ٹیپو کے ساتھ تاریخ کی نااِنصافی

جنگ آزادی ہند کے اوّلین سورما کی شخصیت حقیقت پسندی کے آئینے میں

پروفیسر مظفر اسدی

حال ہی میں ایک فلم پروڈیوسر نے تامل سپر اسٹار رجنی کانت کو فتح علی ٹیپو المعروف ٹیپو سلطان کی حیات اور کارناموں پر مبنی ایک فلم بنام ’’ٹائیگر آف میسور‘‘ میں اداکاری کی پیشکش کی ہے۔ اس خبر کا عام ہونا تھا کہ ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔ بی جے پی اور کچھ ہندتوا نواز گروپوں نے رجنی کانت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فلم کو ٹھکر ادیں، حتیٰ کہ انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ بھگوا عناصر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ’’18ویں صدی میں ریاستِ میسور پر حکومت کرنے والے ٹیپو سلطان ایک ’ظالم حکمراں‘ تھے جنہوں نے ہزاروں ہندووں کو اسلام قبول نہ کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا تھا۔‘‘ ٹیپو سلطان کے نام پر تنازع پیدا کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب فلم اداکار سنجے خان نے بھگوان ایس گڈوانی کی کتاب ’سورڈ آف ٹیپو سلطان‘ کی مدد سے ٹی وی سیریل بنایا تھا تو اس وقت بھی بڑا ہنگامہ کھڑا کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کانگریس حکومت نے 2014ء میں جب ٹیپو کا یومِ پیدائش منانے کا اعلان کیا تو اس وقت بھی تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ ٹیپو سلطان کی یاد میں ایک یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پر بھی آسمان سر پر اُٹھا لیا گیا تھا۔
ٹیپو کی شخصیت کو 2 اہم وجوہات کے سبب جدال پسند کہا جاتا ہے۔ اول مختلف طبقات اور افراد کی بغاوت کو کچلنے کے لیے اُٹھائے گئے ان کے اقدامات، دوم وہ تاریخ جو مختلف تناظر کے تحت لکھی گئی اور جس نے حقائق سے برعکس ٹیپو کی ایک الگ شبیہ بنانے میں معاونت کی۔
انگریز مورخین نے ٹیپو کو ’متعصب اور مذہب پرست‘ کے طور پر پیش کیا۔ بقول ان مورخین کے ٹیپو نے کیرالا کے ہزاروں نائر باشندوں کو جبراً اسلام میں داخل کیا اور جنہوں نے اس کی مخالفت کی انہیں قتل کر دیا۔ اتنا ہی نہیں ان مورخین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ٹیپو نے دکشن کنڑا کے کیتھولک اور کوڈاگو کے کورگیز کے ساتھ بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا۔ حتیٰ کہ کنڑ وطن پرستوں نے بھی ٹیپو کو کنڑیگا مخالف قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ٹیپو نے متعدد مقامات کے نام تبدیل کیے اور حکومتی امور میں فارسی الفاظ کے استعمال کو رائج کیا۔ دوسری جانب مارکسی نظریات کے حامل تاریخ دانوں نے ٹیپو سلطان کو ’’ہندوستان کی جنگِ آزادی کا اولین کمانڈر‘‘ قرار دیا اور انگریزوں کے خلاف برسر پیکار ہونے کے لیے ’نئی طاقتوں کا نقیب‘ بتایا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ٹیپو کی شخصیت کو کسی ایک نظریے کے تحت محدود نہیں کیا جا سکتا۔انہیں عدم رواداری کی روایات پر چلنے والا یا پھر تعصب پسند بھی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ انہوں نے کثیر مذہبی روایات کی نمائندگی کی۔ٹیپو اپنے دورِ حکومت میں بین مذہبی روایات، سیکولرازم، حریت پسندی، استعماریت مخالف سوچ اور بین الاقوامیت کو جوڑ کر رکھا۔ وہ اس معاملے میں اس لیے بھی کامیاب ہوئے کیوں کہ ان کا تعلق صوفیا سے رہا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ٹیپو کے اس پہلو سے مورخین نے چشم پوشی اختیار کرلی۔ ٹیپو چشتیہ اور بندہ نوازی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔
درحقیقت ٹیپو کا اپنا طرزِ عمل تھا، انہوں نے کسی مذہب کے پیروکاروں کو بے جا نقصان نہیں پہنچایا، وہ اولین حکم راں تھے جنہوں نے اپنی سلطنت میں شراب نوشی پر پابندی لگائی تھی۔ یہ پابندی انہوں نے مذہب کے نام پر نہیں بلکہ صحت اور معاشرے کی بھلائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لگائی تھی۔ ٹیپو نے خود اعتراف بھی کیا ہے۔ ’’شراب نوشی پر مکمل پابندی میری دلی خواہش تھی‘‘ شیرِ میسور نے ہندوستان میں سب سے پہلے جنگ میں میزائل اور راکٹ ٹکنالوجی کا استعمال کیا تھا۔ وہ ہندوستان کے پہلے حکم راں ہیں جنہوں نے اپنی رعایا کی معاشی ترقی کے لیے ریاستِ میسور میں پیلہ پروری (خام ریشم حاصل کرنے کے لیے ریشم کے کیڑوں کی پرورش اوردیکھ بھال) کو فروغ دیا۔ ٹیپو نے اعلیٰ ذات کے قبضے کی جائیدادوں کو (بشمول مٹھوں) ضبط کر کے اسے شودر (نچلی ذات کے ہندووں) میں تقسیم کیا۔ ٹیپو کا شمار ان حکم رانوں میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے ایسے وقت میں سرمایہ کاری کے نظام کے بیج بوئے جب مکمل جاگیردارانہ نظام نے پورے ملک کو جکڑ رکھا تھا۔ ٹیپو نے دریائے کاویری کی دوسری جانب ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جو فی الوقت کرشنا راجا ساگر کہلاتا ہے۔ٹیپو ہی نے لال باغ جیسا جداگانہ نباتاتی باغ بنوایا۔
فتح علی ٹیپو کی مذہبی رواداری اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں ہر سال 156 مندروں کو حکومتی امداد دی جاتی تھی۔ اس میں زمین اور جواہرات کے عطیات بھی شامل ہیں۔ ان کی فوج میں شودروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ شنکر آچاریہ کے بنائے ہوئے مشہور زمانہ سرینگری مٹھ کو جب مراٹھا فوج لے لوٹ مار کا نشانہ بنا کر تہس نہس کیا تو ٹیپو نے مٹھ کی بازآباد کاری کا فرمان جاری کیا اور مالی تعاون بھی فراہم کیا تاکہ یہاں حسبِ معمول پوجا پاٹھ جاری ہو سکے۔ ٹیپوسلطان نے کانچی میں واقع نانجن گوڈ کے مشہور سری کنٹیشور مندر کے تعمیر ی کام کے لیے 10 ہزار سونے کے سکے دیے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے میلکوٹ مندر کے پجاریوں کے مابین پیدا ہونے والے تنازع کو نپٹانے اور پجاریوں میں صلح صفائی کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹیپو نے کلالے کے لکشمی کانتا مندر کو بھی کئی تحفے دیے۔
یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ مندروں کا شہر کہلانے والا شہر سری رنگا پٹنم ٹیپو کی سلطنت کا مستقل دارالحکومت رہا۔ ٹیپو نے ہی میسور کے اولین چرچ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔ یاد رہے کہ معروف مورخ بے اے سالیتورے نے شیرِ میسور ٹیپو سلطان کو ’ہندو مذہب کا محافظ‘ بھی لکھا ہے۔
جبراً تبدیلی مذہب کے الزام کو اگر سیاسی یورشوں اور ہنگاموں کے پس منظر میں دیکھیں تو کئی چیزیں از خود واضح ہوجاتی ہیں۔ چوں کہ ٹیپو استعماریت کے خلاف تھے لہٰذا مغربی (دکشن) کنڑا میں ان کی استعماریت مخالف کارروائیوں کو عیسائی مخالف کہا گیا۔ جب کہ یہی معاملہ کورگوں کی طویل مدتی گوریلا بغاوت کو دبانے کا بھی ہے جس میں ٹیپو کی کارروائیوں کو ہندو مخالف قرار دیا گیا۔ متذکرہ دونوں ہی معاملات کو دیکھیں تو مورخین نے تاریخ کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ چند تاریخ دانوں نے سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے اُن کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو ٹیپو کی ’فرقہ وارانہ سوچ‘ بتایا جو کہ قطعاً غلط ہے۔
یہی وہ حکم راں ہے جس نے صرف 16 سال حکومت کی مگر وہ اب بھی ہندتوا گروپوں کے ذہنوں پر سوار ہے اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ٹیپو اب بھی سیاسی مباحث میں زندہ ہیں۔ وہ سیاسی افسانوں کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر کے تخیل میں بھی زندہ ہیں۔ یہیں تاریخ کی ستم ظریفی اوندھے منہ گر پڑتی ہے۔ دراصل ٹیپو کو اتنی آسانی سے ملک کی تاریخ سے حذف نہیں کیا جا سکتا۔
(پروفیسر مظفر اسدی میسور یونیورسٹی میں صدر شعبۂ سیاسیات ہیں۔ انگریزی کے بڑے اخبارات کے مستقل کالم نویس ہیں۔ )
***

ٹیپو کی شخصیت کو کسی ایک نظریے کے تحت محدود نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں عدم رواداری کی روایات پر چلنے والا یا پھر تعصب پسند بھی نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ انہوں نے کثیر مذہبی روایات کی نمائندگی کی۔ ٹیپو نے اپنے دورِ حکومت میں بین مذہبی روایات، سیکولرازم، حریت پسندی، استعماریت مخالف سوچ اور بین الاقوامیت کو جوڑ کر رکھا تھا۔