نواسہ رسول ؐ کی شہادت اورآپ

شہید کربلا کا پیغام آج بھی حق پرستوں کو صدا دے رہا ہے

محمد یوسف اصلاحی

ماہ محرم آتے ہی پوری امت کا غم تازہ ہوجاتا ہے۔ چودہ صدیاں گز رگئیں، امت کی آہ وبکا سے دشت وجبل گونج اٹھے۔ صدیوں سے برابر بہنے والے یہ آنسو جمع کیے جائیں تو نہریں بہہ نکلیں۔ کون کہتا ہے کہ نواسہ رسول کی مظلومانہ شہادت پر آپ دل نہ دکھائیں، آنسو نہ بہائیں اور محبت میں اظہار غم نہ کریں ، اگر رسولﷺ سے آپ کو تعلق ہے، رسول ﷺ کی اہل بیت سے تعلق ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عاشورہ کی بھیانک رات اور کربلا کی صبح قیامت کی یاد آپ کو نہ تڑپائے، فاطمہؓ کے گھر کا چراغ گل ہوجائے اور مسلمان کا دل نہ روئے، بحر ہند کے پانی میں آگ لگنا تو ممکن ہے لیکن یہ ناممکن ہے
دس محرم کی ان قیامت خیز گھڑیوں کا تصور کیجیے کہ دوش رسول کے سوار فرات کے ساحل پر پیاس سے لب خشک ہیں، حلق سوکھ رہا ہے، عزیزوں اور بچوں کی بے بسی اور مظلومانہ شہادت سے دل زخمی ہے، کسی طرح دشمنوں کے نرغے سے بچ کر فرات کے کنارے سے پانی پینا چاہتے ہیں حصین ابن نمیر تاک کر نیزہ مارتا ہے اور نواسہ رسول کے مبارک منہ سے سرخ تازہ خون کا فوارہ پھوٹ نکلتا ہے، نوجوانان جنت کے سردار یہ خون چُلّو میں لے کر آسمان کی طرف اچھالتے ہیں اور کہتے ہیں: ائے بے نیاز! تیرے نبی کے نواسے کے ساتھ یہ سنگ دل جو سلوک کررہے ہیں اس کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں‘‘۔
اور پھر آسمان کی آنکھوں نے یہ دلدوز منظر بھی دیکھا کہ نواسہ رسول کی گردن میں تیر چھدا ہوا ہے، آپ ہاتھ سے کھینچ کر نکالتے ہیں کہ زریحہ گردن مبارک پر تلوار سے وار کرتا ہے اور مظلوم کربلا زخموں کی تاب نہ لاکر گر پڑتے ہیں۔ اسی دوران سنان ابن انس کا ایک نیزہ لگتا ہے کہ آپ ہمیشہ کے لیے امت کو اپنے غم میں روتا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اور یہی سنان شقی نواسہ رسول کا سر مبارک جسم اطہر سے جدا کرکے ابن زیاد کے پاس کوفہ بھیج دیتا ہے۔
اور پھر اس منظر پر کس کا کلیجہ پھٹ نہ پڑے گا کہ ابن زیاد کے سامنے فاطمہ کے لخت جگر کا سر مبارک رکھا ہے اور وہ گستاخ اپنی چھڑی سے آپ کے مبارک دانتوں اور ہونٹوں کو چھیڑ رہا ہے۔ ایک بوڑھے صحابی زید بن ارقم سے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔ غصے سے بے تاب ہوکر بولے:
’’چھڑی ہٹالو، اللہ واحد کی قسم! میں نے رسول پاک کے لبوں کو ان لبوں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے‘‘
یہ کہا اور بے اختیار دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
اور پھر اس منظر کا تصور کیجیے کہ شہدائے کربلا کی لاشیں غاضریہ کے باشندے دفن کررہے ہیں، انہی میں ایک لاشہ بے سر بھی رکھا ہے۔ یہ امام مظلوم کا لاشہ ہے۔ یہ بے سر کے دفن کیا جارہا ہے
’زمین سہمی پڑی تھی،آسمان ساکت تھا بے چارہ‘
بے شک محرم ہر سال ان غموں کی یاد ساتھ لاتا ہے اور آپ کی گریہ وزاری، نالہ وماتم ایک فطری حقیقت ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ یہ نالہ وماتم اور آہ وبکا کس لیے۔ کیا حسینؓ نے جان عزیز کی قربانی دے کر اور اپنے نونہالوں کی گردنیں کٹا کر امت کو یہ سبق دینا چاہا تھا کہ وہ چند دن سوگ مناکر بیت رسول کے ساتھ عقیدت ومحبت کا اظہار کیا کرے یا آپؓ نے فرات کے کنارے میدان کربلا میں قربانی شہادت، جہاد اور باطل سے پنجہ آزمائی کی تاریخ اس لیے تیار کی کہ نوجوانان اسلام اپنے سردار کے نقش قدم پر چل کر حق کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہیں اور جیتے جی کبھی بھی باطل کو اپنے ناپاک قدم جمانے کا موقع نہ دیں، کربلا کے مصائب کا خیرمقدم کریں لیکن باطل کے آگے ہرگز گردن نہ جھکائیں؟
کوفہ جاتے ہوئے راستے میں ’’بیضہ‘’ کے مقام پر شہید کربلا نے جو خطبہ دیا ہے اسے بار بار پڑھیے اور غور کیجیے کہ نوجوانان جنت کے سردار کی شہادت، قربانیاں، میدان کربلا کا جہاد آپ سے کیا مطالبہ کررہا ہے:
لوگو ! رسولﷺ نے فرمایا:
