ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
80کی دہائی میں ہندوستان کے اندر ہوش سنبھالنے والے بہت سارے لوگوں نے فلم شعلے تو نہیں دیکھی ہوگی لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے ’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘ والا مکالمہ نہ سنا ہو۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اول تو یہ ہے کہ اس زمانے میں نغموں کی مانند اس کےمکالمہ گلی ، محلوں بلکہ پان کی دوکانوں تک میں ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے سنائے جاتے تھے اور یہ ڈائیلاگ لوگ روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرنے لگے تھے گویا ان کو محاورے کی سند مل گئی تھی۔ نصف صدی کے بعد یہ نوزائیدہ محاورہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالت پر صادق آرہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے صدر ٹرمپ نے منتخب ہونےکےایک سال پہلے سے اپنی شبیہ ایک نہایت جری اور خوفناک گبرّ سنگھ جیسےسیاستداں کی بنارکھی ہے یعنی جو آئے دن دوسروں کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ مشیت کی کاریگری بھی ایسی ہے کہ اچھے اچھوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جسامت کچھ اس طرح کی ہے کہ عام حالت میں بھی وہ پھولے پھلے نظر آتے ہیں لیکن فی الحال ان کے بیانات سے داخلی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نےشاید محسوس کرلیا ہے کہ انتخابات کی سوئی اس بار ان کی ہوا نکال دے گی اورجب نتائج کا اعلان ہوگا تو وہ پچک جائیں گے ۔
نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کرکے صدر ٹرمپ نے شکست کے خدشات کا بلاواسطہ اعتراف کرلیا ہے۔ ان کے مطابق ڈاک کے ذریعے زیادہ ووٹنگ کی وجہ سے فراڈ اور غلط نتائج آ سکتے ہیں۔ وہ انتخابات کواس وقت تک ملتوی کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جب تک لوگ ’مناسب اور محفوظ‘ طریقے سے ووٹ نہ ڈال سکیں ۔اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا تھا: ’یونیورسل میل اِن ووٹنگ 2020 نومبر کے الیکشن کو تاریخ کا سب سے زیادہ غلط اور فریب خوردہ الیکشن بنا دے گی اور یہ امریکہ کے لیے باعثِ ندامت ہوگا۔‘امریکہ کی تقریباً نصف ریاستیں چونکہ رائے دہندگان کو ڈاک کے ذریعے درخواست پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتی ہیں اس لیےیہ ایک احمقانہ دلیل ہے۔ میل اِن ووٹنگ کا تجربہ امریکہ میں پہلی بار نہیں ہوگا بلکہ 2016کے انتخاب میں تقریباً ایک چوتھائی امریکی میل کے ذریعہ ووٹ کا استعمال کر چکے ہیں۔ اگر یہ اتنا ہی غلط تھا تو ٹرمپ اقتدار سنبھالنے سے انکار کردیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ٹرمپ اس بات کو بھی بھول گئے کہ وہ اور ان کے نائب مائیک پینس، ان کی اہلیہ میلانیہ ، بیٹی ایوانکا ، داماد جیریڈ کوشنر اور اٹارنی جنرل بھی میل اِن ووٹ کا استعمال کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کل تک جو درست تھا وہ اچانک آج غلط کیسے ہوگیا؟
