ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
’’ سدا بہار شمال مشرق‘‘ میں خزاں کے بادل
شمال مشرقی ہندوستان میں جملہ سات ریاستیں ہیں ۔ ان میں تین بنگلادیش کی سرحد پر ہیں اور تین میانمار سے متصل ہیں ۔ میزورم کی سرحد دونوں کے ساتھ ہے اور ارونا چل پردیش میانمار کے علاوہ چین سے اپنی سرحد شیئر کرتا ہے۔ ابتداء میں یہ علاقہ کافی متنازع اور پرتشدد تھا۔ کانگریس نے دھیرے دھیرے اسے قابو میں کیا لیکن بی جے پی اسے سنبھال نہیں پارہی ہے ۔ فی الحال گھڑی کا کانٹا الٹا گھومنے لگا ہے اور برسوں کے کیے کرائے پر پانی پھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ سب کیوں ہوا ؟ اس کا پس منظر جاننے کے لیے تریپورہ کے سابق گورنر کا ایک ٹویٹ دیکھ لیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعدبیس مئی 2015 کو تریپورہ کے گورنر کی حیثیت سے تتھاگت رائے کی تاجپوشی کی تھی ۔ انہوں نے اٹھارہ جون 2017 کو ایک ٹویٹ کر کے ہنگامہ مچا دیا۔ اس ٹویٹ میں بھارتی جن سنگھ (اب بھارتیہ جنتا پارٹی) کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کے بارے میں لکھاتھا کہ وہ ہندو مسلم تنازعہ حل کرنے کے لیے خانہ جنگی چاہتے تھے۔ میزورم اور آسام کے درمیان جاری خانہ جنگی کی وجہ اس ٹویٹ کے بین السطور پوشیدہ ہےجہاں مسائل کے حل کی خاطر خانہ جنگی تجویز کی جاتی ہے۔ حالانکہ ساحر لدھیانوی نے جو کچھ جنگ کے بارے میں کہا ہے وہ خانہ جنگی پر بھی صادق آتا ہے؎
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی ،بھوک اور احتیاج کل دے گی
تتھاگت رائے کے اس احمقانہ ٹویٹ پر جب شور مچا تو انہوں نے اپنی مدافعت میں کہا ہے کہ 1946 کے اندر شیاما پرساد مکھرجی نےاپنی ڈائری میں یہ بات لکھی تھی۔ خانہ جنگی بھڑکانے کے الزام کی صفائی میں وہ بولے کہ ستر سال پرانی ڈائری میں خانہ جنگی کا ذکر بھارت کی تقسیم سے پہلے کا ہے اور وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہو گئی کیونکہ اس کے سات ماہ بعد جناح نے خانہ جنگی چھیڑ کر پاکستان حاصل کرلیا۔ ڈاکٹر مکھرجی نے اس کا اندازہ لگالیا تھا۔ اس وکالت میں حماقت کی یہ انتہا ہے کہ جوحل شیاما پرساد مکرجی نے تجویز کیا اس پر عملدرآمد قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا اور ہندو مسلم تنازعہ پھر بھی حل نہیں ہوا۔ تتھاگت رائے کو یہ ٹویٹ لے ڈوبا اور پچیس اگست 2018 کو انہیں ہٹا دیا گیا ۔ اس کے بعد سے ہر سال تریپورہ کا گورنر بدل دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اپنے جس بزرگ کو وہاں موج کرنے کی خاطر روانہ کرتی ہے اور وہ بیچارہ تنگ آکر خود ہی وہاں سے بھاگ آتاہے ۔ گورنروں کی بے سروپا تقرری کی مانند بی جے پی نے آسام میں ہیمنت بسوا سرما نامی احمق کو وزیر اعلیٰ بنادیا ہے ۔ اس کی بچکانہ حرکتوں سے آسام اور میزورم کے عوام پریشان ہیں۔
شمال مشرقی ریاستوں کے لیے بی جے پی نے این ڈی اے سے ہٹ کر این ای ڈی اے بنائی اور ایک ایک کرکے ساری ریاستی حکومتوں میں سرائیت کرکے آسام میں اپنی سرکار بنالی ۔ ہیمنت بسوا سرما کے گرو گنٹال وزیر داخلہ امیت شاہ کی بابت چوبیس جولائی 2021 کو یہ خبر آئی کہ وہ میگھالیہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ امیام میں کثیرالمقصدی اجتماع گاہ اور نمائش میدان کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ مشرقی کھاسی پہاڑیوں کےعلاقےمیں ماوینگ کے اندر بین الریاستی بس ٹرمنل کا افتتاح کریں گےاور اُمسوالی کےمقام پر آکسیجن پلانٹ اور بچوں کے وارڈ کا افتتاح بھی کریں گے۔ اس ڈرامہ بازی کے بعد شام کو امیت شاہ شیلانگ کے اسٹیٹ کنونشن سنٹر میں شمال مشرقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ‘ چیف سکریٹریوں اور پولیس کے اعلیٰ افسروں کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ میٹنگ تو ہوئی مگر اس میں کیا ہوا یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد میزورم اور آسام کے درمیان جو خانہ جنگی چھڑ گئی اس سے ساری دنیا حیرت زدہ ہے۔ وزیر داخلہ نے ایسا کون سا منتر پڑھ کر پھونک دیا جو امن و امان ہی غارت ہوگیا؟
