اردو صحافت کے 200 سال:کیا کھویا اور کیا پایا؟

نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگی اور پیشہ واریت کی کمی انحطاط کا سبب

افروز عالم ساحل

اردو صحافت آج اپنے دو سو سالہ وجود کا جشن منا رہی ہے، لیکن جشن کے اس ماحول میں یہ تشخیص بھی ضروری ہے کہ ان دو سو برسوں میں اردو صحافت کہاں تک پہنچ سکی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اردو صحافت کی عظیم وراثت آج کی تاریخ میں ماضی کی سنہری یادوں کا گلدستہ بن کر رہ گئی ہو؟

اردو پبلیکیشنز کا سرکولیشن کیا ہے؟

حکومت ہند کے آفس آف رجسٹرار آف نیوز پیپرس فار انڈیا (آر این آئی) کے مطابق ملک میں اردو اخباروں کے اشاعت اور ان کے سرکولیشن کے اعداد و شمار میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ آر این آئی کے مطابق سال 2013-14 میں ملک میں اردو پبلیکیشنز نے سرکولیشن 3,45,85,404 کاپیوں کے ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ سال 2014-15 میں سرکولیشن کے یہ اعداد و شمار بڑھ کر 4,12,73,949 ہو گئے یعنی اردو پبلیکیشنز کے سرکولیشن میں 19.34 فیصد کا اضافہ ہوا۔

سال 2015-16 میں 5,17,75,006 کاپیوں کے سرکولیشن کا دعویٰ کیا گیا یعنی گزشتہ سال کے مقابلے 25.44% کا اضافہ درج ہوا۔ لیکن سال 2016-17 میں سرکولیشن کا یہ دعویٰ 3,24,27,005 کاپیوں پر سمٹ گیا، یعنی سرکولیشن میں اچانک سے 37.36 فیصد کی کمی درج کی گئی۔ وہیں اب آر این آئی کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2020-21 میں سرکولیشن کا یہ دعویٰ 2,61,14,412 کاپیوں تک پہنچ چکا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سال 2016-17 میں ایسا کیا ہوا کہ اردو پبلیکیشنز کے سرکولیشن میں اچانک 37.36 فیصد کی گراوٹ آگئی؟ دراصل سال 2016 میں حکومت نے نئی ‘پرنٹ میڈیا ایڈورٹائزمنٹ پالیسی’ جاری کی۔ یہ پالیسی سرکاری اشتہارات کے اجراء میں مزید شفافیت اور جواب دہی لانے کی کوشش کے تحت تھی اور ڈی اے وی پی کی فہرست میں شامل اشاعتوں کے لیے مارکنگ سسٹم متعارف کرا رہی تھی۔ ملک میں پہلی بار اخبارات کے لیے مارکٹنگ کا نیا نظام پیش کیا گیا تھا اور یہ نظام آڈٹ بیورو آف سرکولیشن یا آر این آئی سے سرکولیشن کی تصدیق کی بات کرتی ہے۔ یہ پالیسی یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اگر آپ نے اپنے اخبار کا سرکولیشن 45,000 کاپیوں سے زیادہ بتایا ہے تو اس کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا قانونی آڈیٹر سرٹیفکیٹ یا آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کا سرٹیفکیٹ لازمی ہے۔

