پاکستان کا شيولنگ اور بنارس کا فوارہ

گيان واپي مسجد پر تنازع کھڑا کرنا بھگوا ليڈروں کي انتخابي ضرورت۔مسئلہ کا مذہب سے تعلق نہيں

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

مقامي مسلمانوں کي جانب سے بے خوفي کا مظاہرہ۔ بڑي تعداد ميں نمازجمعہ کي ادائيگي
ايک ايسے وقت ميں جب کہ گيان واپي مسجد کے فوارے کي گونج ساري دنيا ميں سنائي دے رہي ہے مملکت خداداد پاکستان کے اندرشيولنگ کي موجودگي عوام وخواص کے ليے دل چسپي کا سبب بن گئي۔ گيان واپي کے نام نہاد شيولنگ ميں بڑا انوکھا پن ہے۔ اس کے سبب وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ مثلاً وہ فوارہ پتھر کے بجائے سيمنٹ سے بنا ہے۔ 1824 ميں سيمنٹ کي ايجاد ہوئي مگر اس سے قبل وہ عالم وجود ميں آگيا کيونکہ سيمنٹ کي ايجاد تو بعد ميں ہوئي ليکن اورنگ زيب عالمگير کا انتقال1707 ميں ہوگيا۔ اب اس بہتان طرازي کو ديکھيں وہ ايک ايسے مندر کو توڑ کر117 سال قبل اس دنيا سے رخصت ہوئے جس ميں سيمنٹ کا شيولنگ نصب تھا۔ ايسا چمتکار تاريخ تو دور قصے کہانيوں ميں بھي نہيں ہوتا۔ اس شيولنگ کے تعلق سے کچھ لوگ يہ سوال بھي کررہے ہيں کہ جس بادشاہ نے اتنا بڑا مندر توڑ ديا اس نے آخر شيولنگ کو کيوں چھوڑ ديا ؟ کيا انہيں پتہ تھا کہ ان کے انتقال کےتين سو سال بعد ايک ہندو ہرديہ سمراٹ سر زمينِ ہندپر نمودار ہو گا۔ وہ گجرات سے وارانسي جاکر اسے اپنا حلقۂ انتخاب بنائے گا اور اسے اپني ناکاميوں کي پردہ پوشي کرکے اليکشن جيتنے کے ليے شيولنگ کي ضرورت پڑے گي؟ اس مقصد کے ليے انھوں نے اگر ايسا کيا تھا تب تو ان کا تعلق مغليہ خاندان کے بجائے سنگھ پريوارسے ہونا چا ہيے تھا ليکن ايسا دعويٰ تو اب تک کسي زعفراني دانش ور نے نہيں کيا ہے ؟ ذرائع ابلاغ في الحال ايسے دل چسپ سوالات سے اٹا پڑا ہے۔
شيولنگ کے طور پر پيش کيے جانے والے فوارے کا سفيد رنگ بھي اسے منفرد بنا ديتا ہے۔ خود مجھے پچھلے دنوں سابق ہندو راشٹر نيپال جانے کا موقع ملا۔ وہاں کا سب سے بڑا مندر پشو پتي ناتھ ہے۔ يہ شيو کا مندر ہے اس ميں دن بھر ’اوم نمو شيوائے‘ کا جاپ ہوتا رہتا ہے۔ اس وسيع و عريض کمپلکس ميں سيکڑوں شيولنگ مختلف مقامات پر نصب ہيں بلکہ ايک حصہ تو مکمل طور پر اسي کے ليے مختص ہے جس ميں بہت سارے شيولنگ ہيں ليکن ان سب کو کالے پتھر سے تراش کر بنايا گيا ہے۔ ان ميں کوئي ايک بھي سفيد نہيں ہے اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ گيان واپي والا سفيد کيوں ہے اور اس کے بيچ ميں سوراخ کيوں ہے اس ليے کہ ايسا کوئي شيولنگ بھي مجھے نظر نہيں آيا۔ گيان واپي کے فوارے ميں تو سلاخ ڈال کر بھي تصديق کي گئي ليکن کون جانے اس کي گواہي عدالت ميں پيش کي جائے گي يا نہيں؟ کيونکہ عدليہ کے آنکھوں پر تو پٹي بندھي ہوتي ہے۔ وہ ہاتھوں سے ٹٹول کر وہي ديکھتا ہے جو کچھ اس کے سامنے لا کر پروسا جاتا ہے۔ گيان واپي مسجد کے حوض کا استعمال کيا جانے والا حصہ پہلي منزل پر ہے اس طرح اوپر شيولنگ نصب کرنے کي روايت بھي کہيں اور نہيں ملتي اور مسلمانوں کو اپني وضو گاہ کے اندر شيولنگ کي موجودگي پر اعتراض نہ ہونا اپنے آپ ميں ايک حيرت کي بات ہے۔
وارانسي ميں کاشي وشوناتھ مندر کي تعمير نو کا سہرا وزيراعظم نريندر مودي سے قبل راني اہليہ بائي ہولکر کے سر ہے۔ انھوں نے جس وقت مندر بنوايا گيان واپي مسجد موجود تھي ليکن اس کے اندر موجود نام نہاد شيولنگ کا انہيں نہ پتہ چلا اور نہ خيال آيا۔ وہ اگر مسجد کو نقصان نہيں پہنچانا چاہتي تھيں تو شيولنگ کو ہي وہاں سے لے جاکر اپنے مندر ميں نصب کروا ديتيں ؟ ايک سوال يہ بھي ہے کہ کيا ايک مہاراني موجودہ جمہوري حکم رانوں سے زيادہ روادار تھيں يا موجودہ رہ نماوں کي انتخابي ضرورت نے انہيں اس نفرت انگيزي پر مجبور کرديا ہے؟ حيرت کا ايک پہلو يہ بھي ہے کہ مودي جي پر وارانسي کے مہنت راجندر تياگي نے شاندار کاشي وشوناتھ کاريڈور کي تعمير کي خاطر 287 شيولنگ توڑ نےکا الزام لگا ديا۔ تو کيا اپنے چہيتے ليڈ ر کا آنکھوں کے سامنے ايسا کرکے انہيں توڑ کر کوڑے ميں پھينک دينا کوئي مسئلہ نہيں ہے ليکن اور نگ زيب پر اس کا الزام لگا دينا درست ہے؟ يہ بھي تعجب کي بات ہے کہ ابھي حال ميں کوريڈور پروجکٹ کي تعمير کے دوران کئي چھوٹے موٹے مندروں کو زمين دوز کيا گيا ليکن گيان واپي مسجد کي جانب نظر اُٹھاکر نہيں ديکھا گيا۔ الٹا اس کاريڈور کي تعمير کے سبب گيان واپي مسجد کھل کر سامنے آگئي کيونکہ اس کے سامنے کي غير قانوني تعميرات کو ہٹا ديا گيا۔ کاريڈور کے افتتاح کے دوران بھي نمازوں کا سلسلہ جاري و ساري رہا ليکن اب اچانک اس ہنگامہ کي ضرورت کيوں پيش آگئي؟ ايسے بے شمار سوالات اچانک گردش ميں آگئے ہيں۔
گيان واپي مسجد کے خلاف چلائي جانے والي تحريک کا واحد مقصد مسلمانوں کو بدنام کرکے يہ ثابت کرنا ہے کہ يہ بڑي ظالم قوم ہے۔ اس کے ذريعہ عام لوگوں کو ايک خيالي دشمن کے بہانے انتقام پر آمادہ کرنا ہے۔ انساني تاريخ کے حوالے سے بے شمار گم راہياںپھيلائي جاسکتي ہيں۔ مستقبل کے انديشوں سے خوفزدہ کرنا بھي کوئي مشکل کام نہيں ہے ليکن حال سے صرفِ نظر کرنا بہت مشکل ہے۔ مسلمان اگر ماضي ميں ظالم تو حال ميں بھي انہيں ويسا ہي ہونا چاہيے۔ ہندوستان اور يوروپ ميں ان کي مجبوري قابلِ فہم ہے ليکن کم ازکم عربستان يا پاکستان ميں تو ايسا نہيں ہے۔ اس کے باوجود مودي جي نے سن 2015ء ميں اپنے پہلے دورے کے موقع پر متحدہ عرب امارات ميں باقاعدہ مندر کي تعمير کے ليے ابوظبي حکومت کے ذريعہ زمين الاٹ کيے جانے کا جھوٹا اعلان کرديتے ہيں۔ سچ تو يہ ہے کہ يو اے اي کے حکمراں نے ہندوؤں کي مذہبي تنظيم اکشر پرشوتم سوامي نارائن سنستھا کو مندر کے ليے 55 ہزار مربع ميٹر رقبہ قطعہ اراضي پہلے ہي تحفہ ميں دے چکے تھے۔ ويسے دبئي ميں شيو اور کرشن مندر کے علاوہ اکشر دھام کے سوامي نارائن کي مذہبي عبادت گاہ، گردوارہ اور گرجا سن 1958 سے موجود ہيں ليکن مودي جي کي بيجا کريڈٹ لينے کي عادت نے ان سے يہ کذب گوئي کروا دي۔
امارات کا سوامي نارائن مندر تو کسي تنازع ميں نہيں گھرا مگر امريکہ ميں يہ ہوگيا۔ يہ اور بات ہے کہ وزيراعظم ميں امريکي انتظاميہ سے اس کي شکايت کرنے کي جرأت نہيں کي۔ ٹھيک ايک سال قبل ماہِ مئي ميں امريکي ايف بي آئي کے اہلکاروں، ہوم لينڈ سيکيورٹي اور اميگريشن کے افسران نے نيوجرسي کے نواحي علاقے رابنس ويل ميں ہندوؤں کي سوامي نرائن مندر پر تفتيش کيلئے چھاپہ مارا کيونکہ وہاں پر امريکا کے سب سے بڑے زير تعمير مندر ميں ليبر قوانين کي بے مثال دھجياں اُڑائي جارہي تھيں۔ مندر کي تعمير ميں کام کرنے والے مزدوروں نے حلفيہ بيان ميں کہا کہ مندر کے حکام اُنہيں سبز باغ دکھا کر امريکہ لائے۔ 20 ڈالر في گھنٹے کا وعدہ کرکے ملازمت پر رکھا۔ وقفہ وقفہ پر اُنہيں ڈزني لينڈ اور دوسرے اميوزمنٹ پارکوں کي تفريح کرانے اور چار سٹار ہوٹل ميں ہندوستاني باورچي کے ہاتھوں سے بنا ہوا لذيذ کھانا کھلا نے کي بات کہي ليکن جب وہ نيوجرسي پہنچے تو اس فريب کا پردہ فاش ہوگيا۔
سوامي نارائن مندر کے ليے کام کرنے والوں کي مزدوري 20 ڈالر کے بجائے ايک ڈالر في گھنٹے کردي گئي اور کھانے کے ليے روزانہ دال اور چاول خود پکا کر کھانے اور فرش پر سونے کے ليے مجبور کيا گيا۔ وقتاً فوقتاً ان پر بھاري جرمانہ عائد کيا گيا اس کے علاوہ تعميري کام کے ليے احتياطي آلہ جات کي فراہمي کے ليے رقم بھي تنخواہ ميں سے کاٹ لي گئي۔ محنت کشوں کا پيٹ کاٹ کر اس تنظيم نے وزيراعظم نريندر مودي کے انتخابي مہم کے ليے تقريباً تين لاکھ ڈالر بطور عطيہ پيش کرديا۔ اس عنايت کے جواب ميں مذکورہ تنظيم کے مذہبي رہ نما پرامکھ سوامي مہاراج کي تعزيتي نشست ميں وزيراعظم نريندر مودي نے شرکت کي اور خود کو ان کا بھکت بتايا ليکن يہ دوستي امريکہ کے اندر مندر کے عہديداروں کے کسي کام نہ آسکي۔ ان کے خلاف نہ صرف سرکاري چھاپہ پڑا بلکہ ميڈيا ميں اِس خبر کي تشہير کے بعد ہزاروں کي تعداد ميں امريکيوں نے مندر کے حکام کے خلاف اپنے سخت غم و غصے کا اظہار کيا ہے۔ انھوں نے يک زبان ہوکر دنيا ميں جہاں بھي اِس تنظيم کي جانب سے کوئي تعمير ہو اس کي تفتيش کا مطالبہ کيا۔ اس مطالبے کي زد ابوظبي ميں بننے والے سوامي نارائن مندر پر بھي پڑتي ہے۔ وزيراعظم اس پر ٹويٹ کرکے اپنا ووٹ بنک تو بڑھا رہے ہيں ليکن مزدوروں کے استحصال پر خاموش تماشائي بنے ہوئے ہيں۔۔
مندر کے نام اتر پرديش سے لے کر امريکہ اور ابوظبي تک جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بالکل مختلف صورت حال پاکستان ميں ہے۔ پاکستان کا شيو مندر صوبہ سندھ ميں نہيں ہے جہاں ہندووں کي سب سے بڑي آبادي ہے بلکہ خيبر پختونخوا ميں ہے جس کي انتہا پسندي ہميشہ زير بحث رہتي ہے۔ ضلع مانسہرہ کے گاؤں چٹي گٹي ميں ايک ہندو بھي موجود نہيں ہے ليکن يہاں پر ايک ’تين ہزار سال پرانا مندر‘ اب بھي موجود ہے۔ مقامي افراد کے مطابق ’دنيا کا چوتھا سب سے بڑا’شيولنگ‘ يہيں پر ہے۔ اس مندر کا تذکرہ اس سے منسلک ايک تنازع کي وجہ سے منظر عام پر آيا۔ يہ کسي مسلمان کي جانب سے وہاں مسجد کے پائے جانے کا دعويٰ نہيں تھا بلکہ رياستي حکومت کے ذريعہ مندر کے احاطے ميں زائرين کي سہولت کے ليے تعمير کيے جانے والے بيت الخلا کي تعمير کا مسئلہ تھا۔ اس پر کچھ ہندو تنظيموں نے مندر کي توہين بتا کر احتجاج کيا اور عدالت ميں درخواست بھي جمع کرائي جب کہ دوسرا اس اقدام کے حق ميں تھا۔
درشن لال مانسہرہ ميں واقع شيو مندر کے 25 سال تک نگراں رہے ليکن في الحال تقريباً ايک گھنٹے کي مسافت پر ضلع ايبٹ آباد ميں رہائش پذير ہيں۔ وہ بذاتِ خود مندر کي ديکھ بھال کے ليے ہفتے ميں ايک بار وہاں جاتے ہيں۔ درشن لال نے ہي عدالت سے درخواست کي ہے کہ بيت الخلا کي تعميرات کو روک کر انہيں مندر کے احاطے سے باہر بنايا جائے۔ ان کے مطابق پشاور يونيورسٹي اور ہزارہ يونيورسٹي ميں آثار قديمہ کے محققين نے اس مندر کے تقريباً تين ہزار سال قديم ہونے کي تصديق کي ہے۔ اس کا شمار پاکستان ميں موجود چند تاريخي مندروں ميں ہوتا ہے جسے ہندو کميونٹي نے مقامي بااثر لوگوں کي مدد سے محفوظ رکھا ہے۔ايک تحقيقي مقالے ميں انکشاف کيا گيا ہے تاريخي شواہد کے مطابق اسے 14 ويں صدي ميں بنايا گيا تھا مگر مندر کے اوپر بنا ہوا گنبد 17ويں صدي کي تعميرات سے ملتا جلتا ہے۔ مسجد مہابت خان پشاور ميں صوفي کاکا صاحب کے مزار سے اس ميں خاصي مشابہت ہے جسے مغل دور ميں تعمير کيا گيا تھا ليکن کسي پاکستاني کو يہ ديکھ کر اس کے مسجد ہونے کا خيال نہيں آيا جيسا کہ گيان واپي مسجد ميں ہورہا ہے۔ ايک خيال يہ بھي ہے کہ 1841 ميں سردار گلاب سنگھ کي گورنري کے دوران يہ تعمير ہوئي ليکن کوئي اسے غلامي کي نشاني نہيں کہتا۔
