ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
بھاگوت نہیں تو للن بھگوتی ہی سہی
کلن سنگھ سےجمن شیخ نے پوچھا کیوں بھائی کہاں نکل گئے تھے؟ تین دن سے نظر نہیں آئے؟؟
کلن نے کہا بھائی وہ ایسا ہے کہ میں ناگپور ایک چنتن شیبر میں گیا تھا ۔
یہ چنتن شیبر کیا ناگپور کا کوئی محلہ ہے جہاں آپ چلے گئے تھے ؟
جی نہیں جیسے تم اجتماع میں نکل جاتے ہونا اسی طرح کا یہ ایک اجتماع تھا سمجھ لو ۔ اس میں شرکت کے لیے گیا تھا۔
اچھا تو کیا چنتن منتھن کرکے وہاں سے لوٹے؟
وہی دیش کے سامنے جو سمسیائیں میرا مطلب مسائل ہیں اس پر غور وخوض کیا گیا؟
اچھا تو کیا نتیجہ نکلا ۔ فی الحال ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
یہی کہ ہمارے پردھان سیوک کی مقبولیت دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔
ارے بھائی یہ تو ان کاذاتی یا پارٹی کا مسئلہ ہے ۔ یہ ملک کا مسئلہ کب سے ہو گیا؟
ارے بھائی وہی دیش ہیں۔ وہ نہیں تو دیش نہیں۔ اس لیے یہی سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔
اوہو سنگھ صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟ دیش تو ان سے پہلے بھی تھا اور بعد میں بھی رہے گا اور اس کے مسائل بھی رہیں گے۔
جی ہاں لیکن ان کو حل کرنے والا بھی تو کوئی ہونا چاہیے۔ فی الحال سنکٹ وموچن (کارساز) وہی تو ہیں۔ اس لیے ان کی چنتا کرنی پڑتی ہے۔
لیکن کلن بھیا ان کی چنتا اور سیوا کرنے کے لیے گھر میں نوکروں اور دفتر میں چاکروں کی بہت بڑی فوج ہے۔ آپ کیوں بلا وجہ پریشان ہیں؟
وہ تو ہے لیکن ہمیں جس مقبولیت میں گراوٹ کی چنتا ہے اس کو سنبھالنے میں وہ نوکر چاکر کچھ نہیں کر سکتے۔
اچھا تو کون کیا کر سکتا ہے؟
ہمارا سنگھ پریوار بہت کچھ کرسکتاہے۔ وہ ہمارے خاندان کے سب سے اہم فرد ہیں اس لیے ان کی عزت و وقار کو بڑھانا ہم سب کا فرض عین ہے۔
اچھا تو اب یہی کام رہ گیا ہے؟ خیر یہ بتاو کہ آپ لوگوں نے اس کام میں اتنی دیر کیوں کردی؟ اب تو اس گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنا بہت مشکل ہے؟
دیکھو کلن! اس سے پہلے بھی جب لوگوں میں مایوسی پھیلنے لگی تو ہم نے ’بے شمار امید (مثبت)‘ نام سے ایک ملک گیر مہم چلائی تھی۔
اچھا تو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
یار سچ سچ بتاوں؟ کسی سے کہنا مت ورنہ ہمارے سنگھ والے مجھے نکال باہر کریں گے۔
اوہو کلن سنگھ صاحب میں کیوں کہنے لگا؟ آپ مجھ سے اپنے من کی بات کرسکتے ہیں۔ میں آپ کا بچپن کا دوست ہوں ۔
ہاں تو دوست مجھے تو لگتا ہے کہ وہ کوشش نا کام ہو گئی کیونکہ اس کے بعد والے انڈیا ٹوڈے کے سروے میں ان کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آگیا تھا۔
کیا آپ لوگوں نے اس سوال پر بھی غور کیا کہ وہ گراف کیوں نیچے آگیا تھا؟
جی ہاں اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں ایک کورونا اور دوسری دیدی۔ سچ تو یہ ہے کہ دیدی تو کم بخت کورونا سے بھی خطرناک ہے ۔
اچھا وہ کیسے؟
کورونا تو ایک آدھ سال میں چلا جائےگا لیکن وہ تو پانچ سال ہمارے سینے پر مونگ دلتی رہیں گی اور بعید نہیں کہ شاہ جی کی مہربانی سے دوبارہ جیت جائیں۔
شاہ جی کی مہربانی کیوں؟
