وقف جائیدادوں کاڈیجیٹائزىشن ،اپنامقصد کھورہا ہے۔۔!

ویب سائٹ پر غلطیوںکی بھر مار، نامکمل اور ادھوری معلومات کے اندراج کا انکشاف

افروز عالم ساحل

حکومتیں وقف سے متعلق کسی بھی کام کو کیسے منزل مقصود تک پہونچاتی ہیں اس کی ایک جھلک آپ اس کہانی میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

’وقف کمپیوٹرائزیشن‘ کا کام ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت میں شروع ہوا جس کی رفتار کافی دھیمی رہی۔ عدالت سے پھٹکار کے بعد اس کام میں تیزی آئی۔ اب مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’وقف کمپیوٹرائزیشن‘ کا یہ کام اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ لیکن اس تعلق سے لوگوں کو بہت ساری شکایتیں ہیں۔ الزام ہے کہ حکومت کے ذریعہ یہ کام محض خانہ پری کے لیے کرایا جارہا ہے، اس کام سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔  ہفت روزہ دعوت نے ایسے ہی الزامات اور شکایات کو جاننے کے لیے سب سے پہلے سنٹرل وقف کونسل سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے ذریعے سوالات پوچھے اور پھر وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کی ویب سائٹ wamsi.nic.in کی جانچ پڑتال کی۔ ساتھ ہی وقف پر کام کرنے والے درجنوں کارکنوں و ماہرین سے گفتگو کی۔

ہفت روزہ دعوت نے آرٹی آئی کے ذریعے سنٹرل وقف کونسل سے یہ سوال پوچھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں وقف املاک کی ڈیجیٹائزیشن کے سلسلے میں آپ کے دفتر کو کتنی شکایتیں موصول ہوئی ہیں؟ ان شکایتوں کی کاپیاں اور اس سے متعلق تمام دستاویزات فراہم کریں۔

ہفت روزہ دعوت کے اس سوال پر سنٹرل وقف کونسل کا واضح جواب تھا کہ ’گزشتہ پانچ سالوں میں وقف املاک کی ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔‘

لیکن ہفت روزہ دعوت نے مہاراشٹر کے شہر پونے میں رہنے والے سابق چیف انکم ٹیکس کمشنر (آئی آر ایس) اے جے خان سے بات کی تو پتہ چلا کہ سنٹرل وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت ملی اطلاع جھوٹی ہے۔  اے جے خان نے بتایا کہ میں نے وقف املاک کی ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے کئی شکایتیں الگ الگ وقف بورڈوں کو بھیجی ہیں۔ ایک شکایت میں نے سنٹرل وقف کونسل کو بھی بھیجی تھی، لیکن کونسل نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا ۔

ڈیجیٹائزیشن کے کام میں خامیاں ہی خامیاں

 اے جے خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں وقف سے وابستہ افسران اپنے آپ کو بہتر دکھانے کی کوشش میں فائدہ سے زیادہ نقصان کرتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت صرف کام کو مکمل دکھانے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن طریقہ کار میں ہی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ کام کافی کام چلاؤ طریقے سے ہوا ہے۔ اب تک جو بھی ڈیجیٹائزیشن کا کام ہوا ہے، زیادہ تر وہ ادھورا ہے۔ کسی میں جائیداد کی مالیت کی جانکاری نہیں، کسی میں جائیداد کے چوہدری کا ہی پتہ نہیں ہے۔ بہت ساری جائیدادوں کے آگے ’ٹو بی ڈیلیٹیڈ‘ لکھ دیا گیا ہے۔ اور زیادہ تر وقف جائیدادوں میں تو ان کا رقبہ ہی غائب ہے۔ دلی کے علاقے دریا گنج میں ’بچوں کا گھر‘ کافی مشہور ہے، لیکن wamsi کی ویب سائٹ پر اس کا رقبہ ہی ندارد ہے۔ اب کوئی اس کا ایک کمرہ بیچ ڈالے تو کون کیا کرے گا؟ ایسے میں تو آپ جتنی زمینیں چاہیں گے بیچ کر کھا جائیں گے۔   اے جے خان نے مزید بتایا کہ ممبئی شہر و مضافات کا وقف ریکارڈ جو wamsi کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے اس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ان تمام خامیوں کے بارے میں، میں نے کئی بار وقف بورڈ کو آگاہ کرایا ہے لیکن ان کے افسران سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ میں نے فروری 2019میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی سے بھی ملاقات کی لیکن وہاں بھی مجھے مایوسی ہوئی۔