اس نئے نظام سے زیادہ تر وہ اخبار نکالنے والے مالکین پریشان ہو گئے جو اب تک اپنے اخباروں کی فائل کاپیاں نکال رہے تھے۔ اس میں سب سے زیادہ پریشان اردو والے ہی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ایک اخبار کے ایڈیٹر صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ حکومت نے اشتہارات دینے میں تقریباً دس فیصد تک کمی کر دی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اس سلسلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ کیا آر ٹی آئی سے کچھ ہو سکتا ہے؟ تب میں نے انہیں کہا تھا کہ آر ٹی آئی سے کسی بھی طرح کی انفارمیشن مانگی جا سکتی ہے۔ آپ حکومت سے کیا انفارمیشن طلب کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی تمام اردو اخباروں کے مدیران کی ایک میٹنگ بلانے والے ہیں اور مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔ حالانکہ میں اس میٹنگ میں شرکت کر نہیں سکا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ تمام مدیران کی ایک ٹیم حکومت ہند کے ایک وزیر اور ڈائریکٹوریٹ آف ایڈورٹائزنگ اینڈ ویژول پبلسٹی (ڈی اے وی پی) کے افسروں سے ملاقات کے لیے گئی تھی۔ یہ پوچھنے پر کہ اس ملاقات میں کیا ہوا؟ اس پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ’ہونا کیا ہے، ہم سب نے حکومت کو یہ بھروسہ دیا ہے کہ آپ جو چاہیں گے ہمارے اخبارات میں وہی شائع ہو گا۔‘ اس کے بعد سے ہی میں نے محسوس کیا کہ اردو اخبارات میں حکومت کے خلاف اس طرح کی چیزیں شائع ہونی بند ہو گئیں جو اب تک بڑی آسانی سے شائع ہو رہی تھیں۔

کیا دیگر زبانوں کے اخبار بھی متاثر ہوئے؟

ہفت روزہ دعوت نے آر این آئی کے اعداد و شمار کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا ’پرنٹ میڈیا ایڈورٹائزمنٹ پالیسی — 2016‘ کا اثر صرف اردو زبان پر ہی پڑا یا دیگر زبانوں پر بھی اس پالیسی کا کچھ اثر ہوا؟

آر این آئی کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013-14 میں ملک میں ہندی پبلیکیشنز نے اپنا سرکولیشن 22,64,75,517 بتایا تھا۔ سال 2014-15 میں 25,77,61,985 اور سال 2015-16 میں 31,44,55,106 کاپیوں کے سرکولیشن کا دعویٰ کیا گیا۔ لیکن سال 2016-17 میں ہندی پبلیکیشنز کا سرکولیشن گھٹ کر 23,89,75,773 ہوگیا۔ یعنی حکومت کی پالیسی کا اثر ہندی پبلیکیشنز پر بھی پڑا۔ اب سال 2020-21 میں ان کا سرکولیشن 18,93,96,236 ہے۔

جہاں تک انگریزی اخبارات کا تعلق ہے حکومت کی پالیسی کا اثر ان پر کچھ زیادہ نظر آتا ہے۔ سال 2013-14 میں ملک میں انگریزی پبلیکیشنز 6,44,05,643 کاپیوں کے ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ سال 2014-15 میں 6,26,62,670 تو سال 2015-16 میں 6,54,13,443 کاپیوں کا سرکولیشن رہا۔ سال 2016-17 میں انگریزی پبلیکیشنز کا سرکولیشن گھٹ کر 5,65,77,000 ہو گیا۔ لیکن اب سال 2020-21 میں ان کا سرکولیشن 3,49,27,239 رہ گیا ہے۔

وہیں اگر ملک کے تمام زبانوں کے پبلی کیشنز کو ملا کر بات کی جائے تو سال 2013-14 میں 45,05,86,212 کاپیوں کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ سال 2014-15 میں 51,05,21,445 تو سال 2015-16 میں 61,02,38,581 کاپیوں کا سرکولیشن رہا۔ سال 2016-17 میں سرکولیشن گھٹ کر 48,80,89,490 ہو گیا۔ اب سال 2020-21 میں تمام زبانوں کے پبلیکیشنز کا سرکولیشن محض 38,64,82,373 رہ گیا ہے۔

