ٹیچر بننے کے کئی راستے

اساتذہ کو پیشہ کے تقاضے اور لوازمات سے لیس ہونے کی ضرورت

ڈاکٹر سلمان عابد

 

استاد ایک مقدس پیشہ ہے جس کے لیے استاد بننے کی خواہش رکھنے والے ہر فرد کو عام افراد سے چند خاص باتیں الگ کرتی ہیں۔ یہ عام قسم کا پیشہ نہیں ہے بلکہ اس سے وابستہ افراد پر انسانی دماغوں کی تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عام طور سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ نہ کیا ٹیچر بن گئے۔ حالانکہ ایک اچھا استاد اچھی نسل کو بناتا ہے اور ایک ناقص استاد نسل کی تباہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ پہلے اچھے استاد میں کئی ایک خوبیاں ہوتی تھیں لیکن آج اگر کوئی استاد کم از کم اپنے مضمون کی سچی ترسیل ہی بچوں میں کر لے تو یہی بہت بڑا احسان ہو جائے گا۔ اس کے لیے استاد کو خود قابل ہونا ہوتا ہے اور پھرا پنے مضمون کی تفہیم و ترسیل کے لیے سچا ہونا ہوتا ہے۔
استاد تعلیمی مدارج کے علی الحساب کئی طرح کا ہوتا ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ایک استاد بننے کے لیے کس طرح کی تعلیمی اسناد کی ضرورت ہوتی ہے، ٹیچر کتنی سطحوں کا ہوتا ہے اور کس کس قسم کا ہوتا ہے۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ دونوں سطحوں پر ٹیچر کے لیے نہ صرف عہدہ پرکشش ہوتا ہے بلکہ ان کی تنخواہیں بھی بہت زیادہ پر کشش ہوگئی ہیں۔ اسکولی سطح پر بھی اور کالجوں کی سطح پر بھی۔ لیکن ہم یہاں صرف اسکولی سطح کے ٹیچرس کا ذکر کریں گے۔ جو گورنمنٹ اسکولس ہیں ان کی تنخواہیں اور رتبے تو یکساں ہی ہوتے ہیں لیکن پرائیویٹ اسکولوں کی بات کی جائے تو یہ رتبے بھی چیلنجنگ ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی پرکشش ہیں۔ کئی انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ اسکولس اور ملک کے بیشتر ریذیڈنشیل پرائیویٹ اسکولس، گورنمنٹ اسکولوں سے کئی گنا زیادہ پرکشش ہیں ہر دو اعتبار متذکرہ سے۔
سردست ہمارے ذہنوں میں جو گورنمنٹ اسکولوں کے ٹیچرس کا تصور ہے اگر ہم اسی کو لے کر بات آگے بڑھائیں تو بات بآسانی سمجھ بھی
آجائے گی۔
پری پرائمری ٹیچر:
چھوٹے بچوں کی باقاعدہ اسکولی تعلیم کے آغاز سے قبل انہیں اسکول کے ماحول کے لیے، اور اصل اکتسابی ماحول کے لیے تیار کیا جانے والا مرحلہ پری پرائمری تعلیم کا ہوتا ہے۔ یہ ان بچوں کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے تاکہ اس سے ان کی صحیح تعلیمی آبیاری ممکن ہو سکے۔ شرط یہ ہے کہ یہ مرحلہ اسی سائنٹفک اصولوں کے مطابق طئے کیا جاے نہ کہ برائے نام۔ ہر اچھی چیز کی نقل بعض مرتبہ اتنی بری ہوجاتی ہے اور اس قدر پھیل جاتی ہے کہ ہمیں اچھے اور برے کی تمیز کرنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے۔ پری پرائمری تعلیمی اداروں کی صورت حال بھی کچھ اس کلیے سے مختلف نہیں کہی جاسکتی۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب والدین کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لے کر اقدام کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس مرحلے میں اچھا اسکول مل جائے تو پھر بچے کی آئندہ کی تعلیم آسان ہوجاتی ہے۔ زمین کی صحیح طور پر ہمواری زمین سے اچھی فصل کی غماز ہوتی ہے۔
فی الحال ہمارے ملک میں 3 تا 5 سال کی عمر کے بچوں کے لیے یہ اسکولس کام کر رہے ہیں۔ انہیں پری پرائمری/پلے اسکول کا نام دیا گیا ہے۔ اسی زمانے میں کئی درجوں میں اسکولس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ کے جی، پری نرسری، نرسری، ایل کے جی، یو کے جی وغیرہ میں بچوں کے داخلے کا رواج روز افزوں ہے۔ پری پرائمری مدارج عام طور سے خانگی سطح پر ہی فراہم ہیں۔ ابھی حکومتوں کی جانب سے اس اہم درجے کی جانب توجہ نہیں کی گئی ہے۔ ویسے بھی حکومتیں انسانی نسلوں کی صحیح آبیاری پر اب کم کم متوجہ ہونے لگی ہیں اور ان کے بیشتر اقدامات میں سیاست در آگئی ہے۔ اور یہ امر روز بہ روز افسوس ناک حد تک متاثر ہو رہا ہے۔
جاب پروفائل:
