ٹی وی پرجان لیوا مباحث!

اہم ترین ملکی مسائل کے بجائے سماجی تفریق کے موضوعات کا انتخاب تشویشناک

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

۱۲؍ اگست

کے دن کانگریس کے ترجمان مسٹر راجیو تیاگی کی وفات ہوگئی۔ وہ اپنی موت سے چند لمحے پہلے تک ایک ٹی وی مباحثے میں شامل تھے۔ یہ مباحثہ بنگلورو میں ہونے والے تشدد کے موضوع پر جاری تھا۔ ایک لائیو مباحثے کے دوران راجیو تیاگی کی موت کے بعد ہندوستانی نیوز چینلوں پر ہونے والے مباحث کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔

گزشتہ منگل کی رات بنگلورو کے تین علاقوں میں تشدد بھڑک اُٹھا جس کے نتیجے میں تین افراد کی جانیں چلی گئیں۔ واقعہ یوں ہے کہ کانگریس کے رکن قانون ساز اسمبلی اکھنڈ سرینواس مورتی کے بھتیجے ٹی نوین کمار نے اپنے فیس بک پر پیغمبر اسلامؐ کی شان میں مبینہ طور پرگستاخی کی جس کے بعد پولیس کی جانب سے کارروائی میں تاخیر پر ہجوم برہم ہوگیا اور تشدد پر اتر آیا۔ یقیناً بھیڑ کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لے کر تشدد کرنا انتہائی غلط تھا۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس معاملے میں پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ لیکن دیکھنا چاہیے کہ اس کے کیا اسباب تھے اور کیا اس کو روکا نہیں جا سکتا تھا؟ یا یہ کوئی سوچی سمجھی سازش تھی؟ ان تمام امور پر ابھی تحقیق جاری ہے، لیکن اس دوران میڈیا نے حسب عادت اس واقعے کو ہندو مسلم تنازعہ کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ ٹی وی چینلوں میں کہا جانے لگا کہ تقریباً 60 ہزار کے ہجوم نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا۔ یہ انتہائی مبالغہ آمیز دعویٰ تھا کیوں کہ یہ تعداد اصل میں دو تا ڈھائی ہزار کے آس پاس ہی رہی ہوگی۔ اس موضوع پر مباحثے کے لیے راجیو تیاگی بھی پینل میں شریک تھے۔ اسی بحث کے دوران ان کے سینے میں درد شروع ہوا، انہیں فوری طور پر قریبی واقع یشودھا ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔

اسی کے ساتھ ہی ٹی وی پر ہونے والے یہ مباحث مختلف سوالوں کے گھیرے میں آنے لگے۔ اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے کہ ٹی وی پر یہ مباحث ہوتے کیوں ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مباحث لوگوں کے ذہن کو کھولنے اور کسی مسئلہ پر انہیں صحیح رائے قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے۔ ان میں مدلل گفتگو اور اعداد و شمار کے ساتھ اپنی بات کو رکھا جاتا تاکہ حقائق ناظرین کے سامنے آتے۔ لیکن اس کے برعکس آج کل کے مباحث تو ایک دوسرے کے درمیان نفرت، عداوت اور فرقہ پرستی کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان میں کسی خاص فرقہ کسی خاص مذہبی گروہ یا کسی خاص نظریے سے وابستہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے ذریعے دیکھنے والوں کے اندر ایک ہیجانی سی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ اس میں مختلف پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مخالف کو ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ٹی وی مباحث کا گرتا ہوا معیار باعثِ تشویش ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ ان میں چیخ پکار، گالم گلوچ، بدزبانی یہاں تک کہ ہاتھا پائی کے واقعات آئے دن کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس قسم کے ڈھیروں ویڈیو کلپس موجود ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس واقعے کے بعد مختلف جماعتوں اور خاص طور پر ان خود ساختہ مولوی حضرات کو جو بزعم خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، ان مباحث کا پوری طرح سے بائیکاٹ کرنا چاہیے ورنہ سماج ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کے رہنما رندیپ سرجے والا نے ٹیوٹر کے ذریعہ کہا کہ ’’زہریلے مباحثے اور زہریلے ترجمانوں کو کب تک صبر وتحمل اور سادگی کے ساتھ برداشت کیا جائے گا؟ ان مباحث سے ٹی آر پی کا کاروبار کب تک چلتا رہے گا؟ یہ کب تک ہندو مسلم تفریق کا زہر سماج میں گھولتے رہیں گے؟‘‘

