وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے بااثر ملی جماعتوں کو آگے آنے کی ضرورت

بورڈ زکو خود مختار بنایا جائے ۔مشترکہ کوششوں کے ساتھ عوامی بیداری ناگزیر

افروز عالم ساحل

وقف ایک ملی مسئلہ ہے۔ پوری امت و قوم کا مسئلہ ہے۔ اور اس کا تحفظ تبھی ہوسکتا ہے، جب پوری امت مل کر کام کرے۔ خاص طور پر ان جماعتوں کو پیش پیش رہنا چاہیے جو زیادہ طاقتور ہیں یا جن کے ساتھ زیادہ لوگ جڑے ہوئے ہیں، یا پھر ان جماعتوں کی کوئی کمیٹی بنے جس کے تحت لوگ مل کر اس ایجنڈے پر غور و فکر کریں۔

وقف کے دگرگوں حالات پر ہفت روزہ دعوت کے لیےنمائندہ ہفت روزہ دعوت نے جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری جناب ملک معتصم خان سے جو تلنگانہ وقف بورڈ کے رکن بھی ہیں، خاص بات چیت کی۔ اس اہم گفتگو کے کچھ خاص اقتباسات پیش ہیں۔

وقف جائیدادوں کے معاملے میں آپ کو اصل مسئلہ کہاں نظر آتا ہے اور اس کے تحفظ میں کہاں رکاوٹ ہے؟

پورے ملک میں وقف جائیدادوں کے تحفظ میں سب سے پہلی اور بڑی رکاوٹ ہماری حکومتیں ہیں۔ دوسری رکاوٹ مسلم لیڈرشپ اور تیسری رکاوٹ عوام میں شعور کی کمی ہے۔ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے جو عوامی جدوجہد ہونی چاہیے اس کی بھی کمی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے اسلاف نے یا ہمارے حکمرانوں نے جو کچھ وقف کر دیا تھا بس ہم اسی پر اکتفا کریں گے یا آج کی نسل کو بھی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ وقف کرنا چاہیے؟ کیا ہم صرف موجودہ موقوفہ جائیدادوں سے فائدہ حاصل کرنے کی ہی سوچیں گے؟ ہمارے جو صاحب حیثیت لوگ ہیں یا بڑے بڑے سیاست داں ہیں ان کو بھی تو اب قوم کے لیے تعلیم، دواخانہ یا یتیم خانہ وغیرہ کے نام پر کچھ نہ کچھ وقف کرنا چاہیے۔ چاہیں تو وہ اس کو وقف بورڈ میں درج کرائیں یا عام اعلان کر دیں۔ وقف کی تاریخ تو بہت اچھی ہے، بہتر ہوگا کہ صاحب حیثیت لوگ وقف کی تاریخ کو تازہ کریں۔ اس پر بھی توجہ دیں۔

حکومت وقف کے تحفظ میں کیسے رکاوٹ ہے؟ حکومت کو کرنا کیا چاہیے؟

حکومتوں کا کام ہے کہ وہ ملک بھر میں موجود وقف جائیدادوں کا تحفظ کریں۔ جس طرح اگر کسی سرکاری جائیداد یا زمین پر ناجائز قبضہ ہوجائے تو حکومت اسے ہٹاتی ہے۔ اس کام کے لیے ریوینیو اتھارٹی جاتی ہے، پولیس والے ان کے ساتھ جاتے ہیں، اس ضلع کا کلکٹر ہوتا ہے، یعنی جو بھی ادارے اس کام سے جڑے ہوئے ہیں وہ وہاں جاکر اس کو ہٹاتے ہیں۔ سرکاری جائیدادوں کے تحفظ کے لیے جو قوانین ہیں، ویسے ہی اختیارات وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے بھی ہونے چاہئیں اور اس کے لیے تمام اداروں کو کام کرنا چاہیے۔