صدر ٹرمپ کے اس بیان کو پڑھ کر ہنسی کے ساتھ رونا بھی آتا ہے کہ’ڈیموکریٹس ووٹنگ میں غیر ملکی اثر و رسوخ کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ’میل۔ان‘ ووٹنگ غیر ممالک کے لیے ریس میں داخلے کا آسان طریقہ ہے۔‘ یہ الزام اگر حزب اختلاف کی جانب سے لگایا جاتا کہ حکومت اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرتے ہوئے ووٹ کی گنتی میں خرد برد کرسکتی ہے تو وہ کسی حد تک قرین قیاس بھی ہوتا لیکن خود اقتدار پرفائز ٹرمپ کا یہ خدشہ ناقابلِ یقین ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرکے متوقع دھاندلی پر لگام کیوں نہیں لگا سکتے؟ اس معاملے کا نہایت مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ بیرونی مداخلت کا الزام ایک ایساصدر لگا رہا ہے جس کے انتخاب میں یوکرین کے حوالے سے روس کی مداخلت تقریباً ثابت شدہ ہے ۔
کورونا کے معاملے میں امریکہ عرصۂ دراز سے پہلے نمبر پر فائز ہے اور ہندوستان کے علاوہ کسی میں جرأت نہیں ہے کہ اس کو دوسرے نمبر پر دھکیل سکے لیکن ہنوز برازیل درمیان میں حائل ہے اور کھائی بہت گہری ہے۔ فی الحال امریکہ کے اندر کورونا وائرس سے لگ بھگ ایک ہزار اموات یومیہ ہو رہی ہیں۔ اس کے سبب ٹرمپ، اپنی ریلیاں اور ریاست فلوریڈا کا ریپبلکن کنونشن کو منسوخ کرچکے ہیں۔کورونا وبا سے اب تک 42 لاکھ سے زیادہ امریکی شہری متاثر ہوئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نے جان گنوائی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر امریکی ریاستیں چاہتی ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی صحت کے متعلق تشویش کے سبب ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کوآسان بنایا جائے۔ اس ماہ کے آغاز میں ۶ امریکی ریاستوں نے آئندہ انتخابات ڈاک کے ذریعے کرانے کی تیاری شروع کردی ہے تاکہ اپنے تمام ووٹرز کو ڈاک کے ذریعے بیلٹ پیپر بھیجیں ۔ یہ بیلٹ پیپر ڈاک کے ذریعے واپس آئے گا یا پھر الیکشن کے دن مجوزہ مقامات پر جمع کر دیا جائے گا۔ محدودمقامات میں بذاتِ خود ووٹنگ کی سہولت بھی موجود رہےگی ۔
امریکہ کے اندر جانی نقصان کے ساتھ مالی خسارے نے معیشت کو بری طرح متاثر کیاہے۔ اپریل اور جون کے مہینوں کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں میں 32.9 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی۔ یہ 1947 کے بعد سے سب سے بدترین صورتحال ہے۔ 2019 میں اسی مدت کے دوران اقتصادی گراوٹ کی شرح 9.5 فیصد تھی۔یہی وجہ ہے کہ رائے شماری کے جائزوں میں صدر ٹرمپ اپنے حریف ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن سے ۵ تا ۱۰ پوائنٹ پیچھے چل رہے ہیں ۔ ری پبلیکن کا گڑھ سمجھے جانے والے ٹیکسس، اریزونا اور جارجیا جیسی ریاستوں میں بھی دونوں کے بیچ کانٹے کا مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔ٹرمپ کا انحصار اب خاموش اکثریت پر ہے۔ ان کے خیال میں ۳ نومبر کو وہ بولے گی اور انہیں کامیاب کرے گی۔ ٹرمپ نے ان جائزوں کوسخت گیر دائیں بازو کی جعلی خبریں قرار دے کر مسترد کردیا ہےلیکن انتخابات کے التواء کا ٹویٹ ان کے عدم اعتماد کی چغلی کھاتا ہے۔نیو میکسیکو کے ڈیموکریٹک سینیٹر ٹام اڈل نے اس تجویز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وہ بولے کہ ٹرمپ کسی بھی طرح الیکشن میں تاخیر نہیں کراسکتے۔در حقیقت یہ تجویز جمہوری عمل پر ایک بہت سنگین اور سفاک حملہ ہے ۔ ٹام نے کانگریس کے سبھی اراکین، اور انتظامیہ کو اس کے متعلق کھل کے اظہار خیال کی دعوت دی ۔ یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اس موضوع پر اپنا پہلا ٹویٹ ماہ جون میں کیا تھا مگر اپریل کی ایک تقریب کے دوران ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جوبائڈن صدر ٹرمپ پر الیکشن کو ملتوی کرانے کی کوشش کرنے کا خدشہ ظاہرکر چکے تھے۔ پچھلے مہینے انہوں نے صدر ٹرمپ پر ان میل ووٹنگ کی مخالفت کے ذریعہ بلا واسطہ الیکشن کو چرانے الزام جڑ دیا ۔ اس کے بعد گزشتہ ہفتہ ایک تقریب میں جوبائڈن نے کہا’’یاد رکھیں یہ صدر وہی کوشش کر رہے ہیں جس کا میں نے چارمہینے پہلے اظہار کیا تھا۔ وہ الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ تیار رہیں یہ ایک مشکل راستہ ہو گا۔ جلد ووٹ ڈالیں اور اپنے دوستوں کو بھی اس کا قائل کریں۔‘‘ووٹنگ کے لیے اس محفوظ متبادل طریقہ کار کا جب حالیہ پرائمریز کے دوران استعمال کیا گیا تو رائے دہندگی کی شرکت داری میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
ڈیموکریٹس کے بعد جب ٹرمپ ہی کی حکمراں جماعت ری پبلکن کے ارکان کانگریس نے مذکورہ تجویز کی مخالفت کی تو وہ اپنے بیان سے مکر گئے ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ وہ انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے لیکن ممکنہ مسائل کے تناظر میں انتہائی فکر مند ہیں۔ ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ’’میں سب سے زیادہ بے چینی سے الیکشن کا انتظار کر رہا ہوں۔ کاش ہم ان کو وقت سے پہلے کر سکتے‘‘ بات بدلنے کی یہ ترکیب کارگر ثابت نہیں ہوئی ۔ ان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ڈیموکریٹک رہنما ڈین کِلڈی نے ٹوئٹ کیا کہ صدر ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں اور اقتدار میں رہنے کے لیے انتخاب ملتوی کرنے کی تجویز دے رہے ہیں، تاہم وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نےہر امریکی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی لاقانونیت اور آئین کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی ۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ٹام اُڈل نے کہا کہ ٹرمپ کسی صورت انتخابات میں تاخیر نہیں کراسکتے وہ کورونا سے نمٹنےکی ناکامی سے وہ توجہ ہٹا رہے ہیں۔ صدارتی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے کا اختیار صدر کونہیں کانگریس (یعنی ایوانِ زیریں) کو ہے اور اس کی منظوری کے بغیر یہ ناممکن ہے۔
امریکہ میں انتخابی روایت یہ ہے کہ سرکاری طور پر ووٹنگ کی گنتی مکمل ہونے سے پہلے ہی جزوی نتائج کی بنیاد پر فاتح کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ عموماً امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی اور دیگر ادارے سخت مقابلوں میں فاتح کا اعلان کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ حتمی گنتی کے بعد اعلان بدلنے کی نوبت آسکتی ہے۔ اِن میل ووٹنگ کی وجہ سے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلط یا دھاندلی زدہ ہوں گے۔ صدر ٹرمپ اپنی شکست کے ڈر سے الیکشن کے نتائج کو مشکوک بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کا ایک احمقانہ مطالبہ یہ بھی ہے کہ الیکشن میں فاتح امیدوار کا اعلان ۳ نومبر کی رات کو ہی کیا جائے۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نےکہا ہے کہ ’’آپ کو الیکشن کے نتائج کے لیے کئی ہفتے یا مہینے انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ شاید آپ ان نتائج کو کبھی نہ جان سکیں۔ مجھے اس حوالے سے پریشانی ہے کہ یہ فکسڈ یا دھاندلی زدہ ہو سکتے ہیں۔’اس کے برعکس سابق صدر بارک اوباما نے امریکی ڈاک کے نظام پر بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام کا حق بتایا گویا اس میں رکاوٹ ڈالنا رائے دہندگان کی حق تلفی ہے‘۔
