جاویدہ بیگم ورنگلی
’’آپ بھی خوب ہیں جو مرنے کی دعا کررہی ہیں۔ دشمن بھی ایسی دعا نہیں کرتا۔ آپ نہ صرف مرنے کی دعا کررہی ہیں بلکہ اچانک مرنے کی دعا کررہی ہیں جبکہ اللہ کے رسولﷺ نے اچانک موت سے اللہ کی پناہ مانگی ہے‘‘۔
’’جب بھی تم سے ملاقات ہوتی ہے بہت زیادہ ناامیدی کی باتیں کرنے لگتی ہو بار بار سمجھانے کے باوجود بھی سمجھتی نہیں ہو۔ امید کا دیا تمہارے دل میں روشن نہیں ہوتا۔ تمہاری یہ کیفیت دیکھ کر بے اختیار شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر زبان پر آگیا:
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
انسان کے دل میں امید ویقین کی جگہ نا امیدی ومایوسی پیدا ہوجائے تو اس کے پاس باقی کیا رہا جس کے سہارے زندگی گزار سکے؟
’’آپ تو بس اپنی ہی کہی جارہی ہیں آج کل جو حالات ہیں ان پر غور نہیں کررہی ہیں کس تیزی سے حالات بگڑتے جارہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ہر شخص پریشان ہے جب بھی دوچار مل بیٹھتے ہیں تو گفتگو کا موضوع آج کل کے حالات ہوتے ہیں۔ آج کل کے حالات کو دیکھ کر ہر شخص پریشان ہے مایوسی کا شکار ہے۔
’’حالات کو دیکھ کر پریشان ہونے اور مایوسی کا شکار ہونے سے کیا حالات سدھر جائیں گے؟ ’’یہ بھی کوئی بات ہے کہ بگڑے ہوئے حالات دیکھ کر انسان اپنی پریشانی کا اظہار بھی نہ کرے زبان پر تالا ڈالے بیٹھا رہے؟
زبان سے عزم وحوصلہ کا اظہار بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ عزم وحوصلہ سے بگڑے ہوئے حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شکست کامرانی میں بدل سکتی ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ شکست میدان جنگ میں ہارنے کا نام نہیں ہے بلکہ حوصلہ ہارنے کا نام ہے۔ مسلسل مایوسی ونا امیدی کی باتیں کرتے رہنے سے انسان کی خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے۔ وہ ہمت ہار جاتا ہے۔ امید اور اعتماد ایک بڑی طاقت اور قوت محرکہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان حالات کی سنگینی سے گھبراتا نہیں بلکہ اس کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر ایک نئے جوش وجذبہ سے کام کرتا ہے۔ آخر کامیابی اس کے قدم چومنے لگتی ہے۔ انسان کی سوچ ہوتی ہے جو عمل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ انسان پر سب سے زیادہ اثر اس کی سوچ وفکر کا ہوتا ہے۔ اس کی پریشانی ومایوسی کی جڑ اس کی سوچ ہوتی ہے۔ جب انسان منفی سوچ اختیار کرے گا تو اس کا نتیجہ منفی ہی نکلے گا۔ مایوسی اور ہمت ہار جانے کا نتیجہ فتح وکامرانی کی شکل میں تو نہیں نکل سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرتا ہے کیونکہ وہ غفو الرحیم ہے مگر ہمارا عصبی نظام ایسا نہیں کرتا وہ فوراً ہی ردعمل کا اظہار کردیتا ہے۔ بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہی ہوگا کم کھانا مگر غم نہیں کھانا یعنی غذا کی کمی سے صحت متاثر نہیں ہوتی بلکہ غم کو پالنے سے صحت خراب ہوتی ہے۔ مایوسی ونا امیدی انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔ اس کا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے۔ اس کا علاج انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ یہ مایوسی ونا امیدی کی کیفیت جب اجتماعی شکل اختیار کرجاتی ہے تو اس سے جو نقصان پہنچ سکتا ہے وہ دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں میں خوف وہراس اور مایوسی کی فضا پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں لگی ہوئی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان مایوسی کا شکار ہوکر ہمت ہار جائیں اور حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ کھو کر پسپائی اختیار کریں۔ اور تم دشمنوں کی کوششوں کو کامیاب بنانے کا سامان کررہی ہو؟
