میڈیا اور پورا سسٹم حکومت سے سوال کرنے سے خوفزدہ!

’’شاہین باغ نے ملک کے مستقبل کی خاطر لڑنے کا پیغام دیا۔مقابلہ ان سے ہے جو بظاہر طاقت ور لیکن ذہنی طور پر کمزور ہیں‘‘

سابق آئی اے ایس آفیسر کنن گوپی ناتھن سے ہفت روزہ دعوت کی خصوصی بات چیت

دعوت نیوزدلّی بیورو

ہم ابھی بھی ’پرجا ‘ (رعایا) بنے ہوئے ہیں،شہری نہیں۔ کیونکہ اگر شہری ہوتے تو سوال کرنے سے ڈرتے نہیں تھے۔ لیکن ہاں! کچھ نوجوان ایسے ہیں، جنہوں نے خود کو شہری سمجھا اور سوال بھی کیا جب میڈیا اور پورا سسٹم حکومت سے سوال کرنے میں ڈر رہا ہے۔ یہ بات 2012 بیاچ کے آئی اے ایس آفیسر کنن گوپناتھن نے کہی ہےجو گزشتہ سال اگست میں حکومت ہند کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں کے خلاف بطور احتجاج اپنی ملازمت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ حالانکہ ان کا استعفیٰ حکومت کے جانب سے ابھی قبول نہیں کیا گیا ہے اور گزشتہ دنوں حکومت نے ڈیوٹی پر دوبارہ رجوع ہونےکے لیے کہا گیا ہے جس پر 34 سالہ کنن گوپناتھن نے کہا کہ مَیں لوگوں کے وبائی امراض پر قابو پانے میں مدد کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن آئی اے ایس آفیسر کی حیثیت سے دوبارہ نوکری جوائن نہیں کروں گا۔ ان کے اس جواب کے بعد ان پر اپیڈیمک ایکٹ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

کنن گوپناتھن کا تعلق کیرالا کے کوٹائم علاقے سے ہے۔ 2018 کے کیرالا سیلاب کے دوران انہوں نے اپنی آئی اے ایس آفیسر کی شناخت ظاہر کیے بغیر کیرالا کے گاؤں میں رضاکارانہ طور پر کافی کام کیا۔ ان کی ان کوششوں کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ کنن گوپی ناتھن جھارکھنڈ کے میسرا ، رانچی کے برلا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی سےگریجویٹ ہیں۔ استعفیٰ دینے کے بعد گوپی ناتھن سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف چلائی گئی تحریک میں کافی سرگرم رہے۔ وہ دادر اور ناگر حویلی میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور کئی اہم عہدوں پر اپنی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔

ہفت روزہ دعوت کے لیے صحافی افروز عالم ساحل نے ان سے خاص بات چیت کی ہے جس کے کچھ حصے یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔

جس طریقے سےمسلسل شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک میں شامل لوگوں کی گرفتاری ہورہی ہے، اسے آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ اس حکومت کے خلاف، جس کے بارے میں ہم جانتے تھے کہ بہت ہی پاورفل سرکار ہے اور جو اپنی من مانی کرتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ آئین مخالف قانون لے کر آئی ہے، اتنی ہی طاقت اور ’اصول پر مبنی اقدار‘ کے ساتھ ہر جگہ نوجوان باہر نکلے اور کھل کر کہا کہ ہمارا انڈیا کا جو تصور ہے اور ملک کے جن اقدار پر ہمارا ایقان ہے وہ حکومت کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے اس لیے ہم اس حکومت کے خلاف ہیں اور جب بھی ہم کسی حکومت کے خلاف جاتے ہیں وہ اسے برداشت نہیں کرتی ہے۔ وہ ڈر جاتی ہے کہ کہیں ہماری وجہ سے ان کا اقتدار خطرے میں نہ پڑ جائے۔ ایسے میں وہ ہمارے خلاف کچھ نہ کچھ ایکشن ضرور لیتی ہے۔ یہ تمام گرفتاریاں اسی کا حصہ ہے لیکن ہم ایمرجنسی کے وقت بھی لڑ رہے تھے۔ جتنے بھی لیڈر آپ آج دیکھ رہے ہیں وہ سب اس زمانے میں بھی سڑکوں پر تھے اور حکومت سے لڑرہے تھے اور جو لڑے انہیں میسا (MISA) اور دیگر قوانین کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا لیکن وہ باہر آئے اور آج وہ ہمارے لیڈر بنے ہوئے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی صاف ہو جانی چاہیے کہ یہ نوجوان چوری، ڈکیٹی، کسی کو نقصان پہنچا کر یا پھر کوئی غلط کام کرکے جیل نہیں جارہے ہیں بلکہ یہ اپنے اقدار کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کا یہی عمل حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اسی لیے ان سے خوف کھا کر ان کی آواز دبانے کے لیے یہ گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ حق کے لیے جیل جانا فخر کی بات ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ان گرفتاریوں کے خلاف جو پروٹسٹ ہونا چاہیے تھا وہ ہم کوویڈ 19 کی وجہ سے نہیں کر پارہے ہیں۔ لیکن اس وقت ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنے کی ضرورت ہے۔

کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ زبانی ہمدردی آسان ہوتی اور جن پر گزرتی ہے وہی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ جھیلنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟

جی ہاں ،میں بالکل مانتا ہوں کہ بولنا آسان ہے، اور حق کے لیے کسی کے ساتھ کھڑا ہونا بے حد مشکل ہے۔ کوئی بھی مجھ سے پوچھ سکتا ہے کہ تم تو جیل گئے نہیں، تمہارے لیے بولنا آسان ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جیل نہیں جائیں گے۔ میرے خلاف بھی دو ایف آئی آر درج ہیں یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک میری گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

آپ کے خلاف دو ایف آئی آر کس معاملے میں درج کی گئی ہیں؟

ایک ایف آئی آر راجکوٹ میں ہے۔ میں نے بس سینیئر وکیل پرشانت بھوشن کے ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کردیا تھا۔ اس پر کسی نے میرے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ دوسری ایف آئی آر نوکری سے دوبارہ منسلک نہ ہونے کے تعلق سے ہے۔ یہ ایف آئی آر دمن پولیس اسٹیشن میں اپیڈیمک ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت درج کی گئی ہے۔ میرے اوپر تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مجھے کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران اپنی ڈیوٹی دوبارہ شروع کرنے کو کہا گیا تھا اگرچہ اس پر ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے لیکن مجھےکبھی بھی جیل جانا پڑسکتا ہے۔

یعنی آپ کو بھی ڈر ہے کہ پولیس کبھی بھی آپ کو جیل میں ڈال سکتی ہے؟

مجھے کوئی ڈر نہیں ہے۔ اگر اتنا ڈر ہوتا تو ہم ابھی تک کلکٹر ہی بنے رہتے۔ ڈر غلط کام کرنے سے ہوتا ہے۔ جب میں نے غلط کام کیا ہی نہیں تو پھر ڈر کس بات کا؟ ہم جو بھی کر رہے تھے حق کے لیے کر رہے تھے۔ اور جب آپ حق کے لیے لڑیں گے تو حکومت آپ سے ضرور گھبرائے گی۔ ہر دور میں جو لوگ حق کے لیے کھڑے رہے، وہی لوگ جیل گئے۔ اس لیے میں جیل سے کبھی ڈرتا نہیں ہوں۔ ہم جس سے لڑتے ہیں اس کی بھی تھوڑی عزت کرتے ہوئے لڑتے ہیں۔ لیکن جس طرح سے صفورا زرگر کی کردار کشی کی گئی ہے ایک سیاسی پارٹی کا پورا نیٹ ورک ایک عورت کو بدنام کرنے کے لیے جس سطح تک گر گیا اس کی توقع کبھی نہیں تھی۔ میں پہلے بھی بولتا تھا، اب بھی بولتا ہوں کہ ہمیں ان سب چیزوں کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ ہم ایسے لوگوں سے لڑ رہے ہیں جو دیکھنے میں تو بہت طاقتور ہیں لیکن ذہنی طور پر بے حد کمزور ہیں۔