حالانکہ اے جے خان یہ بھی مانتے ہیں کہ وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کے اس پروجیکٹ کا ہر مسلمان کو خیرمقدم کرنا چاہیے کیونکہ جیسے جیسے وقف املاک کے دستاویزات کو آن لائن پیش کیا جا رہا ہے، ان املاک کے بارے میں عوامی معلومات میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وقف املاک سے منسلک غلط اطلاعات وقف کے لیے ہی خطرناک ہو سکتی ہیں۔ ویسے بھی حکومت کی نیت زیادہ صاف نظر نہیں آتی ہے۔

208ایکڑ جائیداد کا ویب سائٹ پر کہیں ذکر نہیں

مہاراشٹرا کے نوی ممبئی علاقے کے ارن میں رہنے والے معید تونگیکر کی شکایت اس سے تھوڑی الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ارن میں ان کی وقف جائیداد 208ایکڑ کی ہے، لیکن wamsi کی ویب سائٹ پر اس کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔  وہ مزید بتاتے ہیں کہ میں نے اس تعلق  سے  ایک شکایت سنٹرل وقف کونسل کو مارچ 2019 میں بھیجی۔ میری اس شکایت پر مئی 2019 میں سنٹرل وقف کونسل نے مہاراشٹرا اسٹیٹ وقف بورڈ کو ایک خط لکھا اور اس کام کو انجام دینے کی ہدایت دی لیکن اب تک اس وقف جائیداد کی جانکاری wamsi کی ویب سائٹ پر نہیں آسکی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اس سلسلہ میں دلی میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی سے ملاقات کی۔ نقوی نے یہ یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی اس وقف جائیداد کی پوری جانکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کروادیں گے لیکن افسوس کہ اب تک یہ کام نہیں ہوسکا ہے۔

وقف املاک کی دستاویزوات کا ڈیجیٹائزیشن

 اور ان کے سروے کے سلسلے میں ایک بار پھر سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کی گئی ہے۔ یہ پی آئی ایل دلی میں رہنے والے سپریم کورٹ کے وکیل رؤف رحیم اور علی اصغر رحیم نے جنوری 2020 میں داخل کی ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے اس پی آئی ایل کے سلسلے میں جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا، لیکن ایڈووکیٹ رؤف رحیم کا کہنا تھا کہ ابھی یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ سنوائی کے بعد اس سلسلے میں تمام اطلاعات فراہم کی جائیں گی حالانکہ اس پی آئی ایل میں اہم مطالبہ یہی ہے کہ وقف املاک کی دستاویزوں کی ڈیجیٹائزیشن کے کام کی رفتار ابھی بھی کافی دھیمی ہے اور صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔

رؤف رحیم کا کہنا ہے کہ لاکھوں کروڑوں روپے کی وقف املاک کی گنتی نہ کرنے وجہ سے ان کے غلط استعمال اور بلڈرس کو غیر قانونی منتقلیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ اور کے ایم جوزف پر مشتمل سپریم کورٹ کے ڈویژن بینچ نے وزارت اقلیتی امور سمیت اسٹیٹ وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل سے جواب طلب کیا ہے۔

وقف ایکٹ 2013 کے سیکشن 4 (1A) کے تحت ہر ایک ریاست کو ایکٹ کے نفاذ کے ایک سال کے اندر سروے کرنے کے بعد وقف املاک کی فہرست برقرار رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ایکٹ کے سیکشن 4 (1) کے تحت ریاستوں کے لیے یہ امر لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ وقف سروے کمشنر کی تقرری کریں، لیکن ایڈووکیٹ رؤف رحیم کا الزام ہے کہ کسی بھی وقف بورڈ یا ریاست نے قانون سازی کی دفعات کی تعمیل نہیں کی ہے۔