ارے بھائی اگر وہ احمقانہ مخالفت نہیں کرتے تو وہ کبھی اس قدر زبردست کامیابی درج نہ کراتی۔
یار تم شاہ جی پر خوب نزلہ اتارتے ہو مگر مودی جی کا ’دیدی او دیدی‘ والا مکالمہ بھول گئے جس نے ہر بنگالی کو زخمی کر دیا۔
ہاں یار مجھے ڈر ہے اگلے قومی انتخاب میں مودی کی مخالفت دیدی کو خدانخواستہ وزیر اعظم یا وزیر داخلہ نہ بنا دے۔
جی ہاں جمن بولا تب تو کسی کو نہیں چھوڑیں گی۔
مجھے بھی لگتا ہے کہ وہ درگا ماتا کا سوروپ بن کر بہت آتنک مچائے گی۔
اچھا تو آپ لوگوں نے اب کیا سوچا ہے؟
ہم لوگ پردھان جی کی مقبولیت کو بحال کرنے کی خاطر اس سال ان کی 70 ویں سالگرہ پر17 ستمبر سے 7 اکتوبر تک سالگرہ کا جشن منائیں گے۔
ارے یار جنم دن کی پارٹی تو تین گھنٹے نہیں چل پاتی اور آپ لوگ اس پر تین ہفتہ ضائع کروگے۔ لوگ بور ہوجائیں گے اور مقبولیت مزید گھٹ جائے گی۔
ایسا نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو بور نہیں کریں گے بلکہ ’سیوا اور سمرپن‘ کی مہم چلائیں گے۔
کیا آپ آسان زبان میں ’سیوا اور سمرپن‘ کا مطلب سمجھا سکتے ہیں ۔
’خدمت اور ایثار یا لگن‘ سمجھ لو
کس کی خدمت اور کس کا ایثار؟
وزیر اعظم کا اور کس کا؟ ہم لوگوں کے گھر گھر جاکر عوام کو وزیر اعظم کی خدمات سے واقف کروائیں گے اور ان کا شکریہ ادا کریں گے۔
یار کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ خدمت وزیر اعظم نے کی اور ایثار بھی انہوں نے کیا تو ان کا شکریہ ادا ہونا چاہیے لوگوں کا کیوں؟
ارے بھائی لوگوں کو یہ سب بتا کر لوٹتے ہوئے کچھ تو کہنا پڑے گا۔ اس لیے دھنیاباد کہہ کر لوٹ آئیں گے۔
ہاں سمجھ گیا۔ جس کسی نے آپ کی جھوٹ موٹ باتوں کو دل پر پتھر رکھ کر سن لیا اس کا شکریہ ادا کیا جائے گا کیونکہ ہر کوئی تو سنے گا نہیں۔
یار جمن تم تو بات کو گھما دیتے ہو۔ یہ سمجھ لو کہ عوام نے جو خدمت کی اور ایثار وقربانی دی اس کا شکریہ ادا کردیں گے۔
اچھا لیکن اس سے وزیر اعظم کی مقبولیت کیسے بڑھے گی؟
کیوں نہیں بڑھے گی۔ ہم ان کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔
اچھا! یہ کام تو وہ ٹیلی ویژن پر آکر اور ریڈیو کے ذریعہ خود کرسکتے ہیں آپ لوگوں کو گھر گھر جانے کی ضرورت کیا ہے؟
وہ کیا جمن کہ آج کل لوگوں نے ان کے من کی بات سننا بند کردیا ہے۔ ہم بھی موبائل چالو تو کردیتے ہیں تاکہ تعداد نظر آئے لیکن سنتے نہیں ہیں۔
اچھا، لیکن پہلے تو آپ دوسروں سے بھی سننے کا اصرار کیا کرتے تھے یہ کیا ہو گیا؟
یار بور ہوگئے قسم سے۔ کان پک گئے۔ اس لیے کوئی نہیں سنتا۔ اب ہم لوگ گھر گھر جائیں گے تو ممکن ہے لوگ مروت میں ہماری بات پرکان دھریں گے۔
اچھا اگر لوگوں نے دھتکار دیا تو کیا ہو گا؟
ہمیں کم ازکم پتہ تو چلے گا کہ لوگ کس قدر ناراض ہیں اور کیوں؟
اچھا! کہیں یہ اگلے سال کے الیکشن کی تیاری تو نہیں ہے۔
یار تم جو ہو نا، بات کو پکڑ لیتے ہو۔ میرا مطلب ہے تہہ تک پہنچ جاتے ہو قسم سے۔
تب تو آپ لوگوں کا زیادہ دھیان وہی پنجاب، اترپردیش، اتر اکھنڈ، گوا اور منی پور کی طرف ہو گا جہاں انتخابات ہونے والے ہیں؟
جی ہاں یہ تو فطری بات ہے۔
تو پھر ایسا ہے کہ اس کے لیے گھر گھر جانے کی کیا ضرورت ؟ اے بی پی والوں نے ان پانچ ریاستوں کا ایک تفصیلی اور سائنٹفک جائزہ لے لیا ہے۔