اردو صحافت کی تجارت کیسے بڑھے گی؟

اخباروں کو اشتہارات کم کرنے کی پالیسی صرف حکومت ہند نے ہی نہیں اپنائی ہے، بلکہ سال 2019 میں پاکستان نے تو وہاں کے میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہارات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا بزنس ماڈل تشکیل دینے کا ’مشورہ‘ دیا ہے۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ وہاں کے کچھ اردو اخبارات اپنا بزنس ماڈل بنا کر صحافتی میدان میں بخوبی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہزاروں ڈمی اخبارات وہاں بھی موجود ہیں اور ان کا دعویٰ 50 ہزار سے 1 لاکھ سرکولیشن کا ہے، لیکن وہاں کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ان اخباروں کی کاپیاں محض انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں اردو اخباروں کا اچھا خاصا کاروبار موجود ہے۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے دینک جاگرن گروپ کے مارکیٹنگ ٹیم سے جڑے طارق اقبال سے جو خاص طور پر ’انقلاب‘ کے مارکیٹنگ کا کام دیکھ رہے ہیں، سوال کیا کہ اردو اخبار اپنا خود کا کاروبار کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ جواب میں انہوں کہا کہ اردو اخبارات نے آج تک مدرسوں، مولویوں، مسلم محلوں اور مسلم اداروں سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کی۔ جب بھی کبھی اردو میں بزنس یا اشتہار کی بات آتی ہے تو یہ اقلیتی ادارے تلاش کرتے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ اردو اخباروں کو خریدنے اور پڑھنے والے یہی لوگ ہیں۔ لیکن میں جب کسی سے بات کرتا ہوں اور سامنے والا کہتا ہے کہ میں اردو اخبار نہیں پڑھتا اور نہ ہی مجھے اردو آتی ہے، تب میرا جواب ہوتا ہے کہ ملک میں پانچ کروڑ سے زائد اردو جاننے والے لوگ ہیں اور آپ اتنی بڑی مارکیٹ سے کیوں محروم رہنا چاہتے ہیں۔ میری ان باتوں کے بعد وہ ہمارے اخبار کو اشتہار دینے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ایک کمپنی کے پاس جو ’چیون پراش‘ بناتی ہے، اشتہار مانگنے کے لیے گئے۔ پہلے انہوں نے ہماری بات پر توجہ نہیں دی، لیکن جب انہیں بتایا کہ اردو اخبار پڑھنے والے معاشی طور پر کمزور ہیں، اس لیے انہیں آپ کے ’چیون پراش‘ کی زیادہ ضرورت ہے، اردو اخباروں میں اشتہار آنے کے بعد آپ کا بزنس کافی بڑھ سکتا ہے۔ یہ سمجھانے پرانہوں نے ہماری باتوں میں دلچسپی لی اور ہمیں اپنا اشتہار دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ اسی طرح اس ملک میں ہارلیکس تو سبھی پیتے ہیں اردو اخبار پڑھنے والوں کے بچے بھی پیتے ہیں۔ ایئرٹیل کا سِم تو اردو اخبار پڑھنے والا بھی استعمال کرتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر اردو اخبار کے لوگ امبانی، اڈانی یا ان جیسی کمپنیوں کے پاس بھی جائیں تو ان کا اشتہار بھی مل سکتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر اس بار رمضان کے مہینے سے ہلدی رام سوئیاں اور لچھا سیوئی بھی بنانے لگا ہے۔ اس کی مارکیٹ پوری طرح سے مسلمانوں کے لیے ہے۔ اب اس پروڈکٹ کا اشتہار اردو اخباروں کو ملنا چاہیے تھا لیکن اردو کے راشٹریہ سہارا کو چھوڑ کر کسی بھی اردو اخبار کو نہیں ملا۔ جبکہ ہندی و انگریزی اخباروں میں ان کا اشتہار خوب نظر آیا۔ میرا اندازہ ہے کہ کوئی بھی اردو اخبار کی مارکٹنگ ٹیم سے کوئی ایکزیکیٹیو ان کے پاس پہنچا ہی نہیں۔

