ام غانم،پاکستان
’’میں نے زندگی بھر مذہب کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ میری پرورش کسی بہت مذہبی گھرانے میں نہیں ہوئی تھی۔ اگر کبھی کوئی فارم بھرنا ہوتا تو ہم چرچ آف انگلینڈ لکھتے تھے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم چرچ صرف اسی وقت جاتے تھے جب ہمیں شادیوں پہ یا جنازوں اور بپتسمہ کی تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔80 کی دہائی کے تمام بچوں کی طرح ہم بھی اسکول میں کچھ آیات بائبل پڑھتے تھے اور اسمبلی میں انہیں گاتے تھے۔ مجموعی طور پر میں نے ایک خوش گوار بچپن گزارا تھا۔ جب میں ٹین ایجر تھی تو کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ ایسے مسائل نہ تھے کہ مجھے زندگی سے بیزار کر دیتے یا مجھے میرے راستے سے بھٹکا دیتے۔
اٹھارہ سال کی عمر میں مَیں نے یونیورسٹی جانے کے لیے گھر چھوڑا اورجیسا کہ بہت سے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کرتے ہیں میں نے بھی اس عرصے سے لطف اٹھایا اور مزے کیے اور مذہب کبھی بھی میری زندگی کا عنصر نہیں رہا۔ بیس سال تک میں نے یونہی زندگی گزاری۔ اگر میں اپنی اس زندگی کو بیان کرنا چاہوں تو میں کہوں گی کہ میں لاادری ( متذبذب) تھی۔ میرا یہ ماننا تھا کہ کوئی طاقت ہے اور جب ہم مریں گے تو ہمارے ساتھ کچھ نہ کچھ ہو گا۔ لیکن کیا ہو گا اس کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا۔
جب میں یونیورسٹی میں تھی تو چار سال تک لندن میں رہی۔ زندگی بے حد خوبصورت تھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ ویک اینڈز پہ خوب مزے کرتی تھی تین سال تک ایسے ہی چلتا رہا۔ ہم پورا ہفتہ سخت محنت کرتے اور ویک اینڈزپر پب اور کلبز جاتے۔ اسی دوران بہت سے ایسے موڑ آئے جنہوں نے میری زندگی کا رخ بدل دیا مگر میں نے بہت عرصے تک ان پر دھیان ہی نہ دیا۔ مجھے یاد ہے ایک ایسٹر پہ میں اپنے والدین کے گھر گئی تو میں نے اپنی مام کے ساتھ ایک فلم دیکھی۔’’دا پیشن آف کرائسٹ‘‘ میں بہت مذہبی تو نہ تھی مگر اس فلم کے ریویوز بہت اچھے تھے اسی لیے ہم اسے دیکھنا چاہتے تھے۔
اس کے علاوہ ایسٹر کی کہانی بچپن ہی سے ہمیں ذہن نشین کروائی جاتی تھی۔ سو یہ مذہب سے متعلق تھی یا نہیں، ہمیں اس کا اچھی طرح سے علم تھا۔ مجھے یاد ہے فلم دیکھنے کے بعد میں اور میری مام باتیں کر رہے تھےکہ میں نے ان سے کہا:
’’مجھے یہ یقین نہیں آتا کہ جیزس اللہ کے بیٹے ہیں ۔مجھے یہ تو پتہ ہے کہ وہ اہم ہیں لیکن مجھے یہ نہیں لگتا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں ۔‘‘
ہم نے اس کے متعلق بات کی اور یہ بھی کہ مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوگا ۔مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا۔
’’میرا خیال ہے ہم جو کچھ بھی اس دنیا میں کرتے ہیں اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم مرنے کے بعد کہاں جائیں گے۔‘‘
اگرچہ مجھے اس وقت تک اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔جلد ہی مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ زندگی اس سے بڑھ کے کچھ ہے کہ کام کریں، ہر ویک اینڈ پہ پارٹیز میں جائیں اور پھر ہفتہ بھر گزارے لائق پیسے بھی نہ بچیں۔
انہی دنوں میں میں نے لندن کے ایک آفس میں جاب شروع کی تھی جس کی ایک برانچ قاہرہ میں بھی تھی۔ اس دوران ہم ان مصریوں کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے جو ہمارے ساتھ کام کر رہے تھے اور میسینجر پہ بات چیت کرتے رہتے تھے۔ مجھے جاب کرتے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک کسٹمر کو کچھ مسئلہ درپیش ہو گیا اور مجھے مصر میں کوئی ایسا شخص نہیں مل رہا تھا جو قاہرہ میں میری مدد کرتا اور جب ایک شخص ملا تو اس نے بتایا کہ وہ رمضان میں مصروف تھا۔
مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ رمضان کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کے بارے میں لاتعداد سوالات کرنے شروع کر دئیے۔اور جب اس نے مجھے بتایا کہ مسلمان سحر سے مغرب تک کچھ کھاتے پیتے نہیں تو میں نے سوچا مسلمان یقیناً پاگل ہیں۔ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ اگلا رمضان میرا پہلا رمضان ہو گا۔سبحان اللہ !