آئیے پری پرائمری سطح کے ٹیچر کی جاب پروفائل پر نظر ڈالتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کی مشکل ذمہ داری ان اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔ ان کی نفسیات سے اچھی واقفیت کے علاوہ ان بچوں سے دلچسپی بھی ایک اہم عنصر ہوتا ہے جس کا اساتذہ میں ہونا لازمی ہے۔ ورنہ چھوٹے بچوں کو سنبھالنا ہی جب مشکل ہوجاے تو پھر انہیں ایک قاعدے میں لانے کی ان کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔ ان چھوٹے بچوں سے متعلق تمام تر سائنٹفک معلومات سے اساتذہ کی واقفیت، انہیں سنبھالنے کا ہنر اور اس کی معقول ومناسب تربیت بھی ان اساتذہ کے لیے لازمی ہوگی۔ دوسری طرف بڑھتی عمر کے تقاضوں سے واقفیت اور ان کا مناسب، موزوں و بروقت استعمال، بچے مختلف الطبائع ہوتے ہیں ان سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ سارے ہنر اس درجے کے استاد کے لیے ایک جزو لاینفک کہے جاسکتے ہیں۔ ان بچوں کو اس مرحلے میں رنگوں سے واقفیت، خاکوں کی مدد سے، کہانیوں کی مدد سے، تصویروں کی مدد سے انہیں علم کے حاصل کرنے کے راستوں کی جانب موڑنے کے امور اس مرحلے میں اساتذہ کی جانب سے انجام دیے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ گزارا جانے والا یہ وقت اساتذہ کے لیے بڑا ہی حوصلہ طلب اور صبر آزما ہوتا ہے۔ اگر یہ ساری صلاحتیں ان اساتذہ میں ہوں تو بچے بھی سدھر جاتے ہیں اور اساتذہ کے کیریر کو بھی کوئی خطرہ نہیں رہتا۔
اہلیت:
پری پرائمری ٹیچر بننے کے لیے مذکورہ اندرونی صلاحتیوں اور خارجی تربیت کے علاوہ تعلیمی اعتبار سے جو ضروریات ہوں گی آئیے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ 10+2پاس ہوں اور ساتھ ہی نرسری ٹیچرس ٹریننگ (NTT) بھی پاس ہوں۔ اس میں ایک سالہ سرٹفکیٹ کورس یا ڈپلوما میں کامیابی لازمی ہوگا۔ ین ٹی ٹی کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ملک میں اسکولی تعلیم کے اس ابتدائی مرحلے کے لیے تربیت یافتہ اساتذہ کی قلت نہ ہو۔ اس لیے اس سرٹفکیٹ کورس کو بہت زیادہ اہم اور سائنٹفک بنایا گیا ہے۔ اس کورس میں چائلڈ سائکالوجی، چائلڈ کیر اینڈ ہیلتھ بیسکس، ہسٹری اینڈ فلاسفی آف پری پرائمری ایجوکیشن، نرسری سکول آرگنائزیشن، کمیونٹی چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن جیسے موضوعات شامل رکھے گئے ہیں۔
پرائمری ایجوکیشن:
پرائمری ایجوکیشن میں اپر پرائمری ایجوکیشن کا حصہ بھی شامل ہے۔ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک پرائمری ایجوکیشن یا ایلیمنٹری ایجوکیشن کی ذیل میں آئیں گے جس میں بچوں کی عمر 5 تا 10سال کی ہو گی۔
اہلیت:پرائمری ٹیچرس کی طرح تقرر کے لیے کم از کم انٹرمیڈیٹ میں 50% نشانات کے ساتھ کامیابی، اس کے ساتھ ڈپلوما ان ایجوکیشن (D.Ed) میں کامیابی اور ٹیچر ایلیجبلیٹی ٹیسٹ (TET) میں بھی کامیابی ضروری ہے۔ سی بی ایس ای کی جانب سے اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے ٹیٹ منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ بہتر سے بہتر اسکور کے لیے کئی بار لکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی سرکاری اور امدادی اسکولوں میں بہ حیثیت پرائمری ٹیچرس تقرر پاسکتے ہیں۔ اسی طرح پرائیویٹ اسکولوں میں بھی اس کی قدر ہوتی ہے۔
ہائی اسکول ٹیچر:
چھٹی تا دسویں جماعت ہائی اسکول میں ٹیچر بننے کے لیے بھی یہی اہلیت لازمی ہوگی۔ ان درجوں میں بچوں کی عمر 11تا 15سال ہوتی ہے۔ اور اس میں گریجویشن اور بی ایڈ میں کامیابی اور ٹیٹ میں کامیابی لازمی ہوتی ہے۔ ان درجات میں مضامین کی بھی بہتات ہوتی ہے۔ سائنس، ریاضی، ماحولیات وغیرہ میں چند ایک نئے مضامین جوڑ دیے گئے ہیں۔ گریجویشن کے ساتھ بیچلر ان ایجوکیشن کے نصاب کو بھی مضبوط بنایا جانے لگا ہے تاکہ ہائی اسکول کے درجوں میں شامل بڑھتے بچوں کی تعلیمی اٹھان کے لیے مناسب، موزوں اور قابل اساتذہ کا انتخاب ہوسکے۔
بہ حیثیت مجموعی کالجوں کے لیکچررس کی اپنی اہمیت ہے اور اسکول کے اساتذہ کی اپنی اہمیت ہے۔ ان میں سب سے بڑی ذمہ داری اسکول کے اساتذہ کی ہوتی ہے۔ چنانچہ جو طلبا اس پیشے سے جڑنا چاہیں انہیں بہت پہلے ہی سے اس کے لیے تیاری کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو اس پیشے کی ضرورتوں اور لوازمات سے آراستہ کرنا چاہیے تب ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کی ذہنی تربیت صحیح طور پر کر پائیں گے۔
***

فی الحال ہمارے ملک میں 3 تا 5 سال کی عمر کے بچوں کے لیے یہ اسکولس کام کر رہے ہیں۔ انہیں پری پرائمری/پلے اسکول کا نام دیا گیا ہے۔ اسی زمانے میں کئی درجوں میں اسکولس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ کے جی، پری نرسری، نرسری، ایل کے جی، یو کے جی وغیرہ میں بچوں کے داخلے کا رواج روز افزوں ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020