میرے دیش کے یہ مزدور!

کہو کہ :ظالمانہ نظام اب اور قبول نہیں

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے؟
یہ (غلام و مزدور) تمہارے بھائی ہیں، تمہارے اپنے ہیں جو اللہ کی طرف سے تمھارے ماتحت ہیں، ایسے میں (مالک پر) واجب ہے کہ وہ جو خود کھائے انھیں کھلائے اور جو خود پہنے وہ انھیں پہنائے اور انھیں تکلیف میں نہ رکھے (حدیث نبوی)
آج کے ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟ وہ جس پر اوپر سوال کیا گیا ہے، یا وہ جس کی تعلیم پیغمبر اسلام کے اس قولِ زریں میں ملتی ہے؟ یہ وقت کا سب سے اہم سوال ہے اور اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر لکھی گئی ہے۔لاک ڈاؤن کی مار، بے روزگاری کی مار، بھوک اور پیاس کی مار، پردیس میں کسمپرسی کی مار، گھر اور وطن سے دوری کی مار اور ان سب سے بڑی مار جو اس ملک کے مہاجر مزدوروں کو کورونا لاک ڈاؤن کے دوران سہنی پڑی اور اب بھی سہنی پڑ رہی ہے وہ ہے بی جے پی حکومت کے بے رحم برتاؤ کی مار۔ مزدوروں کے دکھ کی یہ دلخراش داستان کوئی معمولی داستان نہیں ہے جسے وقت کے ساتھ بھلا دیا جائے۔ اس دوران مزدوروں کے مسئلے میں حکومت کا رویہ کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا جو ایک ذمہ دار حکومت کا اپنے غریب وپریشاں حال شہریوں کے تعلق سے ہوتا ہے۔ پہلے تو اس حکومت کی طرف نے ملک بھر میں بالکل غیر منصوبہ بند و غیر منظم طریقے سے لاک ڈاؤن کو اچانک نافذ کرکے ان غریب مزدوروں کو ہر طرف مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، اور جب ان کی مدد کی سخت ضرورت تھی تو کورونا وائرس کا خوف دلا کر انھیں بس اپنی جگہ پڑے رہنے کا حکم دیا گیا۔ نہ کوئی فوری مدد اور نہ گھر بھیجنے کا انتظام۔ کتنی دکھ بھری ہے یہ کہانی۔ جب بھکمری سے تنگ آکر ان مزدوروں نے اپنے گھر جانے کی خواہش کی تب بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہاں مختلف شہروں میں بھیڑ لگانے کے ’’جرم‘‘ میں ان پر پولیس کی لاٹھیاں ضرور برسیں۔ وہ بسوں کے انتظار میں دھوپ اور گرمی کے باوجود کئی کئی دن قطار میں کھڑے رہے حکومت کی انسانی حس تب بھی نہیں جاگی۔ انھوں نے گھر واپس جانے کے لیے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر تپتی دھوپ میں ننگی سڑکوں پر چلنا شروع کردیا، ان میں سے کئی تو راستے میں ہی بھوک پیاس سے دم توڑ گئے، کئی بیمار پڑے اور کئی راستہ بھٹک کر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ جو کسی طرح منزل پر پہنچ سکے وہ اس قیامت خیز صورت حال اور اپنی سفاک حکومت کی بے حسی کے بارے میں سوچ سوچ کر اب بھی کانپ رہے ہیں اور اس دوران اپنا بہت کچھ کھونے پر آنسو بہا رہے ہیں۔
ان مزدوروں کی حالت زار دیکھ کر سنگ دل سے سنگ دل انسان کا دل بھی پگھل گیا، ان کے آنسوؤں اور ان کے چہروں کی بے بسی نے دلوں کو چھلنی کر دیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگ کسی دوسری ہی مٹی کے بنے ہوئے ہیں جن پر اپنے شہریوں کی اس تکلیف دہ کیفیت کا اثر ذرہ برابر بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ یہ حکومت ان بے چارے مزدوروں پر کیا ترس کھاتی الٹا اس نے (بعض رپورٹوں کے مطابق) جگہ جگہ ان کا راستہ روک کر ان کے سفر کو مزید طویل اور دشوار بنا دیا۔ مزید ستم یہ کیا کہ مختلف چوراہوں اور شاہراہوں پر پولیس کو ان پر ڈنڈے برسانے کی بھی کھلی چھوٹ دے دی۔ ملک کی مختلف شاہراہوں پر پیدل چلتے ہوئے ان مزدوروں کی عورتوں اور بچوں کی دلخراش تصویریں پوری دنیا میں وائرل ہو چکی ہیں لیکن حکومت نہ تو کہیں شرمندہ نظر آئی اور نہ اس کے کارندے ہنگامی قدم اٹھا کر ان لا چار وبے بس مزدوروں کی مدد کے لیے سامنے آئے۔ راستوں میں عام لوگوں، خصوصاً مسلمانوں نے ان مزدوروں کی حتی المقدور مدد کی اور جگہ جگہ ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کیا جبکہ ہمارے بڑ بولے وزیر اعظم نے قوم سے اپنے مخصوص خطابات میں ان بد حال مزدوروں کے لیے ہمدردی کے دو بول بولنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور جب پوری دنیا میں ان کی حکومت کی فضیحت ہونے لگی تو بعد از خرابی بسیار ان کے لیے محدود پیمانے پر شرامک اسپیشل ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا، مگر یہ ٹرینیں بھی بنیادی سہولتوں سے اتنی خالی تھیں کہ اب تک دو درجن کے قریب مزدور بھوک اور پیاس سے ان ٹرینوں میں ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب ریلوے کی اس لاپروائی پر ملک بھر میں شور مچا اور سیاسی وغیر سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیا تب بھی سرمایہ داروں کی اس حکومت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا، بلکہ مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش نے بڑی بے شرمی سے ’’چند مزدوروں کی موت کو چھوٹا واقعہ‘‘قرار دیتے ہوئے الٹا حزب مخالف کی جماعتوں پر بات کا بتنگڑ بنانے کا الزام لگا دیا۔ اسے پشیمانی نہیں بلکہ بے رحمی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس بے درد و بے رحم دنیا میں زخمیوں کے زخم دھونے کی بجائے ان کے کپڑوں پر لگے ان کے لہو کے چھینٹوں کو دھونے میں جلدی کی جاتی ہے تاکہ یہ خون سو رنگ بدل کر کہیں ان سے کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ کیا مزدوروں کے ساتھ اس ظالمانہ رویے سے بڑی بے شرمی کچھ اور ہو سکتی ہے؟ یا دنیا کی کسی اور حکومت کی طرف سے اپنے غریب شہریوں اور بد حال مزدوروں کے تئیں اس سے بھی بڑی مجرمانہ لاپروائی کی کوئی دوسری مثال مل سکتی ہے؟
کہا جاتا ہے کہ آئین ہند کی بعض دفعات جیسے 39 اے، اور 41، 42، 43 اور 43 اے مزدوروں کے حقوق کے تعلق سے مجموعی طور سے’’ میگنا کارٹا‘‘ جیسی حیثیت کے حامل ہیں۔ یہ دفعات مساوی انسانی حقوق اور حکومت کے لیے رہنما اصول کے طور سے ہمارے دستور کا حصہ ہیں۔ ان ساری دفعات میں مزدوروں کا تحفظ ہی نہیں بلکہ ان کے لیے ضروری خوراک کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ اگر دفعہ 23مزدوروں کو غلام بنانے اور کسی کو زبردستی اپنا بندھوا مزدور بنانے سے روکتی ہے تو دفعہ 39کے تحت ہندوستانی دستور مزدوروں سمیت سبھی شہریوں کے لیے اشیائے خورد ونوش (Means of Livelihood) کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔ لیکن کورونا وائرس کے بحران نے یہ بتا دیا ہے کہ یہ حکومت اپنے غریب اور مزدور شہریوں کے تئیں نہ تو اپنا دستوری فریضہ ہی ادا کر پائی ہے اور نہ ہی انسانی کردار۔ کون نہیں جانتا کہ ابتدا سے ہی اس حکومت کی ترجیحات فرقہ پرستانہ امتیازات کو حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنانا اور ایسے قوانینِ شہریت کی تشکیل ونفاذ کرنا ہے جن سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے نسلی صفایے کی راہ ہموار ہو سکے؟ اس حالت میں یہ توقع رکھنا ہی فضول ہے کہ بی جے پی حکم راں اپنے موجودہ ایجنڈوں کے ہوتے ہوئے ملک کے مزدوروں اور دیگر کمزور طبقوں کے تعلق سے کبھی اپنی ذمہ داریاں اخلاص وایمانداری کے ساتھ ادا کر سکیں گے۔ موجودہ حالت کی مناسبت سے تحریر کے ساتھ جو شعری قطعہ دیا جا رہا ہے اس کا مقصد بے رحم اور بے مروت حکم رانوں کا اصلی چہرہ آپ کے سامنے لانا ہے۔ یہ قطعہ ساحر لدھیانوی کی تاریخی نظم ’’بنگال‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس نظم میں ساحر لدھیانوی نے مغربی بنگال میں 1943 میں ہوئے بھیانک قحط سے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ کسانوں کے تڑپ تڑپ کر مرنے پر احتجاج کیا ہے اور اس وقت کے انگریز حکم رانوں کی سنگدلی اور ان کے غیر انسانی برتاؤ پر برق تپاں کی طرح غیظ وغضب کے شرارے برسائے ہیں۔ انہوں نے اس سانحے کو انسانیت کے لیے شرمناک قرار دیا ہے اور غریبوں کے خون اور پسینے سے توانائی حاصل کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکی اور بے مروت بشریت کے لیے اپنے کلام کے ایک ایک لفظ کو لعنت کا تازیانہ بنا دیا ہے۔ نظم کا لہجہ سراپا احتجاج ہے اور تلخ نوائی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، اس میں انسانی ضمیر کو جھنجوڑ نے کے لیے اس پر ایسی سخت ضربیں لگائی ہیں کہ جن میں بھی آدمیت کی ہلکی سی رمق ہو وہ شرم سے پانی پانی ہو جائے ۔
اس نظم کی خاصیت یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس میں بنگال کے جان لیوا قحط کی نہیں بلکہ ۲۰۲۰ کے کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے مہاجر مزدوروں کی بد حالی کی تصویر پیش کی گئی ہو اور پلاسٹک کا دل رکھنے والی بے حس حکومت کو آئینہ دکھایا گیا ہو ۔۔ شاعر سوال کرتا ہے:
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے؟
موجودہ حالات اور حکومت کی بے حسی ونا اہلی کو سامنے رکھ کر اگر قحطِ بنگال کی تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو انسانی سماج کے بہت سے ایسے پہلو ہمارے علم میں آتے ہیں جو بکے ہوئے قلم کا افسردہ اسلوب ہم تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب انسانوں کی تقدیر پر مسلط ارباب اقتدار اپنے جیسے انسانوں کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیں تو ان کا رویہ عام انسانی معیار سے کتنا گر جاتا ہے اور اس کی وجہ سے نازک حالات میں جب بھوکی، ننگی اور لا چار وبے بس انسانیت کو مدد کی ضرورت ہو تو کس طرح اس کے وسائل پر قابض حکم راں پوری بے رحمی کے ساتھ ان سے اپنا منھ پھیر لیتے ہیں۔ بنگال کا قحط جہاں ایک طرف ہندوستانیوں کے ذہن کو پہلی بار قابض حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بنا تھا وہیں اس نے مغرب کے بہت سے زندہ انسانوں کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کے گارجین نے اس سانحہ کو ’’ہولناک اور ناقابل بیان‘‘ لکھا اور معروف مفکر ویل ڈیورانٹ نے اس خوفناک قحط کو ’’بےرحمانہ استحصال‘‘ اور ’’مرتے ہوئے لوگوں‘‘ سے’’ ٹیکسوں کی وصولی کے ظالمانہ طریقے‘‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ کورونا وائرس کے موجودہ ماحول میں حکومت کی لا پروائی کی وجہ سے ملک کے مہاجر مزدور جس ’’ہولناک‘‘ کیفیت سے دوچار ہوئے آپ اس سے بھی واقف ہیں۔ عالمی میڈیا نے ان کی حالت بیان کرنے کے لیے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے ہیں جو بنگال کے قحط کے بعد انگریز حکم رانوں کی سفاک بے حسی برتاؤ کے تعلق سے ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں۔
مورخین کے تبصروں کی طرح یہ نظم بھی ہمیں خود غرض اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل حکم رانوں کی اسی سفاک نفسیات سے آشنا کرتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں رونما ہوئے ماضی وحال کے واقعات میں چھپے گھناؤنے مناظر کی ان دیکھی نہ کی جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا کہ آج کے آزاد جمہوری ہندوستان اور برطانیہ کے زیر تسلط غلام ہندوستان میں کیا فرق ہے؟ میری نظر میں ان دونوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط سے لڑنے کے نام پر اربوں کھربوں روپیوں کا وہ عوامی چندہ ہندوستانیوں سے نہیں کیا تھا جو آج بی جے پی حکومت کے تحت وزیر اعظم فنڈ میں کورونا وائرس کے نام پر کیا گیا ہے۔
