وائرل بیماریوں سے جنگ کے لیے اسلام اسلحہ فراہم کرتا ہے:ڈاکٹر جاوید جمیل
بڑی طاقتیں معاشی فائدوں کی خاطر زندگی وصحت کی تباہی کے درپے
محمد طارق
کورونا کی وبا نے پھر سے وائرس کے ذریعہ انسانی جان کو لاحق خطرات کو منظرعام پر لا دیا ہے۔ معروف اسکالر اور ینپویا یونیورسٹی میں صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر جاوید جمیل نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا کو مختلف اقسام کے وائرسوں سے ایک طویل مدتی خطرہ لاحق ہے اور اگر عالمی سطح پر مختلف طریقوں کے بارے میں اسلامی رہنما خطوط پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا تو یہ وائرس لاکھوں افراد کے بیمار ہونے کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ امریکی سائٹ اکیڈمی پر شائع کردہ ’’وائرل بیماریوں کے خلاف طویل المیعاد جنگ – اسلام کارگر ہتھیار فراہم کرتا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالے میں انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں زیادہ تر مہلک وائرس اسلام کے ممنوعہ طریقوں میں ملوث ہونے یا اس کے تائیدی طریقوں پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں پھیل چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ صدی میں یا اس کے آس پاس کے وائرسوں کی وجہ سے ہونے والی زندگی کی تباہی کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔ ان کے مطابق ابھی تک کورونا وائرس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ حالیہ ماضی میں زیادہ تر مہلک وائرل بیماریوں کا پھیلاو سور اور کتوں کو خوراک بنانے اور جنسی بدکاریوں خصوصاً ہم جنس پرستی، بدکاری اور جسم فروشی کے ذریعے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بتاتے ہیں کہ شراب نوشی نے بیماریوں کے پھیلاو میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ وائرس کی وجہ سے ہونے والے سب سے بڑے قاتلوں میں سوائن فلو، ایچ آئی وی/ایڈز، ریبیز، ہیومن پیپیلوما وائرس کی وجہ سے ہونے والا سروکس کینسر اور ہیپاٹائٹس بی شامل ہیں۔ انہوں نے ڈبلیو ایچ او اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے حوالے سے انسانی جان کو پہنچنے والے نقصان کو اجاگر کیا ہے۔ کچھ نتائج ہیں جن کا انہوں نے حوالہ دیا مندرجہ ذیل ہیں :
1- سن 1918 کی سوائن فلو کی وبائی بیماری کے دوران، دنیا بھر میں تقریبا 20 فیصد سے 40 فیصد آبادی بیمار ہوگئی اور ایک اندازے کے مطابق 5 کروڑ افراد فوت ہوگئے۔ صرف امریکہ میں ہی قریب 675،000 افراد ہلاک ہوئے۔ اگرچہ 1957 کا وبائی مرض اتنا تباہ کن نہیں تھا جتنا 1918 کا لیکن امریکہ میں تقریباً69,800 افراد فوت ہوگئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی مالی اعانت سے انجام دیے گئے ایک نئے مطالعے کے مطابق 2009 میں H1N1 "سوائن فلو” وبائی مرض کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 203,000 افراد فلو اور سانس کی پریشانیوں سے فوت ہوگئے۔ ہارٹ فیلیر اور فلو کے دوسرے ثانوی نتائج سے ہونے والی اموات نے مجموعی طور پر ہلاکتوں کو 4,00,000 تک پہنچا دیا۔
2- وبا کی ابتدا کے بعد سے 7کروڑ لوگ HIV / AIDS کا شکار ہوچکے ہیں۔ مہاماری کے آغاز سے ایڈز سے ساڑھے تین کروڑ افراد مر چکے ہیں۔
جدید دنیا میں معاشیات پر پڑنے والے اثرات کے مطابق کسی کام یا رواج کی ترویج کی جاتی ہے لیکن اسلام میں صحت کے اثرات کے مطابق اچھی چیزوں کو فروغ دیا جاتا ہے اور جو بری چیزیں ہیں ان سے یا تو واضح طور پر منع کیا جاتا ہے یا حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