ایک طویل گفتگو میں طارق اقبال نے کہا کہ آج سے قریب دس سال پہلے ایک بار ’پاکیزہ آنچل‘ کے مالکین کو کال کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کا ’مہکتا آنچل‘ یا ’پاکیزہ آنچل‘ ملک میں کافی مشہور ہے۔ کیوں نہیں آپ ان کمپنوں سے اشتہار مانگتے ہیں جو عورتوں کے لیے بیوٹی پروڈکٹس بناتی ہیں۔ لیکن کیا کریں، وہ ’نسرینہ‘ کے اشتہار تک ہی محدود رہنا چاہتے تھے، انہیں لوریئل یا لیکمے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لیے میری باتوں میں بھی انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اردو اخبارات کے مالکین مارکیٹنگ کے نظریے سے سوچتے ہی نہیں ہیں۔ وہ اس لیے بھی نہیں سوچتے کیونکہ ان کے پاس مارکیٹنگ کے لیے پروفیشنل ٹیم بھی نہیں ہے۔ یہ اپنے رپورٹروں کو ہی اشتہار لانے کے لیے کہتے ہیں۔ ایسے میں وہ رپورٹر جن کی وہ خبر لکھتا ہے انہی سے اشتہار بھی مانگتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے صحافتی میدان میں بھی پروفیشنل نہیں بن

پاتا جبکہ اس کو ملنے والی رقم بھی کافی معمولی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زیادہ تر اخبارات اب تک سرکاری اشتہارات کے بل پر ہی چل رہے ہیں۔ ایسے میں وہ اخبار کے کنٹنٹ پر بھی توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی حکومت کے خلاف لکھ پاتے ہیں۔ زیادہ تر اخبارات نیوز سروس کے خبروں کے رحم و کرم پر زندہ ہیں۔

سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ اردو اخباروں کے مارکیٹنگ کا پہلو شروع سے ہی بہت کمزور رہا ہے۔ میں ایک بار وزارت اطلاعات و نشریات کے وزیر سے ملنے کے لیے گیا۔ میں نے ان سے ایک بنیادی بات کہی کہ ایک پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ مسلمان فیملی پلاننگ نہیں کرواتے اور زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ لیکن وزرات صحت کے فیملی پلاننگ شعبہ کے تمام اشتہارات تو آپ انگریزی اخباروں میں کرواتے ہیں۔ اگر حقیقت میں مسلمانوں کی آبادی کم کرنا چاہتے ہیں تو یہ اشتہارات اردو اخباروں کو ملنے چاہئیں۔ اگر پرائیویٹ سیکٹر کی بات کریں تو ’لائف بوائے‘ صابن کا استعمال تو زیادہ تر غریب طبقے کے لوگ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا اشتہار کبھی بھی کسی اردو اخبار میں نہیں دیکھا۔ دراصل اس میں اردو اخباروں کی بھی اپنی کوتاہی ہے کہ وہ کبھی ان تک پہنچتے ہی نہیں۔

اردو صحافت کی موجودہ حالت پر کیا کہتے ہیں اردو صحافی؟

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سینئر صحافی قربان علی کہتے ہیں کہ اردو صحافت کا ماضی بڑا تابناک اور روشن رہا ہے، لیکن اب جو صورتحال ہے وہ بہت خستہ ہے اور مجھے اس کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو صحافت کے دو سو سال کے اس سفر میں 125 سال اس ملک کو غلامی سے آزاد کرانے میں لگ گئے، لیکن ان 125 سالوں کے بعد ٹریجڈی یہ ہوئی کہ پاکستان بنا اور پاکستان کے نام پر اردو بھی شہید ہو گئی۔ اب وہاں کوئی بولتا نہیں ہے اور یہاں اس کو کوئی پوچھتا نہیں ہے۔ حکومت جو کر رہی ہے وہ تو کر ہی رہی ہے، لیکن اردو والوں نے بھی ڈھنگ سے اردو بولنا، پڑھنا، لکھنا اور سمجھنا بند کر دیا ہے۔ جب اردو ہی ختم ہو رہی ہے تو اردو صحافت کہاں سے بچے گی؟