ارے وہ تو ہمارا ہی چینل ہے خیر اس میں سے کیا نکل کر آیا ؟
بھائی ایسا ہے کہ 81 ہزار لوگوں سے مل کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ 43.8 فیصد لوگوں کے خیال میں ان کی زندگی اور ملک دونوں کی حالت خراب ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن کس ریاست کے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں؟ کیونکہ ہمارے لیے تو اتر پردیش اور پنجاب سب سے اہم ہیں ۔
بھائی پنجاب میں ایسا سوچنے والوں کی تعداد 75 فیصد اور اتر پردیش میں 49.6 فیصد ہے ۔
ارے یہ تو بہت خطرناک بات ہے کیونکہ اتر پردیش میں تو یوگی اور مودی کی ڈبل انجن سرکار ہے۔ اچھا یہ بتاو کہ اس جائزے سے اور کیا نکل کر آیا؟
اور یہ کہ صرف اوسطاً 29.3 فیصد لوگوں کو لگتا ہے کہ ملک اور ان کی زندگی بہتری کی جانب گامزن ہے اور یو پی میں ایسے صرف 31.4 فیصد لوگ ہیں۔
اچھا اور دیگر لوگ کیا سوچتے ہیں؟
ان میں 23.3 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ ملک تو آگے بڑھ رہا ہے مگر ان کی حالت ابتر ہو رہی ہے۔
اچھا یہ بتاو کہ ایسا سوچنے والے یو پی میں کتنے ہیں؟
ایسے لوگوں کی تعداد یو پی میں صرف 11.1 فیصد ہے۔
اچھا تب تو ٹھیک ہے؟
اور ہاں 5 فیصد کے خیال میں زندگی تو بہتر ہو رہی مگر ملک کی حالت بگڑ رہی ہے۔ ایسے لوگ یو پی میں دو فیصد ہیں۔
اچھا یہ بتاو کہ اگر لوگوں نے تمہارا شکریہ قبول نہیں اور بھگا دیا تو کیا ہو گا؟
کیسی باتیں کرتے ہو جمن۔ یہ مسئلہ اگر ایسا ہو گیا تو بڑا انرتھ ہوجائے گا میرا مطلب ہے قیامت آجائے گی۔
جمن ہنس کر بولا نہیں کلن ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ کیا ہم بتائیں کہ کیا ہو گا؟
اچھا ! یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ کیا ہو گا؟ کیا پردھان جی نے تم کو بتایا ہے؟ انہوں نے یہ بات تو ہمارے سر سنگھ چالک کو بھی نہیں بتائی۔
جی نہیں پردھان سیوک تو اپنے من کی بات سب کو بتا چکے ہیں اب اگر کوئی اس پردھیان نہ دے تو کیا کیا جائے؟
کیا مطلب ہمارے؟ ہمارے سر سنگھ چالک کی کیا مجال کہ اس کو نظر انداز کر دیں۔ وہ انہیں رنگون میرا مطلب ہے انڈمان بھیج دیں گے ۔
کیا کہا ؟ رنگون!! اور انڈمان!!! کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
ارے بھائی غلطی سے زبان پھسل گئی اس لیے تم اس بات کو اپنے ذہن سے ڈیلیٹ کردو۔ میرا مطلب ہے پوری طرح بھول جاو ۔
اوہو آپ کس سے اتنا ڈر رہے ہیں سر سنگھ چالک سے یا پردھان سیوک سے؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔
دونوں، میرا مطلب ہے دونوں سے لیکن تم اسے بھول جاو اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی۔
چلو ٹھیک ہے۔ اچھا تو آپ یہ بتائیں کلن سنگھ کہ اب کس بارے میں بات ہو گی؟
وہی بات کہ جو تم کہہ رہے تھے اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو کیا ہو گا؟ میں تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہ بتاو کہ انہوں نے کیا کہا؟
بتاتا ہوں دھیرج رکھو۔ انہوں نے کہا تھا میرا کیا ہے۔ میں تو جھولا اٹھاوں گا اور چل دوں گا۔
ارے یہ تو ان کی اپنی بات ہے۔ یہ بتاو کہ ملک میں اس سے کیا ہو گا ؟
یہی کہ وہ اپنے کچھ منتری میرا مطلب ہے وزراء کے ساتھ بے کار ہوجائیں گے ۔