مذکورہ دورے کے دوسرے دن وزیر داخلہ نے ضلع چیراپونجی کے سوہرا گاوں میں’گرین سوہرا جنگل کاری مہم‘ کا آغاز کیا۔ تعجب کی بات یہ کہ آسام رائفلس کو شجر کاری کے کام میں لگا دیا گیا ۔ جس دستے کا کام امن و سلامتی قائم رکھنا ہے اس کو اگر دیگر سرگرمیوں میں الجھا دیا جائے تو دنگے فساد کو کون کنٹرول کرے گا ؟شجر کاری کے بعد شاہ جی نے گریٹر سوہرا واٹر سپلائی اسکیم کا افتتاح بھی کیا اور اپنے استاد مودی جی کی مانند طول طویل تقریر کرکے بہت سارے خواب دکھائے مثلاً دس لاکھ درخت اور دس کروڑ پودے وغیرہ وغیرہ ۔ آخر میں وزیر داخلہ نے ’’سدا بہار شمال مشرق‘‘ کا نعرہ دیا۔ وزیر داخلہ کی دہلی واپسی کے فوراً بعد’ سدا بہار شمال مشرق ‘ میں خزاں کے بادل منڈلانے لگے۔
وزیر داخلہ کے بہاروں کے خواب اور ان کی خزاں رسیدہ تعبیر پر احمد فراز کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
مشرق ہند سے آنے والی تازہ خبر یہ ہے کہ آسام کی حکومت نے ریاست کے لوگوں کو میزورم جانے سے روک دیا ہے۔ اس کی وجہ سرحدی علاقے کی پُرتشدد جھڑپیں بتائی گئی ہیں ۔ اس تصادم کے چارروزبعد ‘ذاتی تحفظ کے لیے خطرہ’ کاحوالہ دے کر کسی بھی طرح کا خطرہ مول نہیں لینے کی خاطر یہ مشورہ دیا گیا ہے ۔ ان سرکاری ہدایات میں مجبوراً میزورم کے اندر رہنے والے آسامی لوگوں کو انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے ۔ اس کا سبب ضلع کچھار میں پولیس اہلکاروں اورشہریوں پر اندھادھند گولی باری اور کچھ سول سوسائٹی ، طلباء اور نوجوانوں کی تنظیموں کی جانب سے آسام اور اس کے لوگوں کے خلاف اشتعال انگیزی بتایا جارہا ہے۔ دن رات مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کرنے والے وزیر اعلیٰ کا اونٹ اب پہاڑ کے نیچے آچکا ہے اور مشیت اس کو اپنے کیے کی سزا دےرہی ہے۔
آسام پولیس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ میزورم کے کئی شہری آٹومیٹک بندوقوں اوربھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ لوگ اگر اسلحہ لے کر گھوم رہے ہیں تو ملک کا تیس مار خان وزیر داخلہ کیا کررہا ہے اور چھپن انچ کی چھاتی کہاں غائب ہو گئی ہے؟ آسام اور میزورم کے درمیان سرحدی تنازع میں ہونےوالے پولیس اہلکاروں کی موت کے پیش نظر آسام نےتین دنوں کیلیے سرکاری سوگ کااعلان کیا ہے۔ اس درمیان وہاں پرساری سرکاری تقریبات اور جشن منسوخ کردیے گئے۔ ایک سال قبل جب چین نےگلوان میں دراندازی کی تھی تو اس وقت ملک کے بیس فوجی جانوں سےگئے تھے مگر نہ تو ملک میں سوگ منایا گیا اور نہ ہی ہندوستان اور چین کے درمیان آمدو رفت کا سلسلہ بند ہوا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ فی الحال آسام و میزورم کی سرحد پر حالات ہند چین بارڈر سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم کی مانند آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اعلان کیا کہ ہماری زمین کا ایک انچ بھی کوئی نہیں لے سکتا۔ وہ بولے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ آسام کی زمین پر بزور طاقت قبضہ کرلے گا تو وہ اس کی خام خیالی ہے۔
