سے دیا جانے والا پدم شری ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سلیم خان نے اس بات کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ ’ہاں، میں نے پدم شری لینے سے انکار کیا ہے۔‘ انہوں نے کہا تھا کہ وہ پدم شری کے خلاف نہیں ہیں لیکن انہوں نے کافی تاخیر سے مجھے پدم شری ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔ اب انہیں مجھے وہ ایوارڈ دینا چاہیے جو میرے قابل ہو۔ پدم شری تو مجھ سے جونیئر پچاسوں افراد کو مل چکا ہے۔ کیا 79 برس کی عمر میں مجھے یہ ایوارڈ دینا مناسب ہے؟‘۔
ایوارڈ وصول نہ کرنے کی وجہ سیاسی و نظریاتی اختلافات
یہ تو اکرام بمقابلہ توہین کی بات ہوئی۔ سیاسی نظریہ اختلاف کی بنیاد پر بھی ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ اسی سال ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلی اور کمیونسٹ رہنما بدھا دیب بھٹاچاریہ کا نام بھی شامل ہے۔ انہیں دوسرے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ‘پدم بھوشن‘ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن ایوارڈ کے اعلان کے کچھ دیر بعد ہی سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ایوارڈ قبول نہیں کریں گے۔
بدھا دیپ بھٹا چاریہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن اور 2002 سے 2011 تک مغربی بنگال کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کی سب سے بڑی وجہ نظریاتی اور سیاسی اختلافات ہیں۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے سویلین ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ یہ پارٹی کا دیرینہ موقف رہا ہے جب ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت نے مغربی بنگال میں سب سے زیادہ تقریباً 24 برس حکومت کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ جیوتی باسو کو ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز ‘بھارت رتن‘ دینے کا اعلان کیا تھا تو باسو نے اور ان کی پارٹی دونوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
2016 میں ایک صحافی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ایک رپورٹ کے مطابق ٹائمز آف انڈیا سے منسلک صحافی اکشایا مکل نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رامناتھ گوینکا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اکشایا مکل کو ان کی لکھی گئی کتاب کی وجہ سے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ بھارتی صحافی مکل کا کہنا تھا آر این جی ایوارڈ حاصل کرنا میرے لیے ایک اعزاز ہے لیکن میں مودی اور ان کے نظریہ کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔
’غلام‘ یا ’آزاد‘ کی بحث
ملک میں کانگریس اور بی جے پی کے مابین ایک واضح نظریاتی جنگ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سال جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلی اور کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کے نام کا پدم بھوشن کے لیے اعلان ہوا ہے جس کے بعد کانگریس دو خیموں میں تقسیم ہو گئی۔ کسی نے مبارک باد پیش کی تو کسی نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے پارٹی پر ہی تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ کانگریس کو غلام نبی آزاد کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ کانگریس کے دونوں سینئر لیڈر پارٹی قیادت پر سوال اٹھا چکے ہیں۔
کپل سبل کانگریس قیادت کی مسلسل تنقید کرنے والے G-23 گروپ کے نمایاں لیڈر ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا‌کہ ’’غلام نبی آزاد کو پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا ہے۔ بھائی جان! مبارک ہو۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ کانگریس کو ان کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ ملک ان کی عوامی زندگی کو مانتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ کانگریسی لیڈر ششی تھرور نے بھی سینئر کانگریسی لیڈر کو اس موقع پر مبارکباد دی۔ ششی تھرور نے غلام نبی آزاد کے ساتھ ایک پرانی تصویر کو دوبارہ شیئر کیا۔ انہوں نے لکھا، ’غلام نبی آزاد کو ان کے پدم بھوشن پر بہت مبارکباد۔ عوامی خدمت کے لیے دوسری پارٹی کی حکومت کی طرف سے بھی پہچان پانا اچھی بات ہے‘‘۔
