ٹکنالوجی رحمت یا زحمت؟

انٹر نیٹ کے غیر معتدل استعمال کے سنگین نفسیاتی اثرات

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

بچوں کو موبائیل فون کی عادت سے بچانے کی ضرورت
جدید ٹکنالوجی نے انسان کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ اس کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے، کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور کیوں وہ زندگی گزارنے کے لیے اتنی محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہے؟ لیکن یہ باتیں سوچنے اور غور کرنے کے لیے اس کے پاس نہ وقت ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ ٹکنالوجی نے جہاں ترقی کی رفتار کو کئی گنا تیز کر دیا ہے وہیں اس نے سکون واطمینان کو انسانی زندگی سے چھین لیا ہے۔ بلا شبہ اسمارٹ فون اورانٹرنیٹ سے انسان کو بے پناہ فائدے پہنچ رہے ہیں لیکن اس نے انسانی زندگی پر، اس کی نفسیات پر بہت گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے منفی اثرات اس تیزی کے ساتھ انسانی سماج پر مسلط ہوتے جا رہے ہیں کہ ماہرین کو اس کا تریاق دریافت کرنا ناممکن نظر آنے لگا ہے۔
آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہم اسمارٹ فون کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتے، حتی کہ وہ بچے جن کی عمریں بمشکل دو تین سال کی ہوں گی وہ بھی اسمارٹ فون کے عادی بن چکے ہیں، عادت بھی اس درجہ کی جیسے کوئی نشہ کا عادی ہوتا ہے۔ یہ بچے بغیر اسمارٹ فون کے کھانا تک نہیں کھاتے، والدین کے لیے ان کو کھانا کھلانا جوئے شیر لانے کے مماثل ہو گیا ہے۔ پہلے والدین اس بات پر فخر جتاتے ہیں کہ ہمارا بچہ محض دو سال کا ہی ہے لیکن بڑی عمدگی کہ ساتھ اسمارٹ فون چلاتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ تو اس کا عادی بن چکا ہے، پھر یہاں سے ان کے لیے ایک نئی مصیبت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح ٹکنالوجی نے انسان کو غیر محسوس طریقے سے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، اسے ایک ایسے دلدل میں پھنسا دیا ہے جس سے وہ لاکھ کوششوں کے باوجود نکلنے کی کوئی سبیل نہیں پا رہا ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ٹکنالوجی انسانی زندگی کا جزو لاینفک بن چکی ہے، اسی کی ایک چھوٹی سی جھلک یہ اسمارٹ فون ہے۔ آج یہ اسمارٹ فون ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بنا ہوا ہے، مواصلات، مراسلات، مالی لین دین، تعلیم، صحت، حمل ونقل، الغرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اس کے بغیر کام کرتا ہو۔ اس ٹکنالوجی نے ہمارے وقت کو بچایا ہے، ایک دور تھا جب انسان پیدل سفر کرتا تھا یا گھوڑے اور خچر کا استعمال کرتا تھا اور مسافت طے کرنے میں کئی دن لگ جاتے تھے لیکن جب انسان نے موٹر سائیکل ایجاد کی تو اس نے دنوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کرلی جس سے اس کا وقت بھی بچ گیا اور محنت بھی۔ اسی طرح کبھی انسان کو کسی خاص موضوع پر تقریر کرنی ہوتی تو اسے مختلف کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا اور وہ کتب ہمارے پاس موجود ہو تو ٹھیک ورنہ کسی لائبریری وغیرہ میں تلاش کرنا پڑتا تھا جس میں کافی وقت لگ جاتا تھا لیکن آج وہ انٹرنیٹ کے ذریعے انہی کتابوں کا مطالعہ اپنے ذاتی کمپیوٹر کے ذریعے بآسانی کرسکتا ہے اور متعلقہ موضوعات کو لمحوں میں دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے آسٹیو جابز نے کہا تھا کہ "پرسنل کمپیوٹر از اے بیسیکل آف دی مائنڈ” کیوں کہ اس کے ذریعہ سے ہمیں اپنے دماغ کو فعال بنانے میں مدد ملتی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹکنالوجی نے انسان کو ناکارہ بنا دیا ہے، اسے محنت ومشقت سے دور کر دیا ہے، آپسی تعلقات کو ختم کر دیا ہے وغیرہ۔ لیکن جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں وہ خود بھی اس کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتے بلکہ اگر انٹرنیٹ کچھ دیر کے لیے بند ہو جائے تو بے چین وبے قرار ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ ٹکنالوجی نے ہماری توجہ کو منتشر کیا ہے، ہم یکسوئی کے ساتھ کام نہیں کر پا رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹکنالوجی ایک شجر ممنوعہ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جس قدر معلومات میں اضافہ ہوگا اسی قدر توجہ ویکسوئی کا فقدان ہو گا۔ اس دور کا بحران یہی ہے کہ آج انسان کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہا ہے کیوں کہ اس دور کو اطلاعات کا دور کہا جاتا ہے جہاں ہر لحظہ، ہر لمحہ ایک نئی اطلاع آتی ہے۔ آخر وہ توجہ مرکوز کرے تو کس پر کرے؟ ہمارے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ ہم کسی ایک چیز پر توجہ مرکوز کریں۔ یہاں ہر نئی اطلاع دوسرے ہی لمحہ پرانی اور فرسودہ ہو جاتی ہیں اسی وجہ سے عدم توجہی ایک وبائے عام کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
گھروں کی حالت دیکھیں تو شوہر وبیوی کے درمیان اختلافات کی وجہ یہی ٹکنالوجی نظر آتی ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان دوری کی وجہ یہی ٹکنالوجی ہے، دوستوں کے درمیان الفت ومحبت کا فقدان بھی یہی ٹکنالوجی ہے، رشتے داری میں دوریوں کا سبب یہی ٹکنالوجی ہے، اگر آپ اپنے گھر کا جائزہ لیں تو محسوس کریں گے کہ گھر میں سب ایک جگہ موجود ہوں گے لیکن اپنے اپنے اسمارٹ فونوں میں مصروف ہوں گے۔ یہ کیفیت کسی ایک گھر نہیں ہے بلکہ یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹکنالوجی نے انسانی معاشرے کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹکنالوجی کے اس طوفان میں عدم توجہی یا عدم یکسوئی کے مسئلہ سے کیسا نمٹا جائے؟ کیسے اس ٹکنالوجی کےدور میں سکون حاصل کیا جائے؟
لوگوں نے اس کے کئی مادی حل تلاش کیے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کے لیے الگ الگ آلہ رکھا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ کی نوکری یا کام کے لیے الگ ڈیوائس ہو، طبیعت کو فرحت وشاداں کرنے کے لیے الگ ڈیوائس ہو، معلومات حاصل کرنے یا اطلاع دینے کے لیے الگ ڈیوائس ہو وغیرہ۔ اس سے ہو گا یہ کہ آپ ایک وقت میں ایک ہی کام پر اپنی توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، اگر آپ کا کام کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر ہے تو اس میں کسی بھی قسم کے دوسرے ایپ جیسے فیس بک یا واٹس ایپ وغیرہ نہ رکھیں۔ اگر آپ انٹرٹینمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو صرف ٹی وی یا الگ ڈیوائس پر ہی کریں اس میں دوسری کوئی چیز شامل نہ ہو۔ اسی طرح خبریں یا کسی سے مراسلت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے الگ سے ڈیوائس رکھیں جس میں دوسری کوئی چیز نہ رکھیں۔ یہ ایک حل ہو سکتا ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہر فرد اپنے اوقات کی تنظیم کرے اور مقصد بھی طے کرے کہ وہ کس مقصد کے لیے یہ کر رہا ہے ۔ بغیر مقصد کے کوئی بھی کام بے معنی اور لاحاصل ہے۔ مقصد کا تعین صحیح ہو گا تو کام بھی صحیح سمت میں ہو گا، اگر مقصد صحیح نہ ہو تو اس کے نتائج بھی برے ہوں گے۔ یہ تو رہا مادی طریقہ۔ ایک طریقہ خدا نے بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر انسان سکون قلب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے خالق معبود کو پہچاننا چاہیے، اس کے آگے سجدہ ریز ہونا چاہیے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس سے ڈرنا چاہیے کیوں کہ اسی نے یہ نعمتیں انسان کو دی ہیں اور وہی قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں اس سے سوال کرے گا۔ اس سے ہٹ کر جو بھی طریقے انسان نے نکالے ہیں وہ سب کھوکھلے ہیں، جعلی ہیں، مکڑی کے جالے ہیں۔
***

 

***

 آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہم اسمارٹ فون کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتے، حتی کہ وہ بچے جن کی عمریں بمشکل دو تین سال کی ہوں گی وہ بھی اسمارٹ فون کے عادی بن چکے ہیں، عادت بھی اس درجہ کی جیسے کوئی نشہ کا عادی ہوتا ہے۔ یہ بچے بغیر اسمارٹ فون کے کھانا تک نہیں کھاتے، والدین کے لیے ان کو کھانا کھلانا جوئے شیر لانے کے مماثل ہو گیا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022