درشن لال بتاتے ہيں کہ يہ شيولنگ تين ہزار سال پرانا ہے اور ’ايسے قد آور شيولنگ دنيا ميں کُل چار رہ گئے ہيں جن ميں سے ايک ہندوستان، ايک بنگلہ ديش، ايک نيپال اور ايک پاکستان ميں ہے۔ شيولنگ پر موجود کچھ رسم الخط سے ظاہر ہوتا ہے کہ يہ شيولنگ اسي جگہ پر تيسري صدي سے پانچويں صدي يا 822 سے 1026 صدي تک بغير کسي عمارت کے سرراہ موجود تھا جس کي عبادت کے ليے زائرين آتے تھے۔ بعد ازاں 1818 سے 1842 تک کے سکھ دور ميں باقاعدہ اس کے ليے مندر کي تعمير کي گئي ہے۔درشن لال کے مطابق ہندوستان ميں جب بابري مسجد کو گرايا گيا تھا تو پاکستان ميں ديگر مندروں کي طرح اس مندر کو بھي مسمار کرديا گيا اور شيولنگ کو باہر پھينک ديا گيا تھا تاہم بعد ميں ديگر مندروں کي طرح پاکستاني حکومت نے اس کي تعمير کروائي اور محکمہ اوقاف نے اسے اپني تحويل ميں لے ليا۔ ايسا نہيں ہوا کہ وہاں انتقاماً بابري مسجد کي تعمير کردي گئي۔ درشن لال نے يہ بھي بتايا کہ پورے پاکستان سے ہندو اس مندر ميں تہوار منانے کے ليے سال ميں صرف دو بار آتے ہيں۔ پورے ضلع ميں چوں کہ ايک بھي ہندو موجود نہيں ہے اس ليے مندر کي حفاظت مقامي لوگ کرتے ہيں اور کبھي بھي تہواروں کے دوران کسي قسم کا مسئلہ پيش نہيں آتا۔ انہوںنے بتايا کہ جب ہمارے تہوار ہوتے ہيں تو ہم قريب والي مسجد کے امام کو بتاتے ہيں اور وہ ہميں کہتے ہيں کہ اذان کے وقت بس تھوڑا وقفہ کيا کريں، باقي آپ کو آزادي ہے کہ اپني مذہبي رسومات ادا کريں۔ کيا راج ٹھاکرے جيسے لوگوں کے ہوتے اس رواداري کا تصور بھي وطن عزيز کے اندر ممکن ہے؟
درشن لال کي طرح کاشي وشوناتھ مندر ٹرسٹ کے ايک سابق سربراہ (2013 سے 2019)اچاريہ دويدي ہيں۔ انھوں تاريخي کتابوں کے حوالے سے اس دعويٰ کي ترديد کردي جس کے سبب يہ نيا تنازع پيدا کيا گيا ہے۔ في الحال ہندو فريق يہ دعويٰ کررہا ہے کہ شرنگاري گوري کا مقام گيان واپي مسجد کي باہري ديوار پر ہے۔ نچلي عدالت کي نيت ٹھيک ہوتي تو ديويدي کي بات سنتي اور سروے کا حکم ہي نہيں ديتي۔ دويدي کے مطابق معروف دانش ورکبير ناتھ سکل نے اپني کتاب ’وارانسي ويبھو‘ ميں صفحہ 221پر لکھا ہے کہ گوري کا مجسمہ مندر کے شمالي حصے ميں اناپورنا مندر کے اندر ہے۔ مشہور روحاني پيشوا دھرم سمراٹ کرپاتري کے شاگرد شيوانند سرسوتي نے اپني کتاب وارانسي گورو ميں مذکورہ مجسمہ کا جائے وقوع محلہ بناس پھاٹک کے پلاٹ 3/58 پر مندر سے 100ميٹر کي دوري پر بتايا ہے۔ يہ وشو ويدک سناتن سنگھ کے جيتندر سنگھ بيسن کي ترديد ہے۔
