نئی سیاسی صف بندی کی تیاری؟
کے سی آر مخالف بی جے پی علاقائی پارٹیوں کو متحد کرنے میں کوشاں
آسیہ تنویر ، حیدر آباد
لوک سبھا انتخابات سے قبل نیا قومی محاذ موجود ہ سیاست پر اثر انداز ہوسکے گا؟
مرکزی حکومت کا غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کے ساتھ مسلسل ناروا سلوک، بدلے کی سیاست، دھمکی آمیز رویہ، سرکاری مشینری کا غلط استعمال، فنڈز کی بروقت اجرائی سے گریز یا منتخب ریاستی حکومتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے در پے رہنا اور ایسے دیگر کئی عوامل یہ تقاضا کر رہے تھے کہ ملک میں بدلاؤ کی نئی کوشش کی جائے۔ جس کی وجہ سے پانچ ریاستوں میں جاری انتخابی عمل کے تکمیل سے پہلے ہی ملک میں غیر بی جے سیکولر علاقائی پارٹیوں کو متحد کرنے کی طرف پہل کی جا رہی ہے ۔
مرکزی حکومت کے معاندانہ رویے سے ناراض ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ نے جنوب اور مغربی ہندوستان کی علاقائی پارٹیوں کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔اس سے قبل 2018ء میں بھی انہوں نے بی جے پی اور کانگریس کے بغیر علاقائی پارٹیوں کو متحد کرنے کے عزائم کا اظہار کیا تھا لیکن مرکز میں خود انہوں نے ہی بعض مواقع پر بی جے پی کا ساتھ دیا تھا جیسے پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ کے عہدوں کے لیے بی جے پی امیدواروں کی تائید اور کئی بلوں پر ان کی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کے تائیدی ووٹ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ چندر شیکھر راؤ کے مجموعی رویے سے ایسا ظاہر ہونے لگا تھا کہ وہ کسی بھی وقت بی جے پی کی گود میں جا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن اب ملک کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر چندر شیکھر راؤ کو علاقائی پارٹیوں کی جانب سے دوبارہ مثبت رد عمل حاصل ہونے لگا۔ اس ضمن میں تلنگانہ کے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی مہاراشٹر کے ہم منصب ادھو ٹھاکرے، مراٹھا لیڈر شرد پوار سے ملاقات سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ملک میں علاقائی پارٹیوں کے اتحاد کے ذریعے ایک نئے محاذ کی تشکیل متوقع ہے۔
دورہ ممبئی سے پہلے حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران چندر شیکھر راؤ نے بی جے پی کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں اور ان کی غلط بیانیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور جارحانہ انداز میں کہا کہ وہ ملک کے عوام کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتے۔ ان کے اس دورے کے بعد جس طرح سے ملک میں نئی سیاسی صف بندی کے آثار نظر آنے لگے اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ علاقائی پارٹیاں ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، کیوں کہ ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں وزرائے اعلیٰ نے کہا،’’ہمیں اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی ضرورت ہے اور تبدیلی کا یہ عمل علاقائی پارٹیوں کے ذریعے سے ہی ممکن ہے‘‘ ۔علاقائی پارٹیوں کی ناراضگی کا اصل سبب یہ بھی ہے کہ بی جے پی حکومت غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کے ساتھ مسلسل ناروا سلوک کر رہی ہے جس میں ملک کے بجٹ میں ان ریاستوں کے حصے کی تخفیف اور بروقت فنڈز کی اجرائی سے گریز کے علاوہ پہلے سے حاصل شدہ بڑے پراجیکٹس کو بی جے پی حکومت والی ریاستوں کو منتقل کرتے ہوئے ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششیں شامل ہیں۔
مرکزی حکومت کے اس دہرے رویے کو بنیاد بنا کر تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر راؤ نے واضح کیا ہے کہ ’’اس وقت ملک میں جاری طرز حکمرانی جمہوریت کے لیے یقیناً خطرناک ہے ۔اگر آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے تو پھر ملک کی سالمیت، امن اور یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘ ۔ چندر شیکھر راؤ نے اپنے ممبئی کے دورہ میں شرد پوار سے بھی ان کے گھر جا کر ملاقات کرتے ہوئے اپنے عزائم سے آگاہ کیا۔ اس ملاقات میں کرناٹک کے معروف اداکار پرکاش راج بھی موجود تھے۔ واضح رہے کہ مشہور صحافی گوری لنکیش کے قتل کے بعد پرکاش راج وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر تنقیدی مہم میں سرگرم رہے ہیں ۔
