ناہید پروین
ہمارے معاشرے میں نام ونمودکی خاطر قرض لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھاجاتا۔ چاہے بعد میں اسکی وجہ سے کتنے ہی مسائل درپیش آتے رہیں۔اگر آپ اچھی خاصی رقم کمالیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے فضول خرچی میں اڑادیں۔اکثرلوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ’’پیسہ ہاتھ کا میل ہے‘‘ لیکن ہرخواہش پوری ہونے کیلئے نہیںہوتی ‘ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو دولت ہونے کے باوجود اسے فضول ضائع نہیں کرتے بلکہ بامقصد کاموں میں لگاکر خود کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیںاور دوسروں کو بھی۔ ایسے لوگوں کوہی کامیاب انسان کہاجاتا ہے۔ اگر آپ مہینے میں چندہزار روپئے کمالیتی ہیں لیکن سا تھ ساتھ ہر ماہ پانچ چھ سوٹ بنالیتی ہیں ‘ا ن سے میچنگ کرتے‘ شوزخریدلیتی ہیں یا دوستوںکے ساتھ ہر ویک اینڈپرہوٹلنگ کرتی ہیں اورہر اس چیز کو جو آپ کواچھی لگے(چاہے وہ کام کی ہویانہ ہو) خرید لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی ہیںتو پھر جان لیں کہ آپ فضول خرچ خاتون ہیں اور اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی رقم کو فضول چیزوں میں ضائع کررہی ہیں۔ بچت اچھی عادت ہے۔اگر بچت کی عادت ہوتوانسان کو بوقت ضرورت کسی دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاناپڑتا ۔رقم بچانے کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ آپ بجٹ بناکرکام کریں۔ کیونکہ یہی اچھا طریقہ ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوتاہے کہ کونسی چیزیں ضروری ہیں اور کونسی غیر ضروری ۔ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور وقت پڑنے پر یہی دریا کام آتا ہے ۔ اگرفضول خرچی کی عادت پڑجائے تو یہ بہت بڑا مسئلہ بن جاتاہے‘ خاص طورپر شادی شدہ افرادکو اپنی زندگی میں بچت کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ جن لوگوں کو فضول خرچی کی عادت ہوجائے تو وہ اپنی زندگی صحیح طورپر نہیںگزار پاتے ۔ایسے گھرانوں میں جن کے بڑوں کو فضول خرچی کی عادت ہو،کسی اتفاقی حادثے کے موقع پر شدید پریشانی سے دوچار ہونا پڑتاہے ‘اس صورت حال کا ایک نتیجہ گھر یلو زندگی کے تلخ ہوجانے کی صورت میں بھی نکلتاہے۔اگر فضول خرچی ختم کرکے میانہ روی سے زندگی گزاری جائے تو مسائل اتنے ہولناک نہیں ہوں گے۔ ہر انسان کو اپنی ماہانہ آمدنی کا تقریباً 25 فیصد حصہ ضرور بچانا چاہئے۔ مرد حضرات اگر اپنی بیگمات کے ساتھ مل کرمالی حالات پر کنٹرول رکھیں تو ایک خوشگوار اور مثالی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ فضول خرچی کے عادی افراد ‘بچت کو کنجوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگرچہ کہنے کو تو وہ یہ بات کہہ دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچت اور کنجوسی میں بہت فرق ہے۔ عموماً مشرقی خاندانوں میں گھرداری عورت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہذا ایسے میں بطور خاتون خانہ بچت کی تربیت ایک عورت کی عملی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہوتی ہے۔ گھرکا ماہانہ بجٹ سوداسلف کی خریداری ‘بلوں کی ادائیگی ‘بچوں کے اخراجات ‘ مہمانداری اور دیگر اتفاقیہ اخراجات یہ سب خاتون خانہ کو ہی دیکھنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے مستقبل کے لئے منصوبہ بندی بھی انہی کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔ اگر خاتون خانہ فضول خرچ نہیں ہیں اور کفایت شعاری سے گھر چلاتی ہیں تو پھر ایسے گھرانے اکثرکم آمدنی کے باوجود خوش وخرم زندگی گزارتے ہیں لیکن ایسے گھرانے جہاں خاتون خانہ ہی فضول خرچ ہوں تو زیادہ آمدنی کے باوجود اس گھر میں ہمیشہ اخراجات کے معاملے پرمیاں بیوی میں توتو میں میں ہوتی رہتی ہے‘جس سے نہ صرف ازدواجی زندگی تلخ ہوکر رہ جاتی ہے بلکہ بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑتاہے۔ اکثر بعض گھرانوں میں خاتون خانہ بجٹ نہیںبناتی ہیں۔ اس طرح انہیں آمدنی اور اخراجات کا پتہ نہیں چلتااورمہینے کے آخری دنوں میں ایسی خواتین کو ادھارمانگنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ گھرداری باقاعدہ علم نہیں ہے کہ جسے کسی ادارے میں داخلہ لے کر حاصل کیاجائے اور مقررہ وقت گزرنے کے بعد سند کامیابی لے کر یہ دعویٰ کیاجائے کہ ’’ لوبھئی میں تو امور خانہ داری میں طاق ہوگئی ہوں۔‘‘ گھر کو خوش اسلوبی سے چلانا ایک ماں کا ورثہ ہوتا ہے۔ جو وہ اپنی بیٹی کو منتقل کرتی ہے اور جسے ایک لڑکی اپنی شادی کے بعد آنے والی نئی نسل کو منتقل کردیتی ہے۔اگر آپ بھی چاہتی ہیں کہ گھر کو خوش اسلوبی سے چلایا جائے تو پھر ذیل کے ان رہنمااصولوں پر عمل کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سے آپ کی گھریلوزندگی پر خوشگوار اثر پڑے گا۔
رہنمااصول
سب سے پہلے آپ اپنی آمدنی کا گوشوارہ بنائیں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ آپ کی اصل ماہانہ آمدنی کتنی ہے؟اپنی آمدنی کا 25 فیصد کہیں محفوظ کر کے خود کو یہ یقین دلائیں کہ یہ رقم آئی ہی نہیں ہے اور اب پورے مہینے کے اخراجات اسی 75 فیصد حصے سے پورے کرنے ہیں۔اپنی 75 فیصد آمدنی کے تین حصے کرلیں ۔25 فیصد کھانے کے اخراجات 25 فیصد بچوں کے اسکول کی فیس ،یوٹیلٹی بلوں وغیرہ کیلئے اور25 فیصد روزمرہ کے اخراجات کیلئے رکھ چھوڑیں۔اس طرح آپ کو بجٹ کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔
بازار جانے سے پہلے تمام ضروری اشیاء کی فہرست بنالیں۔کچن کا سامان‘دالیں‘ سبزیاں ‘ پھل‘ دوائیں ، غرص کہ ہر چیز کے آگے اس کی ممکنہ قیمت لکھ لیں۔اس طرح آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ خریداری میں کتنی رقم صرف ہوگی۔
فہرست میں ان اشیاء کا اندراج کریں جواشد ضرورت کے تحت استعمال میں آتی ہوں۔ ایسی اشیاء جو کبھی کبھی استعمال ہوتی ہوں ان کو فہرست میں شامل نہ کریں۔بعض خواتین ایک ہی دکان سے تما م اشیاء خرید نے کی عادی ہوتی ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ بازار میں مختلف دکانوں پر جاکر تمام درکار چیزوں کے نرخ معلوم کریںاور جس دکان کے نرخ مناسب محسوس ہوں اسی دکان سے سامان خریدلیں ۔بچت کے لئے بہتر ہے کہ جب آپ ماہانہ خریداری کیلئے گھر سے نکلیں تو ہول سیل مارکیٹ کارخ کریں تاکہ آپ کو خریداری میں بھی کچھ بچت ہوسکے۔
زیادہ گوشت استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ یہ جیب اور صحت دونوں کے لئے بھاری ہے ۔ دالوںاور سبزیوں کو مختلف تراکیب کے استعمال سے ذائقہ دار بنائیں ۔ سبزیاں اور دالیں لحمیات کا بہترین اور ارزاں نعم البدل ہیں اور صحت کو درست رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
بچوں کے کپڑے‘خصوصاًاسکول یونیفارم خریدتے وقت معیارپر توجہ دیں اور ایسے کپڑے خرید نے سے گریز کریں جن کے رنگ کچے اور نکلنے کا خدشہ ہو۔
تقریبات میں شرکت ضرور کریں اور تحفہ بھی ضرور دیں لیکن تحفہ دیتے ہوئے اپنی مالی حیثیت کو دیکھیں‘ کسی بھی تقریب میں تحفہ دینے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ کتنی رقم خرچ کرسکتی ہیں۔نام ونمود کی خاطر اپنی فیملی کو مشکلات میں نہ ڈالیں۔
تفریح اور دیگر تقریبات کے لئے وقت نکالیں اگر آپ کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھانے کی گنجائش نہیں رکھتی ہیں تو کوئی بات نہیں ۔آپ ہفتہ پندرہ دن میں بچوں کے ساتھ کسی ایسی جگہ چلی جائیں جہاں پلے لینڈ ہو ۔گھر سے کھانابناکر وہاں ساتھ لے جائیں اور سب اہل خانہ مل کر کھائیں اور بچوں کے ساتھ ماحول کو انجوائے کریں۔ اس طرح بچت بھی برقرار رہے گی‘بچے بھی خوش ہوں گے اور آپ بھی ذہنی تھکان سے نجات حاصل کرلیں گی۔
بچائی گئی 25 فیصد رقم آپ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں استعمال کرسکتی ہیں ۔ یہ بچت آپ کو پریشانی سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ نے ان رہنمااصولوں پر عمل کیا تو پھر آپ کی گھریلوزندگی بھی مطمئن اور آسودہ ہوجائے گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 15 تا 21 مئی 2022