اس کے بعد میں نے اسلام کے بارے میں اور زیادہ سوالات شروع کر دیے اور مجھے یہ علم ہوا کہ میں اسلام کے بارے میں جو کچھ بھی جانتی تھی وہ سب کچھ خبروں سے جانا تھا اور وہ تصور تھا جو میڈیا نے پیش کیا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سب یکطرفہ اور متعصبانہ تھا۔ لہذا میں نے خصوصاً ایسے سوالات کرنے شروع کر دیے جو ہمارے دماغوں میں مسلمانوں کے بارے میں ڈالے گئے تھے۔
’’آپ لوگ اپنی عورتوں کو کیوں دبا کر رکھتے ہیں؟ عورتوں کو مردوں کے پیچھے کیوں چلنا پڑتا ہے؟ عورتوں کو اپنا سر کیوں ڈھانپنا پڑتا ہے؟ وہ وہ سب کچھ کیوں نہیں پہن سکتیں جو انہیں پسند ہو؟‘‘
مجھے یقین ہے مسلمان ان سوالات سے بہت بیزار ہوتے ہونگے لیکن یہ وہ سوالات تھے جو میرے ذہن میں اٹھتے تھے۔ مجھے کچھ کتب پڑھنے کے متعلق بتایا گیا جن سے مجھے اسلام کو جاننے میں مدد ملتی۔ چنانچہ میں نے اسلام کے متعلق مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا۔
میں نے کتب پڑھنی شروع کیں لیکن کچھ بھی ایسا نہ پایا جو مجھے اپنا مذہب چھوڑنے پر آمادہ کرتا۔ میں اسلام سے واقف ہوتی گئی اور محسوس کیا کہ اس میں بہت سی چیزوں کی منطقی وضاحت تھی۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ لوگ اس کو کتنا غلط سمجھتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی کچھ تھا جو مجھے روکے ہوئے تھا۔ مثلاً مجھے ابھی بھی یقین نہیں تھا کہ مسلمان عورتیں اتنی ہی آزاد ہیں جتنا کہ کتابوں میں دعویٰ کیا جارہا تھا۔ سر پہ کچھ پہننے کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ یہ وہ مسئلہ تھا جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی مجھے کشمکش میں مبتلا کیے ہوئے تھا مگر یہ ایک الگ کہانی ہے۔
سب سے زیادہ متاثر کن کتاب تھی ڈاکٹر میورس بیوکائل کی ’’ دا قرآن اینڈ ماڈرن سائنس‘‘ تھی۔ مجھے اس وقت تک یقین نہیں آیا کہ یہ ایک سچا مذہب ہے جب تک کہ میں نے ایمبرولوجی کا پورا باب نہیں پڑھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو 1400 سال پہلے پیدا ہوا تھا اسے یہ تفصیلات پتہ ہوں کہ ایمبریو کیسا دکھتا ہے؟ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور تب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ ایک سچا مذہب ہے اللہ کا کلام ہے۔
مستقبل میں مجھ پہ یہ انکشاف بھی ہوا کہ میرے موت سے متعلق عقائد مسلم عقیدے سے ملتے جلتے تھے اسی لیے مجھے اس کی سمجھ آرہی تھی۔ کوئی برا شخص محض اس لیے جنت میں جا سکتا ہے کیونکہ جیزسس ان کے گناہوں کی وجہ سے وفات پا گئے تھے؟۔ چنانچہ اگر میں ایک اچھی انسان ہوں تو میرا اور کسی برے شخص کا اجر برابر ہو گا؟ مجھے یہ کبھی بھی درست نہیں لگا۔