اشوتوش نے کہا کہ ’’اگر کوئی قوم پرستی، دہشت گردی، کشمیر، اقلیتیں/ مذہبی امور اور فسادات جیسے موضوعات پر اپنی رائے رکھتا اور پیش کرتا ہے تو اس کو پینلسٹ/ اینکرز کی جانب سے انتہائی جارحیت اور خوف زدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کو ملک کا مخالف/ غدار/ ملک دشمن جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے‘‘۔

ٹی وی چینلس کے مباحث پر اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں عوام کے حقیقی مسائل پر کوئی گفتگو نہیں کی جاتی بلکہ ان میں ایسی باتوں پر بحث ہوتی ہے جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ ملک کی معاشی صورت حال پر گفتگو کرنے کی کوئی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ ملک میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اس کی کسی کو پروا نہیں، عالمی وبا سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی پر بحث سے کسی کو دلچسپی نہیں، غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن پر کچھ بات کرنا تو گویا جرم ہے۔ حکومت پر تنقید کرنا ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ بحیثیتِ مجموعی ان مباحث کا ایک ہی رخ ہوتا ہے کہ سماج میں ہندو مسلم تفریق کو مزید کیسے بڑھایا جائے ۔

رامیت ورما (آفیشل فینگ ہیومن) کے مالک نے 19 اکتوبر 2019 تک 4 ہندی نیوز چینلس پر ہونے والے 202مباحث کا تجزیہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان میں سے 79مباحث پاکستان کی مخالفت اور اس پر حملہ کرنے کے متعلق تھے۔ 14مباحث رام مندر پر جب کہ 66مباحث اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف تھے۔ پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی معیشت اور اس کی بگڑتی صورت حال پر ایک بھی مباحثہ نہیں ہوا۔ نہ کسانوں کی ابتر صورت حال، نہ بہار میں آنے والے سیلاب، نہ مسلمانوں اور دلتوں پر ہو رہے حملے اور نہ ہی ماب لینچنگ جیسے مسائل کو ان مباحث میں کوئی جگہ مل پائی ہے۔

ان مشہور نیوز شوز پر ہونے والے مباحث کے نام بھی بڑے عجیب ہیں: مثال کے طور پر دنگل (آج تک)، آر پار (نیوز 18)، تال ٹھوک کے (زی نیوز) اور کروکشیترا (انڈیا ٹی وی) وغیرہ۔ ان شوز میں ہونے والے مباحث کے عنوانات سے بھی محض لڑائی جھگڑے ہی کا عنصر جھلکتا ہے ۔جیسے : پی او کے واپس دے عمران (آج تک)، میرے رام بمقابلہ تیرے رام (زی نیوز)، مودی کا پرن – پاکستان کا چیر ہرن (نیوز 18)، وپکش پڑا ہے چکر میں کوئی نہیں ہے ٹکر میں (آج تک)، جب تک توڑیں گے نہیں، تب تک چھوڑیں گے نہیں (نیوز 18)، مودی کے 100دن بمقابلہ وپکش کے برے دن (نیوز 18)، منگل بھون امنگل ہاری۔ رام مندر کی کرو تیاری (نیوز 18)،جنم بھومی ہماری، رام ہمارے، مسجد والے کہاں سے پدھارے (آج تک) وغیرہ وغیرہ۔ نہ ہی یہ تمام نام فلموں کے ہیں اور نہ ہی کسی ٹی وی سیریلز کے بلکہ یہ مشہور نیوز چینلس میں ہونے والے مباحث کے عنوانات ہیں۔درحقیقت ان میں سے اکثر نیوز چینلس برسرِ اقتدار بی جے پی/ آر ایس ایس کے ترجمان اور ان کی ہندو قوم پرستی کے نظریہ کے فروغ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔نیوز چینلس پر اس طرح کے غیر مہذب مباحث کے ذمہ دار صرف پارٹی کے ترجمان ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اینکرز بھی ہیں جو ٹی آر پی کے لیے اپنی ساری حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں ہونے والی راجیو تیاگی کی موت اس کا کھلا ثبوت ہے۔ ٹی وی کے گرما گرم اور زہر آلود مباحث کو روکنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ یہ ملک کے عوام کی نفسیات میں نفرت اور بد تہذیبی کو سرایت کر دے گی پھر اس کے بعد عوام کو شائشتہ اور مہذب بنانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ ٹی وی پر سیاسی ترجمانوں کے اس غیر مہذب طرز عمل کو تبدیل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور یہ کام عوام کی طاقت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ تہذیب، شائستگی، متانت سے بھری ہوئی مدلل گفتگو ہی مباحث کو پُر اثر اور قابل سماعت بناتی ہیں ناکہ چیخ پکار، گالم گلوج وغیرہ۔