ہفت روزہ دعوت کی تحقیق میں کیا پایاگیا ؟

ان شکایتوں کو جاننے کے بعد راقم الحروف نے بذات خود wamsi.nic.in ویب سائٹ پر اپنے ہی شہر کی وقف جائیدادوں کی چھان بین کی۔ اس بات پر حیرانی ہوئی اس ویب سائٹ پر صرف 14وقف جائیدادوں کی ہی جانکاری دی گئی ہے جبکہ شہر میں سیکڑوں کی تعداد میں وقف کی جائیدادیں ہیں۔ اس شہر کی مشہور مسجد جو راقم الحروف کے خاندان کے لوگوں نے وقف کی ہوئی زمین پر بنائی تھی اس کا ذکر بھی اس ویب سائٹ پر کہیں نہیں ہے۔

جب راقم الحروف نے دلی کے جامعہ نگر میں موجود وقف جائیدادوں کو دیکھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ یہاں وقف کی کوئی جائیداد ہی نہیں ہے۔ جبکہ یہاں وقف کے چار قبرستان ہیں اور اس کی جانکاری خود راقم الحروف کو آرٹی آئی کے تحت ملی تھی۔ اس جانکاری کے بنیاد پر ہی جامعہ نگر میں قبرستان کے مسئلے پر ایک مہم چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں بٹلہ ہاؤس میں ایک قبرستان یہاں کے مسلمانوں کو واپس مل سکا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وقف ڈیجیٹائزیشن کا کام مکمل ہوچکا ہے، وہیں ویب سائٹ پر موجود جائیدادوں کی فہرست میں بے شمار خامیاں نظر آرہی ہیں۔ ویب سائٹ پر اکثر وقف جائیدادوں کے رپورٹ کارڈ میں رقبے کی تفصیل موجود نہیں ہوتی۔ زیادہ تر وقف جائیدادوں کی قیمت زیرو روپے دکھائی گئی ہے۔ زیادہ تر صوبوں کے وقف جائیدادوں کی تصاویر اور جی پی ایس کے نقشے غائب ہیں۔ یہی نہیں، زیادہ تر وقف جائیدادوں میں انتہائی ضروری کالموں جیسے انتظامیہ کی تفصیلات، متولی اور اس وقف جائیداد کی موجودہ حیثیت وغیرہ کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ سینکڑوں ایکڑ رقبے کی بڑی بڑی جائیدادوں کا سروے بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ایسے میں کسی کو کیسے معلوم ہوگا کہ معلومات مکمل ہیں اور اس لیے قابل اعتماد ہیں؟

اس بنیاد پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کا یہ کام اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہ کام نہ صرف غلطیوں سے بھرا ہوا ہے بلکہ ادھورا بھی ہے۔

جی آئی ایس میپنگ کا کام بھی ہے ادھورا

وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کے متعلق تمام شکایتوں سے بے خبر اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے دعوے کافی مختلف ہیں۔

8 نومبر 2019کو کیرالا کے شہر کوچی میں منعقدہ ’جنوبی ہندوستان متولی کانفرنس‘ میں مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ ایک اہم کامیابی کے تحت پورے ملک کی وقف جائیدادوں کا 100فیصد ڈیجیٹائزیشن کا ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔ ڈیجیٹائزیشن اور جیو میپنگ سے بڑی تعداد میں گمشدہ وقف جائیدادوں کو وقف ریکارڈ کا حصہ بنانے میں مدد ملی ہے۔ کئی دہائیوں سے بڑی تعداد میں وقف جائیدادیں وقف ریکارڈ سے غائب ہوگئی تھیں، گزشتہ پانچ برسوں سے جنگی خطوط پر وقف جائیدادوں کے ڈیجیٹائزیشن کے کاموں کا نتیجہ ہے کہ ایسی وقف جائیدادوں کے کاغذات بھی درست کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وقف جائیدادوں کی 100فیصد جیو ٹیگنگ جی پی ایس میپنگ کے لیے جنگی پیمانے پر مہم شروع کردی گئی ہے تاکہ پورے ملک میں واقع وقف جائیدادوں کا سماج کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ انہوں اسی کانفرنس میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ تقریباً 24 ہزار وقف جائیدادوں کا جیو ٹیگنگ یا جی پی ایس میپنگ کا کام مکمل ہوگیا ہے۔

وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کے اس کام میں ایک اہم کام جیو ٹیگنگ یا جی پی ایس میپنگ بھی تھا۔ ہفت روزہ دعوت کی تحقیق میں پایا گیا کہ یہ کام بھی ابھی ادھورا ہے اور اس کام کے تعلق سے لوگوں میں بیداری نا کے برابر ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے اس کام میں مصروف اے ایم یو کے ایک طالب علم سے بات کی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس طالب علم نے بتایا کہ اس کام کے دوران اس نے پایا کہ اتر پردیش میں کافی وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے ہیں، خاص طور پر لکھنؤ میں یہ قبضے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں ایک جگہ وقف بورڈ کے آفس کی زمین پر ہی قبضہ کیا گیا ہے۔

اے ایم یو کے طالب علم نے مزید بتایا کہ سنٹرل وقف کونسل سے ملی وقف جائیدادوں کی فہرست کافی قدیم ہے، اس لیے کئی بار ان وقف جائیدادوں کو ڈھونڈنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ زیادہ تر مقامات پر لوگ اس کام میں کوئی خاص مدد نہیں کرتے بلکہ الٹا کئی سارے سوال کرتے ہیں۔ آپ کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیوں کر رہے ہو؟ کئی جگہ تو لوگ ہمیں تصویر لینے ہی نہیں دیتے۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کیونکہ حکومت کے اس پروجیکٹ کو کے بارے میں عام لوگوں میں کوئی بیداری نہیں ہے۔ حکومت یا وقف بورڈوں نے بھی اس سلسلے میں اپنے لوگوں کو تک بیدار نہیں کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کئی مقامات پر متولی بھی اس کام میں مدد نہیں کرتے۔ کئی متولی یا وقف جائیداد سے منسلک لوگ اس دنیا میں ہی نہیں ہیں۔ وہیں گراؤنڈ پر ہمیں بہت سے ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جن کے پاس وقف کی تمام دستاویز ہیں، لیکن ان کی وہ جائیداد  فہرست میں شامل نہیں ہے۔

اس کام میں مشکلات کے بارے میں پوچھنے پر طالب علم نے بتایا کہ سب سے مشکل بات تو یہ ہے کہ ہم جس ریاست میں جاتے ہیں وہاں کی بول چال یعنی زبان الگ ہوتی ہے۔ اب کوئی مدراس جا رہا ہے تو وہاں لوگ تمل میں بولیں گے، مہاراشٹرا میں کام کرنے کے لیے مراٹھی زبان آنی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بچوں کو وہاں بھیج دیا گیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے ڈاکٹر مسعود صدیقی نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ اس پروجیکٹ میں سنٹرل وقف کونسل کی طرف سے ابھی تک کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن ہاں! این پی آر اور این آرسی کی وجہ سے ہمیں اڑیسہ میں کافی مشکلیں پیش آئیں۔ حالانکہ کئی جگہوں پر لوگوں میں جوش بھی تھا کہ وقف کی جائیدادیں اب آن ریکارڈ آ جائیں گی۔

وقف جائیدادوں کے بارے میں پوچھنے پر وہ بتاتے ہیں کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وقف جائیدادوں پر کافی قبضے ہیں لیکن اس پورے پروجیکٹ کا یہی مقصد ہے کہ وقف کی جو چیزیں باقی بچی ہیں وہ باقی رہ جائیں ان پر اب مزید قبضے نہ ہوں۔