’’آپس کی عام سی گفتگو میں اس قدر باریکی سے کون غور کرتا ہے۔ بے سوچے سمجھے بے دھڑک بولتے جاتے ہیں اور محفل میں موجود سب لوگ ہاں میں ہاں ملاتے جاتے ہیں۔ چونکہ ہر طرف حالات کی خرابی کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور حالات کی خرابی نظروں کے سامنے ہے اس لیے جب بھی دوچار مل بیٹھتے ہیں حالات کی خرابی کا ذکر کرتے ہیں اس پر اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں پھر دل پر ایک مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے‘‘ ۔
’’ سوال یہ ہے کہ اللہ پر ایمان اور نا امیدی ومایوسی کیا ایک دل میں جمع ہو سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں (یوسف:۸۷) حالات خراب سے خراب تر ہوجائیں ہر کوشش ناکام ہوجائے مومن امید کا دامن تھامے اپنی سی کوشش کرتا جائے گا، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ نتیجہ اللہ کو سونپ کر مسلسل کوشش کرتے رہنا ہمارا کام ہے۔ حضور اکرمﷺ کی داعیانہ زندگی ہمارے سامنے ہے کہ کن حالات میں کس طرح اپنا فریضہ رسالت انجام دیا۔ راہ حق میں پیش آنے والی ہر مصیبت وتکلیف کو آپ نے صبر سے برداشت کیا۔ آپؐ کا اور آپ کے خاندان کا معاشی بائیکاٹ کیا گیا۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہے، بھوک اور فاقے کی سختیاں جھیلتے رہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ کا سگا چچا ابو لہب آپؐ کو قبیلے سے خارج کرنے کا اعلان کیا۔ آپؐ
اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کر رہ گئے۔ آپؐ حالات سے مایوس ہوئے اور نہ ہی امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑا۔ نئی لگن کے ساتھ طائف تشریف لے گئے مگر وہاں کے لوگوں نے بھی آپؐ کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا۔ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ آپ اپنے ہی وطن میں بغیر کسی حمایتی کے داخل نہیں ہوسکتے تھے اور قریش کے ڈر سے کوئی قبیلہ آپؐ کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کوشش کے نتیجے میں مطعم بن عدی کی پناہ میں اس کے لڑکوں کی تلواروں کے سائے میں آپ اپنے وطن مکہ میں داخل ہوئے۔ بندگان خدا تک حق کا پیغام پہنچانے کا فرض ادا کرتے رہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی آپؐ مایوس ہوئے اور نہ ہمت ہاری جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قلیل مدت میں دس لاکھ مربع میل کے رقبے پر عظیم الشان اسلامی ریاست قائم ہو گئی۔
’’اللہ آپ کو بہترین جزا دے ۔ آپ نے بھولا ہوا سبق یاد دلادیا۔ غلفت میں پڑے ہوئے دل میں ذمہ داری کا احساس پیدا کیا کہ مسلمان خرابی حالات کا رونا رویا نہیں کرتے بلکہ تن من دھن سے بگڑے ہوئے حالات کو سدھارنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور یہ مسلمانوں کا فرض منصبی اور ان کے وجود کی غرض وغایت ہے۔ آپ نے احساس دلایا کہ مایوسی کی باتیں کرنا ایمان کے منافی ہے اور ایک دل میں ایمان اور نا امیدی جمع نہیں ہو سکتے۔ بغیر کسی جدوجہد اور کوشش کے مایوسی کی باتیں کرنا ذہنی مرعوبیت کی علامت ہے اور میدان جدوجہد سے فرار کا جواز پیش کرکے دوسروں کو اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش ہے۔ آپ نے داعی اعظم محمد ﷺ کی داعیانہ زندگی کا ہلکا سا نقشہ پیش کرکے ایمان کو تازہ کرلیا۔ ذمہ داری کا احساس دلا کر جدوجہد پر آمادہ کیا۔ ڈوبے ہیں تازہ دم ہو کر ابھرنے کے لیے انشاء اللہ
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021