نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز

مولاناسراج الحسن ۔۔۔اقامت دین کا جوش او ر ولولہ پیدا کرنے والی ایک شخصیت

محمد حسنین

ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس ابدی حقیقت اور نظام ربانی کے تحت تحریک اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا محمد سراج الحسن صاحب اپنے آبائی وطن رائچور (کرناٹک) میں ۲؍ اپریل ۲۰۲۰ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ یوں تو روزانہ کتنے ہی لوگ موت سے ہم کنار ہوتے رہتے ہیں ، پھر بالعموم رفتہ رفتہ اپنے عزیز و اقارب کے بھی ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ مگر بعض نادر شخصیات وہ ہوتی ہیں، جو اپنے اوصاف حمیدہ اور کارناموں کی وجہ سے دیر تک اور بعض، بہت دیر تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ مولانا محمد سراج الحسن صاحب ایسی ہی چیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ جو جماعت کے اندر اور باہر دونوں حلقوں میں بہت دیر تک یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے صرف نظر کرے، ان کے حسنات کو قبول فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے اور تحریک اسلامی ہند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
اگر صرف مصافحے کو ملاقات کہا جائے تو مولانا مرحوم سے ملاقات کا شرف مجھے چتر پور (جھارکھنڈ) میں ۱۹۸۵ء میں حاصل ہوا تھا۔ دراصل مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک اہم فیصلے کی ارکان جماعت کے درمیان تفہیم و وضاحت کے لیے مولانا کی چتر پور تشریف آوری ہوئی تھی۔شمالی چھوٹا ناگپور کے ارکان جماعت پر مشتمل وہ نشست تھی۔ چنانچہ رفقاء کی بھیڑ بھاڑ میں مصافحے سے زیادہ کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ارکان جماعت کو دفتر حلقہ سے پہلے ہی مطلع کر دیا گیا تھاکہ اگر کسی کے ذہن میں کچھ سوالات ہوں تو وہ تحریری شکل میں ساتھ لائیں تاکہ وقت کا صحیح استعمال ہو سکے۔ میری رکنیت کی منظوری کو ابھی سال بھر بھی نہیں ہوئے تھے، اس لیے ذہن میں بعض اشکالات ہونے کے باوجود پہلی بار کسی مرکزی ذمہ دار کے سامنے کوئی تحریر پیش کرنے میں مجھے عجیب سی جھجھک اور کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ تاہم اس موقعے پر میں نے بھی اپنے اشکالات پیش کرنے کی جرأت کر ڈالی۔ دیگر رفقاء کے تحریری سوالوں کے جوابات کے درمیان میرے بھی اشکالات کے بیشتر نکات کی مولانا محترم نے وضاحت فرمائی تھی۔ اس سے اطمینان اور عدم اطمینان کے پہلو سے قطع نظر مولانا کا انداز تکلم، جچے تلے الفاظ کا استعمال، ٹھہرا ہوا لب ولہجہ اور بعض احباب کے جھنجھلا دینے والے سوالات کا بھی صبر وتحمل، برد باری اور پُر سکون پیرائے میں ان کے جواب سے میں بے حد متاثر ہوا۔ مولانا کا یہ طرز گفتگو دل میں گھر گیا۔
پھر اوائل فروری ۱۹۹۲ء میں مرکز کے شعبہ تنظیم میں خدمات کے لیے مجھے طلب کر لیا گیا ۔مرکز حاضری کے بعد پہلی ملاقات میں مولانا جس گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے تھے، اس کی یاد آنے پر ان کی مخلصانہ محبت کی خوشبو اور پدرانہ شفقت کی نرم آنچ آج بھی سینے میں دہکتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا یہ اندز کوئی میرے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھا بلکہ وہ جس سے بھی ملتے اسی طرح پُر خلوص محبت کے ساتھ ٹوٹ کر ملتے۔ یہ انداز ان کے مزاج اور طبیعت کا حصہ تھا، جسے کوئی بھی ملنے والا محسوس کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس وقت انہوں نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ آپ سے چتر پور میں ملاقات ہوئی تھی اور وہاں آپ نے ایک تحریر بھی پیش کی تھی۔ میری حیرانی اس بات پر تھی کہ ایک دور افتادہ اور معمولی رکن جماعت سے چھ سات سال قبل کی سرسری ملاقات ان کو یاد تھی۔ مولانا کا یہ ایک خاص وصف تھا کہ وہ اپنے ملنے والے کو نہ صرف یاد رکھتے بلکہ ضروری تفصیل کے ساتھ یاد رکھتے تھے۔