امریکہ میں ایک فرد کو دو مرتبہ انتخاب لڑنے کا موقع حاصل رہتا ہے لیکن اگر کسی صدر کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوجائے تو اسے دوسری بار امیدوار نہیں بنایا جاتا ۔ ٹرمپ پہلے صدر ہیں جو مجموعی طور پر پسندیدگی کی40فیصد سے کم کی مستقل ریٹنگ اور مواخذے کے باوجود الیکشن میں دوبار کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں ۔ٹرمپ کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ہی اپنے جوشیلے مینیجر بریڈ پارسکیل کو برخواست کردیا ۔ ان کے بہکے بہکے بیانات میں بھی خاصی تیزی آئی ہے مثلاً انہوں نے اپنےحریف جوبائیڈن پر الزام لگا دیا کہ ’وہ موجودہ امریکی زندگی ختم کردینے کے خواہشمند ہیں ، تاہم اس کا نتیجہ انتشارکی صورت میں نکلے گا اور امریکی شہر جرائم کا گڑھ بن جائیں گے‘۔ ٹرمپ نے عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ جوبائیڈن امریکیوں کو اس مقام پر لےجائیں گے جہاں انہیں بائیں بازو کے سخت گیر غنڈوں کے سامنے دب کر رہنا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ خود تاریخی نسل پرستی کو بڑھاوا دینے کے مجرم ہیں ۔ پولیس کی بے رحمی کے سبب ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کرنے والوں کو ظالم اور مجرم قرار دینے والے ٹرمپ کا نسل پرست بھیانک چہرہ دنیاکے سامنے آچکا ہے۔ متعدد شہروں میں فیڈرل ایجنٹوں کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے مقامی برادریوں میں اشتعال بڑھا ہے اور ٹرمپ کی مقبولیت میں زبردست کمی آئی ہے۔
دنیا بھر کے جمہوریت نواز ٹرمپ کے مقابلے جو بائیڈن سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں ۔ انہیں توقع ہے کہ وہ اس جمہوری نظریہ کا وقار بحال کریں گے جس کو ٹرمپ نے بری طرح پامال کردیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے بائیڈن اور ٹرمپ کی جنگ نے دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کا پول کھول دیا ہے ۔ ان دونوں امیدواروں میں بظاہر یہ فرق تو ہے کہ ایک نے پہلے دن سے ماسک پہننا شروع کردیا اور دوسرے نے اس میں تاخیر کی لیکن حقیقت میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ عمر کا موازنہ کریں تو ٹرمپ 74سال کےہیں جبکہ بائیڈن کی عمر77سال ہے ۔ان رہنماؤں سے یہ توقع کیسے ممکن ہے کہ وہ امریکہ جیسے بڑے ملک کی فلاح و بہبود کا حق ادا کرسکیں گے۔ کیا اس کبر سنی میں انہیں سبکدوش ہوکر نسبتاً نوجوان قیادت کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈورنہیں سونپ دینی چاہیے۔ملوکیت میں اگر یہ نہیں ممکن تو جمہوریت میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ٹرمپ کی مانند بائیڈن کے بھی اوٹ پٹانگ بیانات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ وہ کئی سال قبل اپنے آبا واجداد کو کوئلے کی کان میں کرنے والے مزدور بتا چکے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ سنہ 2009میں انہوں نے نائب صدر کی حیثیت سےکہہ دیا تھا کہ ’اس بات کا 30 فیصد امکان ہے کہ ہم معاشی مسائل کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پائیں گے۔