بی بی سی اردو کی سابقہ نیوز اینکر پروفیسر صبیحہ زبیر کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کافی بدل چکا ہے۔ آج کی نئی نسل اخبارات پڑھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی، چاہے وہ کسی بھی زبان کا اخبار ہو۔ آج کی نسل ہر چیز موبائل پر پڑھ یا دیکھ لیتی ہے۔ ان کا سارا کام موبائل پر ہو رہا ہے۔ ویڈیو کا دور ہے، لیکن ہندوستان میں اردو کے ویڈیوز بھی کوالیٹی کے اعتبار سے زیادہ بہتر نہیں ہیں، اس لیے ان ویڈیوز کو دیکھنے میں لوگوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے۔ وہیں اسی ہندوستان میں پاکستانی ڈرامے یا ترکی کی ارطغرل سیریز کافی دیکھے جا رہے ہیں، کیونکہ ان کی کوالیٹی اور کنٹنٹ دونوں ہی کافی بہتر ہے۔ ہمیں اس بارے میں مزید سوچنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر صبیحہ زبیر بنگلورو کے عباس خان کالج فار وومن میں وائس پرنسپل اور اور شعبہ اردو کی صدر ہیں۔ انہوں نے سال 1986-87 میں بی بی سی کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن سے بھی وابستہ رہ چکی ہیں۔

سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ اردو کی ریڈرشپ دن بدن ختم ہو رہی ہے۔ لوگ اب اردو نہیں پڑھ رہے ہیں۔ سب سے برا حال اتر پردیش کا ہے جہاں اردو کی تعلیم کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ اب جبکہ لوگ اردو زبان ہی نہیں پڑھ رہے ہیں تو اردو اخبار کیسے پڑھیں گے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ملک میں جہاں جہاں اردو کا مقابلہ ہندی کے ساتھ ہے، وہاں اردو کی حالت اچھی نہیں ہے۔ کیونکہ ہندی کا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کو ختم کر کے ہی اس زبان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ اردو کے ساتھ تعصب دیگر زبانوں میں نہیں ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ مہاراشٹرا میں اردو ترقی کر رہی ہے، کیونکہ وہاں کی زبان مراٹھی ہے۔ کرناٹک، حیدرآباد یا مغربی بنگال میں اردو ترقی کر رہی ہے کیونکہ وہاں کی زبان ہندی نہیں ہے، لیکن اتر پردیش، بہار یا مدھیہ پردیش میں اردو کا برا حال ہے، کیونکہ یہاں کے لوگوں کی زبان ہندی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بار ہمارا ایک ڈیلیگیشن سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملا تھا۔ ان سے ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکشن (آئی آئی ایم سی) میں اردو جرنلزم کا ڈپلوما کورس شروع کیجیے۔ انہوں نے اسی وقت اطلاعات و نشریات کے وزیر کو بلا کر حکم دیا تھا کہ یہ کام فوری طور پر کیا جائے۔ اس آرڈر کے کچھ ہی دنوں بعد کورس شروع بھی ہو گیا تھا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اردو والے اس میں دلچسپی نہیں لیتے اس لیے داخلہ کی سیٹیں کم کرنی پڑ رہی ہیں۔

یہاں ہم یہ بتادیں کہ اس طرح کا الزام ہر سال سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر سال سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوتی ہے کہ آئی آئی ایم سی میں اردو ڈپلوما کورس میں 15 سیٹیں نکلی تھیں، جن میں صرف 3 بچوں نے ہی فارم بھرا ہے اور 12 سیٹیں خالی رہ گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے آئی آئی ایم سی کو دوبارہ فارم نکالنا پڑا ہے۔

ساتھ ہی ان خالی سیٹوں کے لیے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کل کو آئی آئی ایم سی اس کورس کو ختم کر دیتی ہے تو لوگ حکومت پر ہی اس کا الزام لگائیں گے۔ دراصل یہ خبر پوری طرح سے فرضی ہوتی ہے۔ اس پر راقم قبل ازیں تفصیلی رپورٹ لکھ چکا ہے۔