حکومت خودبہت سی وقف جائیدادوں پرقابض کیوں ہے؟

یہ سوال بہت اہم ہے۔ اگر ضروری ہو تو حکومت قوم، ملک یا سماج کی ضرورتوں کے لیے وقف کی کوئی زمین حاصل کر سکتی ہے، چاہے کرایہ پر ہو یا خریدی کر کے۔ اب ان جائیدادوں کی خرید وفروخت جائز ہے یا ناجائز میں اس کے متعلق شرعی حکم کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میرا بس یہی کہنا ہے کہ وقف کی جائیدادوں کا مالک وقف بورڈ ہے، اس سے بات کی جائے اس کے بدلے میں کوئی دوسری اچھی زمین لی جائے، یا پھر اس کا معاوضہ لیا جائے یا پھر اس کو مناسب کرایہ پر اٹھا دیا جائے۔

لیکن ملک میں کچھ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ سکھوں کے گرودوارہ مینیجمنٹ کمیٹی کی طرز پر مسلمانوں کو ان کے اوقاف کو سونپ دیا جائے۔ کیا یہ مطالبہ صحیح ہے؟ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

یہ مطالبہ جن لوگوں کا ہے ان کی تعداد کافی محدود ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ پورے ہندوستان میں ایسا کچھ ہے۔ پنجاب، دہلی یا ہریانہ میں ایسے مطالبات ہو سکتے ہیں لیکن پورے ملک میں نہیں۔ اور سکھوں کی قابل لحاظ آبادی ایک ہی جگہ ہے۔ مسلمانوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مسلمان پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی ایک ریاست میں محدود نہیں ہیں۔ تو ایسے میں حکومت کی مدد کے بغیر اوقاف جائیدادوں کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔ حکومت کے مدد و تعاون کا معاملہ ہونا چاہیے۔ 1948 میں ایسا ہو جاتا تو الگ بات تھی، لیکن اب جو صورت حال ہے اس پر اس کا اطلاق بہت ہی مشکل ہے، کیوں کہ بہت سی چیزیں ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں اس لیے ناجائز قبضوں کی برخواستگی کے لئے حکومت کا تعاون ضروری ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی املاک اب خود وقف بورڈ کے بھی پاس بھی نہیں ہے۔

عام طور پر شکایت رہتی ہے کہ وقف بورڈ کے ذمہ دار اوقاف کی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔ کیا اس الزام میں کوئی حقیقت ہے؟

وقف بورڈ میں جن کو ممبر یا چیئرمین بنایا جاتا ہے عام طور پراس کا تعلق حکومت میں شامل سیاسی جماعت سے ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کا اعزاز یا انعام ہوتا ہے۔ وقف بورڈ میں وقف جائیدادوں کے تحفظ یا خدمت کے جذبے سے شاید ہی کوئی آتا ہے۔ وہ تو اپنے سیاسی وجود و بقا کے لیے، کچھ کمانے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے میں ان کو اپنے سیاسی آقاؤں کی بات ماننی ہوتی ہے۔ وقف بورڈ اب ایسا کوئی آزاد ادارہ نہیں ہے، جس میں مسلمانوں کا کوئی سمجھ دار شخص بالکل یکسوئی کے ساتھ ان کی جائیدادوں کو مفیدبنانے کے لیے کام کرے۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وقف بورڈ کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہیں؟

اپنی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے جو اختیارات مطلوب ہیں، وہ اختیارات وقف بورڈ کے پاس نہیں ہیں۔ وقف بورڈ کو قانونی طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ بورڈ کے پاس اپنا اسٹاف بھی کم ہے۔ نگراں بھی کم ہوتے ہیں۔ جس طرح سے ریوینیو اتھارٹی کے پاس اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جائیداد پر سے ناجائز قبضے پولیس کی مدد سے ہٹاتے ہیں۔ یعنی جو جوڈیشیل پاور ہونا چاہیے وہ وقف بورڈ کو حاصل نہیں ہے۔