جو شخص کسی ایسے بادشاہ کو دیکھتا ہے جو ظالم وجابر ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کررہا ہے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو توڑ رہا ہے، رسولﷺ کو سنت کو تہس نہس کررہا ہے اللہ کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کررہا ہے اور پھر بھی اس شخص کو غیرت نہ آئے نہ زبان سے وہ اس ظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ نہ عملی طور پر ظالم کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اللہ کو یہ حق ہے کہ وہ اس ظالم بادشاہ کی جگہ اس شخص کو دوزخ کی آگ میں جھونک دے‘‘۔
لوگو! خبردار ہوجاو ۔ یہ لوگ شیطان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں اور رحمٰن کی اطاعت سے آزاد ہوگئے ہیں، ان لوگوں نے اللہ کی زمین کو فساد سے بھردیا ہے، حدود الٰہی کو پامال کردیا ہے۔ مال غنیمت میں سے اپنے لیے زیادہ وصول کرنے لگے ہیں، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا ہے اور حلال چیزوں کو حرام کردیا ہے۔ اس لیے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے غیرت آئے اور میں ان کی سرکشی اور بغاوت کو حق وعدل سے بدلنے کی کوشش کروں۔
وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ میں شہادت کی موت چاہتا ہوں۔ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا خود بہت بڑا جرم ہے۔ میری ذات تم لوگوں کے لیے نمونہ ہے۔
تقریر کرنے والا خاموش ہوگیا۔ اس کی آرزو پوری ہو گئی اور قیامت ہی میں اس کی آواز سن سکیں گے۔ لیکن اس کی آواز کی گونج اب بھی آپ کو جھنجھوڑتی ہے، آج بھی دنیا اللہ کی اطاعت سے آزاد ہے، آج بھی حدود اللہ پامال ہو رہے ہیں۔ آج بھی دنیا میں حلال حرام ہے اور حرام حلال ہے اور دنیا میں ہر طرف فساد پھیل گیا ہے۔ یہ گونج ملت کے نوجوانوں کو آج بھی غیرت دلارہی ہے اور انہی مرحلوں سے گزرنے کی دعوت دے رہی ہے جن مرحلوں سے شہید کربلا گزرے تھے۔
داستان کربلا پر اظہار غم ایک فطری تقاضا ہے لیکن یہ اظہار عقیدت ومحبت اگر محض ذاتی اور شخصی نوعیت کا ہے تو نہ اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر وقیمت ہے اور نہ خود شہید کربلا کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت۔ نوسہ رسول کی نظر میں قدر وقیمت کی چیز حق تھا جس کے لیے انہوں نے اپنی جان عزیز قربان کردی۔ اگر اپنی ذات نواسہ رسول کو عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے۔ کربلا کی تاریخ آپ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ آپ حق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیں جس طرح حسینؓ نے نہ صرف اپنی جان اس راہ میں قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے معصوم بچوں تک کو خوشی خوشی گنوادیا۔
شہید کربلا کی مظلومیت اور بے بسی آپ سے وہی عملی جواب چاہتی ہے جو ان کے ہمراہ جانے والے جاں نثاروں نے دیا تھا۔
محرم کی نو تاریخ تھی۔ حضرت حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور تقریر کرتے ہوئے فرمایا: میں اللہ کا بہترین ثنا خواں ہوں اور راحت ورنج ہر حال میں اس کا شکر گزار ہوں، پروردگار! میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں نبوت کی عزت بخشی اور ہمیں حق سننے والے کان، حق دیکھنے والی آنکھیں اور حق شناسا دل دیا، ہمیں قرآن کا علم دیا اور فہم دین سے نوازا۔ الٰہی تو ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما! مجھے کسی کے ساتھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور اپنے گھرانے سے زیادہ نیک اور صلہ رحمی کرنے والا کوئی دوسرا گھرانہ نہیں معلوم ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو میری جانب سے بہترین جزا عطا فرمائے ۔ میں ان بدترین دشمنوں کے ارادے بھانپ کر آج کے دن کو کل ہی کا دن سمجھ رہا ہوں۔ میں آپ لوگوں کو خوشی خوشی اجازت دے رہا ہوں، میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہوگی۔ رات چھا چکی ہے، ایک ایک اونٹ لے لو اور اپنی اپنی بستیوں کو لوٹ جاو۔ اللہ تم سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ لوگ مجھی کو تلاش کریں گے میرے بعد انہیں کسی کی تلاش نہ ہوگی‘‘۔