عام طور پر سمجھا جارہا ہے کہ حکومت یہ کارروائی بدلے کے طور پر کررہی ہے اور مقصد یہ بھی ہے کہ جب کوویڈ 19 کا دور ختم ہوگا تو دوبارہ کوئی سر اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

میں نہیں سمجھتا کہ ہندوستانی عوام حکومت کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرنے والی عوام ہے۔ استعفیٰ دینے کے بعد شروع کے 5 تا 6 مہینوں کے درمیان میں نے ملک کی 19 ریاستوں کے 50 تا 60 ضلعوں کا سفر کیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ اس وقت بھی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بول رہے تھے جب ملک میں کوئی تحریک نہیں چل رہی تھی۔

یعنی حکومت ہند کوویڈ 19 کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے؟

بالکل! حکومت کو کوویڈ 19 اچانک ایک موقع کے طور پر ملا، جسے وہ ہم جیسے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ صرف سی اے اے مخالف تحریک کی بات نہیں ہے بلکہ ملک کے لوگوں کی پریشانی باہر نہ آئے، اسے بھی حکومت کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن میں بتا دوں کہ ریت کو ہم جتنی جلدی پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اتنی ہی جلدی ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔ حکومت سمجھ رہی ہے کہ وہ زور سے پکڑ لے گی لیکن میرے خیال میں یہ ریت ان کے ہاتھوں میں زیادہ دیر تک رہنے والی نہیں ہے۔ وہ ان کے مٹھی سے ضرور باہر نکلے گی۔

شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں جو پوری تحریک چلی ہےاس سے کیا کچھ حاصل ہوا ہے؟

اس تحریک میں سی اے اے صرف ایک پارٹ تھا، اس کے ساتھ این آر سی اور این پی آر بھی ایک مقصد تھا جس کے تعلق سے حکومت ہند بار بار اپنے اٹل موقف کا اظہار کررہی تھی کہ وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور 2024 سے پہلے اسے بہر صورت مکمل ہونا ہے۔ لیکن اب یہ اس معاملے پر اپنے قدم پیچھے کرچکی ہے اور یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اسے چھیڑے گی تو پھر سے تحریک چلے گی اور پہلے سے زیادہ بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔ چاہے یہ لوگوں کو کتنا ہی ڈرانے کی کوشش کرلیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی اصولوں کی جو لڑائی ہے اسے صرف ہار جیت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے ملک میں ہم سب کو مل کر رہنا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو باہم دشمن بناکر رہیں گے تو یہ خود کے لیے اور ملک کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ مجھے بھی لوگ پاکستانی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر پکار رہے تھے، لیکن میں کہہ رہا تھا کہ بھائی میں بھی اسی ملک کا شہری ہوں، بس میرے سوچنے کا طریقہ الگ ہے، اقدار الگ ہیں، اور میں اپنے اقدار کے لیے لڑ رہا ہوں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ملک کے دشمن ہوگئے۔

تو کیا آگے بھی شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی آپ کی تحریک چلتی رہے گی؟

کوویڈ 19 کا دور ختم ہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے کیا اقدام ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو این پی آر اور این آرسی کے بارے میں کبھی بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ سی اے اے کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اب دیکھتے ہیں کہ کیا فیصلہ آتا ہے۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ فیصلہ آنے کے بعد سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ ایمرجنسی کو بھی جوڈیشیری نے نہیں روکا بلکہ عوام نے سڑک پر لڑ کر ہی روکا تھا اور وہ ہر طرح سے قربانی دینے کے لیے تیار تھے، اس لیے آج ہمارے ملک میں جمہوریت باقی ہے۔