وزرات اقلیتی امور سے ملنے والی معلومات  کے مطابق ملک کے 32 وقف بورڈوں میں سے 28نے جی آئی ایس میپنگ کا کام شروع کردیا ہے۔ ان میں سے 15اسٹیٹ وقف بورڈ خود کی ایجنسی سے یہ کام کروا رہے ہیں۔ باقی 13 ریاستوں کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آئی آئی ٹی روڑکی کو لگایا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو چار ریاستوں مہاراشٹرا، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور چھتیس گڑھ میں جی پی ایس میپنگ کا کام ملا ہے جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اتر پردیش سمیت 6 ریاستوں میں وقف جائیدادوں کی جی پی ایس میپنگ کا کام کر رہی ہے۔ اس کام کے لیے سال 2019-20میں 17.50کروڑ روپئے مختص کیے گئے تھے اور سنٹرل وقف کونسل کو 31 دسمبر 2019 تک 11.83 کروڑ روپے کی رقم جاری کی جا چکی ہے۔

اس سے پہلے 2015میں پہلی بار آئی آئی ٹی کانپور، روڑکی اور ممبئی کے علاوہ حیدرآباد کے نیشنل ریموٹ سنسنگ سنٹر کو وقف جائیداد کی جی آئی ایس میپنگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس جی آئی ایس میپنگ کا خاص مقصد وقف بورڈ کی جائیدادوں پر غیر قانونی قبضوں کا پتہ لگانا ہے تاکہ قابضین کو ہٹانے کے لیے کارروائی کی جا سکے۔

وقف بورڈ ویب سائٹس کی نہیں ہو رہی ہیں اپڈیٹ

ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں مختار عباس نقوی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وقف املاک کی دستاویزوں کے ڈیجیٹائزیشن کا کام مکمل ہوچکا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ کئی ریاستی وقف بورڈس ایسے ہیں جن کی ویب سائٹس اس ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں اپڈیٹ ہی نہیں ہوئی ہیں۔ کئی اسٹیٹ وقف بورڈس کے پاس تو خود کی ویب سائٹ ہی نہیں ہے۔ ان میں جھارکھنڈ اور دادرا اینڈ ناگر حویلی کے نام شامل ہیں۔ وہیں آسام، انڈمان ونکوبار، آندھراپردیش، بہار شیعہ وقف بورڈ، چھتیس گڑھ، دلی، گجرات، ہماچل پردیش، لکشدیپ، منی پور، میگھالیہ، اڑیسہ، پڈوچیری، راجستھان اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے پاس wamsi کے تحت بنی ویب سائٹ تو ہے لیکن سال 2012-13کے بعد یہ ویب سائٹ کبھی بھی اپڈیٹ نہیں کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ جن ریاستوں کی ویب سائٹس ہیں ان میں دو چار ریاستوں کو چھوڑ کر باقی کی حالت کچھ بہتر نہیں ہے۔ ایسا سب کچھ ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں ہو رہا ہے۔

تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

شہر لکھنؤ میں وقف پر کام کرنے والے ایڈووکیٹ ہمایوں مرزا کا واضح طور پر کہنا ہے کہ وقف یا اس سے منسلک کوئی بھی کام تب تک کامیاب یا بہتر نہیں ہوسکتا جب تک ہماری عوام بیدار نہ ہو اور وقف کے اصل مقصد ومنشا کو نہ سمجھے۔ وہیں سابق چیف انکم ٹیکس کمشنر اے جے خان کا کہنا ہے کہ کروڑوں کے بجٹ سے ہونے والے ڈیجیٹائزیشن کے اس کام میں غلطیوں، نامکمل، ادھوری جانکاری اور جو دیگر غلطیاں ہو رہی ہیں، ان کی نشاندہی اور انہیں درست کروانے کے لیے مسلمانوں کو ہی آگے آنا ہوگا اور ہر ریاست کے سرگرم مسلمانوں کو وقف کے اس کام پر نظر رکھنا ہوگا۔ جو معلومات ادھوری یا غلط اپ لوڈ ہو رہی ہیں ان کے متعلق ریاستی وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل کےذمہ داروں سے رابطہ قائم کرنا ہوگا اور ویب سائٹ پر ادھوری یا غلط معلومات کو درست کروانا ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ بہت ہی اہم کام ہیں۔ اور اگر ابھی ان کاموں پر توجہ نہیں دی گئیں تو ہماری آنے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وہ مزید کہتے ہیں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وقف املاک قوم، قوم کے غربا اور مستحقین کی امانت ہیں، اگر ان املاک کو ملت کےلیے استعمال میں لایا جائے، تو پھر یقیناً قوم کے زیادہ تر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