ہاں! مگر ان دونوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہے، انگریز حکم رانوں نے قحط کے دوران اگلی فصل پکنے سے پہلے ہی ریاست بنگال کا سارا غلہ اپنے زیر قبضہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں انگریز فوجیوں کی خوراک کے لیے برآمد کر دیا تھا اور مقامی باشندوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ جب کہ مودی حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ اس نازک دور میں بھی غریب مزدور طبقوں سے یکسر نظریں پھیر کر حکومت سے عدلیہ تک ہر جگہ بس اپنے پسندیدہ سرمایہ دار گھرانوں کے لیے فکرمند ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ ملک پر آج بھی وہی ظالمانہ نظام مسلط ہے جو پہلے تھا اور اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان حکم رانوں کے دل میں نہ تو انسانی درد ہے اور نہ ہی اپنے پیدا کرنے والے اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف۔ ان کے تسلط سے چھٹکارا پانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اس پورے نظام کو ہی نہ بدل دیں۔ تاہم اس نظام میں تبدیلی صرف حالات کا ماتم کرنے سے نہیں بلکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے ہی ممکن ہے۔ سیاسی وسماجی تبدیلی ہی مسئلے کا اصل حل ہے۔ جب مظلوم قومیں ظالمانہ نظام کو عادلانہ نظام سے بدلنے کے لیے اور ظالم حکم رانوں سے ظلم اور بے حسی کا حساب مانگنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں تبھی انقلاب آتا ہے۔ وقت کا یہی تقاضا ہے کہ ہم ملک کو ان بے درد حکم رانوں کے رحم وکرم پر مزید نہ چھوڑیں بلکہ اسے ایک ایسے نظام کی طرف لے چلیں جو انسانی درد اور عدل وانصاف کی روح سے پوری طرح آشنا ہو اور جس میں اس نظام جبر کو شکست دینے کی پوری صلاحیت بھی ہو۔ نظم حاضر ہے:
جہان کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظام نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
جب انسان خدا کے ملک میں خدا کا باغی ہو کر اپنی خواہشات پوری کرنے میں لگ جاتا ہے اور انسان ہو کر بھی انسانی درد سے عاری رہتا ہے تو انسانی سماج کو انھیں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا برطانوی ہند میں اہلِ بنگال کو 1943میں اور 2020میں بی جے پی حکومت کے ہندتوا ماڈل کے تحت مہاجر مزدور کو کرنا پڑا۔
اس پس منظر میں مودی کا عہدِ کورونا ہو یا انگریزوں کا عہدِ قحط، دونوں کے رکھوالوں سے انسانیت کا یہ سوال بجا ہے کہ کیا غریب مزدوروں کی عورتوں اور بچوں میں انھیں کبھی اپنے بچوں اور عورتوں کی تصویر نظر نہیں آتی؟ اگر آج گرمی کی تپتی دوپہر میں تار کول کی جلتی سڑکوں، ریل کی پٹریوں اور کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چل رہے مزدوروں کی طرح ان کے اپنے گھر کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو کیا اس وقت بھی وہ اسی طرح بے حس بنے رہتے؟ کیا ملک اور اس کے وسائل کا چوکیدار انھیں صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی دولت اپنے من پسند سرمایہ دار طبقے کی جھولی میں ڈالنے کے لیے نت نئی ترکیبیں سوچیں اور ملک کو اپنے خون سے سینچنے والے مزدوروں کو شاہراہوں پر مرنے کے لیے چھوڑ دیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کے اس رویے کا سبب کیا ہے؟