مولانا کے سایۂ عاطفت میں رہنے کا شرف مسلسل گیارہ سال مجھے حاصل رہا ہے۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، جن میں کسر وانکسار، ملنساری، سادگی، معاملہ فہمی، دور اندیشی، مردم شناسی اور تحریکی وتنظیمی امور میں باہمی مشاورت پر مداومت، ان کی ہمہ رنگ شخصیت کے نمایاں اور اہم پہلو ہیں۔ باہمی کثرت مشاورت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ذمہ داران مرکز میں ٹیم اسپرٹ کی کیفیت مزید مستحکم ہوئی اور مرکز کے ماحول میں خوشگواری اور باہمی اعتماد وتعاون کی فضا میں اور نکھار پیدا ہو تا چلا گیا۔ مرکز کے ماحول میں کم از کم میں نے کبھی کوئی کڑواہٹ، کھٹاس یا کشیدگی محسوس نہیں کی اور اس مقولے کو غلط ثابت ہوتے ہوئے سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ جہاں چار برتن ہوتے ہیں وہاں کھڑکھڑاہٹ ضرور ہو تی ہے۔رب کریم اس فضا کو دوام بخشے۔مولانا محمد سراج الحسن صاحب نے اگر چہ ایک متمول اور خوش حال گھرانے میں آنکھیں کھولی تھی اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، مگر ان کے مزاج میں بلاکی سادگی رچی بسی تھی۔ کسی کی سادگی اور معاملات زندگی میں میانہ روی کا اندازہ اس کے لباس وطعام اور طرزِ بود وباش سے لگایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کا لباس کرتے پاجامہ کی شکل میں بہت عام سا ہوتا، ہاں سفر وغیرہ کے مواقع پر شیروانی زیب تن کر لیتے۔ کھانا وہی کھاتے جو میس میں عام کارکنانِ مرکز کے تیار کیا جاتا تھا۔ نہ کوئی اہتمام اور نہ ان کی جانب سے کوئی فرمائش، سوائے دہی یا چھاچھ کے جو جنوبی ہند والوں کی مجبوری ہے۔ مرکز میں ان کا رہائشی کمرہ ایسانہیں تھا جسے کشادہ کہا جا سکے۔ ایک بیڈ اور ایک الماری کے بعد جو تھوڑی سی جگہ بچی تھی اس میں ایک چھوٹا سا ٹیبل اور اس کے ساتھ لکڑی کی ایک کرسی پڑی رہتی تھی جس پر بیٹھ کر مولانا کھانا تناول فرماتے۔ٹیبل پر تازہ اخبارات کے کچھ شمارے قرآن مجید اور چند زیر مطالعہ کتابیں اور ان کی ٹوپی اور عینک کے علاوہ تین نمک دان سلیقے سے رکھے ہوتے۔ ان میں سے ایک تو نمک ہو تا دوسرے میں سرخ مرچ کا پاؤڈر اور تیسرے میں پسی ہوئی سیاہ مرچ، جس کا استعمال مولانا اپنے کھانوں میں بڑی فراخ دلی سے کرتے تھے۔ گویا تیز اور تلخ کھانا انہیں مرغوب تھا مگر یہ تیزی اور تلخی پسندی صرف ان کے کھانوں تک ہی محدود تھی، ورنہ ان کی گفتگو اور زبان وبیان کی شیرینی اور دل نوازی اور لہجے کی نرمی وشگفتگی سے ان کے ملنے والے خوب واقف ہیں۔
مولانا کے اوصاف حمیدہ کا ایک بہت ابھرا ہوا وصف یہ تھا کہ وہ اپنے ملاقاتیوں اور شناساؤں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ وقفے وقفے سے ان کی مزاج پرسی، خبر گیری کے علاوہ مشکلات ومسائل میں انہیں مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے۔ چنانچہ دور دراز کے احباب سے اس مقصد کے لیے پوسٹ کارڈ کا کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ خطوط کی تاریخ ترسیل، مکتوب الیہ کا نام، سبب تحریر کا اشاریہ وغیرہ کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنے کا اہتمام کرتے۔ اگر کوئی سفر پر جا رہا ہوتا اور مولانا سے ملنے آجاتا تو وہ انہیں سفر کی مشکلات اور اونچ نیچ سے آگاہ کرتے اور توشہ اور موجود موسم کے پیش نظر ضروری سامان ساتھ رکھنے کی تاکید کرتے اور مفید مشورے دیتے۔