راقم نے گزشتہ سال اس وائرل ہونے والی خبر کے تہہ میں جا کر حقیقت جاننے کی کوشش کی تھی۔ اس میں راقم نے پایا تھا کہ آئی آئی ایم سی کے معاملے میں فرضی خبر وائرل کرنے کی یہ کہانی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ گزشتہ چار پانچ سالوں سے ہر سال ایسی خبر وائرل کی جاتی ہے۔ سال 2020 میں بھی یہ خبر وائرل کی گئی تھی کہ آپ محض فارم پر کیجیے داخلہ کے لیے ایک صاحب فیس بھر دیں گے۔ جب راقم نے ان سے بات کی تو ان کا صاف طور پر کہنا تھا کہ میں نے فارم بھرنے کی فیس دینے کی بات کی ہے جو 800 روپے ہے اور میری جانکاری کے مطابق انہوں نے کسی کی بھی مدد نہیں کی۔ ان فرضی خبروں سے قطع نظر کیا کسی اردو داں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس کورس کی فیس کتنی ہے؟ اس کورس کے بعد فارغین کیا کریں گے؟ اور سب سے اہم سوال آئی آئی ایم سی کا یہ کورس کسی قابل ہے بھی یا نہیں؟ راقم نے گزشتہ سال کئی طلبا سے بات کی تو انہوں نے بتایا تھا کہ اس کورس کے لیے وہاں کوئی فیکلٹی نہیں ہے۔ میڈیا منڈی سے وہی جاہل قسم کے صحافی انہیں پڑھانے آتے ہیں جو پڑھاتے کم اور خود کی تعریف زیادہ کرتے ہیں۔ اس کورس کی فیس 55 ہزار 500 روپے ہے۔ جس میں طلبا کو 32 ہزار روپے بوقت داخلہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ اتنا خرچ کر کے پڑھنے کے بھی بعد روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

اردو صحافت کو بلند مقام پر لے جانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت؟

سینیئر صحافی معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ ملک میں اردو کے تعلیمی نظام کو مضبوط کرنا ہو گا، کیونکہ اردو کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نئے قاری پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ابھی ملک میں چالیس سال کی عمر والے لوگ ہی اردو اخبار پڑھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بڑے بزنس مین ہیں، ان کو میدان میں آنا چاہیے اور بڑے اخبار نکالنا چاہیے۔

پروفیسر صبیحہ زبیر کہتی ہیں کہ حکومت وقت کی اردو صحافت بلکہ اردو زبان کے تئیں سوتیلے رویے اور بیزارگی کی شکایات کرنے سے کبھی کسی کا بھلا ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔ بلکہ اردو صحافت سے وابستہ لوگوں کو اس کے ترویج اور فروغ کے لیے خود ہی کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے پرانے طور طریقوں سے باہر نکنا ہو گا۔ نئی نسل کیا چاہتی ہے اس کو بخوبی سمجھنا ہو گا۔ جب تک ہم اس دور کی ضرورت کو نہیں سمجھیں گے کامیاب نہیں ہوں گے۔

سینئر صحافی قربان علی کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں بچوں کو اردو پڑھانا چاہیے، ہمیں اردو اخبارات خریدنا چاہیے، یہ سب صرف ٹوٹکے ہیں۔ بات اسی وقت بنے گی جب ہم اردو کو روزگار کی زبان بنائیں گے۔ میں نے بھی کبھی اردو صحافت میں اپنی قسمت آزمائی تھی، لیکن بہت جلد میں نے ہاتھ جھاڑ لیے کیونکہ مجھے لگا کہ اس زبان میں تو میرا گزارا ہی نہیں ہو سکتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اردو صحافت کا علاج ایک دن کے بحث و مباحثہ میں ممکن نہیں ہے، اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ آج بھی ڈھاکہ سے لے کر دبئی تک ایک بڑی مارکیٹ ہے، لیکن کوئی کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا۔