‘ ایسا شخص اس نازک وقت میں ملک کی معیشت کو کس طرح بحال کرسکتا ہے۔ اوباما کے بارے میں یہ کہہ کر انہوں نے سیاہ فام عوام کو ناراض کردیا تھا کہ ’اوباما پہلے افریقی امریکی ہیں جو معاملات کو اچھی طرح بیان کرتے ہیں، ذہین ہیں، بے داغ پس منظر رکھتے ہیں اور دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں۔‘ یعنی ان سے پہلے اس طرح کی صفات کا مالک کوئی سیاہ فام پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ تو خیر پرانی باتیں ہیں مگر ابھی حال میں بائڈن نے ریڈیو کے ایک سیاہ فام میزبان شارلیمین تھا گاڈ کے پروگرام میں کہہ دیا کہ ’اگر آپ کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ آپ کو ٹرمپ یا مجھ میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے تو پھر آپ سیاہ فام نہیں ہو سکتے۔‘اس کے بعد میڈیا میں تنازع پیدا ہوگیا۔پھر ان کی ٹیم کو یہ توجیہ کرنی پڑی کہ بائڈن افریقی امریکیوں کے ووٹ کی بابت بے پروا نہیں ہیں ۔جوبائیڈن کو جو لوگ صدر ٹرمپ کے مقابلے بہت ذہین اورسنجیدہ سمجھتے ہیں انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کا یہ بیان ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ ’بائیڈن کو پسند نہ کرنا ناممکن ہے لیکن گذشتہ 40 برسوں کے دوران خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تقریباً ہر معاملے پر ان کا موقف غلط رہا ہے۔‘ جس شخص کے بارے میں اس کی اپنی پارٹی کے لوگ یہ رائے رکھتے ہوں اس کے بارے میں خوش فہمیوں کا شکار ہونا فضول ہے۔
سیاست سے ہٹ کر اخلاقی سطح پر موازنہ کیا جائے تب بھی ان دونوں امیدواروں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح ٹرمپ پر درجن بھر سے زیادہ خواتین بدسلوکی کا الزام لگا چکی ہیں اسی طرح گزشتہ برس آٹھ خواتین نے بائیڈن پر انہیں غیر مناسب طریقے سے چھونے، گلے لگانے یا بوسہ لینے کا الزام لگایا ہے۔امریکی ٹی وی چینلس پر ان کے کئی ایسے کلپ چلائے جاچکے ہیں جن میں وہ مختلف عوامی تقریبات میں خود آگے بڑھ کر خواتین کےساتھ گرم جوشی سے ملتے نظر آتے ہیں۔ ان میں ایسے مناظر بھی شامل ہیں جنہیں دیکھ کر بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خواتین کے بال سونگھ رہے ہیں۔ اسی سال مارچ کے مہینے میں تارا ریڈ نامی ایک خاتون نے الزام لگایا تھا کہ 30سال قبل جو بائیڈن نے زبردستی دیوار سے لگا کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی ۔ ان دنوں یہ خاتون بائیڈن کے دفتر میں ایک اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ایسی صورتحال میں بائیڈن کے حامی صدر ٹرمپ کی مثال دیے رہے ہیں کہ ان پر تو کئی خواتین نے جنسی حملوں کا الزام بھی لگایا ہے لیکن ’می ٹو ‘ کی حمایت کرنے والی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کا اس قدر کردار باختہ ہونا اس کی منافقت کا غماز ہے۔