مولانا خود بھی اپنے تنظیمی دورے یا وطن کے لیے نجی سفر کی تیاری کے سلسلے میں بہت پہلے سے خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ ان کے عادات واطوار اور معمولات زندگی کو دیکھ کر اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سفر آخرت کے لیے بھی (جس کا ٹرین کی طرح کوئی وقت متعین نہیں ہے) خصوصی وشعوری اہتمام اور خوب خوب تیاری میں مصروف رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ’اہتمام سفر اور تیاریوں‘ کو قبول فرمائے۔
۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو انہدام بابری مسجد کا دل خراش سانحہ پیش آیا۔ اس کے بعد ملک افراتفری اور بد امنی کا شکار ہوا، ملت میں غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوئی اور حکومت نے Unlawfull Activities (Prevention) Act 1967 کے تحت جماعت کی تمام تر سرگرمیوں کو معطل کر دیا۔ کتنے ہی افراد جماعت پس زنداں کر دیے گئے اور بہتوں کو ہراساں کیا گیا۔ یہ گھڑی ملک وملت اور خود جماعت کے لیے بڑی نازک اور صبر آزما تو تھی ہی تحمل کے ساتھ مؤثر حکمت عملی کی متقاضی بھی تھی۔ اس زمانے میں مولانا نے مومنانہ فراست وبصیرت اور عزم واستقلال کے ساتھ باہمی مشاورت سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملت میں حوصلہ واعتماد کی بحالی کے پیش نظر فورم فار ڈیماکریسی اینڈ کمیونل ایمیٹی (FDCA ) کی داغ بیل ڈالی۔ اسی طرح مولانا دعوتی فکر وعمل کے پرجوش حامی تھے اور اس کے لیے راہیں تلاش کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ملک میں خوشگوار فرقہ وارانہ فضا کی برقراری اور دعوت وتبلیغ کی راہ کی ہمواری کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک فیصلے کے تحت ’’دھارمک جن مورچہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے قیام میں ملک کے مختلف طبقات، انسانی بھائی چارہ کے علم بردار غیر مسلم افراد اور متعدد مذہبی رہنماؤں سے مولانا کے پہلے سے قائم خوشگوار اور خیر سگالی پر مبنی تعلقات نے اہم رول ادا کیا۔ اس زمانے میں مولانا اپنے اظہار خیال اور خطابات میں تواتر کے ساتھ اس بلیغ جملے کا اعادہ کرتے تھے کہ وابستگان تحریک کے لیے یہ ملک نہ تو دارالحرب ہے اور نہ دارالامن، بلکہ یہ دارالدعوہ ہے۔ ان کی خطابت کے سلسلے میں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ان کو اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے الفاظ اور ان کے دروبست پر پوری قدرت حاصل تھی۔ ان کی خطابت کا دوسرا نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ کسی بات کو مؤکد کرنے کے لیے اس کا مثبت اور منفی دونوں پیرایہ اختیار کرتے اور کبھی مترادف اور متضاد الفاظ کا استعمال اس خوبی کے ساتھ کرتے کہ وہ بات سہل ہو کر سیدھی دل میں اترتی محسوس ہوتی۔
امارت جماعت کی حساس، نازک اور گراں بار ذمہ داری کی بہ حسن و خوبی ادائیگی کے ساتھ مولانا بحیثیت نائب صدر کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ، کل ہند مسلم مجلس مشاورت، بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے علاوہ متعدد ملی وملکی تنظیموں واداروں میں ذمہ دارانہ حیثیت سے سرگرم رول ادا کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیرون جماعت بھی مسلم وغیر مسلم حلقوں میں یکساں طور پر قدر واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’ کاروان زندگی‘‘ میں مولانا محمد سراج الحسنؒ کی بے لوث عملی سرگرمی، حسن تدبیر اور خوش انتظامی کی تحسین فرمائی ہے۔