پورے ملک میں بنے شاہین باغوں کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

اس پوری تحریک میں شاہین باغ جو ایک الگ رنگ لے کر آیا، وہ بڑا انوکھا تھا۔ مائیں اور بہنیں بھی اپنے اقدار کے لیے میدان میں تھیں۔ میں اس تحریک کے دوران بہار کے ایک ضلع میں گیا تھا۔ وہاں اس ضلع کے ایک ہی شہر میں 12 شاہین باغ بنے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہماری دادیاں اور نانیاں خود کے لیے نہیں لڑ رہی تھیں بلکہ اپنے بچوں کے لیے لڑ رہی تھیں۔ ملک کے مستقبل کے لیے لڑ رہی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھی ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح کا ہندوستان اپنے بچوں کو سونپنا چاہتے ہیں۔ شاہین باغ نے پورے ملک کو ایک پیغام کے ساتھ ساتھ ایک طاقت بھی دی ہے کہ ملک کے مستقبل کے لیے ہمیں ضرور لڑنا چاہیے۔

دلّی کے فساد کو اس تحریک کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اس تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

وہاں جس طرح سے اشتعال انگیزی ہوئی، جس طرح سے کپل مشرا نے اشتعال انگیز تقریر کی، جس طریقے سے پتھراؤ ہوا، جس طریقے سے تشدد کی شروعات ہوئی، اسے پوری دنیا جانتی ہے۔ فساد کے ختم ہونے کے بعد میں بھی ریلیف ورک میں ہرش مندر کی ٹیم کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے شامل رہا۔ میں نے دیکھا کہ جس نے بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تھی، اسے فسادی بتا کر گرفتار کیا جا رہا تھا۔ بالکل یکطرفہ کارروائی کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ عدالت میں ایک جج صاحب کو کہنا پڑ گیا کہ یکطرفہ کارروائی کیوں کی جا رہی ہے؟ دلّی پولیس ایسا کیوں کررہی ہے؟

دلّی پولیس خود سے کچھ نہیں کررہی ہے وہ وہی کر رہی ہے جو حکومت چاہتی ہے۔ دراصل حکومت کی طرف سے یہ پیغام دیا جا چکا تھا کہ صحیح غلط کو چھوڑو اور وہی کرو جو ہم چاہتے ہیں۔ جس بات پر میں نے استعفیٰ دیا تھا وہ یہی بات تھی۔ کشمیر کے معاملے میں مجھے محسوس ہوا کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اب آپ ہی دیکھ لیجیے کہ ایک سال ہونے کو ہے لیکن اب بھی وہاں کسی نہ کسی طرح سے لاک ڈاؤن ہی چل رہا ہے۔ وہاں کی انتظامیہ کو یہ صاف پیغام دیا گیا ہے کہ حکومت جو کہے وہی کرنا ہے۔ ایسے میں انتظامیہ کے لیے آئین یا قانون کوئی معنی نہیں رکھتے۔

میرا احساس ہے کہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ملک کا کافی نقصان ہوگا کسی بھی آفیسر کے لیے آئین پر مبنی اقدار سب سے بڑی چیز ہوتی ہے۔ جب تک یہ اقدار انتظامیہ میں نہیں آئیں گے یہ صرف ایک ٹول کی طرح استعمال ہوتا رہے گا۔

آپ نے کشمیر کے معاملے میں ابھی اپنے استعفیٰ کی بات کی یہ بتائیے کہ کشمیر کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟

کشمیر سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے ملک کے اقدار کیا ہیں؟ آئین میں دیے گئے عوام کے بنیادی حقوق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے باقی حکومت کیا فیصلہ لیتی ہے وہ سب ثانوی ہے۔ جب حکومت اپنے کسی فیصلے کو مسلط کرکے یہ پیغام دیتی ہے کہ آپ کے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں اور کوئی اس پر سوال نہیں کرتا اور کوئی نہیں سوچتا کہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط تو حکومت مزید من مانی کرتی ہے۔حکومت نے نوٹ بندی کی حالانکہ دراصل یہ ان کا ایک پریوگ (تجربہ) تھا اور حکومت نے یہیں سے یہ سوچنا شروع کردیا کہ ہم کچھ بھی کریں کوئی ہمارے فیصلوں پر سوال نہیں اٹھائے گا۔ کشمیر کے معاملے میں بھی یہی ہوا حکومت نے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو دھیان میں رکھے بغیر ہی فیصلہ لے لیا،چنانچہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ غلط ہے اور اس پر مجھے بولنا چاہیے۔

میں بتا دوں کہ ہر حکومت چاہتی ہے کہ اس کو جتنا پاور ملے اس کو حاصل کر لےاور جیسے جیسے ہم خاموشی اختیار کرتے جاتے ہیں حکومت کی خواہشیں بڑھتی جاتی ہیں۔ پھر ایک دور ایسا آئے گا کہ جب وہ یہ بھی چاہنے لگے گی کہ کون سا آدمی اپنے گھر میں کتنے بجے کیا کھانا کھائے، کتنے بجے وہ بیت الخلا جائے، یہ سب کچھ وہی طے کرے گی۔ اس لیے عوام کو اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی حد میں رہے، آئین نے جو طاقت دی ہے، اس کا استعمال حدود میں رہ کر ہی کرے، اس سے آگے آنے کی کوشش نہ کرے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا یہ فیصلہ ملک کے فائدے اور کشمیر کی ترقی کے لیے ہے؟

کشمیر کے بارے میں حکومت نے بہت کچھ کہا ہے جیسے یہ کہ وہ کشمیر کو ’انٹیگریٹ‘ کریں گے۔ لیکن میں بتادوں کہ کشمیریوں کو الگ کرکے، دور کرکے اور انہیں دشمن بناکر آپ کشمیر کو انٹیگریٹ نہیں کرسکتے۔ حکومت نے کہا کہ ڈیولپمنٹ کریں گے، لیکن جب تک وہاں کی عوام یہ محسوس کرتی رہے گی کہ آپ ان کے ساتھ نہیں ہیں، آپ وہاں کسی بھی طرح کا ڈیولپمنٹ نہیں لا سکتے اور نہ ہی آپ وہاں انتہا پسندی کو کم کر سکتے ہیں۔

ملک کے لوگوں کو سوچنا ہوگا کہ جو باتیں ہماری حکومت نے کشمیر کے معاملے میں کہی تھیں، کیا وہ وہاں ہوپائیں۔ اگر نہیں تو جو غلط ہے اسے آپ کو غلط کہنا ہی ہوگا۔ وہاں کے کئی لوگ مجھے اپنی پریشانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ حکومت ابھی تک وہاں انٹرنیٹ سروس بھی نہیں دے پائی ہے، بلکہ جو ان کی بنیادی ضرورتیں ہیں، حکومت ان کو بھی پورا نہیں کر پارہی ہے۔

آپ ملک کی سیاست کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آنے والے وقت میں کنن صاحب ایک سیاستداں کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے؟

میں پہلے سے ہی سیاست میں ہوں۔ میں نے جتنی بھی باتیں آپ سے کہی ہیں، وہ سب میرے لیے سیاست ہے۔ لیکن میں چناؤ لڑوں گا یا نہیں یہ ایک سوال ہے۔ اور اس سوال کا جواب فی الحال مجھے بھی نہیں معلوم۔

ویسے میرا خیال ہے کہ جس کو بھی اچھی سیاست کی سمجھ ہے اس کو چناؤ لڑنا چاہیے حالانکہ میں نے اس بارے میں ابھی تک نہیں سوچا ہے۔ ابھی میں چیزوں کو سمجھ رہا ہوں۔