یعنی یہ تمام لیڈر اسے مثبت انداز میں پیش کررہے ہیں کہ حکومت کسی کی بھی ہو صلاحیت مند افراد کو اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔
اس موقع پر نیشنل کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبدﷲ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے غلام نبی آزاد کو پدم بھوشن ایوارڈ سے سرفراز کیے جانے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ غلام نبی آزاد کو اس اعزاز کے لیے منتخب کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کے لیے بہت اچھے کام کیے ہیں۔ان کے مطابق غلام نبی آزاد نے بطور کانگریس لیڈر، سیاستداں اور بطور وزیر لوگوں کے لیے بہت کام کیے ہیں ۔ڈاکٹر فاروق عبدﷲ نے مزید کہا کہ غلام نبی آزاد بہت اچھے انسان ہیں اور انہوں نے ملک کی خاطر بہت اچھے کام کیے ہیں۔
لیکن کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش اس معاملے میں بالکل مختلف نظر آئے۔انہوں نے بدھادیپ بھٹا چاریہ کے حوالے سے کہا کہ وہ ’غلام‘ نہیں ’آزاد‘ رہنا چاہتے ہیں۔
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
سوال اس لیے بھی اٹھنا لازمی ہے کہ وزیر اعظم مودی راجیہ سبھا سے سبکدوش ہونے والے کانگریس کے رکن غلام نبی آزاد سمیت تین دیگر ارکان کو الوداع کہتے ہوئے جذباتی نظر آئے تھے۔ وزیر اعظم مودی نے خاص طور پر غلام نبی آزاد سے متعلق کئی واقعات کا تذکرہ کیا اور ان کی خوب تعریف کی۔ اس دوران وزیر اعظم مودی کی آنکھوں سے آنسو بھی چھلک پڑے تھے۔ کیونکہ
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ جب پدم بھوشن کا اعلان ہوا تو افواہ پھیلنےگی کہ غلام نبی آزاد نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے سے ’کانگریس‘ لفظ ہٹا دیا ہے۔ بعد میں غلام نبی آزاد نے وضاحت کی کہ انہوں نے ٹویٹر اکاؤنٹ میں کچھ بھی اضافہ وحذف نہیں کیا ہے۔
بعد از مرگ کلیان سنگھ کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ’پدم وبھوشن‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے سابق لیڈر اور بابری مسجد کے انہدام کے وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہنے والے کلیان سنگھ کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ‘پدم وبھوشن‘ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ لیکن ’غلام‘ اور ’آزاد‘ کی بحث میں اس خبر پر کم توجہ دی گئی۔
احتجاج اور ناراضگی کے اظہار کی وجہ سے ایوارڈ واپس
ایوارڈ واپس کرنے یا وصول نہ کرنے کی ایک وجہ احتجاج اور ناراضگی کا اظہار بھی ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔
متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف جب کسانوں نے دلی کی سرحدوں پر احتجاج کرنا شروع کیا تھا تو کچھ دن بعد ہی پنجاب کے سابق وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل نے پدم وبھوشن واپس کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں جو بھی ہوں کسانوں کی وجہ سے ہوں، اگر آج کسانوں کی بے عزتی ہو رہی ہے تو پھر کسی طرح کا ایوارڈ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ماضی میں بھی احتجاجاً کئی نامور شخصیات مختلف اسباب کی بنا پر پدم ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔ ان میں مصنفہ گیتا مہتا، صحافی ویریندر کپور، ادیب اور فلم ہدایت کار باہولیان جے موہن اور گلوکارہ سستلا جانکی شامل ہیں۔۔
2015 میں 88 سالہ مصنفہ نین تارا سہگل کو سنہ 1986 میں باوقار ادبی ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جسے انہوں نے واپس کر دیا تھا۔ان کے علاوہ ہندی کے معروف شاعر اشوک واجپئی نے بھی اپنا ایوارڈ یہ کہتے ہوئے واپس کردیا تھا کہ حکومت ’عوام اور قلم کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔‘
دونوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت ہندو شدت پسندوں کو اقلیتوں اور مصنفوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔
2015 میں ہی بھارت کے نامور سائنسداں پی ایم بھارگو نے کہا تھا کہ وہ ملک میں ’بڑھتے ہوئے عدم برداشت‘ کی وجہ سے اعلیٰ ترین سرکاری ایوارڈ واپس کر رہے ہیں۔
انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سنہ 1986 میں دیا گیا تھا۔
اسی سال فلم سازوں کے ایک گروپ نے بھی ملک میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کی وجہ سے اپنے اعزازت واپس کیے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی ادیبوں نے بھی اپنے ایوارڈز واپس کیے ہیں۔
معروف مصنفہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اروندھتی رائے نے بھی 1989 میں ملنے والا قومی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ حکومت کی پروردہ اداکارہ کنگنا رناؤت بھی پدم شری ایوارڈ لوٹانے کے لیے تیار ہیں۔ کنگنا رناؤت نے ملک کی آزادی سے متعلق اپنے بیان کے دفاع میں کہا تھا کہ وہ اپنا پدما شری ایوارڈ واپس کرنے کے لیے تیار ہیں اگر کوئی انہیں 1947 میں ہونے والے واقعات سے روشناس کرا دے۔ واضح رہے کہ کنگنا رناوت نے 1947 کی آزادی کو ’بھیک‘ قرار دیا تھا اور ملک کی اصل آزادی کی تاریخ 2014 کو قرار دیا تھا جب بی جے پی اقتدار میں آئی تھی۔
بیرون ممالک میں بھی ایوارڈ وصول نہ کرنے کی مثالیں
اب جبکہ ایوارڈ وصول نہ کرنے کی بات نکلی ہے تو ذرا اپنے ملک عزیز سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی کیا صورتحال ہے؟
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔۔۔۔۔
حال ہی میں برطانیہ کی 95 سالہ ملکہ الزیبتھ نے بزرگوں کو عطا کیا جانے والا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ ملکہ برطانیہ نے کہا کہ آپ کی عمر اتنی ہی ہے جتنی آپ محسوس کرتے ہیں۔ برطانوی میگزین نے ملکہ کو ایوارڈ دینے کی اجازت مانگی تھی، جس پر ملکہ نے شائستگی سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ملکہ برطانیہ نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ کو اس ایوارڈ کے لیے کوئی اور شخصیت مل جائے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق سیاہ فام شاعر بنجمن زیفانیہ نے برطانوی حکومت کی جانب سے آرڈر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز قبول کرنے سے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی تھی کہ یہ اعزاز نوآبادیاتی ظلم وجبر اور غلامی کی علامت ہے۔
ہالی ووڈ اداکارہ نیٹلی پورٹمین نے اسرائیلی ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ نیٹلی پورٹمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے کے لیے یروشلم میں ایک تقریب میں جانے سے انکار کر دیا ہے جہاں انہیں بیس لاکھ ڈالر کی انعامی رقم ملنے والی تھی۔خیال رہے کہ جینیسز پرائز فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ایوارڈ دینے کا یہ سلسلہ 2013 میں شروع ہوا تھا اور یہ ان غیر معمولی افراد کو دیا جاتا ہے جو یہودیوں کی آئندہ نسل کے لیے ’انسپریشن‘ کا باعث بنے ہوں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایوارڈز وصول نہ کرنے اور پہلے قبول کرنے پھر واپس کرنے کی روایت پرانی ہے جو کبھی احتجاجاً، کبھی خفگی کے اظہار اور کبھی توہین سمجھتے ہوئے واپس کیے جاتے رہے ہیں اور اسے سیاسی زاویہ بھی دیا جاتا ہے۔

 

***

 پدم ایوارڈز کب، کیوں اور
کن شخصیات کو دیے جاتے ہیں؟
مرکزی حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو (PIB)کے مطابق پدم ایوارڈز ملک کے سب سے اعلیٰ شہری ایوارڈوں میں سے ایک ہے، جنہیں تین زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان کے حسب مراتب نام کچھ یوں ہیں: پدم وبھوشن، پدم بھوشن اور پدم شری۔ یہ ایوارڈز مختلف قسم کی سرگرمیوں اور شعبوں میں نمایاں خدمات پر دیے جاتے ہیں، جن میں آرٹ، سماجی خدمت، عوامی امور، سائنس اور انجینئرنگ، تجارت وصنعت، میڈیسن، ادب اور تعلیم، کھیل کود اور سول سروسز وغیرہ شامل ہیں۔ ‘پدم وبھوشن غیر معمولی اور نمایاں ترین خدمت کے لیے دیا کیا جاتا ہے؛ ‘پدم بھوشن’ اعلیٰ پیمانے کی غیر معمولی خدمت کے لیے جبکہ ‘پدم شری’ کسی بھی شعبے میں نمایاں ترین خدمت کے لیے دیا جاتا ہے۔
حکومت ملک میں یوم جمہوریہ کے موقع پر مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں اعلیٰ سویلین پدم ایوارڈز کا اعلان کرتی ہے۔ ان میں درجے کے اعتبار سے سب سے بڑا پدم وبھوشن اس کے بعد پدم بھوشن اور آخر میں پدم شری ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022