مولانا کے دور امارت میں دارالعلوم دیو بند، اور ندوۃالعلماء سے خوشگوار مراسم استوار ہوئے، جس کے نتیجے میں جماعت اور ان اداروں کا درمیانی فاصلہ بتدریج کم ہوا اور تعلقات کی زمین پر ایک عرصے سے جمی ہوئی کائی چھٹتی محسوس ہوئی۔مولانا علمائے کرام کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں تواضع، انکساری اور فروتنی جیسی اعلیٰ صفات سے خوب نوازا تھا۔ چنانچہ ملاقاتوں میں کسی تکلف اور تصنع سے پاک یہ خوبیاں صاف طور پر محسوس کی جاتی تھیں، اور اگر ملاقاتی کوئی عالم دین ہوتا تو یہ کیفیت مزید دو چند ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جثے کو فربہ اندامی عطا کی تھی مگر یہ فربہی نظر میں گرانی کا سبب نہیں بنتی بلکہ جاذبیت کا احساس پیدا کرتی تھی۔ ایسے مواقع پر ان کی فروتنی عاجزی اور بچھ جانے کی کیفیت کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے مولانا اپنی جسامت کو ڈھک چھپا لینا چاہتے ہوں۔ اللہ کی مشیت، وہ جسے چاہے جن خوبیوں سے نواز دے۔
ایں سعادت بہ زورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
سیاسی حضرات سے بھی مولانا کے گہرے مراسم تھے۔ مرکزی اور ریاستی سطح کے متعدد سیاسی رہنما آپ کے ربط وتعلق میں تھے۔ بقول شخصے کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ رام کرشنا ہیگڑے کا مولانا سے عقیدت مندانہ تعلق تھا۔
طلباء ونوجوانوں سے مولانا کو غیر معمولی شغف تھا۔ موصوف ان کی تربیت وتزکیہ پر خصوصی توجہ رکھتے۔ کل ہند سطح پر طلباء ونوجوانوں کی تنظیم ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن ‘ (SIO ) کے قیام میں مرکز جماعت کے دیگر اکابر کے ساتھ مولانا کا بڑا رول تھا۔ SIO کے جس اجتماع میں ان کی شرکت ہوتی طلباء ان کو گھیرے رہتے اور ان کے زریں خیالات سے مستفید ہوتے۔ ہماری جماعت میں شخصیت پرستی کا کوئی ادنیٰ تصور بھی نہیں پایا جاتا، تاہم بعض شخصیات ایسی پُر کشش ہوتی ہیں جن کی غیر محسوس اثر اندازی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کسی کو ایسی شخصیت میسر ہو اور اس کے اندر اثر پزیری کی کیفیت مفقود ہو یا پیدا نہ کرے تو اسے بڑی محرومی ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مولانا کے ربط وصحبت میں آنے والے کتنے ہی صالح اور پاک طینت طلباء ونوجوان ان سے فیض یاب ہوئے اور ان میں سے کئی آج جماعت کے مختلف مناصب پر تحریک وتنظیم کی بیش بہا خدما ت انجام دے رہے ہیں۔اللہ کی مشیت کہ مولانا نے ایسے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہا کہ جب ملک میں حمل ونقل کے سارے ذرائع معطل اور مسدود تھے۔ ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ان کے آخری دیدار اور تدفین میں شرکت سے محرومی کی وجہ سے زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر رہ گئی۔ بہر حال ہم اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مولانا کی بھول چوک، خطاؤں اور غلطیوں کو در گزر فرمائے۔ خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، ان کے پس ماندگان اور متعلقین کے ساتھ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور دعوت وتحریک کے حوالے سے ہمیں بھی ان کے جیسی تڑپ، جذبۂ صادق اور جوش عمل سے نوازے۔ موجودہ ملکی بلکہ عالمی سطح پر تغیر پزیر حالات میں نصب العین کے حصول کے لیے ان اوصاف کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے۔
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

مولانا اپنے اظہار خیال اور خطابات میں تواتر کے ساتھ اس بلیغ جملے کا اعادہ کرتے تھے کہ وابستگان تحریک کے لیے یہ ملک نہ تو دارالحرب ہے اور نہ دارالامن، بلکہ یہ دارالدعوہ ہے