جہاں تک ملک کی سیاست کی بات ہے تو ہم ابھی تفرقہ انگیز سیاست کررہے ہیں۔ ساتھ مل کر چلنے والا کوئی نہیں ہے۔ سب ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں۔ اور یہ لڑائی اس سطح تک لے جائی جاتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں جب کہ ہم سب ایک ہی گھر میں رہ رہے دو بھائی ہیں۔ ہماری رائیں الگ ہو سکتی ہیں لیکن اگر ہم ایک دوسرے کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگیں گے تو ہم دونوں کا اور گھر کا ہی نقصان ہوگا۔ یہ اقدار کی لڑائی ہے اور اقدار کی لڑائی اقدار پر مبنی سیاست سے ہی لڑنی ہوگی۔ اس کے جو نتائج ہیں، اس کو بھی جھیلنا ہوگا۔ اور اسی سوال کو لے کر سیاست کے میدان میں جانے کی ضرورت ہے۔

ملک میں جس طرح کے سیاسی حالات ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ جیسا نوجوان یا جو اچھے لوگ ہیں وہ کچھ کر بھی پائیں گے؟ چناؤ جیت بھی پائیں گے؟

اگر میں ان کے مقابلے میں ٹھہر پاتا ہوں تو یہ میری صلاحیت ہے اور نہیں ٹھہر پاتا ہوں تو یہ میری ناکامی ہوگی۔ پالیٹیکل سسٹم ہو یا یو پی ایس سی یا کچھ بھی ہو، آپ کو ہر وقت لائق بنے رہنا ہوگا۔ اگر آپ competent نہیں ہیں تو آپ فیل ہوں گے۔ میں اس کو سسٹم کی ناکامی نہیں بلکہ خود کی ناکامی سمجھوں گا۔ ہمیں کچھ بدلنا ہے تو پہلے عوام کو یہ سمجھانا ہوگا کہ ہمیں بدلنا کیا ہے؟ لوگوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ اور ضروری نہیں ہے کہ عوام آپ کی ہر بات سے متفق ہوں۔ ہزاروں چیزوں پر ہماری رائے الگ ہو سکتی ہے۔ پھر بھی ایک دوسرے پر بھروسے کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک لوگوں میں یہ اعتماد نہیں پیدا ہو سکا کہ اس کی رائے الگ ہوسکتی ہے، وہ تھوڑا الگ سوچتا ہے، لیکن وہ ہمارا بھلا ہی سوچتا ہے، وہ غلط نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ بھروسہ میں نہیں بنا پایا تو ظاہر ہے کہ ناکامی ہی ہاتھ لگے گی۔ ابھی یہ کام ایک آدمی کر رہا ہے وہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی ایک بھی بات سے میں متفق ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پورے ملک میں ایک یہی آدمی ہے جو لوگوں کو اپنا قائل بنا رہا ہے۔ یہ کام ابھی فی الحال کوئی لیڈر نہیں کر پا رہا ہے۔

ملک کی میڈیا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

میں دو جگہوں پر کلکٹر رہا ہوں۔ ایک جگہ تو میں نے یہی محسوس کیا کہ جو رول شادیوں میں ایک فوٹوگرافر کا ہوتا ہے، وہی وہاں میڈیا کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار کے ایک صحافی سےخود میں نے پوچھا تھا کہ آپ سسٹم کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھتے، ایسا کیوں؟ تو اس نے کہا کہ پھر آپ اشتہار روک دیں گے۔ تب میں نے کہا تھا کہ ایک مہینے کے اشتہار کے پیسے میں اپنی تنخواہ سے دے دیتا ہوں۔ کم از کم ایک مہینے آزاد ہوکر آپ کو جو صحیح محسوس ہوتا ہے وہ لکھیے۔ میڈیا کا ایک ہی دھرم ہے کہ جو اقتدار یا پاور میں ہے اس سے سوال پوچھنا۔ جب یہ کام میڈیا یا جرنلسٹ نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ وہ صرف ایک ماؤتھ پیس بن جاتے ہیں۔ میڈیا کی یہ حالت صرف اپنے ہی ملک میں نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں میڈیا کی حالت بہت خراب ہے۔ کیونکہ ان کا جو ریوینو ماڈل ہے وہ سبسکرپشن پر مبنی نہیں ہے بلکہ اشتہار پر مبنی ہے۔ ایسے میں جو اشتہار دے رہا ہے، وہ میڈیا اسی کے بھروسے پر چل رہا ہے وہ جو چاہے گا وہ چھپے گا یا دکھایا جائے گا، اور وہ جو نہیں چاہے گا، اسے کسی بھی حالت میں چھاپا یا دکھایا نہیں جائے گا۔ اس بزنس ماڈل پر ایک آزاد میڈیا کو چلا پانا کافی مشکل ہے۔