20 مئی 2005 کو میں نے قاہرہ میں موجود ایک مسلمان ساتھی کے ساتھ فون پر اسلام قبول کیا۔ مجھے اپنے اس فیصلے پربہت خوشی تھی مگر میں نے کسی کو بتایا نہیں۔ ایک سال تک صرف چند لوگ ہی اس سے واقف تھے۔ میں نے خود سے ہی نمازپڑھنی سیکھی۔ اس دور میں اتنی ایپس نہیں تھیں اسی وجہ سے مجھے اس کا طریقہ اور الفاظ پرنٹ کرنے پڑتے تھے۔ میں اپنا پہلا رمضان پورا نہیں کر سکی کیونکہ میں اکیلی تھی اور مجھے اس کا تصور سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
اسلام قبول کرنے کے ایک سال بعد میں نے اپنےایک ساتھی سے شادی کر لی جو مجھے قاہرہ میں ملا تھا۔ یہ وہ شخص نہیں تھاجس کے ذریعے میں نے اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن شادی کے بعد وہ میری مستحکم پناہ گاہ بنا اور مجھے بہت سی ایسی چیزوں سے بچایا جن کا سامنا کسی نو مسلم کو کرنا پڑتا ہے۔ بیشک یہ صرف اللہ کی ہدایت تھی کہ میں اسلام کے رستے پہ قائم رہی۔ لیکن میرے شوہر ہمیشہ ہر قدم پہ میرے ساتھ تھے اور جب کبھی میں بھٹکنے لگتی وہ مجھے واپس لاتے اورمیرے سوالات کےجوابات دیتے تھے۔ وہ میرے ایمان کے اس سفر کے اتار چڑھاو میں استحکام کی چٹان ثابت ہوئے۔
ان کے خاندان نے بھی نہ صرف مجھے گلے لگایا بلکہ یہ بھی دکھایا کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ اللہ تعالٰی نے مجھے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگرچہ یہ ایک آسان سفر نہ تھا، اور میرے ذہن میں ابھی بھی بہت سے معاملات کے متعلق سوالات ہیں جن کےجوابات میں اب تک ڈھونڈ رہی ہوں۔ میں کسی کی بتائی ہوئی باتوں پہ یقین نہیں کرتی جب تک کہ خود کتابوں میں نہ پڑھ لوں۔
کچھ نو مسلم بہت مشکلات کا سامنا کرتے ہیں مگر اللہ کا شکر ہے میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے کوئی مسئلہ ہی نہیں پیش آیا۔ لیکن اللہ کی مہربانی سے میرے خاندان نے مجھے نہیں چھوڑا۔ کیونکہ وہ مجھے ابھی بھی اپنی نیکولا سمجھتے ہیں ہم سب خوش ہیں ۔
اسلام ایک خوبصورت مذہب ہے۔ میڈیا اور کچھ مسلمانوں نے اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔مجھے اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ کیونکہ میں نے کچھ ایسا پایا ہے جس نے مجھے زندگی کا مقصد عطا کیا ہے۔ یہی اسلام کی سچائی اور خوبصورتی ہے۔‘‘
***
سب سے زیادہ متاثر کن کتاب تھی ڈاکٹر میورس بیوکائل کی ’’ دا قرآن اینڈ ماڈرن سائنس‘‘ تھی۔ مجھے اس وقت تک یقین نہیں آیا کہ یہ ایک سچا مذہب ہے جب تک کہ میں نے ایمبرولوجی کا پورا باب نہیں پڑھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو 1400 سال پہلے پیدا ہوا تھا اسے یہ تفصیلات پتہ ہوں کہ ایمبریو کیسا دکھتا ہے؟ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور تب مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ ایک سچا مذہب ہے اللہ کا کلام ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 مئی 2022