اپنی آمدنی بڑھانے یا اسٹاف کی کمی کا مسئلہ حل کرنے میں وقف بورڈ کو جو دشواریاں ہیں کیا وہ ختم کی جا سکتی ہیں؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ وقف بورڈ میں جو چیئرمین یا ممبرز ہیں، وہ زیادہ تر سیاسی لوگ ہیں۔ کئی ریاستوں میں تو بورڈ ہی تشکیل نہیں ہو پایا ہے۔ وہاں بیوروکریٹس یا افسر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ اس کے لیے عوام کا دباؤ سب سے اہم چیز ہے۔ وقف جائیدادوں کے تحفظ کو مفید بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام اپنے اپنے مقام پر وقف کی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے خود اپنے طور پر کمیٹی بنائیں۔ اس کمیٹی کے ذریعے آپ وقف بورڈ سے لڑیں، ضرورت پڑے تو اپنے حق کے لیے عدالت بھی جائیں۔ تب ہی آپ وقف جائیدادوں محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ایسے کئی واقعات ہیں، جن میں وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے عوام نے کمیٹی بنائی، لیکن پریشانی یہ ہے کہ وقف بورڈ سوال کرنے والوں کو دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ نوبت مارپیٹ کی بھی آجاتی ہے۔ مہاراشٹر میں ایک صاحب وقف کے تحفظ کی خاطر خود سوزی کر چکے ہیں۔ لوگوں کو جب اپنی جان کا خطرہ تو پھر وہ یہ کام کیوں کرنا چاہیں گے؟

آپ کی باتیں درست ہیں۔ کہیں کم، کہیں زیادہ ملک بھر میں ایسی صورت حال ہے کہ جو لوگ رئیل اسٹیٹ سے وابستہ ہیں یا زمینات کا کاروبار کرتے ہیں وہ شہر میں اور باہر دیکھتے رہتے ہیں کہ کہاں زمین خالی ہے اور اس کو تجارتی غرض سے کیسے حاصل کیا سکتا ہے۔ چونکہ ایسے کاروبار میں اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ زیادہ ہوتے ہیں یا ان کے نمائندے ہوتے ہیں، پیسے کے بل پر ان کے تعلقات حکومت سے، بڑے بڑے سیاست دانوں سے، پولیس محمکہ سے اور خود وقف بورڈ سے ہوتے ہیں۔ ایسے میں جو آدمی اوقافی جائیدادوں کے لیے کوشش کرتا ہے اس کے لیے رکاوٹوں کا آنا طے ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقف بورڈ کا عملہ بھی رئیل اسٹیٹ سے جڑے لوگوں کی ہی مدد کرتا ہے۔ ایسے میں آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ جو کام حکومت کو کرنا ہے، سیاست دانوں کو کرنا ہے، وقف بورڈ کو کرنا ہے، وہ کام ایک اکیلا آدمی کیسے کرسکتا ہے؟ مشکلات تو آئیں گی ہی۔ حل یہی ہے کہ کوئی ٹرسٹ بنا لیا جائے، کوئی کمیٹی بنا لی جائے، جس میں بہت سے لوگوں کو جوڑ لیا جائے۔ وہیں ایک طرف مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے نام پر میدان میں آنے کے بعد وہی کام کرتے ہیں، جو دوسرے مفاد پرست کرتے ہیں۔ اس کے بدلے ان کو کچھ مل جاتا ہے تو وہ راستہ بدل کر اسے کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ایسے میں مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ وقف بورڈ کے بارے میں صرف منفی تصور نہیں رکھنا چاہیے۔ وہاں بھی اچھے لوگ ہو سکتے ہیں، اچھے آفیسر ہو سکتے ہیں۔ اچھا اسٹاف ہو سکتا ہے وہ کمیٹی ان سے مدد حاصل کرے یہ بڑا صبر آزما کام ہے اس میں وقت لگے گا۔ لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام کی طاقت ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔ عوام کی بیداری اور ان کا طاقت ور ہونا سب سے اچھا اور سب سے آخری حل ہے۔

گزشتہ دنوں مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی اسمبلی میں وقف املاک کے تحفظ کا معاملہ اٹھا چکے ہیں۔ ان کے مطابق تلنگانہ کی قریب 75 فیصد وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے ہو چکے ہے۔ آپ تلنگانہ وقف بورڈ میں خود ممبر کی حیثیت سے موجود ہیں۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

وہ لمبے عرصے سے ان امور سے واقف ہیں ان کی بات درست ہو سکتی ہے، ان کی کوششوں سے ناجائز قبضوں کی برخواستگی ممکن ہے۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ملک بھر میں جتنے وقف بورڈ موجود ہیں ان تمام میں تلنگانہ وقف بورڈ کی صورتحال قدرے بہتر ہی ہے۔

