نفسیاتی مسائل کا حل مقصد زندگی سے آگاہی میں مضمر:نائب امیر جماعت
مختلف طبقات اور عمر والے افراد کے نفسیاتی مسائل حل کرنے کے لیے آن لائن کونسلنگ سنٹرس اور ویب سائٹ کا قیام ہو۔بچوں کے لیے صحت مند تفریح کے اختراعی طریقے اختیار کرنے پر زور
سید تنویر احمد، بنگلورو
جناب ایس امین الحسن، نائب امیر جماعت اسلامی ہند جہاں علوم اسلامی کا گہرا علم رکھتے ہیں وہیں ایک سیول انجینئر ہونے کے علاوہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔ نفسیاتی علوم کی ایک شاخ ’این ایل پی‘ ہے، موصوف اس کے ماہر اور ٹرینر ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ سید تنویر احمد کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کووڈ کے اس دور میں پیدا شدہ نفسیاتی مسائل پر گفتگو کی ہے۔ ایس امین الحسن صاحب کے متعدد لیکچرس یو ٹیوب پر دستیاب ہیں۔
سوال: کووڈ 19 سے متاثرہ سماج میں کن نفسیاتی امراض نے جنم لیا ہے؟
جواب: کووڈ اور لاک ڈاؤن نے معاشی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد نفسیاتی الجھنوں اور امراض کا شکار ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل چین اور بعض افریقی ممالک میں اس وقت پھیلے ہوئے جان لیوا وائرس پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن اور قرنطینہ جیسے تدابیر اختیا ر کیے گئے تھے۔ ان تدابیر کے نتیجے میں اس وقت کی آبادی پر کس طرح کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے تھے، اس کا ریکارڈ بھی رکھا گیا ہے اور ان کا تجزیاتی مطالعہ بھی ہوا ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم افراد اضطراب، ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ذہنی امراض ذیابطیس، بلڈ پریشر اور ہائپر ٹیشن جیسے عوارض کو انسانی جسم میں پیدا کر دیتی ہیں۔ ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر فرد کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے افراد کو منفی نفسیاتی رجحانات سے نکالنا علاج بھی ہے اور خدمت بھی۔
سوال: ان نفسیاتی مسائل کا کتنا گہرا اثر انسانی زندگیوں پر ہو رہا ہے؟
جواب: وباء اور لاک ڈاؤن سے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔ شہری زندگی میں دو تا چار فیصد خاندانوں کو بڑے گھر میسر ہیں، باقی خاندان ایک ہزار مربع فٹ یا اس سے بھی کم رقبے کے فلیٹس یا گھر میں مقید ہیں۔انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔ آپس میں میل ملاپ اس کی سرشت میں داخل ہے۔ لوگوں کے حلقہ احباب ہوتے ہیں، وہ ان کے درمیان اپنے تجربات، خیالات اور ماضی کے واقعات کو شیئر کرتا ہے۔ اس سے اس کی بوجھل طبیعت فرحت حاصل کرتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد پارکوں میں صبح کی چہل قدمی کے دوران گپ شپ کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی عمل خواتین کا اور طلبہ و نوجوانوں کا بھی ہوتا ہے۔ اب وبا کی وجہ سے یہ سرگرمیاں مفقود ہو گئی ہیں۔ ہر عمر کے افراد کے اپنے سماجی حلقے ہوتے ہیں۔ مثلاً مذہبی اجتماعات، مسجد، جم، شادی بیاہ، کھیل کے میدان اور چائے کی ہوٹلیں وغیرہ۔ یہ مراکز جو کمیونٹی لائف فراہم کرتے تھے، اب بند ہو چکے ہیں۔
انسان ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے، ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے لیکن اس اہم انسانی وصف کو حالات نے شدید زک پہنچائی ہے۔ اگر کوئی فرد کسی محلہ اور اپارٹمنٹ میں کسی اور مقام سے آتا ہے تو اب اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے کووڈ کا مریض سمجھا جاتاہے۔ نہ دل ملتے ہیں نہ ہاتھ، گلے تو دور کی بات ہے۔ کانا پھوسی ہونے لگتی ہے کہ ’’دیکھو وہ فلاں شہر سے آیا ہے وہاں کووڈ خوب پھیل رہا ہے۔ شاید یہ بھی متاثر فرد ہوگا‘‘۔ اگر وہ حقیقتاً متاثر ہو تب بھی اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا، ہاسپٹل لے جانا اور اس کی مدد کرنا، یہ سب رویے اس کووڈ وائرس نے یکسر تبدیل کردیے ہیں۔ ان رویوں اور سماجی کیفیات نے ذہنی تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔
سوال: یہ خبریں بھی ہیں کہ اس ماحول میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایسا کیوں؟
جواب: یہ صحیح ہے۔ ایک خبر کے مطابق گھر یلو تشدد کے واقعات میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول عام دنوں میں مرد حضرات معاشی تگ و دو کے لیے گھروں سے باہر رہتے ہیں۔ چنانچہ میاں اور بیوی میں محدود وقت رابطہ رہتا ہے۔ اب یہ وقت بڑھ گیا ہے۔ ایک دوسرے کے منفی رویے اور کمزوریاں بھی آشکار ہورہی ہیں۔ بعض حالات میں ایک دوسرے سے مختصر وقت کے لیے دوری بھی مثبت اثر ڈالتی ہے لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ سماجی زندگی انسانوں کے جذبات کے لیے سہارا بنتی ہے وہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے مرد و خواتین آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ غصہ کو قابو میں نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ نتیجتاً تو تو میں میں سے معاملہ تشدد کے دائرے میں بہت جلد داخل ہو رہا ہے۔
دوسری اہم وجہ معاشی اثرات ہیں۔ لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں۔ بچت کی گئی رقم ختم ہو چکی ہے۔ بینکوں میں’ گولڈ لون‘ کے لیے درخواستیں دُگنی ہوگئی ہیں۔ ایسے حالات میاں بیوی کے تعلقات کو ضرور مجروح کرتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے اور تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کی معاشی مدد کی جائے، انہیں کونسلنگ کے ذریعے نفسیاتی طور پر مضبوط بنایا جائے۔
سوال: کیا بچوں میں بھی تناؤ بڑھ رہاہے؟
جواب: ہاں لاک ڈاؤن اور کووڈ کی وجہ سے اموات کی خبروں کو پڑھ اور سن کر بچوں میں بھی تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ بچوں کی فطرت میں شرارت، نئے تجربات کرنا، کچھ کرکے سیکھنا، کھیل کود، اچھلنا دوڑنا شامل ہیں۔ دوست بچوں کی زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے بات چیت، تمسخر بچوں کی ضرورت ہیں۔ کووڈ نے ان تمام پر قدغن لگا دیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گھروں میں ماں اور باپ دونوں کی 24 گھنٹے نگرانی ہے، اس سے ضرور بچوں کی زندگی متاثر ہوئی ہے، ان میں تناؤ بڑھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچے جب عام دنوں میں اسکول جاتے ہیں تو ہفتہ کے پانچ چھ دن ان کی زندگی ایک نظم کے تحت چلتی ہے۔ ویک اینڈ(Week end) ہفتہ اور اتوار چھٹی کا ماحول ہوتا ہے۔ اس دن بچے خوب سوتے ہیں اور اپنی من پسند کھانے کھاتے ہیں۔ ان میں’جنک فوڈ ‘ بھی شامل ہے۔ اب تو بس چھٹی ہی چھٹی ہے، نیند زیادہ ہو رہی ہے۔ سونے اور جاگنے کے اوقات بے ڈھنگے ہوگئے ہیں۔ کم محنت اور کھانا خوب ہے۔ اس لیے ان میں موٹاپے کی شکایت پیدا ہو نے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے ذہن خالی ہے۔ والدین کی ڈانٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جذباتی بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے دوستوں کا حلقہ نہیں ہے۔ یہ سارے عوامل بچوں میں نفسیاتی اور جسمانی امراض پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے والدین کو بہت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ اپنی سرپرستی کے فرائض انجام دینا ہے۔
سوال: تناؤ کی کیفیت بڑھنے سے زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