وزیر اعلیٰ آسام کے بلند بانگ دعووں سے قطع نظر ان کی بزدلی کا پتہ اس پیشکش سے چل گیا کہ اگر کل پارلیمنٹ کسی قانون کے ذریعہ براک وادی کو میزورم کے حوالے کردے تواس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، وہ کسی کو بھی آسام کی ایک انچ زمین پرقبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔اس طرح گویا ہیمنت بسوا نے مرکز کو اشارہ کردیا کہ وہ قانون بناکر براک کی وادی میزورم کوعطا کردے تاکہ ان کی جان چھوٹ جائے۔ آسام میں بی جے پی کی حکومت ہے، جبکہ میزورم میں بی جے پی کی زیرقیادت شمال مشرقی ڈیموکریٹک الائنس (نیڈا)میں شامل میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) کی حکومت ہے۔ ایسے میں وزیر داخلہ آخر کیا کررہے ہیں ؟ وہ میدان میں اتر کر مسئلہ کا حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ایوان پارلیمان میں تو بڑی شان سے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے لیے جان دے دیں گے اور اب بیان تک نہیں دیتے ۔ ہندوستان کی تاریخ نے ایسا بزدل وزیر داخلہ کبھی نہیں دیکھا کہ جو انتخابی مہم میں تو دوڑ دوڑ کرجاتا ہے مگر جب حالات بگڑجائیں تو گھرمیں دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔
اس صورتحال میں آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین کے صدراسدالدین اویسی کا یہ سوال بجا ہے کہ :’’ اچانک میزورم آسام سرحد پر تشدد اتنا بڑھ گیا کہ آسام پولیس کے چھ اہلکار شہید اور بہت سے لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ چوبیس اور پچیس جولائی کی بات ہے کہ جب وزیرداخلہ نے شمال مشرقی علاقے کا دورہ کیا تھا۔ وہاں انہوں نےمودی سرکار کی تعریف کے پل باندھ دیے تھے۔ امیت شاہ کے دورے کے فوراً بعد اتنا بڑا واقعہ کیسے رونما ہوگیا؟اس موقع راہل گاندھی نے لکھا کہ:’’ وزیر داخلہ نے عوام کے دلوں میں نفرت اور عدم اعتماد کا بیج بو کر ملک کو پھر ایک بار مایوس کر دیا ہے۔ اب اس کے بھیانک نتائج کا ہندوستان سامنا کر رہا ہے ‘‘۔لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر ترون گوگوئی نے آسام،میزورم سرحدی تنازعہ کے معاملہ میں التوا کا نوٹس پیش کر کے بحث کرانے اور معاملہ کی تفتیش کا مطالبہ کیا۔ترون گوگوئی نےسوال کیا کہ ، ’’کچھ میڈیا رپورٹوں کے مطابق (آسام،میزورم سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے دوران) لائٹ مشین گن کا استعمال کیا گیا ۔ ہم اپنے ملک کے اندر موجود ہیں یا سرحد پر ہیں؟ ‘‘
دشمن ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپوں کی خبریں تو عام ہیں لیکن اندرون ملک صوبوں کے بیچ خونریز سرحدی تصادم شاذونادر ہوتے ہیں۔ اس تنازع کا سب سے شرمناک پہلو آسامی وزیر اعلیٰ کے ٹویٹ سے منسلک ویڈیو میں سامنے آیا جس میں آسام پولیس کے چھ جوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد میزورم کی پولیس جشن منا تی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ ایسا تو چینیوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ اوپر سے میزورم کے وزیر اعلیٰ زورم تھانگا نے ٹکراؤ کی ذمہ داری آسام پولس کے سرمنڈھ دی ہے۔ ان کے مطابق تصادم اس وقت شروع ہوا جب کچھار ضلع کے ویرنگتے آٹو رکشا اسٹینڈ کے نزدیک واقع سی آر پی ایف پوسٹ میں آسام کے دو سوسے زیادہ پولیس اہلکار پہنچ گئے۔ انہوں نے میزورم پولیس اور مقامی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایااور مقامی مجمع پر لاٹھی چارج کرنے کے بعد آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔ اعلیٰ پولیس اہلکاروں نے آسام پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کے جواب میں دستی بم پھینکے گئے اور فائرنگ کی گئی ۔اس کے بعد مجبوراً میزورم پولیس نے فائرنگ کی۔