حیدرآباد کے ایک سینئر صحافی نے ہفت روزہ دعوت کو نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ اردو صحافت کی ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ یہاں موجود لوگ کسی دوسرے کی خدمات، نئی نسل کے صحافیوں و نوجوانوں کی ہمت افزائی اور ان کے صلاحیتوں کے اعتراف کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس میں اکثر جمے ہوئے یا پرانے صحافی اپنی مونوپولی بناتے ہیں، جیسے دیگر میدانوں میں کسی ایک کی اجارہ داری چلتی ہے۔ اس صورتحال سے اب باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو اور اردو صحافت کو اگر آگے بڑھانا ہے تو ان خامیوں پر بھی توجہ دینا ہو گا۔ اس کی خدمت کا ٹھیکہ کسی ایک فرد، تنظیم، جماعت یا اخبار نے نہیں لے رکھا ہے بلکہ صحافیوں کی تعلیم و تربیت، ان کی ٹریننگ، جدید ٹیکنالوجی سے ان کو جوڑنا سب کی ذمہ داری ہے۔ حکمرانوں کے رویوں کے بدلنے سے جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں، ان پر سارے اخبارات کے مدیروں و صحافیوں کو مل کر بیٹھنا اور ان کے مسائل کو حل کرنا اور قارئین کی توقعات کے مطابق اپنی پالیسی کو درست کرنا ہو گا تبھی اردو صحافت کے زوال کو روکا جا سکتا ہے۔

ایک نظر ان اعداد و شمار پر بھی ڈالیے!

دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے اور اردو، دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی دس بڑی زبانوں میں شامل ہو گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 1971 میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباً 11.27 کروڑ تھی جو 2021 میں بڑھ کر 23 کروڑ ہو چکی ہے۔

اگر ہندوستان میں اعداد و شمار کی بات کریں تو 1971 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اردو بولنے والوں کی تعداد صرف 2 کروڑ 86 لاکھ تھی، جو 1981 میں ساڑھے 3 کروڑ ہو گئی اور 1991 میں یہ 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ 2001 کے مردم شماری میں یہ اعداد و شمار 5 کروڑ 15 لاکھ سے تجاوز کر گئے تھے۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ 2011 کی مردم شماری میں یہ تعداد کم ہو کر 5 کروڑ 7 لاکھ پر آ گئی یعنی اردو بولنے والوں میں 8 لاکھ لوگوں کی آبادی گھٹ گئی اور یہ آبادی شمالی ہند میں گھٹی ہے۔ یہ وہی علاقے ہیں، جہاں کے بچے ہاتھوں میں انگریزی کا اخبار لے کر چلنا پسند کرتے ہیں، بھلے ہی ان کو انگریزی پڑھنا نہ آتی ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ آبادی گھٹی کیسے؟ جب آپ اس پر غور کریں گے تو کئی وجوہات آپ کے سامنے آئیں گی۔

اور آخر میں میرے چند خیالات و تجربے !

بدلتے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اردو صحافت نے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو کتنا بدلا؟ یقیناً ٹیکنالوجی کے اس دور میں اردو اخبارات کے صفحات رنگین ضرور ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا کنٹینٹ ابھی بھی ’بلیک اینڈ وہائٹ‘ زمانے کی طرح ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی کنٹینٹ میں کچھ خاص ترقی نہیں ہوئی ہے، بلکہ اردو صحافت ایک خاص دائرے میں سمٹتی جا رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ ایک خاص طبقے کی صحافت بن کر رہ گئی ہے۔ ہندوستان میں وجود پانے والی اردو صحافت جہاں اپنے ہی مادر وطن میں دم توڑ رہی ہے، وہیں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اردو صحافت پھل پھول بھی رہی ہے۔