ملک کا مستقبل آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

ملک کے نوجوانوں کے ساتھ کام کرکے مجھے کافی اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ کئی جگہوں پر میں نے دیکھا کہ ۱۲ویں جماعت کے بچے گھروں سے باہر آکر غلط کو غلط بتا رہے ہیں۔ حکومت کے کاموں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یادرہے کہ ہمارا ملک ہزاروں سالوں سے ہے۔ یہاں کے لوگوں نے کئی مشکل دور بھی دیکھے ہیں۔ اچھا وقت بھی دیکھا ہے۔ صرف چھ سالوں کے دور کو دیکھ کر کہنا کہ ملک کا مستقبل صحیح نہیں ہے، غلط ہوگا۔ لیکن اگر حکومت یہ سب کچھ کرتی اور ہم سڑکوں پر نہ آتے، تو میں ضرور کہتا کہ ملک کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔ لیکن عوام نے خاص طور پر عورتوں اور نوجوانوں نے کھڑے ہو کر برملا کہا ہے کہ ہم یہ سب کچھ ہونے نہیں دیں گے۔ جب ملک کا نوجوان کھڑا ہورہا ہے، جیلوں میں جانے سے نہیں گھبرا رہا ہے تو ایسے ملک کا مستقبل اچھا ہی ہوگا۔ حکومت چاہتی ہے کہ کوئی بھی ان کے حکم یا سرکاری فرمان کے خلاف نہ جائے، وہ جیسا کہے سب ویسا ہی کریں۔ دراصل حکومت کو ان کی خود کی ناکامی کی وجہ سے لوگوں کو جو پریشانیاں ہورہی ہیں، ان کو عوام کی پریشانیوں سے کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ لوگوں کی پریشانیاں باہر نہ آنے پائیں کیونکہ ان کے آنے سے حکومت کی امیج خراب ہوگی۔

ہندوستان کی تاریخ میں ایسے کئی دور آئے کہ جب لوگوں کو محسوس ہوا کہ آگے کچھ نہیں ہونے والا ہے لیکن اس دور میں بھی لوگ نڈر ہوکر لڑے، جیل بھی گئے اور اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ دراصل ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ پوری تاریخ کو محض پانچ چھ سال کی نظر سے دیکھتے ہیں، جبکہ تاریخ دہائیوں میں لکھی جاتی ہے۔ موجودہ دور کو بھی اگلے دس پندرہ سالوں کے ٹائم فریم میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ابھی بھی ’پرجا‘ (رعایا) بنے ہوئے ہیں، شہری نہیں۔ کیونکہ اگر شہری ہوتے تو سوال کرنے سے ڈرتے نہیں تھے۔ لیکن ہاں! کچھ نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے خود کو شہری سمجھا اور اس دور میں بھی سوال کیا جب میڈیا اور پورا سسٹم حکومت سے سوال کرنے سے ڈر رہا ہے۔ جب تک ملک میں ایسے نڈر نوجوان اور بہادر خواتین موجود ہیں جو گھروں سے نکل کر پوری رات سڑکوں پر گزار کر سوال پوچھ سکتی ہیں تب تک اس ملک کا مستقبل کافی روشن ہے۔