’’نفرت کے ایجنڈے کے خلاف میری جد وجہد جاری رہے گی‘‘ ظفرالاسلام خان

ہفت روزہ دعوت کا خصوصی انٹرویو

کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ کے خلاف بغاوت اور دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے کا مقدمہ درج ہوگا؟
ج: میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں جہاں محض کچھ کہنے پر کوئی باز پرس نہیں ہوتی بلکہ کسی غلط اور پر تشدد عمل کی بنیاد پر ہی کوئی قانونی کارروائی حکومت کی طرف سے ہوتی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ ہمارے لب بھی آزاد نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں ہم کو اپنے حقوق کے لیے لڑائی جاری رکھنی ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک آزاد ہندوستان میں جی سکیں۔ ہر حق کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ لڑائی کے بغیر کوئی حق نہیں ملتا ہے۔
کیا آپ کو ایف آئی آر کی کاپی مل گئی ہے؟ آپ آگے کیا کرنے جا رہے ہیں؟
ج: نہیں مجھے ابھی تک سرکاری طور سے ایف آئی آر کی کاپی نہیں ملی ہے۔ جب بھی پولیس کی طرف سے مجھے بلایا جائے گا میں ان سے پورا تعاون کروں گا۔ اسی کے ساتھ اس کیس کو مضبوطی سے قانونی طور پر لڑا جائے گا۔ اس کام کے لیے ایک اچھے وکیل کا انتخاب ہو چکا ہے۔ مزید برآں جس نیوز چینل نے سب سے زیادہ گمراہ کن باتیں پھیلائی تھیں اس کے خلاف بھی قانونی نوٹس بھیجا جاچکا ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک سازش کا شکار بنے ہیں؟
ج: کویت کا ایک ٹویٹ کے ذریعے شکریہ تو محض ایک بہانہ تھا۔ دراصل ایک لابی اور ایک خاص سوچ رکھنے والے لوگ کمیشن میں میرے کام سے پریشان تھے۔ ٹویٹ سے ان کو موقع مل گیا اور گودی میڈیا نے جھوٹ کا سہارا لے کر بات کا بتنگڑ بنا دیا اور اس پروپیگنڈے کو استعمال کر کے پولیس اور حکومت میں شکایت درج کرائی گئی۔ اگر ٹویٹ نہ بھی ہوتا تو اس لابی کو کوئی نہ کوئی چیز مل ہی جاتی کیوں کہ اس لابی کو خوف تھا کہ کہیں کمیشن کی موجودہ مدت کار اگلی جولائی میں ختم ہونے کے بعد دوبارہ مجھے ہی صدر نہ بنا دیا جائے۔ اس ہنگامے سے اب یہ امکان پوری طرح سے ختم ہوگیا ہے۔
جب آپ جیسے لوگ محفوظ نہیں ہیں تو ملک کے عام مسلمانوں کا کیا ہوگا؟
ج: عام مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ لوجہاد، ماب لنچنگ، گھر واپسی، فسادات اور سماجی وتجارتی بائیکاٹ وغیرہ کی صورت میں اس کا عام مسلمان ہر روز سامنا کر رہا ہے۔ پھر بھی حکومت کے بھونپو کہتے ہیں کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔
آپ نے اپنے متنازعہ ٹویٹ کے لیے معافی بھی مانگ لی ہے مگر پھر بھی کچھ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ آپ نے آئینی منصب پر رہتے ہوئے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ آپ ان سے کیا کہنا چاہیں گے؟
ج: میں نے اپنے ٹویٹ کے لیے کوئی معافی نہیں مانگی اور نہ ہی اس ٹویٹ کو اپنے ٹویٹر ہینڈل یا فیس بک سے ہٹایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ کورونا ایمرجنسی کے دوران مجھے یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی جبکہ ساری حکومتی اور عوامی توجہ اس وبا سے لڑنے پر لگی ہوئی ہے اور اسی لیے میں نے ایسے وقت میں یہ بات کہنے پر معافی مانگی ہے، ورنہ میں اپنی اصل بات پر اب بھی قائم ہوں اور نفرت کے ایجنڈے کے خلاف میری جد وجہد پہلے ہی کی طرح جاری رہے گی۔
آپ انصاف پسند، سیکرلر طاقتوں اور ملی رہنماؤں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: آج ہمارے ملک پر ایک مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ اگر ہمیں ملک میں سیکولرزم، رول آف لا اور انسانی حقوق کی حفاظت مطلوب ہے تو اس کے لیے بولنا ہوگا، قربانی دینی ہوگی اور قربانی دینے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
***

کویت کا ایک ٹویٹ کے ذریعے شکریہ تو محض ایک بہانہ تھا۔ دراصل ایک لابی اور ایک خاص سوچ رکھنے والے لوگ کمیشن میں میرے کام سے پریشان تھے۔ ٹویٹ سے ان کو موقع مل گیا اور گودی میڈیا نے جھوٹ کا سہارا لے کر بات کا بتنگڑ بنا دیا اور اس پروپیگنڈے کو استعمال کر کے پولیس اور حکومت میں شکایت درج کرائی گئی۔ اگر ٹویٹ نہ بھی ہوتا تو اس لابی کو کوئی نہ کوئی چیز مل ہی جاتی کیوں کہ اس لابی کو خوف تھا کہ کہیں کمیشن کی موجودہ مدت کار اگلی جولائی میں ختم ہونے کے بعد دوبارہ مجھے ہی صدر نہ بنا دیا جائے۔ اس ہنگامے سے اب یہ امکان پوری طرح سے ختم ہوگیا ہے۔