ایسے امریکی عوام کے ایک طرف کھائی اور دوسری جانب آگ ہے۔ جمہوری نظام ان کو ان میں سے ایک کے حوالے کرنے پر تلا ہوا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا پورے امریکہ میں ان دونوں سے بہتر فرد کوئی اور نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو بہترین انسان کے سر پر تاج رکھنے کا دعویدار نظام سیاست اپنے بہترین گہوارے میں بھی اس مقصد کے حصول میں کیوں ناکام ثابت ہو رہا ہے؟ یہ انتخاب جمہوری دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے؟ آج کل امریکہ کے اندر یہ سوال زیر بحث ہے کہ انتخابی عمل کو مشکوک قرار دینے کے بعد کیا ٹرمپ الیکشن کے نتائج کو برضا و رغبت قبول کرلیں گے؟ وہ اگر ہار گئے تو کیا قصرِ ابیض خالی کردیں گے؟ ٹرمپ نے جب دھاندلی کا الزام لگایا تو ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ انتخابی شکست کی صورت میں نتائج کو تسلیم کریں گے یا نہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کہتے ضرور بالضرور قبول کروں گالیکن انہوں جواب نہیں میں دیا۔ ان کے دل کا یہ کھوٹ ثابت کرتا ہےکہ آمریت کی طرح جمہوریت میں بھی حکمراں اقتدار لوٹانے میں آنا کانی کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار بہت سالوں تک کسی ایک خاندان یا پارٹی کے پاس نہیں رہا لیکن کم از دوسرے نظامہائے زندگی میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے عوام کو دھوکہ دینے ضرورت نہیں پیش آئی۔ اس کے علاوہ پر امن انتقالِ اقتدار کا دعویٰ بھی فریب ہے کیونکہ ہر انتخابی مہم کے پہلے جمہوریت نواز سیاسی پارٹیاں نفرت و تشدد بڑھا کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہیں ۔
شعلے کا گبرّ ’ڈرنے اور مرنے‘ والامکالمہ اپنے لیے نہیں بلکہ ان ساتھیوں کے لیے کہتا ہے جو ہار کر لوٹے تھے ۔ اس کے خیال میں ہارنے والوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ اس لیے اپنے ساتھیوں کو موت کی نیند سلانے کے بعد وہ اپنی اس سفاکی کو جواز فراہم کرتے ہوئے کہتا ہے ’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘۔ اس مرتبہ بعید نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کے ایوان بالا ، ایوان زیریں اور عوام کے فیصلے کو پھانسی پر لٹکا کر اعلان فرمائیں کہ ’جو ڈر گیا وہ مر گیا ‘ تاکہ سارا ملک ان سے خوفزدہ ہو کر سمجھ جائے کہ اگر وہ گبّر کے بجائے کسی اور سے ڈرکر اس کی پناہ میں بھا گ آئے تو ان کا حال بھی کالیا جیسا ہی ہوگا ۔ اس لیے کہ پچاس پچاس ملک دور جب کسی ملک کے عوام روتے پیٹتے ہیں تو ان کے حکمراں کہتے چپ ہوجا وورنہ ٹرمپ آئے گا۔ کوئی نظام سیاست اگر ایسے سردار کو رسوا کردے تو اسے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے اور اس کو گولیوں سے بھون دینے کے لیے سردار حق بجانب ہے۔ لطف کی بات یہ ہے فلم شعلے میں شائقین کو گبرّ کی سفاکی کا شکار ہونے والوں سے ہمدردی نہیں ہوتی بلکہ وہ تالیاں بجا کر سردار کو دادِ تحسین دیتے ہیں ۔ اس لیے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اگر ٹرمپ امریکی جمہوریت کو سولی پر چڑھا دیں تب بھی فوکس نیوز کے اینکرس اس کا جشن مناتے ہوئے بغلیں بجائیں گے۔
امریکہ کے اندر جانی نقصان کے ساتھ مالی خسارے نے معیشت کو بری طرح متاثر کیاہے۔ اپریل اور جون کے مہینوں کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں میں 32.9 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی۔ یہ 1947 کے بعد سے سب سے بدترین صورتحال ہے۔ 2019 میں اسی مدت کے دوران اقتصادی گراوٹ کی شرح 9.5 فیصد تھی۔یہی وجہ ہے کہ رائے شماری کے جائزوں میں صدر ٹرمپ اپنے حریف ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن سے ۵ تا ۱۰ پوائنٹ پیچھے چل رہے ہیں