جواب: سماج میں پھیل رہے ذہنی تناؤ کو ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ بعض ماہرین نفسیات نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ انسانی زندگی پر کووڈ وائرس سے زیادہ اس وبا کے خوف نے اثر ڈالا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ یہ وقتی معاملہ ہے بہت جلد دنیا اس سے باہر نکل جائے گی۔ لیکن ہمارے ملک میں چار ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ حالات میں بہتری کے علامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ لوگوں میں اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اضطراب کی کیفیت میں کوئی فرد یکسوئی کے ساتھ کسی فعل کو انجام نہیں دے سکتا۔ زیادہ اضطراب اور بے چینی، افراد کو ڈپریشن میں دھکیل دیتے ہیں، ڈپریشن میں فرد تنہائی پسند ہو جاتا ہے، اسے افراد سے نفرت ہونے لگتی ہے، اس کی اعصابی اور ذہنی قوت کمزور ہو جاتی ہے، وہ پست ہمت ہو جاتا ہے، تخلیقی صلاحیت مر جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ناکارہ سمجھنے لگتا ہے۔ جب یہ کیفیت شدت اختیار کر جاتی ہے تو اس کے اندر خود کشی کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ صورت حال میں یہ بھی خبریں ہیں کہ خود کشی کرنے والوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے افراد خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنی کیفیت و رویوں سے دوسروں کو بھی متاثر کر دیتے ہیں۔ فیملی کی خوشی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
سوال: آپ نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ان سے مقابلہ کیسے کیا جائے۔ حل کی کیا تدابیر ہیں؟
جواب: میں نے زندگی کے صرف ایک شعبہ، نفسیات سے متعلق چند مسائل کا تذکرہ کیا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے۔ مختلف فورمس میں اس پر ماہرین بحثیں کررہے ہیں۔ نفسیات کے شعبہ کے علاوہ کووڈ نے معیشت، سیاست، انتظامیہ، حفظان صحت، علاج معالجہ اور سیرو تفریح وغیرہ شعبہ حیات پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ امر قابل مذمت ہے کہ ایسے دگرگوں حالات میں بے قصور لوگوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ سماج کے کمزور طبقوں پر زیاتیاں ہو رہی ہیں۔ ایک بڑی آبادی شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے، صحت کی سہولتیں تنگ ہیں، ان حالات سے نمٹنے کے لیے میرے چار مشورے ہیں۔
۱۔ سماج کے مختلف طبقات اور عمر والے افرد کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا انتظام کیا جائے۔ کونسلنگ سنٹرس (آن لائن) کام کریں۔ ویب سائٹ کا قیام ہو، بچوں کی صحت مند تفریح کا اختراعی طریقے ایجاد کیے جائیں۔
۲۔ معاشی محاذ پر یوں تو غیر معمولی کام ملت نے انجام دیے ہیں، اس میں جماعت اسلامی ہند کی منظم کوشش بھی شامل ہیں۔ اس دوران دیگر جماعتوں، تنظیموں اور افراد کی خدمات بھی لائق ستائش ہیں۔ بعض افراد نے حیرت انگیز قربانیاں پیش کی ہیں لیکن یہ چیلنج برقرار ہے۔ کووڈ سے باہر آنے پر بھی اس کام کو منظم اور مستعدی کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔
۳۔ لوگوں میں عزم اور حوصلہ پیدا کیا جائے۔ عزم اور حوصلہ زندگی کے مقصد کو متعین کرنے سے آتا ہے۔ لوگوں کو ایک بڑا خواب دیکھنے کی ترغیب دیں، بڑا خواب زندگی کے اعلیٰ مقصد سے آگاہی اور انسان کو حوصلہ دیتا ہے۔ فرد کے اندر قوت، ولولہ اور جوش پیدا ہوتا ہے۔
۴۔ آخری اور بنیادی بات یہ ہے کہ لوگوں کو رجوع الی اللہ کی تلقین کریں، اللہ سے رشتہ مضبوط کریں، اس پر توکل کریں، قدر پر اپنا عقیدہ پختہ کریں، موت سے گھبرائیں نہیں بلکہ مومن کے لیے موت تو اللہ سے ملاقات کا اعلان ہے۔ موت سے کسی کو فرار نہیں۔ م سلمان کے لیے خوش گوار دن تو وہ ہے جس دن وہ اللہ سے ملاقات کے لیے اس دنیا کو وداع کرتا ہے۔ اس کی تذکیر ہو۔ اس عقیدے کو مضبوط کیا جائے۔ جن کا انتقال اس وباء سے ہوا ہے اللہ تعالیٰ انہیں شہید کا درجہ عطا فرمائے اور ہم پر سے اس وبا کو جلد از جلد ٹال دے۔
***
لوگوں کو رجوع الی اللہ کی تلقین کریں، اللہ سے رشتہ مضبوط کریں، اس پر توکل کریں، قدر پر اپنا عقیدہ پختہ کریں، موت سے گھبرائیں نہیں بلکہ مومن کے لیے موت تو اللہ سے ملاقات کا اعلان ہے۔ موت سے کسی کو فرار نہیں۔ مسلمان کے لیے خوش گوار دن تو وہ ہے جس دن وہ اللہ سے ملاقات کے لیے اس دنیا کو وداع کرتا ہے۔ اس کی تذکیر ہو۔اس عقیدے کو مضبوط کیا جائے۔ جن کا انتقال اس وباء سے ہوا ہے اللہ تعالیٰ انہیں شہید کا درجہ عطا فرمائے اور ہم پر سے اس وبا کو جلد از جلد ٹال دے۔