– کتے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی ریبیز نے ماضی میں لاکھوں افراد کو ہلاک کیا۔ یہاں تک کہ اب تک کتوں اور انسانوں کی ویکسینیشن پر بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ڈبلیو ایچ او کے مطابق ریبیز کا عالمی بوجھ ایک سال میں 60000 اموات ہے۔ صرف ہندوستان میں 20000 سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
– ہیومن پیپیلوما وائرس نے بھی لاکھوں افراد خاص طور پر خواتین کو ہلاک کیا ہے۔ صرف 2018 میں سروائیکل کینسر کے 570،000 واقعات پیش آئے ہیں جن میں 300,000سے زیادہ اموات ہوئیں۔
– ہیپاٹائٹس بی میں بھی لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف 2015 میں ہیپاٹائٹس بی کے نتیجے میں 9لاکھ کے اس پاس اموات ہوئیں زیادہ تر اموات سروسیس اور جگر کے کینسر سےہوئیں۔
سوائن فلو اور ریبیز جانوروں (سور اور کتے) سے رابطوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ، HIB ، HPV اور ہیپاٹائٹس بی کا جنسی بے رہ روی بالخصوص ہم جنس پرستی اور جسم فروشی سے براہ راست تعلق ہے۔ اس کے علاوہ شراب ایچ آئی وی اور ایچ پی وی کے پھیلاو میں بھی انتہائی منفی کردار ادا کرتی ہے۔راقم نے مختلف اسلامی رہنما خطوط مرتب کیے ہیں جو ان بیماریوں اور انسانوں کے مابین ایک بڑی دیوار بن جاتے ہیں۔ اسلام نے غیر معمولی حفظان صحت کے اقدامات کے علاوہ (جو روزانہ نماز اور جنسی پاکی کے حفظان صحت کی غیر معمولی دیکھ بھال کے لیے بے دن میں کم سے کم 5 مرتبہ کھلے ہوئے اعضاء دھونا بھی شامل ہے) شراب، منشیات اور سور کے گوشت پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ گھروں اور رہائشی علاقوں میں کتوں کو رکھنے کے خلاف انتباہ دیا اور مرد اور عورت کے مابین شادی سے باہر کسی بھی جنسی رشتے مکمل طور پر حرام قرار دیے گئے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم جنس پرستی، جسم فروشی اور بدکاری پر مکمل پابندی ہے۔ اس کے علاوہ احادیث رسول وبائی امراض کے دوران الگ تھلگ رہنے (quarantine) اقدامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صرف صحت مند کچھ مخصوص جانوروں کے گوشت کی اجازت ہے اور جنگلی جانوروں کے ذریعہ جانوروں کے شکار کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ایچ آئ وی، ایچ پی وی اور ہیپاٹائٹس بی سمیت وائرل انفیکشن کے خلاف ختنہ ایک انتہائی حفاظتی کردار ادا کرتا ہے لہذا اسے بین الاقوامی سطح پر مقبول بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر عالمی سطح پر ان اقدامات کو قانونی اور معاشرتی اقدامات کے ذریعے بروئے کار لایا گیا تو زیادہ تر انفیکشن خصوصا وائرس سے ہونے والی اموات اور بیماریوں میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔ لیکن انہیں خدشہ ہے کہ یہ عالمی برادری مارکیٹ معاشیات کے غلبے کی وجہ سے یہ اقدامات نہیں اٹھائے گی۔ اس کا آخری پیراگراف پیش کرنے کے قابل ہے: ’’جدید دنیا میں معاشیات پر پڑنے والے اثرات کے مطابق کسی کام یا رواج کی ترویج کی جاتی ہے لیکن اسلام میں صحت کے اثرات کے مطابق اچھی چیزوں کو فروغ دیا جاتا ہے اور جو بری چیزیں ہیں ان سے یا تو واضح طور پر منع کیا جاتا ہے یا حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ لیکن ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ موجودہ دنیا پہلے مسائل کی وجوہات کو کمرشل بناتی ہے اور پھر حل کو تجارتی بناتی ہے۔ جنس، شراب، کتے، خنزیر – یہ سب بڑی صنعتیں ہیں اور ان کے حل بشمول ویکسین اور انتظام بھی بڑی صنعتیں ہیں۔ پھر وہ ایسے اقدامات کیوں کرے گی جو مارکیٹ کی معیشت کو خطرے میں ڈالنے والی ہیں؟