سوڈان کا بھی اسرائیل سے معاہدہ

مختلف شخصیتوں اور عرب اخبارات کی رائے

 

فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خلاف سوڈان کا موقف بہت سخت رہا ہے اور 1967میں سوڈان کے ہی دار الحکومت خرطوم میں عرب لیگ نے یہ حلف لیا تھا کہ ’’اسرائیل کے ساتھ امن نہیں، اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں‘‘ اور ’’ہم اسرئیل کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ لیکن 23/ اکتوبر 2020 کو امریکہ نے یہ اعلان کیا کہ سوڈان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوگئے ہیں اور وائٹ ہاؤس نے بطور انعام دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی لسٹ سے سوڈان کا نام ہٹا دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 1998 میں افریقہ کے اندر امریکی سفارت خانوں پر ہونے والے حملوں کے عوض سوڈان امریکہ کو 33کروڑ پچاس لاکھ ڈالر ادا کرے گا۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد دونوں ملکوں نے بھی ایک مشترکہ بیان میں اس کی تصدیق کی ہے۔ اور اب سوڈان (مصر 1979، اردن 1994اور بحرین وامارات 2020کے بعد) اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پانچواں مسلم ملک بن گیا ہے اور خبروں کے مطابق سطنت عمان اور سعودی عرب کے علاوہ کئی عرب ممالک بھی بہت جلد اس صف میں شامل ہوا چاہتے ہیں۔ اس معاہدہ پر تجزیہ کاروں اور عام لوگوں کے موافق ومخالف رد عمل آرہے ہیں نیز عربی میڈیا میں بھی اسے خوب کوریج ملی ہے۔ سوڈان کے وزیر اعظم عبد اللہ ہمدوک:ہم دہشت گردی کی لسٹ سے سوڈان کا نام ہٹانے پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہیں نیز ہماری حکومت عوامی مفاد کے پیش نظر بین الاقوامی تعلقات کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو: یہ معاہدہ خطہ میں نئے دور کا آغاز ہے اور بہت جلد دونوں ملکوں کے وفود تجارتی وزرعی تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے ملاقات کریں گے نیز ہم امریکی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے امن کا دائرہ اس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ: یہ معاہدہ زمین پرخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر ہوا ہے۔
واصل ابو یوسف (فلسطینی تنظیم "منظمۃ التحریر الفلسطینیۃ” ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن): سوڈان کا اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہونا فلسطینی قضیہ کے ساتھ ایک دھوکا ہے، لیکن اس اقدام سے نہ فلسطینوں کا ایمان متزلزل ہو گا اور نہ ہی فلسطین کو ایک ایسا آزاد ملک بنانے کی جد وجہد میں کوئی کمی آئے گی جس کا دار الحکومت بیت المقدس ہوگا۔
حماس کے سیاسی ترجمان حازم قاسم: سوڈان نے بہت بڑی سیاسی غلطی کی ہے اس سے نہ صرف یہ کہ فلسطینی قضیہ اور یہاں کے عوام کو نقصان ہوگا بلکہ سوڈان وعرب مفادات کو بھی نقصان ہوگا۔
محمود عبد الجبار، صدر (الکتلۃ المشروع القومی الجامع، سودان): جو لوگ ابھی حکومت کر رہے ہیں وہ اصل معنی میں سوڈانی ہیں ہی نہیں کیوں انہیں سوڈانی عوام کی عزت وحرمت کا کوئی خیال نہیں ہے اور اس معاہدہ سے سوڈان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
مصطفی البرغوثی سکریٹری جنرل (للمبادرۃ الوطنیۃ الفلسطینیۃ) نے الجزیرہ عربی کے پروگرام ’’حصاد‘‘ میں کہا کہ: سوڈان حکومت کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ معاہدہ سوڈانی عوام کے حق میں ہے اگر ایسا ہے تو وہاں کی حکومت سے میرا ایک سادہ سا سوال ہے کہ سوڈان کو اس بات پر کیوں مجبور کیا گيا کہ وہ امریکہ کو 33 کروڑ 50لاکھ ڈالر ادا کرے جب کہ وہ اس وقت سخت معاشی بحران سے گزر رہا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ یہ معاہدہ سوڈان کو اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک دھوکا ہے اور اس سے سوڈان کو کسی قسم کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اسرائیل و امریکہ یہاں کے قدرتی ذخائر اور خاص طور سے دریائے نیل سے فائدہ اٹھائیں گے۔
سوڈان کے وزیر عدل وانصاف نصرالدین عبد الباری: ہمارے ملک کا قانون اسرئیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ معاہدہ عوام کے مفاد میں ہے۔
الجزیرہ کی خاص پیشکش ’’صوت الناس‘‘ (لوگوں کی آواز) میں ایک شہری نے کہا کہ: جہاں تک میرا ماننا ہے سوڈان کے عوام اس معاہدہ کے خلاف ہیں کیوں کہ فلسطین کا قضیہ ایک انسانی اور اخلاقی مسئلہ ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اسرائیل کا قیام نسل پسندی کی بنیاد پر ہوا ہے اور یہ انسانی واخلاقی اقدار کے خلاف ہے اس لیے ہم اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں۔
سی این این عربی نے ایک سرخی اس طرح لگائی: ”مزید پانچ ممالک اسرائیل سے امن معاہدے کے خواہاں، سعودی عرب جلد ہی پیش قدمی کرے گا‘‘
اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: کم سے کم مزید پانچ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ سعودی عرب جلد ہی اس جانب پیش رفت کرے گا۔
سوڈان میں اس معاہدے کے خلاف احتجاج جاری ہے جسے نیوز ایجنسی الاناضول نے کوریج کرتے ہوئے لکھا کہ: احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں میں سوڈان اور فلسطین کے قومی پرچم کے علاوہ بینر اور تختیاں تھیں جس پہ یہ لکھا تھا کہ ’’مسجد اقصٰی ہمارے ایمان وعقیدہ کا مسئلہ ہے قدس اس کا دار الحکومت ہے اور ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ نیز مظاہرین میں سے علا محمد الدسوقی نامی ایک شخص نے الاناضول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ ہرگز قبول نہیں کہ ہمارا اقتصادی مسئلہ یہودیوں کے ذریعہ حل ہو اور ہم حتی المقدور اس کی مخالفت کریں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020