وہی تو میں کہہ رہا ہوں جمن کہ قیامت آجائے گی۔
اوہو کلن آپ چند لوگوں کے لیے پریشان ہیں جبکہ اپنے ملک میں کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں اور وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
تو کیا مطلب ہے کہ اس معمولی اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟
جی ہاں میں تو سوچتا ہوں کہ تھوڑا بہت فرق تو بہت پڑے گا مگر کوئی قیامت نہیں آئے گی۔
جمن میں بھی اب یہی سوچتا ہوں کہ تھوڑا بہت فرق پڑے گا اسی لیے حزب اختلاف نے 17 ستمبر کو بیروزگار دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
جی ہاں کلن وہ چاہے بیروزگار دن منائے یا جملہ دن کے طور پر یاد کرے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
کلن نے پوچھا وہ کیوں؟
اس لیے کہ نہ کوئی خدمت ودمت کرتا ہے اور نہ ایثارو قربانی کا نام و نشان ہے۔ اس لیے بیروزگاری دور نہیں ہوگی۔ یہ سب نوٹنکی ہے نوٹنکی۔
ہاں بھیا جمن سیاست تو نوٹنکی ہے مگر ہمارا وچار منتھن بہت سنجیدہ تھا اس میں مسلمانوں کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی۔
اچھا یہ تو بہت اچھا ہوا۔ آج کل ہم لوگ بہت پریشان ہیں کیونکہ سرکار تو انہیں حل کرنے کے بجائے بڑھاتی ہے اگر سنگھ کچھ کر سکے تو اچھا ہے۔
کلن بولا ہاں ہاں جمن اسی لیے تو غور کیا گیا۔
جمن نے پوچھا اچھا تو آپ لوگوں نے مسلمانوں کے مسائل کا کیا حل نکالا؟
یار جمن میں سچ بتاوں کہ حل تو بتایا گیا مگر میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کے لیے تمہیں ہمارے رہنما سے ملنا ہوگا۔
ارے یار میں اس کے لیے ناگپور نہیں چل سکتا اس لیے چوہا لنڈورہ ہی بھلا۔
وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہمارے اپنے شہر شری للن بھگوتی ہیں۔ میں تم کو ان سے ملاوں گا تو وہ سب سمجھا دیں گے۔ چلو چلتے ہیں ان کے پاس۔
جمن نے کہا اچھا تو آپ میری موٹر سائیکل پر بیٹھیں۔ ہم للن بھگوتی سے مل کر آتے ہیں۔
ارے نہیں بھائی ہم لوگ میری نئی گاڑی میں چلیں گے۔ کیا سمجھے؟
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کلن نے للن سے تعارف کراتے ہوئے کہا یہ میرا بچپن کا دوست جمن ہے۔ آپ ان کو مسلمانوں کے مسائل کا وہ حل بتائیں جو سرسنگھ چالک نے بتایا تھا ۔
للن بولے اچھا تو کیا یہ مسلمان ہے؟
کلن بولا جی ہاں شریمان یہ مسلمان ہے۔
للن نے کہا بھائی ایسا ہے کہ ہمارے سر سنگھ چالک نے بتایا کہ ہندوستان میں رہنے والے سارے لوگ ہندو ہیں۔
کلن یہ سن کر چکرا گیا۔ اس نے سوچا آج بچپن کی دوستی ختم ہو جائے گی مگر جمن نے بڑے جوش میں کہا کہ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔
کلن نے کہا اگر ایسا ہے کہ سب ہندو ہیں اور کوئی مسلمان نہیں ہے تب تو مسلمانوں کا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔
للن نے تائید کی۔ جی ہاں یہ’ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری‘ والا فارمولا ہے۔
کلن چہک کر بولا جی ہاں سر اس طرح تو آپ ہماری جماعت المسلمین کی مقامی شاخ کے سربراہ ہو گئے۔
للن نے چونک کر پوچھا جماعت المسلمین کا سربراہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میں تو آر ایس ایس کا صدر ہوں۔