75 فیصد وقف جائیدادوں کے غائب ہونے کے بعد بھی ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں تلنگانہ وقف بورڈ بہتر ہے؟

فی صد کی بات کا تو مجھے علم نہیں ہے لیکن بعض جگہوں پر اس سے بھی زیادہ غائب ہو گئی ہیں۔

جو لوگ وقف بورڈ کے ممبر بنتے ہیں، ان کا کیا کام ہوتا ہے؟ ان کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟

اختیارات کی بات کریں تو سب سے پہلا اختیار یہ ہوتا ہے کہ وہ چیئرمین کو منتخب کرتے ہیں۔ لیکن عام طور پر چیئرمین وہی ہوتا ہے جو ریاستی حکومت کا نامزد ہوتا ہے۔ حکومت کے نمائندے کو ہی منتخب کرلیا جاتا ہے۔ حالانکہ قانون کے مطابق کوئی بھی بورڈ ممبر چیئرمین بن سکتا ہے۔ دوسرا اختیار یہ ہے کہ وقف بورڈ کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں، وہ بورڈ کی میٹنگ میں ہوتے ہیں اور ان میں ممبروں کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ ہر ریاست میں جو وقف کی جائیدادیں ہیں، اس کا تحفظ وقف بورڈ کے ممبروں کا بنیادی فرض ہے۔

سنٹرل وقف کونسل کے کام کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

سنٹرل وقف کونسل عام طور پر عوام میں معروف چیز نہیں ہے۔ ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ صوبہ میں جو وقف بورڈ ہے وہ صحیح کام کر رہا ہے یا نہیں، اس کی دیکھ ریکھ اور اس کی مدد کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن جو مسئلہ وقف بورڈ کا ہے وہی سنٹرل وقف کونسل کا بھی ہے۔ وہاں بھی سیاسی لوگ ہی ہوتے ہیں۔ کچھ اچھی اسکیمیں آجاتی ہیں لیکن ان دنوں کوئی کارکردگی یا عدم کارکردگی دونوں ہی ہمارے علم میں نہیں ہے۔

ہر بار یہ کہا جاتا ہے کہ وقف جائیدادوں کو بچانے کی ضرورت ہے، اگر یہ بچ گیا تو مسلمانوں کے ’اچھے دن‘ آ سکتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

ملک بھر میں وقف کی اتنی جائیدادیں ہیں کہ ان کو منافع بخش بنایا جائے تو ملت کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں یا اس سے پورے مسلمانوں کی معیشت سدھر جائے گی وغیرہ،، یہ جو باتیں کہی جاتی ہیں ان کو میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا ہوں۔ اوقاف کے امور میں یہ سمجھنا پڑے گا کہ کل جائیدادیں جو وقف بورڈ کی نگرانی میں ہیں وہ تمام کی تمام عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں۔ مثلاً کوئی جائیداد جو درگاہ حضرت نظام الدین کے لیے رکھی گئی ہے وہ درگاہ سے وابستہ افراد کے لیے ہے عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ اس جائیداد کا تحفظ ہونا چاہیے۔ تحفظ کا فائدہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کو ہی ہوگا۔ اصل بات جو کسی وقف میں ہوتی ہے وہ منشا وقف ہے کہ وہ کس مقصد سے وقف کی گئی ہے۔ اگر درگاہ کے لیے وقف کی گئی ہے تو درگاہ ہی کے لئے رہے گی۔ اب یہ سمجھنا کہ اس کا تحفظ ہوگا تو کاروبار بڑھ جائے گا غلط ہے۔ کاروبار کیوں بڑھے گا؟ ہاں اب وہ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس سے ہونے والی آمدنی سے اسکول قائم کریں گے، یونیورسٹی قائم کریں گے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ جائیداد اسی ادارے کے لیے وقف ہے۔ اسی طرح وقف على الاولاد ہے، یعنی وقف کرنے والے نے یہ بات لکھ دی ہے کہ یہ وقف ہماری اولاد کے لیے ہے۔ حالاں کہ تحفظ اس کا بھی ہونا چاہیے، کیوں کہ وہ بھی کسی ایک مسلمان کی ہی جائیداد ہے۔ لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس کا فائدہ وہاں کے تمام مسلمانوں کو ہوگا۔ جو جائیداد جس مقصد کے لیے ہے وہ اسی کے لیے رہے گی۔ ہاں! جو وقف رفاہ عام کے لیے ہے، اس سے آپ رفاہ عام کا کام کر سکتے ہیں۔ اس میں بھی اگر کوئی جائیداد تعلیم کے لیے وقف کی گئی ہے تو وہ تعلیم کے لیے ہی رہے گی۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منشائے وقف کیا ہے۔ رفاہ عام کے لیے وقف کی جائیدادیں بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کی مؤثر منصوبہ بندی کر کے انہیں مفید بنایا جائے تو عام مسلمانوں کی بڑی مدد ہو گی۔