آسامی وزیر اعلیٰ کے مطابق تنازع کا سبب میزورم حکومت کی جانب سے آسام کے علاقے لیلیٰ پور میں سڑک تعمیر کرنا تھا ۔ اس کو روکنے کی خاطر آسام پولیس کے انسپکٹر جنرل، ڈی آئی جی اور ایس پی جیسے اعلیٰ اہلکار وہاں گئے تو مقامی لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔بات چیت کے دوران جب کشیدگی بڑھی تو میزورم پولیس نے گولی چلا دی جس میں آسام پولیس کے کم از کم چھ اہلکار ہلاک اور ضلع کچھار کے ڈی ایس پی سمیت پچاس سے زیاد افراد زخمی ہوگئے۔آسام کے ساتھ میزورم کی سرحد تقریباً 165 کلو میٹر لمبی ہے جس میں میزورم کے تین اضلاع آئزول، کولا سیب اور ممیت نیز آسام کے کچھار، کریم گنج اور ہیلا کاندی ہیں۔ پچھلے سال بھی ضلع کچھار کے لیلیٰ پور گاؤں اور میزورم کے ویرنگتے علاقے میں سرحدی تنازعے کے باعث تشدد پھوٹ پڑا تھا اور آٹھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ایسا ہوتا رہا ہے مگر گولیاں پہلی بار چلائی گئی ہیں ۔
آسام اور میزورم کے مابین یہ سرحدی تنازعہ 146 سال پرانا ہے۔ سن 1875 میں انگریزوں نے آسام میں میزورم اور کچھار کے مابین سرحد کا تعین کیا تھا۔ اس سے قبل شمال مشرق میں منی پور ، تریپورہ اورگریٹر آسام نامی تین ریاستیں تھیں ۔میزورم ، میگھالیہ ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش آسام کا حصہ تھے۔ آزادی کے بعد زبان ، ثقافت اور منفرد قبائلی شناخت کی بنیاد پر میزورم ، میگھالیہ ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش کو آسام سے الگ ریاست بنایا گیا لیکن ان کے مابین سرحدی تنازعات قائم رہے۔ میزورم کا مطالبہ ہے کہ آسام کے ساتھ اس کی سرحد کا تعین 1875 والے معاہدے کے مطابق کیا جائےکیونکہ آزادی کے بعد کی حد بندی کے سبب بہت سے مزکو بولنے والے اضلاع آسام کا حصہ بنادیے گئے۔اس تنازع کے حل کی خاطر 2005 میں بھی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو باؤنڈری کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا لیکن بات آگے نہیں بڑھی ۔ دو ریاستوں کے مابین سرحدی تنازعہ حل کرنے میں اتنےسال لگتےہیں تو چین جیسے ہمسایہ کے ساتھ اس طرح کے تنازعات کا حل نکالنے میں درکار مدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
میزورم کی کل آبادی بارہ لاکھ ہے ۔ وہاں میزو قبیلےکے لوگوں کا تناسب چوہتر فیصد ہے۔آسام کی آبادی تقریبا تین کروڑ بارہ لاکھ ہے۔ ان میں بوڈو ، مسنگ ، سونووال ، کچہری اور تیوا اہوم جیسی ذاتوں کے لوگ ہیں ۔ الزام تراشیوں سے قطع نظر غیر جانبدار ذرائع کے مطابق حالیہ تنازعہ سرحد کے قریب گٹگوٹی گاؤں میں میزورم پولیس کے عارضی کیمپ لگانے سے شروع ہوا ۔آسام پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ ان کی ریاست کی زمین پر لگائے گئے ہیں، جبکہ میزورم پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ ان کا ہے ۔ تشددکے بعد میزورم کے وزیر اعلیٰ زور متھنگا نےایک ویڈیو ٹویٹ کرکے اسے وزیر داخلہ کو بھی ٹیگ کیا۔ اس کے جواب میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرمانے بھی امیت شاہ کو ٹیگ کرکے کہا کہ آسام پولیس کو میزورم پولیس ان کی سرزمین سے ہٹانا چاہتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آسام میں بی جے پی کی سرکار ہے اور میزورم کے اندر میزو نیشنل فرنٹ کی حکومت میں بی جے پی کا ایک رکن اسمبلی شامل ہے۔ اس کے باوجود وہ دونوں بچوں کی مانند لڑ رہے ہیں اور معاملہ امیت شاہ کے قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے ۔
