وانمباڑی کے اردو میڈیم اسکول سے امریکہ کی پنسلوانیہ یونیورسٹی تک کا سفر

عرفان اسانغنی غیرمعمولی تحقیقات کےلیے ’’ کانکر کینسر ناؤ ایوارڈ‘‘ سے سرفراز

ڈاکٹر جاوید اختر، گلبرگہ

 

آج کل ہر کوئی اپنے بچوں کومیعاری تعلیم دینے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ والدین چاہے معاشی طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہوں لیکن تعلیم پر ہر کوئی خرچ کرنا چاہتا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے یہ قوم سب سے پیچھے اور کمزور ہے۔ انکے پاس ایک جواز یہ بھی ہے کہ موجودہ دور کی تعلیم مہنگی ہے تو وہ اپنے بچوں کو اچھی اور مہنگی تعلیم کیسے دیں۔ لیکن یہ جواز اس وقت کمزور پڑنے لگتا ہے جب ہمارے غریب گھروں کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھ کر کوئی سول سروسز پاس کرتے ہیں ، کوئی ڈاکٹر بنتا ہے تو کوئی سائنسداں۔ ایک ایسی ہی مثال ہمارے سامنے ڈاکٹر عرفان احمد اسانغنی کی ہے۔ جنکی تعلیم تمل ناڈو کے ایک چھوٹے سے قصبہ وانمباڑی کے سرکاری اردو میڈیم سے شروع ہوئی اور وہیں کے اسلامیہ کالج سے بائیوکیمسٹری میں بی ایس سی اور پھر ایم ایس سی کے بعد بنگلور پہنچے جہاں انہوں نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس میں اپنی خدمات کو انجام دینا شروع کیا۔ لیکن تحقیقات کی للک عرفان کو جرمنی کی ’’ہائیڈل یونیورسٹی‘‘ لے آئی جہاں پی ایچ ڈی کے بعد عرفان اسانغنی امریکہ کی پنسلوانیہ یونیورسٹی پہنچے۔ فی الحال عرفان اسانغنی اسی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عرفان اسانغنی کو انکے غیرمعمولی سائنسی خدمات کے لیے ’’کانکر کینسر ناؤ ایوارڈ‘‘ سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔ عرفان اسانغنی کو یہ اعزاز ’’پروسٹیٹ کینسر‘‘ پر انکے ریسرچ کا اعتراف کرتے ہوئے امریکہ کے کنسرن فاؤنڈیشن کی جانب سے دیا گیا ہے۔ عرفان امریکہ میں اپنا ایک ریسرچ لیب بھی چلاتے ہیں جہاں انکی ٹیم نئے نئے ریسرچ پر کام کرتی ہے۔ انکے لیب میں کئی ریسرچ پروجیکٹس پر کام چل رہا ہے جسے امریکہ کے سرکاری اداروں سمیت دیگر کئی بین اداروں سے مالی امداد مل رہی ہے۔ عرفان اسانغنی نے ’’ میٹا اسٹیٹک پروسٹیٹ کینسر‘‘ کے علاج کےلیے نئے پروٹین کو تلاش کیا ہے اور علاج کو عوام تک پہنچانے کےلیے تحقیقات جاری ہیں۔ عرفان اسانغنی سے دعوت ہفتہ روزہ اخبار کےلیے جاوید اختر نے بات کی۔ بات چیت کے کچھ اہم اقتباس آپ کی خدمت میں پیش ہے :
سوال۔ ’’کانکر کینسر ناؤ ایوارڈ‘‘ کیا ہے اور آپ کو یہ اعزاز کس سائنسی خدمات کےلیے ملا؟
جواب۔ امریکی ’’کنسرن فاؤنڈیشن‘‘ ہردو سال پر نوجوان سائنسدانوں کواعلیٰ ریسرچ کےلیے اسکالرشپ فراہم کرتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کی طرف سے ہونہار اور غیرمعمولی سائنسی خدمات انجام دینے والے قریب تین سے چار سو سائنسدانوں سے ’’ریسرچ پرپوژل‘‘ طلب کی جاتی ہیں۔ اس ریسرچ پرپوژل میں سائنسدانوں کو اپنے ماضی کے ریسرچ اور مستقبل کے مجوزہ تحقیقات سے متعلق جانکاری فراہم کرنی ہوتی ہے۔ جس کے بعد سائنسدانوں کا ایک پینل ان میں سے دس سے بارہ سائنسدانوں کو منتخب کرتا ہے اور انہیں اس فاؤنڈیشن کے تحت ریسرچ پر کام کرنے کےلیے فنڈ مہیا کرائی جاتی ہے۔ مجھے پروسٹیٹ کینسر کے علاج میں ایک اہم ریسرچ کےلیے یہ اسکالرشپ دی گئی ہے جس پر مزید کام جاری ہے اور آنے والے وقت میں یہ ریسرچ پروسٹیٹ کینسر کے علاج کےلیے نئی راہیں تلاش کرے گا۔ فی الحال یہ ریسرچ ابتدائی مرحلہ میں ہے اور آنے والے وقت میں اسی بنیاد پر ہم نئے ریسرچ دنیا سامنے پیش کریں گے۔