جس اردو صحافت کی تاریخ اتنی شاندار رہی ہو جس اردو کے صحافی کو تاریخ میں توپ کے سامنے کھڑا کر کے صرف اس لیے اڑا دیا گیا ہو کہ وہ انگریزی حکومت کے سامنے جھکا نہیں تھا، آج اسی اردو صحافت کے چند صحافیوں کی حالت یہ ہے کہ وہ تھوڑے سے پیسوں کے لالچ میں کسی خاص جماعت یا رہنما کے صحافی بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ پچھلے دس بیس سالوں میں اردو صحافت نے اس ملک کو کیا دیا ہے؟ اور اردو صحافت کے گرتے معیار کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ غور و فکر اس پر بھی ہونا چاہیے کہ اردو سے محبت کرنے والوں نے خود اردو صحافیوں کو کس نظر سے دیکھا ہے۔ میں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اردو میں اچھے صحافی نہیں ہیں۔ لیکن وہ چند صحافی جو دوسری زبانوں کی میڈیا کو چھوڑ کر اردو صحافت کی خدمت کرتے ہیں ان کے تئیں ہمارا کیا رویہ ہے؟ مجھے یاد ہے کہ جب میں خود ہندی اخبارات اور چینلوں میں کام کرتا تھا، تب تمام ملی تنظیموں کے رہنما مجھ سے ملنے کی منتیں کرتے تھے۔ ایک عزت تھی۔ لیکن جیسے ہی میں نے اردو صحافت کا دامن تھاما لوگ ملنا تو دور بات کرنے سے بھی کترانے لگے۔ یہ حقیقت ہے کہ کلدیپ نیر نے سب کچھ چھوڑ کر اردو صحافت کا دامن تھاما تھا، اگرچہ وہ مشہور انگریزی کی وجہ سے ہی ہوئے تھے۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اردو والوں نے انہیں تھوڑی بہت اہمیت اس لیے بھی دی کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھے، اگر وہ مسلمان ہوتے تو شاید اردو والے ان کا نام بھی لینے سے کتراتے۔

اردو صحافت کے پاس نہ تو قارئین کی کمی ہے اور نہ ہی اردو کے قدردانوں کی۔ اس کی ایک قابل فخر تاریخ رہی ہے۔ چیلنج صرف اس صحافت کو عوام سے جوڑنے کا ہے۔ اس کے مواد کو پرکشش بنانے کا ہے۔ اس کی کاغذی دیواروں پر نئے زمانے کی نئی معلومات، سوالات اور چیلنجز سے نمٹنے اور اس کو وسعت دینے کا ہے۔ انٹرنیٹ کے دور میں اردو کو ہر گھر میں پہنچانا مزید آسان ہو چکا ہے۔ پھر بھی اگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کی وجہ تلاش کرنا ہوگا۔ ان رکاوٹوں کی نشان دہی کرنی ہوگی جو اس کے مقاصد کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔ میری ذاتی رائے میں اس کڑی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اردو صحافی اور مدیران ہیں جنہوں نے اردو صحافت کی اس شاندار دنیا کو اپنے ذاتی ایجنڈوں کا یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ نہ تو کسی قسم کا تجربہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے تجربے کو جگہ دینے کے لیے۔ اس تصویر کو وقت رہتے بدلنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً یہ صرف اردو صحافت ہی نہیں، بلکہ پوری صحافتی دنیا کو ایک نئی زندگی دینے کے مترادف ہو گا۔

***

 اردو صحافت کے پاس نہ تو قارئین کی کمی ہے اور نہ ہی اردو کے قدردانوں کی۔ اس کی ایک قابل فخر تاریخ رہی ہے۔ چیلنج صرف اس صحافت کو عوام سے جوڑنے کا ہے۔ اس کے مواد کو پرکشش بنانے کا ہے۔ اس کی کاغذی دیواروں پر نئے زمانے کی نئی معلومات، سوالات اور چیلنجز سے نمٹنے اور اس کو وسعت دینے کا ہے۔ انٹرنیٹ کے دور میں اردو کو ہر گھر میں پہنچانا مزید آسان ہو چکا ہے۔ پھر بھی اگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کی وجہ تلاش کرنا ہو گا۔ ان رکاوٹوں کی نشان دہی کرنی ہو گی جو اس کے مقاصد کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022