اسے ہم ذات پات پر مبنی برہمنی نظام کا پیش خیمہ سمجھیں جو انھیں بہت مرغوب ہے اور جس میں غریبوں، دلتوں اور اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے یا اسے ملک پر سرمایہ داروں کے استحصالی تسلط کا نتیجہ جو ہمیشہ مزدوروں اور غریبوں کا حق مار کر ترقی کا منصوبہ بناتے ہیں؟ جو بھی ہو انسانوں کے بیچ کوئی ایسا نظام یا ایسا طرز حکومت بہت دنوں تک باقی نہیں رہ سکتا جو انسانی درد اور انسانی زخموں پر مرہم رکھنے والے انصاف ومساوات کے احساس سے بالکل عاری ہو۔ان حالات میں وقت کا تقاضا یہی ہے کہ مزدوروں سمیت ملک کے تمام کمزور طبقے ایک ہو جائیں اور سرمایہ پرست و بے مروت حکم رانوں کو للکارتے ہوئے ان پر یہ واضح کردیں کہ: ظلم ونا انصافی کا یہ نظام انھیں اب اور قبول نہیں۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بنگال کے قحط میں بھوک سے مرنے والے ہزاروں غریب انسانوں کی ہلاکت نے انگریز تسلط کے خلاف پہلی بار بغاوت کا خاموش بگل بجا دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب آن پہنچا ہے جب ایک روز بھارت کے تمام کمزور طبقے ایک ہو کر اس بے رحم نظام سے پل پل کا حساب مانگیں گے۔ اور انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے کیونکہ ظلم سہنا ظلم پرور نظام کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے کہ ظالمانہ اقتدار ہمیشہ کمزور طبقوں کو مظلوم ومجبور بنائے رہنے سے باقی رہتا ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قسم کے ظالمانہ اقتدار کا خاتمہ بھی سماج کے مظلوموں کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے۔
لیکن اس وقت کے آنے سے پہلے اہلِ اسلام کو بحیثیت خیر امت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جو قومیں سماج کے کمزور وستم رسیدہ طبقوں کی ساتھ کھڑی ہوتی ہیں وہی خود بھی مشکل حالات میں کھڑی رہ پاتی ہیں۔ اپنے حقوق کی حفاظت وہی قومیں کر پاتی ہیں جو دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کھڑا ہونا اپنا وطیرہ بنا لیتی ہیں اور جو وقت کے دھارے کو موڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں وہی تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ اس طاقت ور سوچ کے بغیر ظالم نظام سے نجات پانا نا ممکن ہے۔ اگر ان کے پاس اس ملک کو دینے کے لیے کچھ ہے تو اسے پیش کرنے کا یہ سب سے سنہرا موقع ہے۔ ان کے پاس عدل وانصاف اور مساوات کا جو سبق ہے وہ تمام انسانوں کے لیے رحمت ہے اسے صرف وعظ ونصیحت کی مجلسوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ پورے ملک میں پہنچنا چاہیے یہاں تک کہ یہ رحمت، بالخصوص ملک کے کمزور طبقوں کو ایک امید افزا جدوجہد کی شکل میں دکھائی دینے لگے۔
***


 

اسے ہم ذات پات پر مبنی برہمنی نظام کا پیش خیمہ سمجھیں جو انھیں بہت مرغوب ہے اور جس میں غریبوں، دلتوں اور اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے یا اسے ملک پر سرمایہ داروں کے استحصالی تسلط کا نتیجہ جو ہمیشہ مزدوروں اور غریبوں کا حق مار کر ترقی کا منصوبہ بناتے ہیں؟ جو بھی ہو انسانوں کے بیچ کوئی ایسا نظام یا ایسا طرز حکومت بہت دنوں تک باقی نہیں رہ سکتا جو انسانی درد اور انسانی زخموں پر مرہم رکھنے والے انصاف ومساوات کے احساس سے بالکل عاری ہو۔ان حالات میں وقت کا تقاضا یہی ہے کہ مزدوروں سمیت ملک کے تمام کمزور طبقے ایک ہو جائیں اور سرمایہ پرست و بے مروت حکم رانوں کو للکارتے ہوئے ان پر یہ واضح کردیں کہ: ظلم ونا انصافی کا یہ نظام انھیں اب اور قبول نہیں۔