نوجوانان جنت کے سردار کی یہ مظلومانہ تقریر سن کر جاں نثاروں نے جو جوابی تقاریر کیں وہ اس لائق ہیں کہ انہیں بار بار پڑھا جائے، انہیں اپنے لیے مشعل راہ بنایا جائے اور ان کی روشنی میں اپنے لیے لائحہ عمل تیار کرکے، حسینؓ سے سچی محبت کا ثبوت دیا جائے۔
حضرت حسینؓ کی تقریر سن کر بنو عقیل کے جوانمردوں نے کہا : اے ہمارے سردار! ہم صرف اس لیے لوٹ جائیں کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ اللہ ہمیں یہ دن نہ دکھائے ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے، کیا یہ کہیں گے کہ اپنے سردار، اپنے آقا اور اپنے چچا کے لخت جگر کو ہم چھوڑ آئے؟ ان کی طرف سے ہم نے ایک تیر بھی نہ چلایا؟ ایک نیزہ بھی نہ مارا؟ تلوار کا ایک وار بھی نہ کیا؟ اب معلوم نہیں کہ ان کا کیا حشر ہوا؟ اللہ کی قسم! ہم سے ہرگز ایسا نہ ہوسکے گا ہم اپنی جان، اپنا مال اور اپنے اہل وعیال سب کچھ آپ پر قربان کردیں گے۔ آپ کے ساتھ آپ کی حمایت میں لڑیں گے جو انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا۔ آپ کے بعد جینا بے کار ہے۔
بنو عقیل کی تقریر کے بعد مسلم بن عوسجہ اٹھے اور کہا: ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں اور کل اللہ کے حضور میں یہ عذر نہ کریں کہ ہم نے آپ کا حق ادا کر دیا؟ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا جب تک دشمنوں کے سینے میں اپنا نیزہ نہ اتار دوں اور تلوار کے جوہر نہ دکھا دوں، اللہ کی قسم! اگر میرے پاس ہتھیار نہ بھی ہوتے تو دشمنوں سے پتھر مار مار کر لڑتا اور آپ پر اپنی جان فدا کر دیتا۔
آپ کے بعد سعد بن عبداللہ حنفی اٹھے اور کہا: اللہ کی قسم! ہم اس وقت تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے جب تک اللہ کو یہ معلوم نہ ہوجائے کہ ہم نے رسولﷺ کے بعد بھی آپ کا فرمان ملحوظ رکھا۔ اگر مجھ کو یہ یقین ہو کہ میں ستر بار قتل کیا جاوں گا اور ہر بار دوبارہ زندہ کرکے مجھے آگ میں جلا کر میری خاک اڑادی جائے گی تو بھی اس وقت تک میں آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا جب تک خود کو موت کے حوالے نہ کردوں جب کہ مرنا صرف ایک ہی بار ہے اور اس موت کے بعد ہمیشہ کی عزت ہے۔
ان کے بعد زہیر بن قیس اٹھے اور اپنی فداکاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں قتل ہوں پھر زندہ ہوں پھر قتل کیا جاوں پھر زندہ ہوں اسی طرح ہزار بار زندہ ہو ہوکر قتل کیا جاوں اور اللہ اس قتل کے بدلے آپ کو اور اہل بیت کے نوجوانوں کو بچالے۔
محرم کے یہ قیامت خیز شب وروز آپ سے انہیں جذبات وعزائم اور اسی فدا کاری اور جاں نثاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ فدا کاری اور جاں نثاری کے جذبات وعزائم کا بدل آپ محض نالہ وفغاں اور اظہار غم کے کچھ اعمال سے فراہم نہیں کر سکتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جذبات عزائم اور یہ جاں نثاری وفداکاری بھی اسی وقت نتیجہ خیز ہوسکتی ہے جب کسی امام ورہنما کی قیادت میں ہو اور کسی نظم اور منصوبے کے تحت ہو۔
***

 

***

 داستان کربلا پر اظہار غم ایک فطری تقاضا ہے لیکن یہ اظہار عقیدت و محبت اگر محض ذاتی اور شخصی نوعیت کا ہے تو نہ اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ خود شہید کربلاؓ کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت۔ نوسہ رسولﷺ کی نظر میں قدر و قیمت کی چیز حق تھا جس کے لیے انہوں نے اپنی جان عزیز قربان کردی۔ اگر اپنی ذات نواسہ رسولﷺ کو عزیم ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کوں کرتے۔ کربلا کی تاریخ آپ سے مطالبہ یہ کرتی ہے کہ آپ حق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیں جس طرح حسینؓ نے نہ صرف اپنی جان اس راہ میں قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے معصوم بچوں تک کو خوشی خوشی گنوادیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021