آسام میں کچھار کے ڈپٹی ایس پی کلیان کمار داس نے میزورم کے چھ پولیس افسران کو دو اگست کی صبح گیارہ بجے دھولائی تھانے میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان پر آرمز ایکٹ کی دفعہ 25 (1-A) ، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی دفعہ تین اور دیگر کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ میزورم پولیس افسروں کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا کہ معقول اور معتبر معلومات کے مطابق آپ نے مبینہ طور پر قابل شناخت جرم کیا ہے۔ اس کے علاوہ آسام پولیس نے میزورم سے ایوان بالا کے واحد رکن وان لالوینا کو یکم اگست کےدن طلب کیا ہے تاکہ بین الریاستی سرحد پر تشدد کی “سازش” میں ان کی مبینہ شمولیت کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا سکے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آسام پولیس کی ایک ٹیم وان لالوینا کی تلاش میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئی تھی لیکن وہ وہاں نہیں ملے۔میزورم کے ریزیڈنٹ کمشنر نے آسام پولیس کی تفتیش میں شامل ہونے کے لیے وان لالوینا کو دیا جانے والا نوٹس وصول کرنے سے انکار کر دیا ، اس لیے سی آئی ڈی کی ٹیم ان کی رہائش گاہ پر نوٹس چسپاں کر کے لوٹ گئی۔
حکومتِ آسام کی ان بچکانہ حرکتوں کے ردعمل میں میزورم پولیس نے آسامی وزیر اعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ اس میں ہیمنت بسوا سرما اورانتظامیہ کےچھ اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ دو سو نامعلوم پولیس اہلکاروں کا بھی اندراج کیا گیا ہے۔ اس ایف آئی آر میں آسام کے انسپکٹر جنرل ، ڈپٹی انسپکٹر جنرل ،اور ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ساتھ ضلع کچھار کے ڈپٹی کمشنر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ میزورم کے ضلع کولاسیب میں ویرنگٹے پولیس اسٹیشن کے اندر درج کیا گیا ۔ میزورم کے پولیس انسپکٹر جنرل جان این نیہلیا نے بتایا کہ ’’ان لوگوں کے خلاف قتل کی کوشش اور مجرمانہ سازش سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘‘یہ اچھی سینہ زوری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی چھچھوری حرکتوں سے یہ مسئلہ حل ہوگا یا مزید الجھ جائے گا ؟ وزیر داخلہ دہلی اپنی ریاستی حکومت کو اس سے کیوں نہیں روکتے؟ کیا وزیر داخلہ کا کام صرف دونوں متحارب ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرنا اور سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی تعیناتی میں اضافہ کرنا ہے۔ اس ناکامی کے بعد امیت شاہ کوپھر سے پارٹی کا صدر بناکر کسی لائق رکن پارلیمان کو وزارت داخلہ کی ذمہ داری سونپنے کا وقت آگیا ہے لیکن کیا وزیر اعظم اپنے ذاتی فائدے پر قومی مفاد کو ترجیح دے کر یہ جرأتمندانہ فیصلہ کریں گے ؟ اگر نہیں تو اس طرح کے تنازعات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گااور پورا ملک افراتفری و خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
***
وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعدبیس مئی 2015 کو تریپورہ کے گورنر کی حیثیت سے تتھاگت رائے کی تاجپوشی کی تھی ۔ انہوں نے اٹھارہ جون 2017 کو ایک ٹویٹ کر کے ہنگامہ مچا دیا۔ اس ٹویٹ میں بھارتی جن سنگھ (اب بھارتیہ جنتا پارٹی) کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کے بارے میں لکھاتھا کہ وہ ہندو مسلم تنازعہ حل کرنے کے لیے خانہ جنگی چاہتے تھے۔ میزورم اور آسام کے درمیان جاری خانہ جنگی کی وجہ اس ٹویٹ کے بین السطور پوشیدہ ہےجہاں مسائل کے حل کی خاطر خانہ جنگی تجویز کی جاتی ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14 اگست 2021