سوال: اس ریسرچ میں اور کتنے لوگ آپ کے ساتھ ہیں؟
جواب: ہمارے پاس پانچ پوسٹ ڈاکٹریٹ اور کچھ ریسرچ اسکالر ہیں جو میرے خود کے لیب میں میرے ساتھ تحقیقات پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم دیگر یونیورسٹیوں کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کئی پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ یہ کام اکیلے کا نہیں ہے خاص کر جب بائیولوجی میں تحقیق کی جاتی ہے تو اس پر کام کرنے کےلیے سائنسدانوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے اور اسی اجتماعی کوششوں کے تحت نئی ریسرچ سامنے آتے ہیں۔
سوال: آپ اپنی تحقیق کا انسانی جسموں پر کب تک تجربہ کرنے والے ہیں؟
جواب۔ اس سلسلے میں ہم دوسرے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ عام لوگوں تک ابھی دوا پہنچنے میں کافی وقت لگے گا کیونکہ لیب میں ریسرچ کے بعد اسے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہیں۔ اس پر کام شروع ہوچکا ہے اور ہم بہت جلد اسے انسانی تجربے کےلیے استعمال کرنے والے ہیں۔
سوال۔ بھارت میں پروسٹیٹ کینسر کے تعلق سے اب تک کیا ریسرچ سامنے آیا ہے؟
جواب۔ بھارت میں اس مرض پر تحقیقات کے تعلق سے مجھے خاص جانکاری نہیں ہے، اس پر کچھ سائنسداں کام کررہے ہیں ان میں سے ایک واحد مسلم خاتون ہیں بھی ہیں جو آئی آئی ٹی کانپور میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر اس مرض پر اپنا تحقیق کررہی ہے۔ ان کا نام بشرا عتیق ہے اور انھیں بھارت کے ایک باوقار اعزاز ’’شانتی سوروپ بھٹناگر ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا جاچکا ہے۔ بھارت میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد رہتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس مرض پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال۔ اردو میڈیم سے آپ نے پڑھائی کی اور آج امریکہ کی ایک معروف پنسلوانیہ یونیورسٹی میں آپ اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر امریکہ کی یونیورسٹی میں آنا یہ پورا سفر آپ کا کیسا رہا؟
جواب۔ میری ابتدائی تعلیم ایک مقامی سرکاری اردو میڈیم اسکول سے شروع ہوئی ۔ میں نے وہاں سے امریکہ کے سفر کے دوران کامیابی کی سیڑھیوں پر اپنی محنت، لگن اور مستقل مزاجی کے ساتھ چڑھتا رہا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ فنڈنگ کی کمی کی وجہ سےاردو میڈیم اسکولوں میں سہولیات اور اچھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی ہوتی ہے۔ لیکن ان سب خامیوں کے باوجود اگر طلبا میں محنت اور لگن کا جذبہ ہو تو ’’میڈیم‘‘ ترقی اور کامیابی کے آڑے نہیں آتا ہے۔ میں غیر معمولی طالب کبھی بھی نہیں رہا ہوں ۔ میں ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا ۔ لیکن اپنے سبجیکٹ کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور جس سبجیکٹ میں مجھے دلچسپی تھی اور میں خوب توجہ دیتا تھا۔ آج کے دور میں طالب علم زیادہ نمبرات لانے کی فکر کرتے ہیں یہاں تک کہ والدین کو بھی اسی بات کی فکر ہوتی ہے کہ میرا بچہ کتنے مارکس لا رہا ہے۔ ہمیں اپبے نصاب کو سمجھ کر پڑھنے اور اس میں دلچسپی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری بنیاد اچھا رہی تو مارکس بھی اچھے آئیں گے اور مستقبل میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ غیر معمولی کارکردگی کو انجام دینے کےلیے آپ کو ’’غیرمعمولی‘‘ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اوسط درجے کا طالب علم مستقل مزاجی، سخت محنت اور سمجھنے کے جذبے کے ساتھ علم حاصل کرے تو غیر معممولی نتائج ضرور دیکھنے کو ملیں گے۔
سوال: اسکولی تعلیم کے زمانے میں پڑھائی کو کے معاملے میں آپ کا ٹائم ٹیبل کیسا تھا؟
جواب۔ اگر ایمانداری سے کہوں تو میں کبھی بھی پڑھاکو یا کتابی کیڑا نہیں رہا۔ اسکول کے دور میں میں کھیلتا بھی تھا بلکہ کرکٹ کھیلنا مجھے بے حد پسند تھا۔ چونکہ اس وقت ’’اِنٹرٹینمنٹ‘‘ کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور نہ ہی ٹی وی اور انٹرنیٹ کا دور تھا ۔ ہمارے پاس انٹرٹینمنٹ کےلیے دوستوں کا ساتھ ہوتا تھا۔ لیکن جب میں کلاس میں ہوتا تو میری پوری توجہ ٹیچر اور پڑھائی پر ہوتی تھی۔ میں اپنے پسندیدہ سبجیکٹ کو بڑی دلچسپی کے تھا پڑھتا تھا۔ میرے گھر کا ماحول تعلیم کے اعتبار سے کافی بہتر تھا۔ میرے والد اور والدہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور انہیں کی وجہ سے میرے اندر بھی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے منٹو اور ابن صفی کو بھی بہت شوق سے پڑھا ہے۔
سوال: امریکہ اور بھارت کے تعلیمی معیار میں کیا فرق ہے؟
جواب: بھارت میں ریسرچ پر فنڈنگ بہت ہی کم ہے لیکن امریکہ و دوسرے ممالک میں تحقیقات کےلیے فنڈنگ کی کوئی کمی نہیں۔ ہاں، ایک بات ضرور ہے ۔ بھارت میں قابلیت، ذہانت اور لیاقت میں کوئی کمی نہیں ہے۔ امریکہ، جرمنی اور فرانس کے کئی ایسے ریسرچ لیب ہیں جہاں بھارتی اور چینی تحقیق کاروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت میں قابلیت کی کمی نہیں بلکہ سہولیات اور فنڈنگ کی کمی ہے۔
سوال: بھارت کے اردو میڈیم طلبا کےلیے آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
جواب: آگے بڑھنے کےلیے میڈیم کبھی بھی روکاوٹ نہیں بنتا ہے۔ اگر آپ اپنی پڑھائی پر توجہ دیں اور محنت کریں تو کامیابی ضرور ملے گی۔ فرانس، جرمنی اور چین جیسے ممالک میں ابتدائی تعلیم انکی مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ اس لیے مادری زبان میں ابتدائی تعلیم طلبا کےلیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علم میں سخت محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ ہو۔

جب میں کلاس میں ہوتا تو میری پوری توجہ ٹیچر اور پڑھائی پر ہوتی تھی۔ میں اپنے پسندیدہ سبجیکٹ کو بڑی دلچسپی کے تھا پڑھتا تھا۔ میرے گھر کا ماحول تعلیم کے اعتبار سے کافی بہتر تھا۔ میرے والد اور والدہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور انھیں کی وجہ سے میرے اندر بھی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے سعادت حسن منٹو اور ابن صفی کو بھی بہت شوق سے پڑھا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020