جی نہیں سر چونکہ میں ہندو ہوں اور جماعت المسلمین کا رکن بھی ہوں تو آپ اس کے صدر ہو گئے۔
ارے بھائی میں جماعت المسلمین کا صدر کیسے ہو سکتا ہوں؟ میں تو آر ایس ایس کی جھمری تلیاّ شاخ کا سربراہ ہوں۔
یہ میں نہیں جانتا۔ اب تو میں تو آپ کو جماعت المسلمین کا صدر مانتا ہوں۔
اس پر للن بھگوتی کو غصہ آگیا اور بگڑ کر بولے ابے بیوقوف میں کون ہوں یہ کون طے کرے گا ؟ تو یا میں؟؟
جمن بولا صاحب اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟
ناراض ہونے کی بات کیوں نہیں ہے؟ کیا کوئی بھی ایرا غیرا نتھو خیرا یہ طے کردے گا کہ میں کون ہوں؟
لیکن جناب اگر آپ یہ طے کرسکتے ہیں کہ میں ہندو ہوں تو میں یہ کیوں طے نہیں کرسکتا کہ آپ جماعت المسلمین کے صدر ہیں آخر ہم دونوں ہندو ہیں۔
کلن نے دیکھا بات بگڑ رہی ہے تو بیچ میں بول پڑا۔ للن جی لیکن ہمارے دیش کا دستور کیا کہتا ہے؟ کیا ہم اس کو نہیں مانتے؟؟
للن نے کہا ہم سے زیادہ دیش کے دستور کو کون مان سکتا ہے؟ لیکن میں نہیں جانتا کہ ہندو کے بارے میں دستور کیا کہتا ہے؟؟
کلن بولا وہ تو کہتا ہے کہ جو مسلمان، سکھ ، عیسائی ،پارسی ،جین یا بودھ نہ ہو وہ ہندو ہے ۔
جمن نے کہا وہی تو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان، سکھ ، عیسائی ،پارسی جین یا بودھ ہو وہ ہندو نہیں ہے۔
للن کو پھر غصہ آگیا ۔ اس نے بگڑ کر کہا تم چپ رہو جی ۔ کیاتم دستور کے بارے میں سر سنگھ چالک سے زیادہ جانتے ہو؟ بیچ میں نہ بولا کرو کیا سمجھے؟
جمن نےپوچھا صاحب ہمارے ہندو ہونے کے حق میں آپ کے سر سنگھ چالک کے پاس کیا کوئی دلیل بھی ہے یا پھر یہ ان کے من کی بات ہے بس؟
للن نے جواب دیا ۔ ارے بھائی ہمارے اور تمہارے آباء و اجداد یکساں تھے ۔ اس لیے ہم سب ہندو ہیں ۔
جمن نے کہا اچھا تب تو افغانستان کے طالبان بھی ہندو ہوگئے ۔
للن نے بگڑ کر پوچھا کیا بکواس کرتے ہو؟ طالبان کیسے ہندو ہوسکتے ہیں ؟
جمن بولا افغانستان کے ہندووں اور مسلمانوں کے آباو اجداد بھی یکساں تھے ، اگر آپ نے طالبان کو ہندو نہیں مانا تو ۰۰۰۰۰۰۰
للن نے پھر سوال کیا ’نہیں مانا تو کیا ہوگا ؟‘
وہاں کے ہندووں کو مسلمان ماننا پڑے گا اور سی اے اے کے تحت ان کو شہریت دینے سے انکار کرنا پڑے گاکیونکہ آباء و اجداد ۰۰۰۰۰۰۰
کلن درمیان میں بول پڑا جمن تم بات کو طول دے کر بہت دور افغانستان لے گئے اور اس لیےہمارے للن بھگوتی کو پریشان کردیا ۔
جمن نے کہا تو میں کیا کروں ؟ آپ ہی تو مجھے ان کے پاس لائے تھے ۔
کلن نے کہا ہاں بھائی غلطی ہوگئی ۔ اب چلو یہاں سے ورنہ یہ پاگل ہوجائیں گے ۔
جمن ہنس کر بولا ارے کلن بھیا پاگل بھی کہیں پاگل ہوتا ہے خیر چلو اب دوبارہ ایسے کسی پاگل سے مجھے مت ملانا۔
وہ تو ایسا ہے کلن نے کہا کہ اب میں ان پاگلوں کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھوں گا ۔
للن نے بگڑ کر کہا مجھے تو لگتا ہے تم دونوں مجھے پریشان کرنے کے لیے سازش کرکے ساتھ آئے تھے۔ اب یہاں سے فوراً دفع ہوجاو۔
جمن نے کہا شکریہ جناب آپ نہ بھی کہیں تب بھی ہم جارہے ہیں ۔
کلن بولا اور کبھی لوٹ کر نہیں آنے کے لیے جارہے ہیں کیا سمجھے ؟؟
کلن بولا رام رام جمن نے کہا دعا سلام ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021