نئے روزگار کے لیے ہنرمندی اور نئیٹکنالوجی پر توجہ ضروری
’مال مفت دل بے رحم‘ کی روش ملک کو معاشی بدحالی کے غار میں دھکیل دے گی
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ماقبل کورونا دنیا میں ڈیجیٹل انقلاب، معیشت میں تیزی اورموسمیاتی تبدیلی کا بڑا شور تھا۔ کورونا کے طویل دور نے اس عالمی تبدیلی کو نہ صرف تیز کردیا بلکہ دیگر تبدیلیوں کو بھی یقینی بنا دیا۔ کورونا وبا کے پہلے ہی حملہ نے عالمی معیشت کو تہہ وبالا کردیا۔ پوری دنیا میں تباہی آئی اور ہمارے یہاں بھی آئی بلکہ 2020-21میں تو ہماری معیشت میں بدترین تنزلی آئی جس سے روزگار تقریباً ختم ہوگیا۔ اب نئے روزگار کہاں سے آئیں گے؟ اب ہمیں ’’گئے روزگار بنام نئے روزگار‘‘ کے مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اس معاملے میں ہمیں تاریخ کے دو واقعات سے رہنمائی ملتی ہے جسے کنال بینک (1797)اور ریل بینک (1847)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں کنال (نہر) پر سرمایہ داروں نے خوب سرمایہ لگایا جو بلبلہ بن کر پھوٹ گیا۔ اس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ داروں کا نقصان ہوا۔ اس وقت دنیا کے بہت سارے ملکوں نے خوب سرمایہ کاری کی۔ بینکوں نے بانڈس جاری کرکے ریلوے کے لیے سرمایہ اکٹھا کیا۔ ریلوے کے لیے شیئر جاری ہوئے جس سے حمل ونقل کی خاطر دنیا کے مختلف خطوں میں ریلوے لائنیں بچھائی گئیں۔ بھارت بھی اس میں شامل تھا۔ ریلوے میں اتنا پیسہ ڈالا گیا کہ وہ بلبلہ بن کر پھوٹ گیا اس سے بہت بڑا نقصان ہوا۔ مگر مذکورہ دونوں بینکوں نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ نہروں نے زراعت میں زبردست انقلاب برپا کردیا۔ ریلوے کے حمل و نقل نے مینو فیکچرنگ صنعتوں کو آگے بڑھایا۔ آج انفارمیشن ٹکنالوجی کی دنیا میں اس کے اسلاف کو تلاش کریں تو ریلوے اور کنال جیسے بڑے ذرائع انقلاب کا پتہ چلتا ہے۔ Dole Economy کے بلبلہ کو دیکھا تو ماہرین کہنے لگے کہ یہ کنال اور ریل بینک کی طرح ہے کیونکہ ڈاٹ کام میں اتنا پیسہ لگا ہے کہ یہ بلبلہ کی طرح جلد ہی پھٹ جائے گا۔ کیونکہ دنیا نے رئیل اسٹیٹ کے بلبلہ کو پھٹتے دیکھا جس کی وجہ سے 2008 میں یوروپ کے مختلف ممالک اسپین، آئس لینڈ وغیرہ میں بڑا معاشی بحران پیدا ہو گیا۔ وہاں بھی ایسے ہی شر کے اندر خیر پیدا ہوا اور ملکوں نے کساد بازاری سے سبق لے کر معاشی ترقی کی۔ انٹرنیٹ اور ڈاٹ کام نے دنیا کے طور طریقوں کو بدل دی۔ یعنی اتنا بھاری سرمایہ لگنے کے باوجود آئی ٹی انڈسٹری اپنی سطح پر بڑھتی رہی، یہاں بلبلہ نہیں بن پایا۔ اس نئی ٹکنالوجی کا مقصد پیداوار کو بڑھانا، منافع کمانا اور لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد معیشت کی دنیا میں نئے روزگار کا آغاز ہوا۔ اس سے لوگوں کے کاروبار اور روزگار کے طریقے بدل گئے۔ ایک آسٹریلین ماہر معاشیات شمپیٹر نے اس کو تعمیری بربادی (Creative Destruction) کا نام دیا۔ ان کی یہ تھیوری معاشیات میں بہت غور سے پڑھی جاتی ہے۔ اس نے کہا کہ پرانے طریقے کی تباہی کے بعد نئے طریقوں کو لوگوں نے اپنایا جسے اختراعیت (Innovation) کہتے ہیں یعنی جاریہ طریقے میں تبدیلی لاکر اس کی افادیت اور رفتار کو بڑھانا، یہی کام آئی ٹی کا ہے۔ پہلے ہاتھ سے سامان بنتا تھا اس کی جگہ روبوٹ نے لے لی اور اب تو تھری ڈی ٹکنالوجی آگئی۔ اس اختراعیت نے روزگارکے سارے ماحول کو یکسر بدل دیا۔ ہم اس دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں وبائیں دنیا کے حالات بدل دیتی ہیں۔ سبھی وباوں کے ساتھ ایسا ہی رہا ہے یا کساد بازاری آئی تو اس نے دنیا کے کام کے طور طریقوں کو بدل دیا۔ ایسے حالات میں یکسر کایاپلٹ تبدیلی ہوتی ہے ۔ کووڈ کےبعد کیا ہونےوالا ہے اسی میں بھارت کا مستقبل پنہاں ہے۔ اس کے لیے بھارت کی تیاری کیسی ہے؟ ورلڈ اکانومک فارم (ڈبلیو ای ایف) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جسے ہماری حکومت کو غور سے پڑھنا چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ۔ ڈبلیو ای ایف نے کووڈ کے دوران 37مالک کی فہرست تیار کی ہے جس میں اس نے جائزہ لیا ہے کہ کون سے ممالک نے کووڈ کے حالات میں کتنی تیاری کی ہے اس میں سرکار کی عمومی پالیسی قانونی اور تعلیمی ڈھانچہ کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ WEF نے کہا ہے کہ عالمی معیشت سے تقریباً 47فیصد یعنی آدھی نوکریاں اتھل پتھل کی شکار ہوگئیں ۔ یہاں موجود روزگار یا تو ختم ہوجائیں گے یا اس کا طریقہ بدل جائے گا۔ آنے والے دنوں میں دنیا کی معیشت اس امر پر ٹکی ہوگی کہ نوجوانوں کی ڈیجیٹل صلاحیت کتنی ہے ۔ بھارت ابھی بھی بنیادی ہنر مندی (Basic Skill) کی بات کرتا ہے جو پیداواریت کا دور اول تھا وہ بھی درآمد شدہ تھا۔ ہمارا زیادہ زور لیبر فورس پر ہوتا ہے جبکہ ہنر مند لیبر ریسورس پر بات ہونی چاہے جس کے پاس ہمہ جہتی تکنیک کے استعمال کی صلاحیت ہوگی وہی روزگار کے حصول میں کامیاب ہوگا۔ اب ڈیجیٹل اسکل کے ساتھ ہی جاب بازارمیں لچک آئے گی ۔ اب لوگ ایک نوکری پر منحصر نہیں رہ سکیں گے کیونکہ نجی سیکٹرمیں کام نہیں ہے۔ WEF نے پایا کہ وہی صنعتیں ترقی کریں گی جن کا ڈیجیٹل اسکیل کے ساتھ قانونی ڈھانچہ بہتر ہوگا۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ روزگار کی فراہمی کے لیے ڈیجیٹل ہنر مندی، ڈیجیٹل قانون ڈھانچہ اور بہتر تعلیمی سسٹم ضروری ہے۔ اس بدلاو والے دس ٹاپ ممالک میں بھارت شامل نہیں ہے۔ اس میں امریکہ، اسرائیل، کوریا، جاپان، سنگاپور، چین، جرمنی، ڈنمارک، سوئیڈن، ہانگ کانگ اور فن لینڈ، ہیں۔ ان کے یہاں تکنیکی ترقی کے ساتھ بیداری بھی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، مصر، امارات، قطر، ملیشیا اور اسٹونیا کی نئی شمولیت ہے۔ جنہوں نے وبائی ایام میں مستقبل کی تیاری کے لیے تیزی سے کام کیا۔ روزگار کی فراہمی والے ممالک میں بھارت کا نہ ہونا اتنا ہی چونکا نے والا ہے جتنا سعودی عرب، قطر ، امارات اور ملیشیا کا ہونا چونکانے والا ہے۔ ٹکنالوجی کی طاقت ہمیشہ Patentسے مانی جاتی ہے کہ کس کے پاس کتنے پیٹنٹس ہیں اور کس نے پیٹنٹ کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس میں سے کتنے صنعتی اعتبار سے کام میں آسکتی ہیں۔ اس معاملے میں بھارت کوسوں دور ہے۔ ہم بھارت میں جتنی ترقیاں دیکھ رہے ہیں وہ سب درآمد شدہ ہیں۔ جاپان، امریکہ ، چین اور جرمنی کے علاوہ کوریا پیٹنٹ کی طاقت والے ممالک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی بڑی کمپنیاں فی الحال بھارت کو سپلائی چین کا حصہ نہیں بنانا چاہتیں۔ وہ بھارتی معیشت میں استحکام اور بدلاو کے منتظر ہیں۔ اس طرح گزشتہ ایک صدی میں ہم نے تین بحرانوں کا سامنا کیا ہے جس میں ایک بات مشترک ہے کہ جن کمپنیوں نےاپنے اندر تکنیکی تبدیلی کی وہ زیادہ کامیاب رہیں۔ لاک ڈاون کے بعد بعض چھوٹی صنعتوں نے دنیا کے روبوٹکس کا استعمال شروع کردیا، اگرچہ ان کا اچھا ڈیمانڈ بھی تھا اور گروتھ بھی۔ انہوں نے بہت اچھی ترقی کی۔ بھارت جو گلوبل مسابقت کا حصہ ہے یہاں زیادہ نوکریاں اس لحاظ سے طے ہوں گی کہ ان کے اسکولس، کالجز میں مزید ہنر مندی (Reskilling ) کی کیسی صلاحیت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں صنعتوں میں اسکولس، کالجز میں Reskilling کی صلاحیت نہیں کے برابر ہے۔ اس لیے کووڈ کے دوران ہی مزدوروں کی بڑے پیمانے پر مہاجرت پر بہت سارے صنعت کاروں نے بینکوں سے سستا قرض لے کر روبوٹ منگوایا اور کچھ محنت کشوں کو کام پر بھی لگایا۔ WEF کی رپورٹ کے مطابق چین اور کوریا کے ساتھ سعودی عرب نے اپنی بڑی آبادی کو تربیت دے کر دنیا کو چونکا دیا ۔ اس طرح مصر تنزانیہ اور بلغاریہ نے بعض ٹکنالوجی میں اس طرح تربیت حاصل کی کہ وہ امریکہ اور جاپان سے آگے نکل گئے۔ بھارت کا پیریاڈک لیبر فورس سروے جو جولائی 2019تا جون 2020کا ہے اس میں سب سے زیادہ بے روزگاری گریجویٹس میں دکھائی گئی ہے۔ اب کورونا کی دوسری لہر کے بعد جو نوکریوں پر واپس لوٹ رہے ہیں وہ غیر ہنر مند مزور اور ڈیلیوری بوائیز ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹرس میں مزدوروں کو کام مل رہا ہے مگر مڈل رینج کے لوگوں کا جاب بالکل ختم ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں بازار کے حساب سے انہوں نے اپنے آپ کو Reskill نہیں کیا ہے۔ انجینرنگ کالجز آہستہ آہستہ بند ہورہے ہیں۔ جن کے پاس ڈپلوما ہے وہ بھی در بدر بھٹک رہے ہیں ۔ پوسٹ گریجویٹس کی حالت اور بھی بدتر ہے۔ اس لیے تعلیمی پالیسی میں تبدیلی بہت ضروری ہے۔ ہنر مند لیبرفورس کے معاملے میں بھارت جی 20 ممالک کی سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔ مودی جی کے اسکل انڈیا کے نعرہ کے پروردہ افراد کو ایک ہی کووِڈ نے نگل لیا۔ہمارے اسکولس اور کالجز کا تعلیمی اور روزگار کا اسٹرکچر، گلوبل روزگار کے شفٹ سے بالکل نابلد ہے کیونکہ اسکل شفٹ کے معاملے میں ہماری کوئی تیاری نہیں ہے جبکہ ہمارے یہاں تعمیری تباہی کا دور دورہ ہے اس لیے کہ بھارت میں جو مڈل کلاس میں تھے وہ لوور مڈل کلاس میں چلے گئے جو لوور مڈل لوگ تھے وہ مفلسی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ کیونکہ کمپنیوں نے غیر ہنر مند اور کم ہنر مند لوگوں کی چُھٹی کردی ہے۔ ہمارا ملک معاشی بحران کے دور سے گزر رہا ہے مگر ہماری سنگھی حکومت نئے تعلیمی ڈھانچہ کو ویدک دور کی طرف لے جارہی ہے۔
***
***
آنے والے دنوںمیں دنیا کی معیشت اس امر پر ٹکی ہوگی کہ نوجوانوں کی ڈیجیٹل صلاحیت کتنی ہے ۔ بھارت ابھی بھی بنیادی ہنر مندی (Basic Skill) کی بات کرتا ہے جو پیداواریت کا دور اول تھا وہ بھی درآمداتی تھا۔ ہمارا زیادہ زور لیبر فورس پر ہوتا ہے جبکہ ہنر مند لیب رسورس پر بات ہونی چاہے جس کے پاس ہمہ جہتی تکنک کے استعمال کی صلاحیت ہوگی وہی روزگار کے حصول میں کامیاب ہوگا۔ اب ڈیجیٹل اسکل کے ساتھ ہی جاب بازارمیں لچک داری آئے گی ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021