چندر شیکھر راؤ کے اس اعلان کے بعد جہاں مغربی بنگال کی چیف منسٹر اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی اور چیف منسٹر تمل ناڈو اور صدر ڈی ایم کے اسٹالن نے سابق کی طرح اس مرتبہ واضح اشارہ تو نہیں کیا لیکن انکار بھی نہیں کیا۔ وہیں چندر شیکھر راؤ نے بی جے پی مخالف قومی قائدین سے مشاورت کے لیے نئی دہلی جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ 2018ء میں جب چندر شیکھر راؤ نے بی جے پی اور کانگریس کے بغیر تیسرے محاذ کے قیام کا اعلان کیا تھا اس وقت کانگریس قائد راہول گاندھی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن مجوزہ تیسرے نئے محاذ کے اعلان میں سابق کی طرح کانگریس کے ساتھ اتحاد سے واضح انکار نہیں کیا بلکہ اس بار وہ تمام ہم خیال بی جے پی مخالف پارٹیوں کو ایک اسٹیج پر لانے کی بات کررہے ہیں۔ تلنگانہ پردیش کانگریس کے صدر ریونت ریڈی نے الزام عائد کیا کہ چندر شیکھر راؤ، نریندر مودی کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنانے کے لیے یو پی اے میں پھوٹ ڈالنے کی سازش کر رہے ہیں ۔ریونت ریڈی نے سوال کیا کہ چندر شیکھر راؤ این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے وزرائے اعلیٰ نوین پٹنائک، نتیش کمار، جگن موہن ریڈی اور کیجریوال سے ملاقات کیوں نہیں کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر نریندر مودی کو کمزور کرنا ہے تو این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں میں پھوٹ ڈالنا چاہیے اس کے برعکس وہ یو پی اے میں شامل پارٹیوں کے قائدین سے ملاقات کر رہے ہیں اور یہ ملاقات وزیر اعظم نریندر مودی کے اشاروں پر کی گئی ہے تاکہ نریندر مودی کو تیسری مرتبہ اقتدار ملے۔
اس کے برعکس مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے کہا، ’’بی جے پی مخالف محاذ بنانے کی راؤ کی کوششیں خوش آئند ہیں، لیکن کانگریس کے بغیر ایسی کوششیں نہ تو مکمل ہوں گی اور نہ ہی کامیاب ہوں گی۔‘‘ پٹولے نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت کا طریقہ آمرانہ ہے اور آئین اور جمہوریت کو تباہ کرنے کا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مرکز پر قومی اثاثے بیچنے کا بھی الزام لگایا۔
ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کے دورہٗ ممبئی کے بعد یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ملک میں قومی پارٹیوں کے اثرات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی مقبولیت کھوتی جا رہی ہے کیونکہ عوام کی ایک کثیر تعداد نے بی جے پی پر بھروسہ کرتے ہوئے دو مرتبہ دہلی کی اقتدار پر بٹھایا تھا لیکن سات سال کی حکمرانی کے دوران بی جے پی کی قیادت میں مودی حکومت نے صرف وعدے کیے لیکن کوئی وعدہ وفا نہیں کیا ۔اس کے علاوہ بی جے پی نے اپنے دورہٗ اقتدار میں نئے قوانین کے نام پر کسانوں کا استحصال، انتخابات کے دوران نوجوانوں کے لیے پرکشش جملے بازی، نئے وعدوں کا فریب اور کئی یکطرفہ آمرانہ فیصلے کرتے ہوئے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اگر ایک طرف بی جے پی متواتر اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے تو دوسری جانب سیکولرازم کے نام پر قائم کیے جانے والے نئے محاذ کا اعلان کیا فی الواقع نیک نیتی پر مبنی اقدام ہے یا پھر یہ بھی محض سیاسی مفادات کی خاطر کیا جانے والا اتحاد ہے؟ کیوں کہ شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے ایک طویل عرصے تک این ڈی اے کے ساتھ بی جے پی حکومت میں شامل تھے۔ شرد پوار این ڈی اے میں شامل تھے۔ٹھیک اسی طرح نوین پٹنائک ایک سیکولر امیج رکھنے کے باوجود بی جے پی کی حلیف جماعتوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ممتا بنرجی، راہول گاندھی اور خود چندر شیکھر راؤ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے مضبوط دعوے دار ہیں ۔کیا مستقبل میں اس عہدے کے لیے ان کے درمیان مفاہمت ممکن ہے۔ اس کے علاوہ پہلے سے ہی این ڈی اے حکومت میں موجود پارٹیاں چندر شیکھر راؤ کا ساتھ کیوں دیں گی۔
ان حالات میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے علاقائی پارٹیوں کے اتحاد کے ذریعے تیسرے محاذ کا اعلان وقت کی ضرورت بن سکتا ہے اور اپنے اپنے مقامی عوام کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے خوش آئند بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن ہندوستان کی عوام نے ملک کی آزادی سے لے کر آج تک کسی بھی پارٹی کو اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آئین کے مطابق اپنے آپ کو سیکولر بتاکر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی علاقائی پارٹیاں بھی اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی وقت کسی بھی حکومت میں شامل ہونے کے لیے بے چین رہتی ہیں۔ اسی لیے جذباتی بنیاد پر متحد ہونے والی پارٹیاں انتخابات سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت بکھر سکتی ہیں۔ جبکہ ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنانے کا حقیقی عزم لے کر اگر کوئی نیا قومی محاذ قائم ہوتو وہ یقیناً ملک اور عوام دونوں کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔
***
آئین کے مطابق اپنے آپ کو سیکولر بتاکر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی علاقائی پارٹیاں بھی اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی وقت کسی بھی حکومت میں شامل ہونے کے لیے بے چین رہتی ہیں۔ اسی لیے جذباتی بنیاد پر متحد ہونے والی پارٹیاں انتخابات سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت بکھر سکتی ہیں۔ جبکہ ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنانے کا حقیقی عزم لے کر اگر کوئی نیا قومی محاذ قائم ہوتو وہ یقیناً ملک اور عوام دونوں کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022