اچاريہ ديودي کوئي معمولي آدمي نہيں ہے کہ جو کسي انتخابي ضرورت سے بنارس ميں جاکر بس گيا ہو۔ ان کا خاندان پچھلے 800 برسوں سے وہاں موجود ہے۔ اچاريہ کے مطابق اس دوران کبھي کسي نے شرنگاري گوري استھل کو اس مقام پر نہيں پايا جس پر اب تنازع کھڑا کيا جارہا ہے؟ ان کے مطابق 2004-2005 کے دوران شيوسينا اور وشوہندو پريشد نے اس مقام پر پوجا پاٹ شروع کي تھي۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کون اپنے سياسي مفاد کے ليے يہ ڈرامہ کررہا ہے۔ پاکستان ميں چوں کہ اس پر سياست نہيں کي جاتي اس ليے وہاں ايسے مسائل نہيں پيدا ہوتے جيسے کہ وارانسي ميں جنم لے رہے ہيں۔ ان تنازعات کا مذہب سے نہيں بلکہ سياست سے تعلق ہے۔ جو احمق يہ سوال کرتے ہيں کہ اس مسجد کا نام گيان واپي کيوں ہے ان کے ليے اچاريہ ديويدي انگريز مورخ جيمس پرنسيپ کي(1833) ميں شائع ہونے والي کتاب بنارس السٹريٹڈ کاحوالہ ديتے ہيں کہ اس کا نام عالمگير مسجد تھا۔ يہ سب تو پڑھے لکھے لوگوں کي حقائق کي بنياد پر کہي جانے والي سمجھداري کي باتيں ہيں جن سے سنگھ پريوار کے غنڈوں کوکوئي لينا دينا نہيں ہے۔ گيانواپي مسجد کا تنازع آگے چل کر کيا گل کھلائے يہ تو وقت بتائے گا ليکن بنارس کے مسلمانوں نے اس جمعہ کو بڑي تعداد ميں وہاں پہنچ کر يہ ثابت کرديا کہ وہ نہ ڈرے ہيں اور نہ ڈريں گے۔ اپنے ديني شعائر کي خاطر وہ لڑتے رہے ہيں اور آگے بھي لڑتے رہيں گے۔
(ڈاکٹر سليم خان ماحولياتي سائنس ميں پي ايچ ڈي ہيں جن کي تحريريں ملک و بيرونِ ملک بڑے پيمانے پر پڑھي جاتي ہيں۔)
***

 

***

 کچھ لوگ یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ جس بادشاہ نے اتنا بڑا مندر توڑ دیا اس نے آخر شیولنگ کو کیوں چھوڑ دیا ؟ کیا انھیں پتہ تھا کہ ان کے انتقال کےتین سو سال بعد ایک ہندو ہردیہ سمراٹ سر زمینِ ہندپر نمودار ہو گا۔ وہ گجرات سے وارانسی جاکر اسے اپنا حلقۂ انتخاب بنائے گا اور اسے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرکے الیکشن جیتنے کے لیے شیولنگ کی ضرورت پڑے گی؟ اس مقصد کے لیے انھوں نے اگر ایسا کیا تھا تب تو ان کا تعلق مغلیہ خاندان کے بجائے سنگھ پریوارسے ہونا چا ہیے تھا لیکن ایسا دعویٰ تو اب تک کسی زعفرانی دانش ور نے نہیں کیا ہے ؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  29 مئی تا 04 جون  2022