کیا ہے وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا؟

23 اکتوبر 2008کو وقف پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے پارلیمنٹ کو اپنی 9ویں رپورٹ سونپی تھی جس میں دیگر سفارشات کے علاوہ 25کروڑ روپے کے مصارف سے اسٹیٹ وقف بورڈ کے ریکارڈ کے ڈیجیٹائزیشن کی سفارش کی گئی۔ ڈیجیٹائزیشن سے متعلق اس سفارش کو حکومت ہند کی طرف سے منظورکیا گیا تھا ساتھ ہی حکومت ہند کی طرف سے سال 2009-10میں 10کروڑ روپے کی ایک ابتدائی ٹوکن رقم بھی منظور کی گئی تھی۔ وقف بورڈ کے ریکارڈ کے ڈیجیٹائزیشن کے اس پروجکٹ کے مقاصد میں درج ذیل امور شامل ہیں:

         *       وقف پراپرٹی کے رجسٹریشن کا انتظام

         *        ستعمال میں لائے جانے والے وقف پراپرٹی کے سالانہ ریٹرن داخل کا انتظام

         *        وقف بورڈ کے براہ راست انتظام کے تحت وقف جائیدادوں کی لیز میں شفافیت

         *        مقدمہ (اندرونی و بیرونی معزز عدالتوں) کی ٹریکنگ مینجمنٹ

         *        وقف پراپرٹی کی ملکیت قائم دستاویز دیکھنے اور حاصل کرنے کے انتظامات

         *        وقف جائیدادوں کی تصویر کے ساتھ جی پی ایس سروے

         *       مساجد، درگاہ، قبرستان، اماموں، مؤذنوں، بیواؤں اور غریب لڑکیوں کی شادی کے

             لیے فنڈ کا انتظام

         *        اسکالر شپ، اسکول، اسپتال، مسافرخانہ، مہارت ترقی مراکز، وغیرہ کا قیام

         *        شہری وقف کی ترقی کے لیے قرض کا انتظام

کہاں تک پہنچا ہے ڈیجیٹائزیشن کا کام؟

 سال 2009کے آخر میں وقف بورڈ کے کمپیوٹرائزیشن اور وقف املاک کے ڈیجیٹائزیشن کا کام شروع ہوا، لیکن اس کام کی رفتار تھوڑی دھیمی رہی۔ اس دھیمی رفتار سے ناخوش ہو کر ایک سماجی تنظیم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ستمبر 2013میں سپریم کورٹ نے ملک کے تمام وقف بورڈوں کو پھٹکار لگائی اور طے شدہ وقت پر اپنے ریکارڈوں کی کمپیوٹرائزیشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی۔

سپریم کورٹ کے پھٹکار کا اثر یہ ہوا کہ 31دسمبر 2013تک وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا میں 2,09,615وقف املاک ویب سائٹ پر نظر آنے لگیں۔ وہیں سال 2014 کے 31 مارچ تک 2,98,302 وقف املاک ویب سائٹ پر درج ہو چکے تھے۔ اس کے بعد اقتدار میں چہرے بدل گئے اور کام کی رفتار وہیں کی وہیں رہی۔ wamsi کی ویب سائٹ پر موجود جانکاری بتاتی ہے کہ 31اگست 2020تک 6,76,816 وقف املاک کا ڈیجیٹائزیشن کیا جا چکا ہے۔