وقف کے تحفظ کے لیے ملی تنظیمیں کیا کر رہی ہیں؟

یہ مسئلہ جماعتوں یا مشائخین کا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ملی مسئلہ ہے۔ پوری امت و قوم کا مسئلہ ہے اور اس کا تحفظ بھی تبھی ہو سکتا ہے جب پوری امت مل کر کام کرے۔ اب امت میں وہ جماعتیں جو زیادہ طاقتور ہیں یا جن کے ساتھ زیادہ لوگ جڑے ہوئے ہیں ان کو پیش پیش رہنا چاہیے۔ یا پھر ان سب کی کوئی مشترکہ کمیٹی بننی چاہئے جہاں سب لوگ مل کر اس ایجنڈے پر غور و فکر کریں۔ ملک بھر میں تمام مسلم جماعتوں کو اپنے مقام پر، ہر ضلع میں کوئی ایک ایسی میٹنگ رکھنی چاہیے، جس میں پہلے اس بات پر غور ہو کہ وقف جائیدادوں کو بچانے کا سنجیدہ طریقہ کیا ہوگا۔ ورنہ عام طور پر لوگ اخباروں میں بیانات دیتے ہیں۔ ان کے بیان دینے کا مقصد وقف کےتحفظ کا مسئلہ بالکل نہیں رہتا بلکہ اس مسئلہ کی بنیاد پر خود کو اخباروں میں نمایاں رکھنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ملک میں ان دنوں زیادہ ہیں۔ یہ کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ سب کو ایک پلیٹ فارم پر آ کر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی ہند نے وقف معاملے پر اب تک کیا کام کیا ہے؟

جماعت نے ابھی وقف کے محاذ پر کوئی بڑا کام نہیں کیا ہے لیکن کاموں کی ابتدا کی ہے۔ ملک بھر کے حلقوں کو ہم نے کہا ہے کہ وہ اپنے یہاں وقف سیل یا کمیٹی بناکرکام کریں۔ اس سلسلے میں ہم مختلف ماہرین کی مدد بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے پیش نظر کم از کم 100 ایکٹیوسٹ تیار کرنا ہے۔ جلد ہی اس سے متعلق قومی سطح پر ایک کانفرنس کا بھی منصوبہ ہے تاکہ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ یہ صرف ہمارے اکیلے کرنے کاکام نہیں ہے۔ اس اہم کام کو مل جل کر کرنا چاہیے۔

اوقاف کے تحفظ کے سلسلے میں ہفت روزہ دعوت کے قارئین کو آپ کیا پیغام دیں گے؟

قارئینِ ہفت روزہ دعوت سے پہلے اس کے ذمہ داروں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ وقف کی اہمیت، ضرورت اور اس کے تحفظ و اس کے مفید بنائے جانے پر معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کریں تاکہ عوام میں وقف کے تئیں  بیداری آئے۔

ہفت روزہ دعوت تو یہ کام گذشتہ چار پانچ مہینوں سے کررہی ہے۔

بہت خوشی کی بات ہے کہ ہفت روزہ دعوت کے ذریعہ اس سلسلے میں بیداری لائی جا رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ دعوت کے قارئین جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں وہ اپنی اپنی سطح پر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے کوششیں کریں۔ امید ہے کہ لوگ عملی کام پر توجہ دیں گے
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021